نواز شریف واپس کیوں آ رہے ہیں؟
حماد غزنوی
تاریخ ہر معروف شخص کی تصویر کے نیچے ایک کیپشن لکھ دیتی ہے، اورآنے والی نسلوں کے لئے یہی کیپشن اس شخص کا تعارف ٹھہرتا ہے۔ تاریخ نواز شریف کی تصویر تلے کیا سُرخی جمائے گی؟ نا اہل سابق وزیر اعظم، کرپشن کا مجرم میاں محمد نواز شریف؟ یا آئین کی بالا دستی کا خواب گر، شہےدِ جمہوریت میاں محمد نواز شریف ؟ہر بڑے آدمی کی طرح میاں صاحب بھی اپنی تصویر کے نیچے اپنی پسند کا کیپشن لکھنا چاہتے ہیں، اور اسی کام کے سلسلے میں وہ تیرہ جولائی 2018 روزِ جمعہ پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔
بڑے سیاست دانوں کی تصویر کے نیچے تاریخ نے کیاکیپشن لکھ رکھے ہیں۔ مہاتما گاندھی عدم تشدد کے پرچارک تھے، اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا، قائدِ اعظم نے پاکستان بنایا، ذوالفقار علی بھٹوپاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم تھے جن کا عدالتی قتل کیا گیا، بے نظیر بھٹوعالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں جنہوں نے عمر بھر جمہوریت کے لئے جدوجہد کی اور اسی راہ میں قتل کر دی گئیں، اور میاں محمد نواز شریف….؟
عوام الناّس کے لئے بس یہ سُرخیاں ہی کافی ہوتی ہیں، تفصیلات اور جزیات ماہرین شعبہ اور کتب خانوں کے لئے چھوڑ دی جاتی ہی ںکہ یہاں تو خبر کے ’بقیہ‘ تک بھی ہر کوئی نہیں پہنچ پاتا۔ مثلاً یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ذوالفقار علی بھٹوملک کے متنازع ترین سیاستدان تھے، ان کے ناقدین ہر سیاسی بحث میں ان کے ’کارناموں‘ کی فہرست گنوایا کرتے تھے، ’بھٹو صاحب سکندر مرزا کو قائدِاعظم سے بڑا لیڈر گردانتے تھے، ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے، مزاجاً انتہائی غیر جمہوری شخص تھے، انہوں نے مخالف سیاسی پارٹیاں بین کیں (نیپ)، دوسری جماعتوں کی صوبائی حکومتیں توڑیں (بلوچستان، سرحد)، ان کے دور میں سیاسی قتل ہوئے (محمد احمد قصوری، خواجہ رفیق، ڈاکٹر نذیر وغیرہ)، درجنوں سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالا گیا حتیٰ کہ اپنے حلیفوں پر جسمانی تشدد تک کروایا (جے اے رحیم وغیرہ)“۔ لیکن تاریخ نے ان کے یہ ناقابلِ معافی گناہ بھی معاف کر دیے۔ آنے والی نسلیں انہیں صرف ایک حوالہ سے جانتی ہیں اور ہمیشہ جانیں گی ’ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا پہلا منتخب وزیر اعظم تھا، جس نے معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات کو شعور دیا، جسے ایک ماشل لا ڈکٹیٹر کے عہد میں پھانسی دے دی گئی‘۔ بھٹو صاحب کی تصویر تلے جلی حروف میں یہ کیپشن لکھا ہے، یہ ہے تاریخ کا فیصلہ۔
پھر بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی تاریخ نے یہی احترام کا رشتہ قائم کیا، ان کی گدلائی ہوئی دو حکومتوں کو فراموش کر دیا، اور انہیں’شہید جمہوریت‘ کا کیپشن عطا کیا۔ دونوں بھٹوز اپنے عہد کے مقبول سیاسی رہنما بھی تھے اور متنازع بھی، لیکن تاریخ نے قوم کو ان کے ضمن میں یک سو کر دیا اور آج ہم سب انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ نواز شریف کے ناقدین کے پاس بھی ان کے خلاف الزامات کی ایک طویل فہرست ہے، وہ بھٹوز کی طرح انتہائی مقبول بھی ہیں اور متنازع بھی مگر تاریخ کا حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے اوراب نواز شریف کو عدالتوں کے فیصلہ سے زیادہ تاریخ کے فیصلے کی فکر ہے۔ لگتا یہی ہے کہ پچیس جولائی کا انتخاب یا پاکستان مسلم لیگ کی توڑ پھوڑ اس وقت نواز شریف کی نظر میں نسبتاً کم اہم معاملات ہیں۔ بنیادی مسئلہ اُن کی لیگیسی کا ہے، اس کیپشن کا ہے جس سے تاریخ انہیں یاد رکھے گی، یہ ہے نواز شریف کی واپسی کا پس منظر۔
