ماشاللہُ نعیم الحق صاحب اب اس تصویر کو بھی جھٹلا دیں گے،انٹرویو جو بنی گالہ میں جونتھ سٹیئل (گارڈین) اور (مڈل ایسٹ آئ) کے پیٹر اوبورن نے کیا۔نیازی صاحب کو انسٹالڈ پرائم منسٹر کہا اور ان کے خشوگی کے قتل پر خیالات کو ہائی لائٹ کیا ، اے تے بزتی جئی نہیں ہو گئ
https://twitter.com/x/status/1054746495549874176
https://twitter.com/x/status/1054731709357408261
This was the Interview
https://www.middleeasteye.net/news/imran-khan-pakistan-khashoggi-iran-saudi-arabia-syria-764307301
بی بی سی نے اس معاملے پر مزید لکھا کہ یہ فرمائشی انٹرویو تھا


https://twitter.com/x/status/1054746495549874176

https://twitter.com/x/status/1054731709357408261
This was the Interview
https://www.middleeasteye.net/news/imran-khan-pakistan-khashoggi-iran-saudi-arabia-syria-764307301

بی بی سی نے اس معاملے پر مزید لکھا کہ یہ فرمائشی انٹرویو تھا
دلچسپ بات یہ ہے کہ نعیم الحق جن صاحب کو عمران خان کا دوست جان اوزبورن کہہ رہے ہیں، اُن کا نام پیٹر اوبورن ہے۔ جنہوں نے پاکستانی کرکٹ کے بارے میں ایک مشہور کتاب ’دی وونڈڈ ٹائیگرز پاکستانی کرکٹ کی ایک تاریخ‘ کے نام سے تصنیف کی ہوئی ہے۔
مگر پاکستانی میڈیا پر سب نے پیٹر کو جان بنا کر ہی تبصرے کیے۔
اس پر عالیہ نے جواب دیا کہ 'جو آپ کہہ رہے ہیں یہ آپ کا موقف ہو سکتا ہے مگر مڈل ایسٹ آئی ایک انتہائی معتبر ادارہ ہے جس کے بہت قابلِ احترام ایڈیٹر ڈیوڈ ہرسٹ ہیں۔ میرے لیے یہ یقین کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ گفتگو نجی تھی مگر اس بات کا انکار نہیں کر رہے کہ جو گفتگو کے بارے میں بات لکھی گئی ہے وہ سچی ہے۔ تو فیک نیوز اس پر پوری نہیں اترتی۔'
ابھی یہ گفتگو پوری نہیں ہوئی تھی کہ برطانوی صحافی امینڈا کوکلی نے نعیم الحق کو ٹیگ کر کے لکھا 'میں اس سے اتفاق نہیں کرتی نعیم الحق۔ اتوار 14 تاریخ کو تین صحافیوں اور میں ایک آئرش صحافی پاکستان گئے ایک یوکے میڈیا وفد کا حصہ بن کر اور ہمیں وزیراعظم خان کے ساتھ انٹرویو کی پیشکش کی گئی۔ ’ہفتہ 20 تاریخ کو ہم وزیراعظم سے ملے اور ان سے ایک آن دی ریکارڈ انٹرویو کیا جو ایک گھنٹہ بیس منٹ تک چلا۔ آپ اس میں موجود تھے، فواد چوہدری موجود تھے اور سرفراز حسین بھی موجود تھے۔ تصویر ساتھ منسلک ہے۔‘
اس ٹویٹ کے ساتھ امینڈا نے اپنی عمران خان کے ساتھ مصاحفہ کرتے ہوئے کی تصویر شیئر کی جس میں نعیم الحق واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس کے بعد امینڈا نے ایک اور ٹویٹ لکھی 'تمام صحافیوں نے انٹرویو کو مختلف ڈیوائسز پر ریکارڈ کیا جسے ہر ایک جو کمرے میں موجود تھا اس نے دیکھا ہو گا۔ دو ڈیوائسز وزیراعظم کے سامنے موجود میز پر رکھی گئی تھیں۔ اس گفتگو کے آف دی ریکارڈ ہونے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔'
مگر نعیم الحق کہاں رکنے والے تھے۔ انہوں نے سب ٹیگ شدہ لوگوں کو چھوڑ کر امینڈا کو ٹویٹ میں مخاطب کر کے لکھا 'براہِ کرم بتائیں کہ کس نے انٹرویو آفر کیا؟ اور ہماری سمجھ کے مطابق جان اوزبورن اپنی کتاب پیش کرنے آرہے تھے چند دوسرے افراد کے ساتھ۔ نہ ہی وزیرِاطلاعات، نہ ہی معاونِ خصوصی برائے میڈیا اور نہ ہی مجھے اس انٹرویو کے بارے میں کچھ پتا تھا۔'
مگر کیا یہ بات درست ہے کہ حکومتی اہلکاروں کو اس انٹرویو کے بارے میں نہیں پتا تھا یا صرف یہ نہیں پتا تھا کہ کون آ رہا ہے؟ کیونکہ بی بی سی کے پاس دستیاب ایک دستاویز کے مطابق امینڈا مارگیرٹ کوکلی، سبلِ کِم سنگپتا اور جوناتھن سٹیل کو حکومتِ پاکستان کی سپانسرشپ پر 5 اور 9 اکتوبر کو پاکستان کا 15 دن کا ویزا جاری کیا گیا۔ جس میں لکھا کہ وہ ایک وفد کا حصہ ہیں۔
مگر پاکستانی میڈیا پر سب نے پیٹر کو جان بنا کر ہی تبصرے کیے۔
اس پر عالیہ نے جواب دیا کہ 'جو آپ کہہ رہے ہیں یہ آپ کا موقف ہو سکتا ہے مگر مڈل ایسٹ آئی ایک انتہائی معتبر ادارہ ہے جس کے بہت قابلِ احترام ایڈیٹر ڈیوڈ ہرسٹ ہیں۔ میرے لیے یہ یقین کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ گفتگو نجی تھی مگر اس بات کا انکار نہیں کر رہے کہ جو گفتگو کے بارے میں بات لکھی گئی ہے وہ سچی ہے۔ تو فیک نیوز اس پر پوری نہیں اترتی۔'
ابھی یہ گفتگو پوری نہیں ہوئی تھی کہ برطانوی صحافی امینڈا کوکلی نے نعیم الحق کو ٹیگ کر کے لکھا 'میں اس سے اتفاق نہیں کرتی نعیم الحق۔ اتوار 14 تاریخ کو تین صحافیوں اور میں ایک آئرش صحافی پاکستان گئے ایک یوکے میڈیا وفد کا حصہ بن کر اور ہمیں وزیراعظم خان کے ساتھ انٹرویو کی پیشکش کی گئی۔ ’ہفتہ 20 تاریخ کو ہم وزیراعظم سے ملے اور ان سے ایک آن دی ریکارڈ انٹرویو کیا جو ایک گھنٹہ بیس منٹ تک چلا۔ آپ اس میں موجود تھے، فواد چوہدری موجود تھے اور سرفراز حسین بھی موجود تھے۔ تصویر ساتھ منسلک ہے۔‘

اس ٹویٹ کے ساتھ امینڈا نے اپنی عمران خان کے ساتھ مصاحفہ کرتے ہوئے کی تصویر شیئر کی جس میں نعیم الحق واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس کے بعد امینڈا نے ایک اور ٹویٹ لکھی 'تمام صحافیوں نے انٹرویو کو مختلف ڈیوائسز پر ریکارڈ کیا جسے ہر ایک جو کمرے میں موجود تھا اس نے دیکھا ہو گا۔ دو ڈیوائسز وزیراعظم کے سامنے موجود میز پر رکھی گئی تھیں۔ اس گفتگو کے آف دی ریکارڈ ہونے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔'
مگر نعیم الحق کہاں رکنے والے تھے۔ انہوں نے سب ٹیگ شدہ لوگوں کو چھوڑ کر امینڈا کو ٹویٹ میں مخاطب کر کے لکھا 'براہِ کرم بتائیں کہ کس نے انٹرویو آفر کیا؟ اور ہماری سمجھ کے مطابق جان اوزبورن اپنی کتاب پیش کرنے آرہے تھے چند دوسرے افراد کے ساتھ۔ نہ ہی وزیرِاطلاعات، نہ ہی معاونِ خصوصی برائے میڈیا اور نہ ہی مجھے اس انٹرویو کے بارے میں کچھ پتا تھا۔'
مگر کیا یہ بات درست ہے کہ حکومتی اہلکاروں کو اس انٹرویو کے بارے میں نہیں پتا تھا یا صرف یہ نہیں پتا تھا کہ کون آ رہا ہے؟ کیونکہ بی بی سی کے پاس دستیاب ایک دستاویز کے مطابق امینڈا مارگیرٹ کوکلی، سبلِ کِم سنگپتا اور جوناتھن سٹیل کو حکومتِ پاکستان کی سپانسرشپ پر 5 اور 9 اکتوبر کو پاکستان کا 15 دن کا ویزا جاری کیا گیا۔ جس میں لکھا کہ وہ ایک وفد کا حصہ ہیں۔

- Featured Thumbs
- https://pbs.twimg.com/media/DqM2Ud1XQAEez4U.jpg
Last edited: