کیا اسلام میں نکاح کے لئے گواہان کا ہونا واجب ہے ؟؟؟؟؟
1۔ قرآن میں کئی جگہ مختلف قسم کی عورتوں کا ذکر آیا، اور پھر ان کئی جگہوں پر ان مختلف عورتوں سے نکاح کی شرائط کا ذکر آیا۔۔۔ ۔ مگر قرآن میں کسی ایک جگہ بھی اللہ تعالی نے نکاح کے لیے گواہوں کو شرط قرار نہیں دیا۔
یہ چیز قرآنسٹ حضرات کے لیے بھی سبق ہے جو ایک طرف نکاح کے لیے گواہ کو لازمی قرار دیتے ہیں، اور دوسری طرف انہیں پورے قرآن میں نکاح کے شرائط بیان کرتے ہوئے ایک جگہ بھی گواہ کا لفظ نہیں ملتا۔
چنانچہ اصول یہ ہے کہ جہاں پارٹیوں کی رضامندی ہو وہاں پر بیرونی گواہوں کے تقرر کی ضرورت نہیں، مگر جب اختلافات کے باعث طلاق کا مسئلہ ہو تو پھر اہل تشیع فقہ کے مطابق واجب و لازم ہے کہ بیرونی طور پر دو گواہوں کو مقرر کیا جائے (جبکہ ہمارے برادران کے فقہ میں بغیر گواہ کے طلاق ہو جاتی ہے)۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے:
[القرآن 65:2]فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ
Tarjuma:
پھر جب وہ (طلاق دیے جانی والی عورتیں) اپنی مقررہ میعاد (کے ختم ہونے) کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں بھلائی کے ساتھ (اپنی زوجیت میں) روک لو یا انہیں بھلائی کے ساتھ جدا کردو۔ اور اپنوں میں سے دو عادل مَردوں کو گواہ بنا لو اور گواہی اللہ کے لئے قائم کیا کرو، ۔
حیرت کی بات ہے کہ حدیث کے ذخیرے میں بھی آپ کو بخاری و مسلم و دیگر کتب میں کئی کئی جگہ نکاح کی دیگر شرائط مل جائیں گی، مگر نکاح میں گواہ کی شرط آپ کو بخاری میں ملے گی نہ مسلم میں، اور نہ پھر انکے بعد صحاح ستہ کی کسی کتاب میں۔۔۔ ۔ اور پھر صحاح ستہ کے ساتھ نمبر آتا ہے امام مالک کی موطا ء کا، مگر اس میں بھی کہیں ڈھونڈننے سے آپ کو نکاح میں گواہ کی شرط نظر نہیں آئے گی۔
لے دے کر بہت ڈھونڈنے سے صرف ایک روایت ملتی ہے جسے فریق مخالف پیش کرتا ہے، اور وہ یہ ہے
** لا نكاح إلا بولي وشاهدين عدلين **
یعنی ولی اور عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
مگر یہ واحد روایت بھی بہت سے اہلسنت علماء کے نزدیک ضعیف ہے اور وہ اسکو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ مثلاً دیکھئے آگے امام مالک اور ابن قدامہ کا فتوی۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی یہ روایت قابل استدلال نہیں کیونکہ وہ اس روایت کے پہلے حصے "ولی" کی شرط کو نہیں مانتے۔
علماء کے فتوے دیکھ لیں جس میں یہ آپ سےنکاح دائمی میں گواہوں کے لازم ہونے کے متعلق اختلاف کر رہے ہیں۔
امام شوکانی اپنی کتاب نیل الاوطار میں لکھتے ہیں:
۔
البحر میں (عبداللہ) ابن عمر، (عبداللہ) ابن زبیر، عبدالرحمان ابن مہدی اور داؤد سے مروی ہے کہ نکاح میں کسی گواہوں کی ضرورت نہیں۔ اور امام مالک سے ہے کہ (گواہ کی ضرورت نہیں) بلکہ فقط نکاح کا اعلان کر دینا کافی ہے۔
عبداللہ ابن عمر صاحبزادے ہیں حضرت عمر کے اور انہیں فقہیہ صحابی سمجھا جاتا ہے۔اب بتلائیے کہ جب ان صحابہ کا مذہب یہ ہے کہ گواہان کی شرط لازمی نہیں تو پھر بھی کیا پھر بھی ان صحابہ ابن عمر ، ابن زبیر پر بھی فتوی بازی کی جائے گی؟ امام مالک کو بھی ڈھونڈنے سے کوئی "ایک" بھی صحیح روایت 2 گواہوں کے لیے نہیں مل سکی، اس لیے انہوں نے اعلان کی شرط رکھ دی۔ اعلان یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت نے شام کو نکاح کر لیا ہے تو اگلی صبح وہ اسکا اعلان کر دیں۔
اور علامہ قاضی خان اپنی مشہور کتاب فتاوی قاضی خان میں فرماتے ہیں:
نکاح (دائمی) میں یہ لازمی نہیں کہ گواہان موجود ہوں
اور فقہ کی کتاب ہدایہ میں درج ہے کہ:
وهو حجة على مالك شر في اشتراط الإعلام دون الشهادة
یعنی ۔۔۔
مالک کے نزدیک یہ حجت تھی کہ اعلان کیا جائے مگر گواہوں کی شرط ضروری نہیں تھی۔
اور اگر کچھ اصحاب زیادہ ہی انتہا پسند ہیں تو انہیں ذیل کے چند فتوے دیکھنے کے بعد شاید اس مرض سے نجات مل جائے اور وہ دوسروں کے خلاف پروپیگنڈہ بند کریں:
ولو تزوج امرأة بحضرة السكارى وهم عرفوا أمر النكاح غير أنهم لا يذكرونه بعد ما صحوا انعقد النكاح
ترجمہ:
اگر کسی عورت نے ایسے گواہوں کے سامنے جو نشہ میں ہیں نکاح کا عقد کیا، اور اُن نشہ کے مستوں نے نکاح کا پہچان لیا، مگر بات اتنی ہے کہ جب وہ ہوش میں آئے اور نشہ اتر گیا تو اب اُنکو یاد نہیں ہے، تو نکاح منعقد ہو جائے گا۔
حوالہ:
فتاوی قاضی خان، کتاب النکاح
فتاوی عالمگیری (اردو) جلد 2، صفحہ 127
ایسے نشے میں مدہوش گواہوں سے ہم بغیر گواہوں کے ہی بہتر۔
اسی ضمن میں ایک اور فتوی::
وينعقد بحضور من لا تقبل شهادته له أصلا
ترجمہ:
اورجن لوگوں کی گواہی عاقد کے حق میں اصلا قبول نہیں ہوتی، اُنکے شاہد ہونے سے بھی نکاح منعقد ہو گیا۔
حوالہ:
فتاوی عالمگیری
فتاوی عالمگیری (اردو)، جلد 2، صفحہ 126
اور گواہان کے علاوہ ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح ہو جاتا ہے
نفذ نكاح حرة مكلفة بلا ولي عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى
یعنی۔۔۔
امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک ظاہر الروایۃ کے موافق عورت آزادہ عاقلہ بالغہ کا نکاح بدون (بغیر) ولی کے نافذ ہو جاتا ہے۔
حوالہ:
فتاوی عالمگیری، کتاب النکاح
فتاوی عالمگیری (اردو)، جلد 2، صفحہ 162
اور فتاوی عالمگیری میں مزید درج ہے:
رجل خطب امرأة إلى نفسها فأجابته إلى ذلك وكرهت أن يعلم بذلك أولياؤها فجعلت أمرها في تزويجها إليه يجوز هذا النكاح
یعنی ۔۔۔
اگر مرد ایک عورت کو شادی کی پیشکش کرے اور وہ اسے قبول کر لے، مگر یہ نہ چاہے کہ اُس کے ولیوں کو اس کی خبر ہو، تو وہ اسی مرد کو اپنا ولی مقرر کر سکتی ہے اور ایسے نکاح کی اجازت ہے۔
المغنی ابن قدامہ حنبلی سے لکھتے ہیں کہ : امام احمد سے نقل ہوا ہے کہ بغیر شہود اور گواہ کے نکاح صحیح ہے اور بغیر گواہ کا نکاح ابن عمر نے انجام دیا ہے حسن بن علی [علیہا السلام ] نےانجام دیا ہے ابن زبیر نے انجام دیا ہے ابن عمر کے دو بیٹے سالم اور حمزہ نے انجام دیا ہے اسی کے قائل ہیں عبد اللہ بن ادریس ہین اسی طرح عبد الرحمن بن مھدی [بخاری کے استاد]یزید بن ہارون ، عنبری ابو ثور ، ابن منذر ہیں یہی قول زہری کا ہے یہی قول امام مالک کا ہے ۔۔ ابن منذر کہتے ہیں کہ نکاح کے گواہ کے بارے میں کوئی بھی خبر[ صحیح] ثابت نہیں ہوئی ہے اور ابن عبد البر نے کہا :نبی ص سے روایت لا نکاح الا بولی و شاہدین عدلین ابن عباس اور ابو ہریرہ اور ابن عمر سے آئی ہے لیکن اس کے نقل مین ضعف پایا جاتا ہے یعنی یہ روایت ضعیف ہے پس میں اس روایت کو نہیں لونگا۔
ابن منذرکہتے ہیں کہ : حضرت رسول اللہ ص نے صفیہ بن حیی کو آزاد کر کے شادی کی اورکسی کو گواہ قرار نہیں دیا۔
انس بن مالک نے کہا: رسول اکرم ص نے ایک کنیز خریدی تب لوگوں نے کہا رسول اکرم ص اس سے شادی کرینگے یا ام ولد بنائیں گے جب سوار ہونے کا ارادہ کیا کنیز کو حجاب کروایا تو لوگ جان گئے کہ حضرت نےشادی کی ہے حدیث متفق علیہ ہے یعنی **گواہ درکار نہیں تھے]پس لوگوں نے حجاب کے ذریعے سے استدلال اور نتیجہ نکالا کہ آپ ص نے شادی کی ہے [ناکہ گواہوں سے ]یزید بن ہارون نے کہا ہے کہ خداوند نے گواہ قرار دینے کا حکم خرید فروخت میں دیا ہے
1۔ قرآن میں کئی جگہ مختلف قسم کی عورتوں کا ذکر آیا، اور پھر ان کئی جگہوں پر ان مختلف عورتوں سے نکاح کی شرائط کا ذکر آیا۔۔۔ ۔ مگر قرآن میں کسی ایک جگہ بھی اللہ تعالی نے نکاح کے لیے گواہوں کو شرط قرار نہیں دیا۔
یہ چیز قرآنسٹ حضرات کے لیے بھی سبق ہے جو ایک طرف نکاح کے لیے گواہ کو لازمی قرار دیتے ہیں، اور دوسری طرف انہیں پورے قرآن میں نکاح کے شرائط بیان کرتے ہوئے ایک جگہ بھی گواہ کا لفظ نہیں ملتا۔
چنانچہ اصول یہ ہے کہ جہاں پارٹیوں کی رضامندی ہو وہاں پر بیرونی گواہوں کے تقرر کی ضرورت نہیں، مگر جب اختلافات کے باعث طلاق کا مسئلہ ہو تو پھر اہل تشیع فقہ کے مطابق واجب و لازم ہے کہ بیرونی طور پر دو گواہوں کو مقرر کیا جائے (جبکہ ہمارے برادران کے فقہ میں بغیر گواہ کے طلاق ہو جاتی ہے)۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے:
[القرآن 65:2]فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ
Tarjuma:
پھر جب وہ (طلاق دیے جانی والی عورتیں) اپنی مقررہ میعاد (کے ختم ہونے) کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں بھلائی کے ساتھ (اپنی زوجیت میں) روک لو یا انہیں بھلائی کے ساتھ جدا کردو۔ اور اپنوں میں سے دو عادل مَردوں کو گواہ بنا لو اور گواہی اللہ کے لئے قائم کیا کرو، ۔
حیرت کی بات ہے کہ حدیث کے ذخیرے میں بھی آپ کو بخاری و مسلم و دیگر کتب میں کئی کئی جگہ نکاح کی دیگر شرائط مل جائیں گی، مگر نکاح میں گواہ کی شرط آپ کو بخاری میں ملے گی نہ مسلم میں، اور نہ پھر انکے بعد صحاح ستہ کی کسی کتاب میں۔۔۔ ۔ اور پھر صحاح ستہ کے ساتھ نمبر آتا ہے امام مالک کی موطا ء کا، مگر اس میں بھی کہیں ڈھونڈننے سے آپ کو نکاح میں گواہ کی شرط نظر نہیں آئے گی۔
لے دے کر بہت ڈھونڈنے سے صرف ایک روایت ملتی ہے جسے فریق مخالف پیش کرتا ہے، اور وہ یہ ہے
** لا نكاح إلا بولي وشاهدين عدلين **
یعنی ولی اور عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
مگر یہ واحد روایت بھی بہت سے اہلسنت علماء کے نزدیک ضعیف ہے اور وہ اسکو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ مثلاً دیکھئے آگے امام مالک اور ابن قدامہ کا فتوی۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی یہ روایت قابل استدلال نہیں کیونکہ وہ اس روایت کے پہلے حصے "ولی" کی شرط کو نہیں مانتے۔
علماء کے فتوے دیکھ لیں جس میں یہ آپ سےنکاح دائمی میں گواہوں کے لازم ہونے کے متعلق اختلاف کر رہے ہیں۔
امام شوکانی اپنی کتاب نیل الاوطار میں لکھتے ہیں:
۔
البحر میں (عبداللہ) ابن عمر، (عبداللہ) ابن زبیر، عبدالرحمان ابن مہدی اور داؤد سے مروی ہے کہ نکاح میں کسی گواہوں کی ضرورت نہیں۔ اور امام مالک سے ہے کہ (گواہ کی ضرورت نہیں) بلکہ فقط نکاح کا اعلان کر دینا کافی ہے۔
عبداللہ ابن عمر صاحبزادے ہیں حضرت عمر کے اور انہیں فقہیہ صحابی سمجھا جاتا ہے۔اب بتلائیے کہ جب ان صحابہ کا مذہب یہ ہے کہ گواہان کی شرط لازمی نہیں تو پھر بھی کیا پھر بھی ان صحابہ ابن عمر ، ابن زبیر پر بھی فتوی بازی کی جائے گی؟ امام مالک کو بھی ڈھونڈنے سے کوئی "ایک" بھی صحیح روایت 2 گواہوں کے لیے نہیں مل سکی، اس لیے انہوں نے اعلان کی شرط رکھ دی۔ اعلان یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت نے شام کو نکاح کر لیا ہے تو اگلی صبح وہ اسکا اعلان کر دیں۔
اور علامہ قاضی خان اپنی مشہور کتاب فتاوی قاضی خان میں فرماتے ہیں:
نکاح (دائمی) میں یہ لازمی نہیں کہ گواہان موجود ہوں
اور فقہ کی کتاب ہدایہ میں درج ہے کہ:
وهو حجة على مالك شر في اشتراط الإعلام دون الشهادة
یعنی ۔۔۔
مالک کے نزدیک یہ حجت تھی کہ اعلان کیا جائے مگر گواہوں کی شرط ضروری نہیں تھی۔
اور اگر کچھ اصحاب زیادہ ہی انتہا پسند ہیں تو انہیں ذیل کے چند فتوے دیکھنے کے بعد شاید اس مرض سے نجات مل جائے اور وہ دوسروں کے خلاف پروپیگنڈہ بند کریں:
ولو تزوج امرأة بحضرة السكارى وهم عرفوا أمر النكاح غير أنهم لا يذكرونه بعد ما صحوا انعقد النكاح
ترجمہ:
اگر کسی عورت نے ایسے گواہوں کے سامنے جو نشہ میں ہیں نکاح کا عقد کیا، اور اُن نشہ کے مستوں نے نکاح کا پہچان لیا، مگر بات اتنی ہے کہ جب وہ ہوش میں آئے اور نشہ اتر گیا تو اب اُنکو یاد نہیں ہے، تو نکاح منعقد ہو جائے گا۔
حوالہ:
فتاوی قاضی خان، کتاب النکاح
فتاوی عالمگیری (اردو) جلد 2، صفحہ 127
ایسے نشے میں مدہوش گواہوں سے ہم بغیر گواہوں کے ہی بہتر۔
اسی ضمن میں ایک اور فتوی::
وينعقد بحضور من لا تقبل شهادته له أصلا
ترجمہ:
اورجن لوگوں کی گواہی عاقد کے حق میں اصلا قبول نہیں ہوتی، اُنکے شاہد ہونے سے بھی نکاح منعقد ہو گیا۔
حوالہ:
فتاوی عالمگیری
فتاوی عالمگیری (اردو)، جلد 2، صفحہ 126
اور گواہان کے علاوہ ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح ہو جاتا ہے
نفذ نكاح حرة مكلفة بلا ولي عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى
یعنی۔۔۔
امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک ظاہر الروایۃ کے موافق عورت آزادہ عاقلہ بالغہ کا نکاح بدون (بغیر) ولی کے نافذ ہو جاتا ہے۔
حوالہ:
فتاوی عالمگیری، کتاب النکاح
فتاوی عالمگیری (اردو)، جلد 2، صفحہ 162
اور فتاوی عالمگیری میں مزید درج ہے:
رجل خطب امرأة إلى نفسها فأجابته إلى ذلك وكرهت أن يعلم بذلك أولياؤها فجعلت أمرها في تزويجها إليه يجوز هذا النكاح
یعنی ۔۔۔
اگر مرد ایک عورت کو شادی کی پیشکش کرے اور وہ اسے قبول کر لے، مگر یہ نہ چاہے کہ اُس کے ولیوں کو اس کی خبر ہو، تو وہ اسی مرد کو اپنا ولی مقرر کر سکتی ہے اور ایسے نکاح کی اجازت ہے۔
المغنی ابن قدامہ حنبلی سے لکھتے ہیں کہ : امام احمد سے نقل ہوا ہے کہ بغیر شہود اور گواہ کے نکاح صحیح ہے اور بغیر گواہ کا نکاح ابن عمر نے انجام دیا ہے حسن بن علی [علیہا السلام ] نےانجام دیا ہے ابن زبیر نے انجام دیا ہے ابن عمر کے دو بیٹے سالم اور حمزہ نے انجام دیا ہے اسی کے قائل ہیں عبد اللہ بن ادریس ہین اسی طرح عبد الرحمن بن مھدی [بخاری کے استاد]یزید بن ہارون ، عنبری ابو ثور ، ابن منذر ہیں یہی قول زہری کا ہے یہی قول امام مالک کا ہے ۔۔ ابن منذر کہتے ہیں کہ نکاح کے گواہ کے بارے میں کوئی بھی خبر[ صحیح] ثابت نہیں ہوئی ہے اور ابن عبد البر نے کہا :نبی ص سے روایت لا نکاح الا بولی و شاہدین عدلین ابن عباس اور ابو ہریرہ اور ابن عمر سے آئی ہے لیکن اس کے نقل مین ضعف پایا جاتا ہے یعنی یہ روایت ضعیف ہے پس میں اس روایت کو نہیں لونگا۔
ابن منذرکہتے ہیں کہ : حضرت رسول اللہ ص نے صفیہ بن حیی کو آزاد کر کے شادی کی اورکسی کو گواہ قرار نہیں دیا۔
انس بن مالک نے کہا: رسول اکرم ص نے ایک کنیز خریدی تب لوگوں نے کہا رسول اکرم ص اس سے شادی کرینگے یا ام ولد بنائیں گے جب سوار ہونے کا ارادہ کیا کنیز کو حجاب کروایا تو لوگ جان گئے کہ حضرت نےشادی کی ہے حدیث متفق علیہ ہے یعنی **گواہ درکار نہیں تھے]پس لوگوں نے حجاب کے ذریعے سے استدلال اور نتیجہ نکالا کہ آپ ص نے شادی کی ہے [ناکہ گواہوں سے ]یزید بن ہارون نے کہا ہے کہ خداوند نے گواہ قرار دینے کا حکم خرید فروخت میں دیا ہے
Last edited by a moderator: