Athra
Senator (1k+ posts)
مجھے ایک ضروری کام سے مانسرہ جانا تھا ، کسی سٹاپ پر جب گاڑی رکی تو وہ سوار ہوئے ، ان کے چہرے پر چھایا ہوا اضطراب میری نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکا، میں نے ان سے بات شروع کی پہلے تووہ ہچکچایا مگر جب میں نے ان سے ان کی وضع قطع دیکھتے ہوئے مدرسہ و تعلیم کی بات شروع کی تو وہ کھلنے لگا، اس نے جو سٹوری مجھے سنائی میں قارئین کے سامنے رکھ دیتا ہوں ، ..........
"میرا نام سہیل احمد ہے
میں وفاق المدارس کا فاضل ہوں ، میں نے جامعہ فاروقیہ سے 2010 میں دورہ حدیث مکمل کیا تھا ، حفظ و تجویدایم اے اسلامیات اور بی ایڈ کرچکا ہوں ۔ میں نے 2011 میں سکول ٹیچرکی پوسٹ کیلئے اپلائی کیا تھا ، اور فل میرٹ پر میری تقرری ہوگئی تھی ، 20 جون 2012 کو میرا آرڈر ہوگیا اور میری پوسٹنگ ہائی سیکنڈری سکول کیوائی میں کردی گئی۔ دو مہینے دس دن بعد میری ٹرانسفر گورنمنٹ ہائی سکول شوہال بالاکوٹ ہوگئی ، یہاں پر میں نے ستمبر 2013 تک اپنی ڈیوٹی پوری ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دی ،پندرہ مہینے میں نے جاب کیا مگر عجیب بات یہ ہے کہ مجھے ایک بھی سیلری نہیں ملی ، مجھے دفاتر کے اتنے چکر لگوائے گئے کہ میری کئی جوتیاں چٹخ گئیں ،پہلے کہا آپ کی ڈگریوں کی ویریفیکیشن ابھی تک نہیں ہوئی، ویری فیکیشن ہوگئی ، میں اکائونٹ آفس گیا انہوں نے کہا آپ اپنا آرڈر ای ڈی او سے کائونٹر سائن کروا کر لائیں ، میں ای ڈی او کے پاس گیا تو اس نے کہا آپ کی یہ ڈگری قابل قبول نہیں آپ کی تجوید کی ڈگری ویریفائیڈ نہیں آپ پندرہ دن کے اندر اس کی ویریفیکشن کروائیں ، میں نے وہ کرواکر جمع کردی ،
اس دوران دوسرا ای ڈی او آگیا ، دوسرے ای ڈی او نے کہا کہ آپ کو پندرہ روز کا ٹائم ملا تھا ویریفائیڈ ڈگری جمع کروانے کا آپ نے لیٹ کردیا ، میں نے کہا میں پہلے والے ای ڈی او کے پاس اسے بروقت جمع کروا چکا ہوں، اگر اس نے آگے نہیں بڑھائی تو اس میں میرا کیا قصور، خیر یہ تو ایک بہانہ تھا ، اگر چہ میں نے ETEAٹیسٹ پاس کیا تھا جس میں نے 200 میں سے 164نمبر لئے تھے ، میرا رول نمبر 3955 تھا ، میرا نام میرٹ پر آیا تھا ، کوئی لیگل ایشیو نہیں تھا ، میرے سارے سرٹیفکیٹ اوریجنل اور آتھینٹک تھے ، میں اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ سکول بڑی اچھی جاب چھوڑ کر آیا تھا جہاں مجھے ٹیوشن وغیرہ ملا کر اسی ہزار کے قریب تنخواہ ملتی تھی ، مگر میرے رشتہ دار اور دوستوں کی خواہش تھی کہ میں سرکاری جاب کروں ، ، مجھے نہیں پتہ تھا کہ ایک ان دیکھی مصیبت میرا انتظار کررہی ہے اور میں سرکاری کھاتوں کے ایسے چکر میں پھنسنے والا ہوں جس سے نکلنے کا راستہ مجھے معلوم نہیں تھا ۔
