9 رکنی بنچ جسٹس سردار طارق مسعود اور مجھ سے مشاورت کے بغیر بنایا گیا اور درخواستیں پڑھنے کیلئے مناسب موقع نہیں دیا گیا: نامزد چیف جسٹس
ذرائع کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران گزشتہ روز کی سماعت پر جوڈیشل نوٹ تحریر کیا ہے۔ جوڈیشل نوٹ کے مطابق عمر عطاء بندیال کے چیف جسٹس بننے کے بعد سے بینچز کی تشکیل پر مشاورت کی روایت ترک کر دی گئی ہے۔ اپنے دور میں چیف جسٹس نے ایک دفعہ بھی فل کورٹ اجلاس نہیں بلایا، اسی سے دیگر ججز کی حیثیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
تحریری نوٹ میں کہا گیا ہے کہ 21 جون کو شام 8 بجے کے قریب سپلیمنٹری کازلسٹ ملی جس میں ظاہر کیا گیا کہ 9 ججز پر مشتمل لارجر بنچ تشکیل دیتے ہوئے مجھے بھی اس میں شامل کیا گیا ہے اور 22 جون کو 4 آئینی درخواستوں کو 22 جون کو سماعت کیلئے مقرر کیا گیا تھا۔ 9 رکنی بنچ جسٹس سردار طارق مسعود اور مجھ سے مشاورت کے بغیر بنایا گیا اور درخواستیں پڑھنے کیلئے مناسب موقع نہیں دیا گیا۔
25 مئی 2023ء کو سب سے پہلے دائر آئینی درخواست آخر میں لگا دی گئی اور 20 جون 2023ء کو دائر کی گئی آخری درخواست کو ترتیب میں پہلا نمبر دے دیا گیا۔ صرف ایک دن قبل ان مقدمات کی پیپربک کیوں ارسال کی گئی؟ تمام عدالتوں کو آئین کی دفعہ 175(2) کے تحت اختیار دیا گیا ہے جس کے مطابق کسی عدالت کو سوائے آئین وقانون کے تحت ملے اختیار کے سماعت کا اختیار نہیں۔
ملک کے قوانین میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء بھی ہے جو دفعہ 2(1) اور (2) کے تحت کوئی معاملہ جو عدالت کے سامنے ہو، اس کی سماعت اور فیصلہ ایسا نہیں کرے گا جس تشکیل چیف جسٹس پاکستان اور سنیارٹی کے مطابق 2 سینئر ججوں پر مشتمل کمیٹی نے کی ہو۔ قانون کے اجراء کے بعد کمیٹی اپنے پہلے اجلاس میں بشمول اجلاس کی تاریخ اور بینچوں کی تشکیل پر ضابطہ کار بنائے گی ۔
نامزد چیف جسٹس نے لکھا کہ مذکورہ قانون کے بننے سے پہلے ہی اسے چیلنج کر دیا گیا اور چیف جسٹس کے بنائے ہوئے بینچ نے مسئول علیہان کو نوٹس دیئے، موقف سنے بغیر یک طرفہ حکم نامہ جاری کر دیا۔ درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عدالت کے عبوری یکطرفہ فیصلے کے باعث معطل ہے جبکہ آئندہ سماعت کیلئے اب تک تاریخ مقرر نہیں کی۔
سابق چیف جسٹس گلزار احمد جسٹس عمر عطاء بندیال سے مشاورت کے علاوہ انہیں ہر آئینی واہم مقدمے میں سربراہی کی ذمہ داری دیتے یا بنچ کا حصہ بناتے، اس روایت کو عمر عطاء بندیال نے ترک کر دیا۔ میرے علاوہ اگلے سینئر جج جسٹس سردار طارق مسعود سے مشاورت کے بغیر تمام معاملات اپنی مرضی یا مخصوص اہلکاروں کے ذریعے چلا رہے ہیں، ایک بار بھی فل کورٹ اجلاس نہیں بلایا گیا۔
انہوں نے اپنے تحریری نوٹ میں عدالت عظمیٰ میں دائر کیے گئے متعدد مقدمات کا حوالہ بھی دیا۔ سپریم کورٹ آئین کی دفعہ 191 کے مطابق عدالتی عمل وطریق کار کیلئے آئین وقانون کے تابع قواعد بنا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے مقدمات کیلئے خود قواعد بنائے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں بنانے قانون کو چلنے دیا گیا نہ ہی متعلقہ درخواستوں پر اب تک فیصلہ کیا گیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق آج تک کسی مقدمے کی سماعت سے گریز نہیں کیا نہ کبھی چیف جسٹس سے کسی رجسٹری میں بھیجنے کی گزارش کی۔ ہمیشہ کوشش کی کہ ہر مقدمے میں فریق کو ایک نظر سے دیکھوں اور آئین وقانون کے مطابق فیصلہ کروں۔ اپنے آپ کو ان مقدمات کی سماعت سے دستبردار نہیں کر رہا مگر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف آئینی درخواستوں کے فیصلے تک خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتا اس لیے عدالت میں نہیں بیٹھا۔
معزز چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اپنے ساتھیوں کو بلاوجہ کشمکش میں الجھا دیا ہے، سپریم کورٹ کے سربراہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ جیسے آئینی ادارے کو کسی فرد واحد کی مرضی سے نہیں چلایا جا سکتا، اس ایکٹ کا اطلاق صرف چیف جسٹس اور اگلے دو سینئر ججز پر ہوتا ہے۔ معزز جسٹس سردار طارق مسعود میرے موقف کا احترام کرتے ہیں اور میں ان کے موقف کا، سینئر جج کی حیثیت سے ادارے کی سمت درست رکھنا میرا فرض ہے۔