میاں صاحب کا خیال ہے کہ انہیں عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا اور اسٹیبلشمنٹ اُ ن کے نام سے چڑتی ہے، انہیں معلوم ہے کہ میڈیا کی آزادی میں مشکلات حائل ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کی جماعت مزاحمتی سیاست کی شہرت نہیں رکھتی، انہیں خبر ہے کہ شاہ فہد کے جانشین ان سے زیادہ الفت نہیں رکھتے، اور یہ منظر تا حدِ نظر پھیلا ہوا ہے، کوئی صورت نظر نہیں آتی، مگر میاں صاحب واپس آ رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کو ایک الیکشن کیمپین کے دوران قتل کر دیا گیا تھا، اِس وقت بھی ملک میں انتخابی مہم جاری ہے اور ادارے صاف کہہ رہے ہیں کہ اکثر مرکزی لیڈرز کی جان کو خطرہ ہے۔ مگر میاں صاحب واپس آ رہے ہیں۔ کس امید پر واپس آ رہے ہیں، جیل کی کال کوٹھڑی کے لئے یا نخلِ دار کے لئے؟ شاید کچھ فیصلے دماغ سے نہیں، دل سے کرنے پڑتے ہیں ، شاید اسی کو تاریخ کا جبر کہا جاتا ہے۔
قرائن بتا رہے ہیں کہ ستّر سالہ نواز شریف تاریخ کا ایک قرض اتارنا چاہتے ہیں۔
پرویز مشرف کا مارشل لا لگا تو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نواز شریف کو عمر قید کی سزا سنائی، لیکن کچھ لوگوں کی تسلّی نہیں ہوئی۔ مشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سپیشل کورٹ نواز شریف کو پھانسی کی سزا سنانے ہی والی تھی کہ شاہ فہد نے مداخلت کی اور ایک ڈیل کے نتیجے میں نواز شریف کو سعودی عرب بھجوا دیا گیا۔ تیسری دنیا کے سیاسی رہنما کے لئے مورخ کے پیمانے بہت سخت ہیں۔ نواز شریف نے جیل بھی کاٹی اور جلاوطنی بھی، وہ آج بھی پاکستان کے انتہائی مقبول سیاسی رہنما ہیں، مگر نواز شریف اور ’ حلقہ نور‘ کے درمیان وہ ڈیل حائل ہو گئی۔ کیا نواز شریف وہ کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں؟
نواز شریف پاکستان کی لہو رنگ تاریخ کے وہ پہلے سیاستدان ہیں جو اپنی رضا سے، اپنے قدموں پہ چل کر شیر کی کچھار میں بِنا کسی ڈیل کے داخل ہو رہے ہیں۔ یہ ایک لمبا سفر ہے جو بے پناہ استقامت کا تقاضا کرتا ہے۔ راہروِ راہِ محبت کا خُدا حافظ ہے، اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں۔ نواز شریف کو یقیناً ان مقامات وخطرات کا ادراک ہے، وہ کچھ عرصہ سے اسی خاردار راستے پہ گامزن ہیں۔ کیا ہم اہلِ پنجاب نے کبھی کسی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست دان کو قریب سے دیکھا بھی تھا؟ یہ کھیتی سب صوبوں میں اُگتی تھی سوائے پنجاب کے۔ باچا خان اور شیر محمد مری سے جی ایم سید اور سہروردی تک، یہ مخلوق دوسرے صوبوں میں ہی پائی جاتی تھی۔ پنجاب میں نواز شریف اس نوع کے پہلے مقبول لیڈر ہیں، توکیا اس سے سیاست و ریاست میں بھی کچھ ایسے عوامل ظہور پذیر ہوںگے جو ہمارے لئے یکسر نئے ہوں گے؟
بہر حال، یہ بات طے ہے کہ میاں صاحب اپنی تصویر کے نیچے اپنی پسند کا کیپشن لکھنا چاہتے ہیں، اور اسی سلسلے میں وہ تیرہ جولائی 2018 بروز جمعہ پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔
source