
صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف لندن میں اپنے بڑے بھائی نواز شریف کو مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پارٹی کے مثالی تعلقات کو خراب نہ کرنے پر قائل کرنے کے بعد جمعرات کو وطن واپس پہنچ گئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 18 ستمبر کو نواز شریف کی جارحانہ تقریر کے بعد شہباز شریف کو پاکستان واپسی کے 48 گھنٹوں کے اندر ہی واپس لندن جانا پڑا، اس تقریر میں نواز شریف نے 2017 میں ان کی حکومت کو گرانے میں مبینہ طور پر ملوث سابق جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کا مطالبہ کیا تھا۔
نواز شریف کی جانب سے اِس کڑے احتساب کے مطالبے نے پارٹی کے بہت سے رہنماؤں، خاص طور پر شہباز شریف کو تشویش میں مبتلا کر دیا اور نواز شریف کی جانب سے ایسے بیانات جاری رہنے کی صورت میں وہ طاقتور حلقوں کے ممکنہ ردعمل سے چوکنا ہو گئے۔
رانا ثنا اللہ، جاوید لطیف، خرم دستگیر، عرفان صدیقی اور محمد زبیر سمیت کئی پارٹی رہنماؤں نے حال ہی میں عندیہ دیا کہ پارٹی اب سابق آرمی چیف (ر) جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ (ر) لیفٹننٹ جنرل فیض حامد کے احتساب کا مطالبہ نہیں کرے گی اور اس کے بجائے پارٹی اپنی توجہ معاشی امور اور اُن دیگر چیلنجز پر مرکوز کرے گی جو آج پاکستان کو درپیش ہیں۔
پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا تھا مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کے معاملے میں حکومت چاہتی ہے کہ قانون اپنا راستہ اختیار کرے اور سابق وزیر اعظم کی ممکنہ گرفتاری اور جیل بھیجنے کے بارے میں حکومت نے وزارت قانون سے رائے بھی طلب کی ہے۔
بی بی سی اُردو کو دیے گئے انٹرویو میں انوار الحق کاکڑ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا مقابلہ فوج سے نہیں بلکہ ریاست سے ہے۔
اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد پاکستان واپسی سے قبل لندن میں قیام کے دوران بی بی سی اردو سے گفتگو میں نگران وزیراعظم نے جہاں پاکستان کے آئندہ عام انتخابات کو غیر جانبدارانہ اور منصفانہ بنانے جیسے موضوعات پر سوالات کے جواب دیے وہیں نواز شریف کی پاکستان واپسی اور عمران خان کو درپیش قانونی مشکلات پر بھی بات کی۔
نگران وزیر اعظم نے کہا کہ انھوں نے وزارت قانون سے اس بارے میں رائے لی ہے کہ جب نواز شریف واپس آئیں گے تو قانون کے مطابق (ان کے تئیں) نگراں حکومت کا انتظامی رویہ کیا ہونا چاہیے۔