نگاہ بلند سخن دلنوازجان پرسوز ملا محمد عم&#158

ibneislam

Banned
نگاہ بلند سخن دلنوازجان پرسوز ملا محمد عمر مجاہد

ہ ایک ایسے سربراہِ مملکت تھے جنہوں نے میکاولی اور چانکیائی مکاریاں نہیں سیکھی تھیں کہ ان کے لیے نمونہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ تھی جن کا بطور قائدِ تحریک اسلامی اور حکمران کے ہر فعل ایک اصول اور ضابطے کے مطابق تھا۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار تھے جب اِماراتِ اسلامیہ افغانستان کے سربراہ بنے تو انہوں نے حکمرانی کی سیاست کی، سفارت کی لیکن منافقت نہیں کی۔ اور یہی آخری وہ چیز ہے جس کو چانکیوں اور میکالیوں کی اولادیں اصل سیاست مانتی ہیں۔

انہوں نے ملامحمد عمر کو سیدھا سادہ انسان اور فنِ حکمرانی سے ناواقف ٹھیرایا۔ اور وہ دانشور جو خود بے خبر تھے امیر المومنین کو فن حکمرانی سے نابلد قرار دے کر لوگوں کو گمراہ کرنے لگے۔

پھر نائن الیون آیا۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کو قانون بنانے والے اپنی لونڈی اقوام متحدہ سے جارحیت کا سند جواز لے کر افغانستان پر چڑ دوڑنے کی تیاری کرچکا تھا۔ بہانا بھی تو بنانا تھا اس لیے اعلان کیا اُس بڑے دہشت گرد کو ہمارے حوالے کردیا جائے ورنہ ان کا ساتھی سمجھ کر حملہ کردیا جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالمی برادری اور دنیا بھر کا میڈیا اس حملہ کا جواز مانگتا اس نے امریکی صلیبیوں کا ساتھ دیا۔ بہت اچھی طرح یاد ہے کہ صرف ایک عشرے کی بات ہے قلم کی سیاہی کو حق کی روشنی کے بجائے اپنے نامہ اعمال کی سیاہی میں بدل کر غیر مسلم تو غیر مسلم خود مسلمان صحافی اور دانشور کم فہم کو سمجھانے لگے کہ مصلحت کا تقاضا ہے صلیبیوں کا دشمن ان کے حوالے کردو۔ بڑا ظلم ہوا ہے۔ دہشت گرد کو حوالے کرکے کرسی اقتدار کو بچاﺅ۔ اور اس مظلوم کے ڈر سے کتنوں نے ایسا کردیا۔ بلکہ پوری دنیا اس کے سائیڈ پر کھڑی نظر آئی کہ مصلحت کا تقاضا تھا۔

دانشوروں کو یاد دلایا گیا کہ الزام ہے۔ الزام سے کوئی مجرم نہیں بنتا۔ ثبوت دو! مجرم ثابت کرو تو حوالہ کردیا جائے گا۔ بات سادہ سی تھی لیکن چانکیہ کوتلیہ اور میکاولی کی کتابوں میں نہیں تھی۔ یہ کتابیں ان کی ہیں وہ پڑھیں عمل کریں تو سمجھ بھی میں آتا ہے۔ لیکن مسلمان دانشور جن کے لیے آخری کتاب کی صورت میں دستور انسانیت اُتاری گئی اس کے مفہوم سے ناواقف تھے۔ جس میں سیاست مکاری نہیں بلکہ عبادت ہے جس میں حکمرانی کرسی کا سوال نہیں بلکہ ذمہ داری ہے اور ٹیکنالوجی کے مقابلے میں جرائت ایمانی اصل چیز ہے۔ یہ کتاب ایسے لوگوں پر اتاری گئی تھی جو اگر فضائے بدر پیدا کرے تو فرشتے اُن کی نصرت کو اُترسکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی!

امریکا بغیر کسی ثبوت کے افغانستان پر چڑھ دوڑا کہ پہلے سے طے تھا اور دل کی بات زبان پر آئی۔ صلیبی جنگ قرار دیا گیا پھر کہا زبان پھسل گئی۔ حسب روایت مسلم دنیا کے دانشور اور مقامی ایجنٹ بھی سامنے آگئے موصوف کہنا کچھ اور چاہتے تھے یہ تو دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ پھر اپنے تمام تر ٹیکنالوجی کے ساتھ جب صلیبی امریکا کی قیادت میں حملہ آور ہوئے تو حکمت عملی کے تحت ان کو اُترنے دیا گیا تاکہ سرزمین افغانستان پر اُتار کر یہاں کی دھول چٹا دی جائے۔ لیکن دانشوری چمکانے اور صحافت کی دکان لگانے والے کہنے لگے کہ ہم نہ کہتے تھے امریکا کی ٹیکنالوجی کے سامنے تمہاری اوقات کیا تھی۔ کم فہمی اور ناسمجھی نے کابل سے محروم کردیا۔ امریکا کو چیلنج کرنے والے اسکوٹر پر کابل سے بھاگ گئے۔

پروپیگنڈے کے محاذ پر امریکا کو جتایا گیا کہ دنیا بھر کے میڈیا کا 98فیصد براہ راست 7یہودیوں کی ملکیت ہے باقی یا تو متاثر ہے یا پھر کرایہ پر۔ لیکن میدان عمل ابھی باقی تھا۔ ابھی دنیا پر یہ ثابت ہونا باقی تھا کہ جیت کس کا مقدر ہے! تمام تر ٹیکنالوجیکل عدم توازن کے باوجود امیر المومنین کی قیادت میں افغانستان کی حقیقی حکومت امارت اسلامیہ افغانستان نے امریکا سمیت دنیا بھر سے آئے پیشہ ور فوجیوں کو افغانستان کی دھول چٹا دی ان کو ان کی حربی تربیت بھلا دی اور ان کی نانی یاد دلادی۔ خود امریکا میں افغانستان سے واپس جانے والے خوش نصیب فوجی نفسیاتی ماہرین کے زیر اعلاج ہیں اور زندگی بھر شاید مریض بن کر رہے۔ ہزاروں سپر پاورز کے قبرستان میں ہی مدفون ہیں۔ کچھ کی لاشیں راتوں رات لے جائے گی کہ دیکھی نہ جائے۔ حالت ایسی ہوئی کہ دنیا کی عظیم فوج کا سپہ سالار اپنی کانگریس کے سوالات سے بے ہوش ہو کر گر پڑا اور بولا صبح ناشتے میں کافی پانی نہیں پیا تھا۔ شکست کا اعتراف اس صورت میں کیا کہ جن کو ایک عشرے پہلے دہشت گردوں کے ساتھی قرار دے کر بھگایا گیا ان سے مذاکرات کی بھیک مانگی گئی۔ موقف کل بھی اصولی تھا موقف آج بھی اصولی ہے کہ بے اصولی کتاب نے سکھائی ہے نہ اُس کے لانے والے نے۔

یہ امریکا کی ہی شکست نہیں یہ دو طرز فکر اور دو مختلف طرز عمل کے درمیان جنگ کا نتیجہ ہے جس میں جیت سچ حق اور اصول کی ہوئی ہے۔ لاٹھی کے زور پر بھینس پر دعویٰ جتانے والے لاٹھی سمیت پِٹ گئے۔ کیوں کہ حق کا عصا ظلم کی لاٹھیوں کو توڑ تا رہا ہے ۔ یہی حق کی تاریخ ہے ۔ آج پھر اسی تاریخ نے خود کو دوہرایا۔ اس وقت عصا ملا محمدعمرمجاہد کے ہاتھ میں ہیں جو سیدھے سادے ہیں جو منافقت سے کوسوں سے دور ہیں۔ جو اصول کو سیاست مانتے ہیں۔ جو سیدھے ہیں سادے ہیں لیکن سب سے بڑھ کر فن حکمرانی جانتے ہیں۔ یہی وہ عزم ہے جس کا اظہار انہوں نے کچھ عرصے پہلے اپنے ایک پیغام میں کیا۔ یہ عزم ایک ایسے نظام تشکیل دینے کا ہے جس میں فیصلے دینی تعلیمات کے مطابق ہوں گے جہاں پیش نظر ترقی ہوگی خوشحالی ہوگی امن و امان ہوگا۔ جہاں تعلیم ہوگی جہاں انصاف ہوگا۔ جہاں کوئی وار لارڈ کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرسکے گا۔ جہاں حکمران خادم ہوگا۔ جہاں ہمسائیوں سے اچھے تعلقات ہوں گے ۔ الغرض یہ پوری دنیا کے لیے نمونہ ہوگا۔ اور نمونہ امیر المومنین کی بصیرت و لیاقت کے سبب ممکن ہوسکا ہے۔ اب تشکیل و ترتیب کا وقت ان اشاللہ قریب ہے۔

علامہ اقبال ؒ کے شکوہ و جواب شکوہ میں شیطان کفار کو افغانیوں کی غیرت دین کا یہ علاج بتاتے ہیں کہ:

افغانیوں کی غیرت دین کا ہے یہ علاج

مُلا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

امریکی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس غیرت دین کا علاج نہ کرسکے۔ مُلا کو افغانستان سے باہر دیکھنے کی خواہش رکھنے والوں کو اب جان لینا چاہیے کہ ملا افغانیوں کے
دل میں ہیں۔کفار مُلا کو افغانستان کے کوہ ودمن سے نکال سکیں اور نہ ہی ان کے دلوں سے۔
jihad+flag%255B1%255D.jpg

 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
Re: نگاہ بلند سخن دلنوازجان پرسوز ملا محمد عم&

إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ


امریکی بہت برے ہیں خدا ان کو غارت کرے
 

Back
Top