نوازشریف سے ملاقات کیلئے ڈی جی خان سے پیدل سفر کرکے آنیوالا کارکن مایوس

shaai1h122.jpg

خان شائستہ خان، جو بلوچستان کے ضلع لورالائی کے علاقے میختر سے تعلق رکھتے ہیں، مزدوری کے سلسلے میں ڈیرہ غازی خان میں مقیم ہیں۔ وہ 2012 سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ نظریاتی وابستگی کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اکیس سالہ شائستہ خان اپنے قائد نوازشریف سے نے 27 جنوری کی صبح ڈیرہ غازی خان سے لاہور تک کا 450 کلومیٹر طویل سفر پیدل طے کرنے کا عزم کیا۔وہ ایک اسکول بیگ میں چند جوڑے کپڑے اور ضروری سامان رکھ کر، وہ لاہور کی جانب روانہ ہو گئے۔

ان کا یہ 'پیدل مارچ' سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، موجودہ وزیراعظم شہباز شریف یا وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے ملاقات کے لیے تھا۔ تاہم، سختیوں کے باوجود وہ اپنی منزل تک پہنچنے کے باوجود اپنے پسندیدہ رہنماؤں سے ملاقات کیے بغیر واپس لوٹنے پر مجبور ہو گئے۔

شائستہ خان، جو ایک نجی بس سروس میں ملازمت کرتے تھے، کا کہنا ہے کہ جب 21 اکتوبر کو نواز شریف پاکستان واپس آئے تو وہ لاہور جانا چاہتے تھے، مگر چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے ملازمت چھوڑ دی۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے جلسوں میں شرکت کے لیے ملک بھر میں سفر کرتے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں وہ ایک اور بس سروس میں بطور منشی کام کر رہے تھے، مگر پیدل مارچ کی خاطر یہ ملازمت بھی ترک کر دی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایک موبائل فون تھا، جس پر وہ روزانہ اپنی ویڈیوز بناتے اور لوکیشن چیک کرکے راستہ طے کرتے کیونکہ انہیں لاہور جانے کا راستہ معلوم نہیں تھا۔

وہ 10 فروری کو لاہور پہنچے اور جاتی عمرہ جانے کی کوشش کی۔ راستے میں مختلف مقامات جیسے ملتان، ساہیوال اور میاں چنوں میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے ان کا استقبال کیا اور ہار پہنائے۔ تاہم، جاتی عمرہ کی سکیورٹی نے انہیں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔

ان کا کہنا تھا، ”میں نے درخواست کی کہ مجھے وہیں کھڑے رہنے دیا جائے تاکہ شاید میرے رہنما مجھ سے ملنے کا کہہ دیں، لیکن اجازت نہیں ملی، جس کے بعد میں ہوٹل میں قیام پذیر ہو گیا۔“

بعد ازاں، پولیس نے انہیں تھانہ سٹی رائیونڈ میں پوچھ گچھ کے لیے بلا لیا، لیکن ضلع لورالائی مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکریٹری حاجی مومن خان ناصر کی مداخلت پر انہیں رہا کر دیا گیا۔ شائستہ خان نے لاہور پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس بھی کی، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔

وہ کہتے ہیں، ”میں گاڑی میں بھی آ سکتا تھا، مگر پیدل مارچ کی دو وجوہات تھیں: ایک تو میں نواز شریف اور ان کی فیملی کی محبت میں یہ کرنا چاہتا تھا، اور دوسرا مجھے یقین تھا کہ اگر وہ میری محنت دیکھیں گے تو مجھ سے ملاقات کریں گے۔ مگر یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔“

ان کے مطابق، اس مارچ پر ان کے 90 ہزار روپے خرچ ہوئے، لیکن انہیں امید تھی کہ انہیں اپنے قائدین سے ملنے کا موقع ملے گا۔ تاہم، جب ان سے کہا گیا کہ کسی ایم این اے یا ایم پی اے سے رابطہ کریں، تو انہیں مایوسی ہوئی کہ ایک نظریاتی کارکن کو اس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے پہلے دن 30 اور دوسرے دن 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا، مگر پاؤں میں چھالے پڑنے کے باوجود وہ اپنے عزم پر قائم رہے۔

شائستہ خان اپنی منزل پر پہنچنے کے باوجود شریف فیملی سے ملاقات نہ کر پانے پر افسردہ ضرور ہیں، مگر وہ ہار ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”مجھے کوئی عہدہ یا وزارت نہیں چاہیے، میں صرف اپنے قائدین سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں دوبارہ پیدل مارچ کروں گا اور تب تک چلتا رہوں گا جب تک ملاقات نہ ہو جائے۔“
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

غریب کارکن کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ یہ گنجے اپنے خاندان کے لوگوں کے علاوہ کسی اور کو انسان ہی نہیں سمجھتے
 

Back
Top