Believer12
Chief Minister (5k+ posts)

کہتے ہیں اصل اصل ہوتا ہے اور نقل نقل ہوتا ہے پر ایک بات تو ماننے سے کوی انکار نہیں کر سکتا کہ اچھی چیز کی نقل بھی اپنے اندر فوائد رکھتی ہے
ہم خلافت کا نظام قائم کرنے سے قاصر ہیں اور جمہوریت کا نظام بھی قائم نہیں کرسکتے تو کیوں نہ مغربی جمہوریت یا نظام کی نقل کرنے کی بجاۓ ہم خلافت کی نقل کرلیں
مانا کہ ہم خلافت کا نظام قائم نہیں کرسکتے پر اسکی نقل کر کے فوائد تو حاصل کرسکتے ہیں
جمہوریت کا نظام ہمارے غریب ملک کے عوام ایفورڈ نہیں کرسکتے کیونکہ اسمیں وزیراعظم اور وزرا اعلی و صدر کے اخراجات ، اراکین قومی اسمبلی کے اخراجات ، صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے اخراجات ، گورنرز پر اٹھنے والے اخراجات ، وزیروں اور انکے مشیروں اور سٹاف پر اٹھنے والے بے تحاشہ اخراجات
ان اراکین کے ہاتھوں بننے والے پراجیکٹس پر کمیشن اور ٹھیکیداروں کی جواب میں ناقص تعمیرات کے نقصانات سے قوم کی ریڑھ کی ہڈی بس ٹوٹنے کو ہے کسی سڑک کیلئے ایک کروڑ مختص کیا جاۓ تو اسمیں سے صرف بیس لاکھ خرچ ہوتا ہے اسی لاکھ ٹھیکیداروں اور رکن اسمبلی کی جیبوں میں چلا جاتا ہے پھر بھی وہ سڑک کام کرتی ہے اگر اس سڑک پر پوری رقم صرف کی جاتی تو شائد اسکا معیار اسلام آباد کی کارپٹ سڑکوں جیسا ہو سکتا تھا
ان تمام تفصیلات سے قطع نظر ہم نظام کی بات کرتے ہیں
نظام خلافت کی طرز پر ہم ایک نیا آئین بنائیں جسکی رو سے تمام حکمرانی کے خوا ھشمند انفرادی طور پر ووٹنگ کیلئے کھڑے ہوں جو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرے وہ پاکستان کا حاکم اعلی بن کر لائق فائق لوگوں کی ایک ٹیم منتخب کرے جو ملک کو چلائیں
اس نظام کی بدولت ہم خلافت کی طرز پر ایک اچھا نظام قائم کرسکتے ہیں نیز وزیروں مشیروں اور ملاؤں کی چاپلوسی پر اٹھنے والے اربوں کے اخراجات سے بچ سکتے ہیں نیا حاکم اعلی ان اربوں کھربوں روپوں کو عوام کی فلاح کیلئے خرچ کرسکتا ہے
آپکی کیا راۓ ہے ؟ بھٹو کا آئین اسکے ساتھ ہی دفن کر دینا چاہئے ہمیں اس لادین کے آئین کی کوی ضرورت نہیں جس کی وجہ سے مملکت پاکستان پر نحوست کے ساے ہیں کہ جاتے ہی نہیں
Last edited: