نیا قانون 2014

Angry Bird

Councller (250+ posts)
501279-KishwarNaheed-1359664626-727-640x480.jpg

نیا قانون 2014
جب سے بخشو ریڑھی بان نے سنا تھا کہ کراچی ائیرپورٹ پہ غصے سے بھرے ہوئے مسافروں نے دیر سے آنے پر دو سیاستدانوں کو جہاز سے اتار دیا ہے تو اس کا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا .اسے بھی اپنا آپ تھوڑا معزز لگنے لگا تھا .کیونکہ اس سے پہلے تو اسے انسان سمجھا ہی نہیں جاتا تھا.جب سےاسنے ہوش سنبھالی تھی وہ اپنے باپ کے ساتھ پھل کی ریڑھی سرکاتا تھا .باپ کے مر جانے کے بعد وہ اس کی وراثت کا اکلوتا وارث بن گیا تھا اور یہ وراثت فقط ایک ریڑھی تھی اور ایک نصیحت جو اس نے مرتے وقت کی تھی .
"دیکھ پتر !آسمان پہ تو ایک رب ہے نا لیکن زمین پہ کئی چھوٹے چھوٹے خدا بنے بیٹھے ہیں، چوکی والے تھانیدار صاحب، بلدیہ والے مائی باپ ،وہ شیخ صاحب جس کی دوکان کے آگے ریڑھی کھڑی کرتا ہے ،یہ سب....! ان سب کو ان کا حصہ ٹائم پہ پہنچا دیا کرنا نہیں تو اوپر والا خدا بھی تم سے ناراض ہو جائے گا" .
باپ کے جانے کے بعد
بخشو نہایت فرمانبرداری سے ان ناخداؤں کوانکاحصہ پہنچاتا رہا تھا. لیکن جب سے کچھ لیڈروں نے نیا نظام بنانےکی بات کی تھی اسکادل کرتاتھاکہ بھتہ دینے سے انکار کر دے.
"ٹھیک ہی تو کہتا ہے محنت ہماری اور اس پہ عیش کریں پولیس والے اور کمیٹی والے".
گل خان کے کھوکے پہ پہلی دفع اس نے یہ بات کی تو خوف سے اس نے آس پاس دیکھا کہ کوئی سن نہ لے .دن بدن اس کی آواز میں اس پاس کے ریڑھی والوں ،پتھارے والوں اور ان جیسے خاک نشینوں کی آوازیں ملتی گئیں.ہمّت پھر بھی کسی میں نہ پڑتی تھی کہ بھتہ دینے سے انکار کر دے .پھر ملک کے ایک شہر میں دھرنوں کا موسم لگ گیا جس کے بطن سے کراچی ایئرپورٹ کے واقعے نے جنم لیا.کراچی کے باسی جو اس ناٹک منڈی کے ڈرامے کی پچھلی نشستوں کے تماشبین تھے یک بہ یک اگلی نشستوں پہ منتقل ہو گئے.
اس رات گل خان کے کھوکے پہ پہلے سے زیادہ رش تھا .
لیڈر کہہ رہا تھا "ایئرپورٹ پورٹ والے واقعے نے ثابت کر دیا ہے کے عوام جاگ گئی ہے اب کوئی بھی وی-آی- پی آپ کا رستہ روکےتواسےآگےنہ جانے دیں.آپ عوام ہی اصل وی- آی- پی ہیں اور وہ سیاست دان آپ کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے آپ کے خادم ہیں".
نعروں اور ترانوں کے شور میں بخشو اپنے آپ کو اصل میں وی-آی-پی محسوس کرنے لگا. بخشو ابھی اپنے ذہن میں تبصرے کے لئے مناسب الفاظ چن رہا تھا کہ اس پاس سے کئی آوازیں اس کی سماعت سے ٹکرائیں. کہہ تو ٹھیک رہا ہے ہمارے ہی ووٹوں سے حرام خور وزیر مشیر بنتے ہیں اور پھر ہم پہ ہی رعب جماتے ہیں۔کوئی کہہ رہا تھا ان سالوں کو الٹا لٹکا دینا چاہیے . بھانت بھانت کی بولیوں میں بخشو نے سوچا "میرے تبصرے کی ضرورت تو نہیں رہ گئی ".
رات کو بخشو گھر آیا تو فخر سے وہ پھولے نہ سما رہا تھا .بات بات پہ مسکراہٹ اس کے چہرے پہ اپنا نشان چھوڑ جاتی تھی.اس کی بیوی جس نے اسے ہمیشہ حالات کا رونا روتے ہوئے ہی دیکھا تھا حیرت میں گم ہو گئی " خیر تو ہے آج پی کر تو نہیں آیا "
بخشو جو اپنی ترنگ میں تھا اس بات پہ بھڑک اٹھا .زور کا جھانپڑ رسید کرتے ہوئے بولا "تو نری جاہل کی جاہل ہی رہیں .تجھےکیا خبر کہ ملک کے حالات کدھر جا رہے ہیں"
اسکی بیوی جو اس طرح کی مار پیٹ کی عادی تھی مرعوب ہوئے بغیر بولی "ناں...!ملک کے حلات کو بیٹھ کے چاٹنا ہے .تو گھر کے حلات کو دیکھ! ملک کی چھوڑ...وڈا آیا سیاستدان ....
بخشو نے اس کی بات سنی ان سنی کردی .اس کے دل و دماغ پہ تو جوش و جذبے کے ٹڈی دل نے دھاوا بول دیا تھا .وہ رات اس کی خوابوں کے رنگین محل میں گزری .
اگلی صبح اسکی آنکھ بیوی کی منحوس آواز سے کھلی "وے اٹھ جا.....آج کام پہ نہیں جانا ....
بخشو آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھا ....ریڑھی پہ ساراسامان سجاکے جب وہ مقررہ جگہ پہ پہنچا تو اس کے اس پاس کے ٹھیلے والے پہلے ہی وہاں موجود تھے .کچھ ہی دیر میں لوگوں کی چہل پہل شروع ہو گئی اور وہ تمام اپنے اپنے کاروبار میں جت گئے .
دن بھر کی جھلسا دینے والی گرمی نے بخشو کو اور کسی طرف سوچنے کا موقع ہی نہ دیا .سہ پہر کے وقت سڑک پہ پولیس کی گاڑیوں کی نقل و حرکت شروع ہوئی.پہلے تو اس نے توجہ نہ دی لیکن کچھ دیر بعد ہی انہوں نے سڑک کی ایک لین بند کردی.وہ سرکتے سرکتے ساتھ والی ریڑھی کے پاس چلا گیا اور پوچھنے لگا "یار یہ کیا کر رہے ہیں ؟"
"کرنا کیا ہے وہی کوئی حرامخور گزر رہا ہو گا وزیر....ریڑھی والے نے تنک کر جواب دیا .
بخشو کے دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگیں ......ایسے کیسے اب وہ کر سکتے ہیں؟اب تو عوام جاگ گئی ہے .کیا انہیں عوام کے غیض و غضب سے ڈر نہیں لگتا؟
اتنی دیر میں پولیس نے ایک طرف سے ٹریفک روک لی تھی اور اب شاہی سواری کا انتظار تھا .بخشو نے ایک نظر گاڑیوں میں بیٹھے عوام کی طرف دیکھا .وہ بلکل پہلے جیسے بے حس بیٹھے تھے .اسے یہ بات ہضم نہ ہو سکی .کیا یہ ابھی تک سوۓ ہوئے ہیں؟
یکا یک اس کو اپنے لیڈر کی آواز سنائی دی"تم ہی اصل وی-آی-پی ہو" .
گھنٹیوں کی آوازیں اور تیز ہونے لگی.
ایک نادیدہ قوت اسے سڑک کے بیچو بیچ لے آئی.
اس نے پھیپھڑوں کا زور لگا کے چیخ ماری "یہ عوام کا رستہ ہے کھولو اسے ....!
کچھ دیر تک آس پاس کے سارے لوگ اور پولیس والے اسے حیرت سے دیکھتے رہے.پھر اچانک پولیس والے اس کی طرف لپکے .ایک نے ہاتھ میں پکڑی لاٹھی اس کے سر پہ دے ماری .بخشونیچے گر پڑا اور اس نے مدد طلب نگاہوں سے اپنے ہم پیشہ بھائیوں کی طرف دیکھا.
وہ جن کےچہروں سے رات گل خان کے ہوٹل پہ بیٹھے نفرت و بغاوت کی چنگاریاں پھوٹ رہیں تھی،وہ سب پرسکون ندی کی طرح ہمدردی سے اسے دیکھ رہے تھے.پولیس والے اب اسے گھسیٹ کے سڑک کی سائیڈ پہ لے آئے تھے.گرم گرم خون اس کے سر سے نکل کے تپتی زمین میں جذب ہو رہا تھا .اور سورج حیرت سے منٹو صاحب کے افسانے کو پون صدی بعد دہراۓ جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا بس فرق اتنا تھا کہ آقا بدل گئے تھےلیکن کہانی تو وہی تھی
http://bilalbarish.blogspot.com/2014/09/2014.html

 

thinking

Prime Minister (20k+ posts)
Oh bhai...logo ke ander mayoosi nahi...umeed jagaoo..himmat dilaoo
un ke ander jurrat barahaoo..jesay Imran ne dilaee ha.....ye kis ka
colmn tha....?lazmi koi old gisa peta intellectual ho ga jis ko pta hi nahi
ab Pakistan bohat badal chuka ha..young logo ki tadad borho se ziyda ha
wake up baba jee..Pakistan jag utha ha..