عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے توہین عدالت کے جرم میں وزیراعظم کی نااہلی کے بعد ’’عدالتی فعالیت‘‘ طاقت بن گئی ہے۔ دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے عزم کی عدلیہ کی پشت پر قانون دانوں کی برادری، عوام اور سیاسی جماعتوں کی اکثریت کھڑی ہو گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس فیصلے سے متاثر ہونے والی پیپلز پارٹی کی قیادت اور ایک طبقہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرکے عدلیہ کو متنازع بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس طبقے کی نمائندگی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ عاصمہ جہانگیر نے کی ہے اور انہوں نے عدلیہ کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’جب عدلیہ ہی آمر ہو جائے تو حالات زیادہ بدتر ہو جاتے ہیں‘‘۔ ان تحفظات اور اعتزاضات کو دور کرنے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ عدلیہ آئین کی بالادستی پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھے اور انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے اس لیے کہ اب لوگوں کی نظر میں امید کی کرن صرف اور صرف عدلیہ ہے۔ دستور کا اوّلین تقاضہ یہ بھی ہے کہ اردو کو بہ حیثیت سرکاری زبان رائج کیا جائے۔ دستور کے اس تقاضے پر کوئی حکومت بھی عمل نہیں کرر ہی ہے۔ گزشتہ دنوں بحریہ ٹائون کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر ریاض ملک کے مقدمے کی سماعت کے دوران ریاض ملک نے یہ کہا تھا کہ انہیں انگریزی نہیں آتی اس لیے انہیں سارا مواد اردو میں فراہم کیا جائے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ملزم کو اپنے دفاع کا حق ملنا چاہیے۔ ریاض ملک کی درخواست ریکارڈ پر آگئی ہے۔ نفاذِ اردو دستوری تقاضا ہے اس لیے اس مرحلے پر نفاذ اردو کے دستوری تقاضے کو پورا کرنے کا آغاز بھی عدالت عظمیٰ کو کر دینا چاہیے۔ ریاض ملک کو تمام شواہد اردو میں بھی فراہم کیے جائیں اور ساتھ ہی عدالتی کارروائی اردو میں شروع کرنے کا آغاز کر دیا جائے۔