میری اپوائنٹمنٹ لیگل تھی ، میریٹ پر تھی اور اس میں بظاہر کوئی رخنہ نہیں تھا ، مجھے اپوائنٹمنٹ لیٹر مل چکا تھا کام کی جگہ بتادی گئی تھی میں نے سروس شروع بھی کردی تھی ، میں اپنی جاب کی جگہ پر بغیر کوئی ناغہ کئے وقت پر پہنچ جاتا تھا ، میرا روزانہ دو ڈھائی سو روپیہ کرائے کے مد میں لگ جاتاتھا، مگر مہینہ پورا ہونے پر جب میں دفتر میں اپنی سیلری مانگنے جاتا تو مجھے جواب ملتا کہ پیچھے سے کوئی مسئلہ ہے ، پھر میں نے پیچھے جانے کا فیصلہ کیا کہ دیکھوں کیا مسئلہ ہے ، میں دفتر دفتر گھوما ، مگر مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا، بس یہی کہا گیا کہ پیچھے سے مسئلہ ہے ، میں اور کتنا پیچھے جاتا، میری پہنچ وزیر اعظم ، چیف آف آرمی سٹاف ، وزیر اعلیٰ تک تو تھی نہیں جہاں سے میں ایک کال کرواکر اپنا مسئلہ حل کروالیتا ، سو میں جہاں جاسکتا تھا گیا ، میں پشاور گیا ، ایجوکیشن ڈائریٹریٹ میں درخواست جمع کروائی ، مگر وہاں میری یہ درخواست دبا دی گئی ، کیونکہ جن لوگوں نے میری جاب چرا کر اپنا بندہ بٹھا دیا تھا وہ مجھے سے بہت زیادہ طاقتور اور بااثر تھے ، میں اعظم خان سواتی کے پاس گیا ، انہوں نے ایجوکیشن ڈائریکٹرکو فون کیا ، اس کا مسئلہ حل کریں ،
اس کو ہاں یا نا میں جواب دیں ، اس کو یا فارغ کریں یا بحال کریں اس کو لٹکائیں نہیں ، ڈائریکٹر ایجوکیشن نے مانسہرہ ای ڈی او کو لیٹر بھیجا ، کہ اس کو انڈر د رول بحال کریں ، مانسہرہ آفس میں مجھے ٹھیک ٹھاک ذلیل کیا گیا ، وہاں جائو، یہاں جائو کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا اور میں تھا، مجھے اپنے وجود سے نفرت ہونے لگی ، یا خدایا میں کس ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہا ہوں ، جو یہ لوگ چاہتے تھے وہ میں کر نہیں سکتا تھا ، میں بین السطور اچھی طرح سمجھ رہا تھا کہ انہیں کیا چاہیئے ، مگر میرے پاس کچھ تھا نہیں کہ میں ان کے منہ پر مار کر اس مصیبت سے نکل جاتا ، میں نے ہائی کورٹ میں کیس داخل کرایا ، انہوں نے یہ کیس سروس ٹربیونل ایبٹ آباد ریفر کردیا، ڈیڑھ سال ہوگیا ہے ، مگر فریق ثانی (مانسہرہ ایجوکیشن آفس) وہاں حاضر ہونے کو تیار نہیں ، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ جب یہ کیس چلے گا تو بہت کچھ کھلے گا ، پہلے انہوں نے 22 مارچ کی تاریخ دی جس میں یہ حاضر نہ ہوئے ، اب چھ مہینے بعد کی تاریخ دی ہے ، مگر کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ پیش ہوں گے ۔۔۔میری جمع پونجی تو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی ، میں اپنی فیملی کا واحد کمانے والا بندہ تھا، اب اتنے عرصہ سے بے روزگاری کا عذاب جھیل رہا ہوں ، کہتے ہیں امید پر دنیا قائم ہے مگر یہ امید مجھے نہ ادھر کا رہنے دے رہی ہے نہ ادھر کا ۔کاش کوئی میری فریاد احکام بالا تک پہنچائے اور مجھے انصاف دلا کر اس عذاب سے نجات دلائے "
یہ کہہ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، اور گاڑی سے اترنے لگا،
میں نے اس کا ہاتھ تھاما ،تسلی دی، اور وعدہ کیا کہ خیبر پختونخواہ میں انصافیوں کی حکومت ہوتے ہوئے آپ کے ساتھ یہ ظلم اور زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی ، ہم سوشل میڈیا پر متحرک تحریک انصاف کے کارکن آپ کی آواز پرویز خٹک تک ضرور پہنچائیں گے اور جنہوں نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے انہیں عدالت کے کٹہرے میں ضرور کھڑا کروائیں گے ۔
۔۔۔۔
جو بھی دوست مولانا حافظ سہیل احمد صاحب کی اس سلسلہ میں کوئی مدد کرسکتا ہے پلیز ضرور کریں اور اللہ کی رضا کی خاطر کریں
ان کا رابطہ نمبر
03125583763
Written by AsgharAli
"میرا نام سہیل احمد ہے
میں وفاق المدارس کا فاضل ہوں ، میں نے جامعہ فاروقیہ سے 2010 میں دورہ حدیث مکمل کیا تھا ، حفظ و تجویدایم اے اسلامیات اور بی ایڈ کرچکا ہوں ۔ میں نے 2011 میں سکول ٹیچرکی پوسٹ کیلئے اپلائی کیا تھا ، اور فل میرٹ پر میری تقرری ہوگئی تھی ، 20 جون 2012 کو میرا آرڈر ہوگیا اور میری پوسٹنگ ہائی سیکنڈری سکول کیوائی میں کردی گئی۔ دو مہینے دس دن بعد میری ٹرانسفر گورنمنٹ ہائی سکول شوہال بالاکوٹ ہوگئی ، یہاں پر میں نے ستمبر 2013 تک اپنی ڈیوٹی پوری ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دی ،پندرہ مہینے میں نے جاب کیا مگر عجیب بات یہ ہے کہ مجھے ایک بھی سیلری نہیں ملی ، مجھے دفاتر کے اتنے چکر لگوائے گئے کہ میری کئی جوتیاں چٹخ گئیں ،پہلے کہا آپ کی ڈگریوں کی ویریفیکیشن ابھی تک نہیں ہوئی، ویری فیکیشن ہوگئی ، میں اکائونٹ آفس گیا انہوں نے کہا آپ اپنا آرڈر ای ڈی او سے کائونٹر سائن کروا کر لائیں ، میں ای ڈی او کے پاس گیا تو اس نے کہا آپ کی یہ ڈگری قابل قبول نہیں آپ کی تجوید کی ڈگری ویریفائیڈ نہیں آپ پندرہ دن کے اندر اس کی ویریفیکشن کروائیں ، میں نے وہ کرواکر جمع کردی ،
اس دوران دوسرا ای ڈی او آگیا ، دوسرے ای ڈی او نے کہا کہ آپ کو پندرہ روز کا ٹائم ملا تھا ویریفائیڈ ڈگری جمع کروانے کا آپ نے لیٹ کردیا ، میں نے کہا میں پہلے والے ای ڈی او کے پاس اسے بروقت جمع کروا چکا ہوں، اگر اس نے آگے نہیں بڑھائی تو اس میں میرا کیا قصور، خیر یہ تو ایک بہانہ تھا ، اگر چہ میں نے ETEAٹیسٹ پاس کیا تھا جس میں نے 200 میں سے 164نمبر لئے تھے ، میرا رول نمبر 3955 تھا ، میرا نام میرٹ پر آیا تھا ، کوئی لیگل ایشیو نہیں تھا ، میرے سارے سرٹیفکیٹ اوریجنل اور آتھینٹک تھے ، میں اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ سکول بڑی اچھی جاب چھوڑ کر آیا تھا جہاں مجھے ٹیوشن وغیرہ ملا کر اسی ہزار کے قریب تنخواہ ملتی تھی ، مگر میرے رشتہ دار اور دوستوں کی خواہش تھی کہ میں سرکاری جاب کروں ، ، مجھے نہیں پتہ تھا کہ ایک ان دیکھی مصیبت میرا انتظار کررہی ہے اور میں سرکاری کھاتوں کے ایسے چکر میں پھنسنے والا ہوں جس سے نکلنے کا راستہ مجھے معلوم نہیں تھا ۔
میری اپوائنٹمنٹ لیگل تھی ، میریٹ پر تھی اور اس میں بظاہر کوئی رخنہ نہیں تھا ، مجھے اپوائنٹمنٹ لیٹر مل چکا تھا کام کی جگہ بتادی گئی تھی میں نے سروس شروع بھی کردی تھی ، میں اپنی جاب کی جگہ پر بغیر کوئی ناغہ کئے وقت پر پہنچ جاتا تھا ، میرا روزانہ دو ڈھائی سو روپیہ کرائے کے مد میں لگ جاتاتھا، مگر مہینہ پورا ہونے پر جب میں دفتر میں اپنی سیلری مانگنے جاتا تو مجھے جواب ملتا کہ پیچھے سے کوئی مسئلہ ہے ، پھر میں نے پیچھے جانے کا فیصلہ کیا کہ دیکھوں کیا مسئلہ ہے ، میں دفتر دفتر گھوما ، مگر مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا، بس یہی کہا گیا کہ پیچھے سے مسئلہ ہے ، میں اور کتنا پیچھے جاتا، میری پہنچ وزیر اعظم ، چیف آف آرمی سٹاف ، وزیر اعلیٰ تک تو تھی نہیں جہاں سے میں ایک کال کرواکر اپنا مسئلہ حل کروالیتا ، سو میں جہاں جاسکتا تھا گیا ، میں پشاور گیا ، ایجوکیشن ڈائریٹریٹ میں درخواست جمع کروائی ، مگر وہاں میری یہ درخواست دبا دی گئی ، کیونکہ جن لوگوں نے میری جاب چرا کر اپنا بندہ بٹھا دیا تھا وہ مجھے سے بہت زیادہ طاقتور اور بااثر تھے ، میں اعظم خان سواتی کے پاس گیا ، انہوں نے ایجوکیشن ڈائریکٹرکو فون کیا ، اس کا مسئلہ حل کریں ،
اس کو ہاں یا نا میں جواب دیں ، اس کو یا فارغ کریں یا بحال کریں اس کو لٹکائیں نہیں ، ڈائریکٹر ایجوکیشن نے مانسہرہ ای ڈی او کو لیٹر بھیجا ، کہ اس کو انڈر د رول بحال کریں ، مانسہرہ آفس میں مجھے ٹھیک ٹھاک ذلیل کیا گیا ، وہاں جائو، یہاں جائو کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا اور میں تھا، مجھے اپنے وجود سے نفرت ہونے لگی ، یا خدایا میں کس ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہا ہوں ، جو یہ لوگ چاہتے تھے وہ میں کر نہیں سکتا تھا ، میں بین السطور اچھی طرح سمجھ رہا تھا کہ انہیں کیا چاہیئے ، مگر میرے پاس کچھ تھا نہیں کہ میں ان کے منہ پر مار کر اس مصیبت سے نکل جاتا ، میں نے ہائی کورٹ میں کیس داخل کرایا ، انہوں نے یہ کیس سروس ٹربیونل ایبٹ آباد ریفر کردیا، ڈیڑھ سال ہوگیا ہے ، مگر فریق ثانی (مانسہرہ ایجوکیشن آفس) وہاں حاضر ہونے کو تیار نہیں ، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ جب یہ کیس چلے گا تو بہت کچھ کھلے گا ، پہلے انہوں نے 22 مارچ کی تاریخ دی جس میں یہ حاضر نہ ہوئے ، اب چھ مہینے بعد کی تاریخ دی ہے ، مگر کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ پیش ہوں گے ۔۔۔میری جمع پونجی تو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی ، میں اپنی فیملی کا واحد کمانے والا بندہ تھا، اب اتنے عرصہ سے بے روزگاری کا عذاب جھیل رہا ہوں ، کہتے ہیں امید پر دنیا قائم ہے مگر یہ امید مجھے نہ ادھر کا رہنے دے رہی ہے نہ ادھر کا ۔کاش کوئی میری فریاد احکام بالا تک پہنچائے اور مجھے انصاف دلا کر اس عذاب سے نجات دلائے "
یہ کہہ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، اور گاڑی سے اترنے لگا،
میں نے اس کا ہاتھ تھاما ،تسلی دی، اور وعدہ کیا کہ خیبر پختونخواہ میں انصافیوں کی حکومت ہوتے ہوئے آپ کے ساتھ یہ ظلم اور زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی ، ہم سوشل میڈیا پر متحرک تحریک انصاف کے کارکن آپ کی آواز پرویز خٹک تک ضرور پہنچائیں گے اور جنہوں نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے انہیں عدالت کے کٹہرے میں ضرور کھڑا کروائیں گے ۔
۔۔۔۔
جو بھی دوست مولانا حافظ سہیل احمد صاحب کی اس سلسلہ میں کوئی مدد کرسکتا ہے پلیز ضرور کریں اور اللہ کی رضا کی خاطر کریں
ان کا رابطہ نمبر
03125583763
Written by AsgharAli
Last edited by a moderator: