
عطاء الحق قاسمی نے زعیم حزب اختلاف اور دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کے ساتھ ایڈیٹروں اور کالم نگاروں کی ملاقات کا اہتمام کر رکھا تھا۔ گفتگو اور سوال و جواب کی نشست تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔۔۔ نوازشریف شگفتہ انداز میں اور نہایت درجہ اعتماد کے ساتھ تندوتیز سوالات سے نبردآزما ہوتے رہے۔ انہوں نے درپیش حالات پر اپنا مؤقف مدلل انداز میں پیش کیا اور اپنے برجستہ فقروں کی وجہ سے ماحول کو اتنا خوشگوار رکھا کہ کسی بھی شریک مجلس نے ان کے ساتھ بحث میں الجھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد پر گویا آمد کی کیفیت طاری تھی۔۔۔ انہوں نے آنے والے انتخابات کے ہر پہلو سے شفاف ہونے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بہت اہم نکتہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہرممکن آئینی اور جمہوری تعاون کر کے موجودہ پارلیمنٹ کو اپنی مدت مکمل کرنے کا موقع دیا ہے۔ ہماری تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے اس سلسلہ کو آگے بڑھنا چاہئے جس کے لئے لازم ہے کہ انتخابات اس شفاف طریقے سے منعقد ہوں کہ ان کے نتائج کو جیتنے والوں کے ساتھ ہارنے والے بھی پوری خوشدلی کے ساتھ قبول کریں۔ یوں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہو گا اور جمہوری عمل حقیقی معنوں میں پختہ ہو گا۔۔۔ تمام گفتگو اگرچہ آف دی ریکارڈ تھی۔۔۔ اس لئے اس مجلس میں زیربحث آنے والے موضوعات کے حوالے سے جو کچھ میں سمجھ سکا اسے اپنے الفاظ میں رقم کر رہا ہوں۔ لیکن اتنی بات لکھ دینے میں کوئی حرج نہیں کہ نوازشریف صاحب کو انتخابات کے روز ہونے والی امکانی دھاندلی سے زیادہ تشویش اس حکومتی پیش بندی پر تھی جسے عرف عام میں قبل از انتخابات دھاندلی کہا جاتا ہے۔ یہ خبریں عام ہیں اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی بار بار اس جانب توجہ بھی دلا چکے ہیں کہ ایوان صدر سے اربوں روپے کی رقم میڈیا کے ارکان میں بانٹنے کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ انتخابات کے موقع پر حکمران جماعت کے حق میں فضا تیار کی جائے۔ اگرچہ میڈیا کے تمام لوگ اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھو رہے لیکن نوازشریف صاحب کے انداز تکلم سے کچھ اس طرح متشرح ہو رہا تھا کہ ان کے پاس ساری تفصیلات ہیں اور وہ ناموں سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔۔۔ وہیں میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کوئی بھی حکومت یا جماعت خواہ کتنا زرکثیر صرف کر لے اور کتنے ضمیر خرید کر اپنے حق میں پراپیگنڈا کرا لے، اگر زمین پر اس کی ساڑھے چار سال کی کارکردگی زبان حال سے پکارپکار کر اس کی ناکامی کا اشتہار دے رہی ہو تو زرخرید پراپیگنڈے سے زیادہ فرق نہیں پڑ سکتا۔۔۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ توجہ طلب ہے کہ اربوں روپے کی رقم جس کے بارے میں الزام ہے کہ حکومت اسے مرضی کے صاحبان زبان و قلم میں پانی کی طرح بہا رہی ہے وہ کہاں سے آئی۔۔۔ اور اس کی تجوریاں کس قاعدے، قانون اور سیاسی اخلاق کے تحت کھول دی گئی ہیں۔ کیا اس کا احتساب نہیں ہونا چاہئے۔
نگران انتظامیہ کے بارے میں نوازشریف نے پورے تحکم کے ساتھ کہا اسے آئینی تقاضوں کی پوری طرح پابندی کرتے ہوئے قائم ہونا چاہئے اور اس کی زندگی آئین میں طے شدہ مدت سے ایک روز بھی زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔۔۔ بنگلہ دیش ماڈل ایک پٹا ہوا تصور ہے۔ پاکستانی سیاست کے معروضی حقائق کے ساتھ اس کا یا اس سے ملتے جلتے تصور کا کوئی تعلق نہیں۔ صرف میڈیا میں اس کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ نوازشریف کی باتوں سے اندازہ ہوا وہ اسے طے شدہ معاملہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہوں گے۔ نگران انتظامیہ صرف اور صرف آئین میں درج کی گئی مدت تک اپنا کام کرے گی اور انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد ملک کا اقتدار نئی اور منتخب حکومت کے سپرد کر کے رخصت ہو جائے گی۔۔۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔۔۔ زعیم حزب اختلاف کا لب و لہجہ بتا رہا تھا کہ اگر کسی جانب سے ایسی انتظامیہ مسلط کرنے یا کسی بھی بہانے انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ اور ان کی جماعت عوام کی مدد سے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔۔۔ تاہم انہیں توقع تھی ایسا نہیں ہو گا۔۔۔ اس سوال کے جواب میں کہ پیپلز پارٹی کو اپنی عدم مقبولیت کی وجہ سے شکست نظر آئی تو شاید انتخابات کو ملتوی کرنے کی ٹھان لے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد کا خیال تھا جو جماعت حالات کو ساڑھے چار سال میں درست نہیں کر سکی بلکہ بگاڑ بہت بڑھا ہے، کیا وہ اسے مزید ایک دو سال میں درست کر لے گی؟ یہ ناممکن ہے۔ حکمران جماعت کی بھی عافیت اسی میں ہے کہ وقت پر انتخابات کرائے۔۔۔ نوازشریف کا یہ بھی خیال تھا زرداری صاحب اگر ایک سال قبل چناؤ کرا لیتے تو شاید صورت حال ان کے لیے تھوڑی سی بہتر ہوتی مگر اب تو انتخابات کے سوا کوئی چارہ نہیں۔۔۔ نوازشریف کی Body language سے جس طرح اگلے انتخابات میں فاتح کے طور پر ابھرنے کا پیغام مل رہا تھا اس پر برابر میں بیٹھے ہوئے محترم مجید نظامی نے سوال کیا، آپ سمجھتے ہیں کہ واقعی اکیلے سارا میدان مار لیں گے۔۔۔ جواب میں انہوں نے کہا ہم مختلف جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ہم خیال کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے مفاہمت ہو گئی ہے۔ اسی طرح کا معاملہ مسلم لیگ فنکشنل کے ساتھ ہوا ہے۔ اندرون سندھ دوسرے سیاسی عناصر کے ساتھ بھی بات چیت جاری ہے۔۔۔ ہم جماعت اسلامی کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا پسند کریں گے۔ یہ بہت اہم بات تھی۔ ملک بھر کے فہمیدہ حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر تمام راست فکر جماعتیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہو گئیں تو ووٹ تقسیم ہو جائے گا اور اس کا فائدہ ان عناصر کو پہنچے گا جو ریاست کو ناکامی کی جانب لے جا رہے ہیں چنانچہ نوازشریف کے بیان سے امید کی ایک کرن چمکی ہے کہ مثبت قومی و ملی سوچ رکھنے والی جماعتوں کے درمیان باقاعدہ اتحاد نہیں تو ایسی مفاہمت ضرور رو بہ عمل آ سکتی ہے جو ان لوگوں کی توقعات کو خاک میں ملا دے گی جو ووٹوں کے تقسیم ہو جانے میں اپنی کامیابی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
کرپشن کے ناسور سے کیونکر نجات ملے گی۔ اس بارے میں نوازشریف کے سامنے کچھ متعین اقدامات ہیں جنہیں وہ آئندہ برسراقتدار آتے ہی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور کا بھی 31 دسمبر تک اعلان کر دیا جائے گا جس میں سب سے زیادہ زور پاکستان کو اقتصادی گرداب سے نکالنے اور عوام کو درپیش نہایت تکلیف دہ مسائل سے چھٹکارا دلانے کا پروگرام منظرعام پر لایا جائے گا۔ کرپشن کے بارے میں موصوف کا کہنا تھا اس کا خاتمہ ہرگز ناممکنات میں سے نہیں۔۔۔ فنڈز کے استعمال کے لئے حکمرانوں کا صوابدیدی اختیار ختم کر دیا جائے تو ایک بڑا سوراخ بند ہو جائے گا۔ انکم ٹیکس کی شرح دس فیصد مقرر کر دی جائے تو ہر کوئی رضا و رغبت کے ساتھ اپنے حصے کا ٹیکس بھی ادا کرے گا اور خزانہ بھی بھر جائے گا۔۔۔ اس وقت زیادہ سے زیادہ شرح 35 فیصد ہے لیکن کون ادا کرتا ہے۔۔۔ اس سے ٹیکسوں کی وصولی کے نظام میں بے پناہ کرپشن کی راہیں کھلتی ہیں او رخزانے میں بہت تھوڑی رقم جاتی ہے۔۔۔ اس نظام کو چند برسوں کے لئے بدل دیا جائے تو دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد کا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ کرپشن کا ایک بڑا دروازہ بھی بند ہو جائے گا اور معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ اسی طرح کسٹم کی مد میں جمع کرنے والے محصولات کو بھی ایک ترغیبی نظام کے تحت لایا جا سکتا ہے۔ یوں حکومت اور محکمہ جاتی سطح پر بدعنوانی کا قلع قمع کرنے کے عمل کا مؤثر آغاز کیا جا سکتا ہے۔ نوازشریف کی رائے تھی کہ کئی ایک ممالک نے اس تجربے کو اپنایا، کامیاب رہے ، پھر ٹیکس کی شرح کو معمول کے طریق پر لے آئے۔۔۔ بہرصورت کرپشن کی آکاس بیل ہمارے شجر قومی کو مسلسل چوس رہی ہے، اس سے چھٹکارا پانے کے لئے جو تدبیر بھی کارگر ہو اسے ضرور آزمانا چاہئے۔ اس کے لئے یہ بھی اشد ضروری ہے کہ ملک میں احتساب کا کڑا نظام ہو، جو ناپید ہے اور معیشت کو دستاویز بند (Documents) کیا جائے جس کے بغیر کامیاب ملکوں میں کسی قسم کے لین دین کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن ہمارے یہاں اسے رائج کرنے کی نیم دلی کے ساتھ کوئی کوشش بھی ہوئی تو ناکام ثابت ہوئی۔