battery low
Chief Minister (5k+ posts)
نواز شریف نے کیا پڑھا کیا نہیں پڑھا
وسعت اللہ خان
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

جب وزیرِ اعظم نواز شریف لندن میں قیام کے بعد 25 ستمبر کو نیویارک پہنچے تو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اگلے پندرہ برس کے لیے ترقی کا عالمی ایجنڈہ اپنا چکی تھی۔
وزیرِ اعظم نہ تو 25 تاریخ کو باضابطہ اجلاس کے پہلے روز پاپائے روم کی تاریخی تقریر سن سکے اور نہ ہی اس لمحے کو چھو سکے جب پاکستان کی ایک عام سی غیر معمولی لڑکی ( ملالہ ) 193 ممالک کے193 مشعل بردار لڑکے اور لڑکیوں کے جلو میں تعلیم خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کی بابت عالمی ضمیر کو اتنا جھنجوڑ چکی تھی کہ جنرل اسمبلی کا کچھا کھچ ہال پنجوں کے بل بہ چشمِ نم پانچ منٹ تک تالیاں بجاتا رہا۔وزیراعظم کا کتنے کروڑ کا دورہ؟
کیسی تصویر ہوتی اگر نواز شریف بھی وہاں ہوتے اور ملالہ کے سر پر ہاتھ رکھ کے پاکستان کے لیے انتہائی باعزت ساعت کو اپنے البم قید کر لیتے۔بعد میں بھی وزیرِ اعظم کو ملالہ سے ملاقات کا وقت نہ مل پایا۔کیونکہ مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت اور مخیر پاکستانی دوست اور کمیونٹی ڈنرز کے دعوتی میاں صاحب سے ملنے کے لیے زیادہ بے تاب تھے۔البتہ میاں صاحب نے سویڈش، اطالوی، ترک وزرائے اعظم اور سری لنکا، سینگال اور جنوبی کوریا کے صدور سے سائیڈ لائن پر ملاقاتیں کیں اور مائیکرو سافٹ کے سربراہ بل گیٹس سے بھی ملے ۔جس اعلیٰ ترین امریکی سے انھوں نے چوبیس منٹ بات کی وہ وزیرِ خارجہ جان کیری تھے۔
جنھوں نے بس اتنا کہا کہ اوباما حکومت اگلے ماہ میاں صاحب کے سرکاری دورے کی منتظر ہے۔اگر سائیڈ لائن ملاقاتوں کے ضمن میں بھارتی وزیرِ اعظم کا شیڈول دیکھا جائے تو انھوں نے اس اجلاس کے دوران امریکہ، فرانس، مصر، سری لنکا، برازیل، یونان اور قبرص کے صدور، جرمن چانسلر، برطانیہ، سویڈن اور جاپان کے وزرائے اعظم سے ملاقاتیں کیں اور عالمی بینک کے صدر سے بھی ملے۔بین الاقوامی امن کے موضوع پر صدر اوباما کی کانفرنس کے شریک میزبانوں میں بنگلہ دیش، روانڈا اور پاکستان بھی شامل تھے۔
کیسی تصویر ہوتی اگر نواز شریف بھی وہاں ہوتے اور ملالہ کے سر پر ہاتھ رکھ کے پاکستان کے لیے انتہائی باعزت ساعت کو اپنے البم قید کر لیتے۔بعد میں بھی وزیرِ اعظم کو ملالہ سے ملاقات کا وقت نہ مل پایا۔کیونکہ مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت اور مخیر پاکستانی دوست اور کمیونٹی ڈنرز کے دعوتی میاں صاحب سے ملنے کے لیے زیادہ بے تاب تھے۔البتہ میاں صاحب نے سویڈش، اطالوی، ترک وزرائے اعظم اور سری لنکا، سینگال اور جنوبی کوریا کے صدور سے سائیڈ لائن پر ملاقاتیں کیں اور مائیکرو سافٹ کے سربراہ بل گیٹس سے بھی ملے ۔جس اعلیٰ ترین امریکی سے انھوں نے چوبیس منٹ بات کی وہ وزیرِ خارجہ جان کیری تھے۔
جنھوں نے بس اتنا کہا کہ اوباما حکومت اگلے ماہ میاں صاحب کے سرکاری دورے کی منتظر ہے۔اگر سائیڈ لائن ملاقاتوں کے ضمن میں بھارتی وزیرِ اعظم کا شیڈول دیکھا جائے تو انھوں نے اس اجلاس کے دوران امریکہ، فرانس، مصر، سری لنکا، برازیل، یونان اور قبرص کے صدور، جرمن چانسلر، برطانیہ، سویڈن اور جاپان کے وزرائے اعظم سے ملاقاتیں کیں اور عالمی بینک کے صدر سے بھی ملے۔بین الاقوامی امن کے موضوع پر صدر اوباما کی کانفرنس کے شریک میزبانوں میں بنگلہ دیش، روانڈا اور پاکستان بھی شامل تھے۔

انفرنس میں یہ شریک میزبان ایک ہی میز پر بیٹھے۔مگر شیخ حسینہ یا اوباما سے نواز شریف کا رابطہ زیادہ تر رسمی مسکراہٹوں اور سر کی جنبش تک محدود رہا۔البتہ مدِ مقابل میز پر جاپانی وزیرِ اعظم کے ساتھ بیٹھے مودی اور اس پار موجود نواز شریف نے ایک دوسرے کو دیکھ کے ہاتھ ضرور ہلایا اور ایک دوسرے کی تقریر پر تالیاں بھی بجائیں۔جب مودی نے تقریر ختم کی تو جاپانی وزیرِاعظم نے اٹھ کے مبارک باد دی ۔جب نواز شریف نے تقریر ختم کی تو میز پر موجود اوباما
سمیت شریک میزبانوں نے میاں صاحب کو بس تعریفی نظروں سے دیکھا۔
بعد ازاں صدر اوباما نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک سربراہانِ حکومت و مملکت کو استقبالیہ دیا جس میں مودی نے تو شرکت کی تاہم میاں صاحب مصروفیت کے سبب شریک نہ ہو سکے۔البتہ انھوں نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے استقبالیے میں یقیناً شرکت کی۔جنوب جنوب تعاون کے تحت جنسی مساوات اور انسانی حقوق کے موضوع پر کانفرنس کے میزبان چینی صدر تھے۔اس موقع پر میاں صاحب کے خطاب کا لبِ لباب یہ تھا کہ پاکستان میں خواتین کو نہ صرف مساوی حقوق حاصل ہیں بلکہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔اس پر کانفرنس کے شرکا نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔
آپ کو شاید یاد ہو کہ 17 ستمبر کو سرتاج عزیز نے سینیٹ کے اجلاس میں کہا تھا کہ پاکستان اس بار جنرل اسمبلی کے سامنے پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت کا ڈوزیئر ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ پیش کرے گا۔سب نے کہا اللہ خیر کرے جانے کیا دھماکہ ہونے والا ہے۔اس وقت میرے سامنے وزیرِاعظم کے خطاب کے دو مسودے پڑے ہیں ۔ایک وہ جو تیار ہوا اور دوسرا وہ جو آخری وقت کی تبدیلیوں کے بعد جنرل اسمبلی میں پڑھا گیا۔ تیار مسودے میں شامل درجِ ذیل پیرا حتمی مسودے سے حذف
ہوگیا۔’بھارتی انٹیلی جینس ایجنسی پاکستان کے اندر تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ بھارت کی سول اور فوجی قیادت کے اشتعال انگیز بیانات پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید کشیدہ کر رہے ہیں ۔یہ معاملات ہمارے لیے باعثِ تشویش ہیں۔‘اس کی جگہ جو تقریر پڑھی گئی اس میں بس ایک سطر میں کہا گیا کہ ’دانشمندی کا تقاضا
ہے کہ ہمارا ہمسایہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے سے باز رہے‘۔
آپ کو شاید یاد ہو کہ 17 ستمبر کو سرتاج عزیز نے سینیٹ کے اجلاس میں کہا تھا کہ پاکستان اس بار جنرل اسمبلی کے سامنے پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت کا ڈوزیئر ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ پیش کرے گا۔سب نے کہا اللہ خیر کرے جانے کیا دھماکہ ہونے والا ہے۔اس وقت میرے سامنے وزیرِاعظم کے خطاب کے دو مسودے پڑے ہیں ۔ایک وہ جو تیار ہوا اور دوسرا وہ جو آخری وقت کی تبدیلیوں کے بعد جنرل اسمبلی میں پڑھا گیا۔ تیار مسودے میں شامل درجِ ذیل پیرا حتمی مسودے سے حذف
ہوگیا۔’بھارتی انٹیلی جینس ایجنسی پاکستان کے اندر تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ بھارت کی سول اور فوجی قیادت کے اشتعال انگیز بیانات پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید کشیدہ کر رہے ہیں ۔یہ معاملات ہمارے لیے باعثِ تشویش ہیں۔‘اس کی جگہ جو تقریر پڑھی گئی اس میں بس ایک سطر میں کہا گیا کہ ’دانشمندی کا تقاضا
ہے کہ ہمارا ہمسایہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے سے باز رہے‘۔

تیار مسودے میں کشمیر کے بارے میں مندرجہ ذیل پیرے بھی شامل تھے جو پڑھے جانے والے مسودے سے حذف ہو گئے۔
’بھارتی رہنما کہتے ہیں کہ پاکستان کو کشمیر پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ہم کیوں نہ کریں؟ پاکستان اور کشمیر کے عوام صدیوں سے دریاؤں، راستوں، تجارت ، نسل، مذہب اور ثقافت کے بندھن میں جکڑے ہوئے ہیں۔1947
میں جنوبی ایشیا تقسیم ہوا تو کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا گیا۔‘’بھارت کہتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ دو طرفہ انداز میں حل کیا جائے۔چھ عشروں سے زائد عرصے سے دو طرفہ حل ڈھونڈنے کی بہت سی کوششیں ہوئیں۔افسوس کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
بھارتی قیادت نے اس بابت بامعنی مذاکرات سے ہمیشہ کنی کترائی۔‘تیار مسودے میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے تین نکاتی فارمولا تجویز کیا گیا جو لفظ بلفظ بریکٹس کے ساتھ کچھ یوں ہے۔(الف) ایک ایسا نظام قائم کرنے کی فوری ضرورت ہے، جس سے یہ امر یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی بھی حادثہ دونوں ممالک کے درمیان بڑے پیمانے پر دشمنی نہیں بھڑکائےگا۔اس طرح کے نظام کے قیام کے لیے بنیادی شرط ہے کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت بھارت اور پاکستان عہد کریں کہ وہ طاقت کا استعمال نہیں کریں گے اور نہ استعمال کی دھمکی دیں گے
۔(میری تجویز ہے کہ بھارت اور پاکستان اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں عالمی چارٹر کے تحت جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کریں)۔ بریکٹ والا حصہ حتمی نہیں ہے ۔( ب) لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کے دونوں جانب فائر بندی کی موثر نگرانی کے لیے اقوامِ متحدہ کے مبصرین کو زیادہ موثر کیا جائے۔
(ج) دونوں فریق تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے جامع مذاکرات کا عمل بحال کریں۔جو تقریر پڑھی گئی اس میں خاصے غیر و فکر اور تبدیلیوں کے بعد تین کے بجائے چار تجاویز پیش کی گئیں۔(الف) پاکستان اور بھارت لائن آف کنٹرول پر سیز فائر سے متعلق دو ہزار تین میں طے پانے والی انڈر سٹینڈنگ کی مکمل پابندی کریں۔اس مقصد کے لیے اقوامِ متحدہ کے مبصرین کی تعداد بڑھائی جائے اور انہیں موثر کیا جائے۔
(ب) پاکستان اور بھارت کسی بھی حالت میں طاقت کا استعمال نہ کریں اور نہ ہی استعمال کی دھمکی دیں۔ (ج ) کشمیر کو
غیر فوجی خطہ بنایا جائے۔(د) دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن سے غیر مشروط طور پر فوجیں ہٹائی جائیں۔تو یہ ہے وزیرِ اعظم کے دورہِ نیویارک کی پراگریس رپورٹ۔
Source
میں جنوبی ایشیا تقسیم ہوا تو کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا گیا۔‘’بھارت کہتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ دو طرفہ انداز میں حل کیا جائے۔چھ عشروں سے زائد عرصے سے دو طرفہ حل ڈھونڈنے کی بہت سی کوششیں ہوئیں۔افسوس کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
بھارتی قیادت نے اس بابت بامعنی مذاکرات سے ہمیشہ کنی کترائی۔‘تیار مسودے میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے تین نکاتی فارمولا تجویز کیا گیا جو لفظ بلفظ بریکٹس کے ساتھ کچھ یوں ہے۔(الف) ایک ایسا نظام قائم کرنے کی فوری ضرورت ہے، جس سے یہ امر یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی بھی حادثہ دونوں ممالک کے درمیان بڑے پیمانے پر دشمنی نہیں بھڑکائےگا۔اس طرح کے نظام کے قیام کے لیے بنیادی شرط ہے کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت بھارت اور پاکستان عہد کریں کہ وہ طاقت کا استعمال نہیں کریں گے اور نہ استعمال کی دھمکی دیں گے
۔(میری تجویز ہے کہ بھارت اور پاکستان اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں عالمی چارٹر کے تحت جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کریں)۔ بریکٹ والا حصہ حتمی نہیں ہے ۔( ب) لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کے دونوں جانب فائر بندی کی موثر نگرانی کے لیے اقوامِ متحدہ کے مبصرین کو زیادہ موثر کیا جائے۔
(ج) دونوں فریق تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے جامع مذاکرات کا عمل بحال کریں۔جو تقریر پڑھی گئی اس میں خاصے غیر و فکر اور تبدیلیوں کے بعد تین کے بجائے چار تجاویز پیش کی گئیں۔(الف) پاکستان اور بھارت لائن آف کنٹرول پر سیز فائر سے متعلق دو ہزار تین میں طے پانے والی انڈر سٹینڈنگ کی مکمل پابندی کریں۔اس مقصد کے لیے اقوامِ متحدہ کے مبصرین کی تعداد بڑھائی جائے اور انہیں موثر کیا جائے۔
(ب) پاکستان اور بھارت کسی بھی حالت میں طاقت کا استعمال نہ کریں اور نہ ہی استعمال کی دھمکی دیں۔ (ج ) کشمیر کو
غیر فوجی خطہ بنایا جائے۔(د) دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن سے غیر مشروط طور پر فوجیں ہٹائی جائیں۔تو یہ ہے وزیرِ اعظم کے دورہِ نیویارک کی پراگریس رپورٹ۔
Source
Last edited by a moderator: