jani1
Chief Minister (5k+ posts)
نجُو شیٹی کی مُخبری۔۔
نجو پریم شیٹی ۔ مہاراجہ نرندر کُمار کے دربار میں بے چینی سے اُس کا مُنتظر تھا، کہ کب وہ آئے اور کب یہ اپنی ساری رپورٹیں اُس تک پہنچائے۔
مہاراج کی جے ہو۔ ۔مہاراج کی جے ہو۔ کی سداوں سے جیسے ہی دربار کے درودیوار گونج اُٹھے۔ اُس کی چاپلُوسانہ حس جاگ اُٹھی۔ وہ سمجھ گیا کہ اب کیا کرنا ہے۔
ابھی مہاراج تخت پر بیٹھا بھی نہیں تھا کہ یہ اُس کے پیروں میں ہاتھ جوڑے اُلٹے مُنہ لیٹ گیا۔
مہاراج کی جے ہو۔ اس نے بھی وہی گھسا پٹھا جُملہ دہرایا۔
پھر مہاراج کی اجازت سے سیدھا ہو کر سرجُھکائے اور ہاتھ باندھے کھڑا ہوگیا۔
بولو نجُو ۔ کیسے پدارے ہو۔ کیا سماچار ہیں ہمارے لیئے۔
نجُو کیا بولتا جو اُس کے پاس تھا اگر بتاتا تو مارا جاتا اور اگر چُھپاتا تو مارا جاتا۔۔
کیا ہوا۔ ایسے مہا بُت بن کے کیوں کھڑے ہو۔ کُچھ تو بولو۔ مہاراجہ نجُو پر گرم ہوکر بولا۔
۔ مہاراج کا سایا ہم پر رہے ۔ میں یہ کہنا چاہ رہا تھا۔ جس دیش پر آپ یلغار کرکے اُسے اپنا بنانا چاہتے ہیں ایسا شاید ممکن نہ ہو۔۔
کیا۔۔؟ کیا کہا تم نے ۔۔؟ کہاں گیا تیرا ابھیمان۔؟ تم تو ایک شکتی مان کی طرح سوچھتے تھے۔ پھر ایسا کیا ہوا اس تھوڑے سے سمے میں کہ تم اپنا مان سمان سب کُچھ اُسی دیش میں چھوڑ آئے جہاں تمہیں جاسُوسی کے لیئے بھیجا تھا ۔۔؟ مہاراجہ کو شاید نجو کی بات دل پرکسی تیر کی طرح لگی جس کے جواب میں ایک ہی سانس میں اُس نے اُردو اور ہندی کی کھچڑی نجُو کے مُنہ پر ماری۔
مہاراج۔ آپ ہی بتاو ناں۔ جس دیش کو پچھلے ستر سال سے دیمک لگا ہوا ہو۔ جس کے ایک ایک ناگرگ کا خون روزانہ نچوڑا جائے مگر وہ پھر بھی کھڑا رہے۔ جس کا پردھان منتری اور اُس کا ویر روزانہ گاو ماتھا کے چرن کھائیں ۔ بغیر ڈھکار کے۔ اور بعد میں اُس چرن کی شکتی سے اُس دیش کے ہر ادارے کے ساتھ بالادکار کرے۔ اور اُس بالادکار سے جنم لینے والے ہر قسم کے ناجائز دھن پر اپنا حق جتائیں۔ وہ دھن اتنا ہو جس سے چھوٹے چھوٹے دیش خریدے جاسکیں ۔
نجُو یہاں تک ایک ہی سانس میں بولا۔اور سانس بحال کرنے کے بعد پھر بولنے لگا۔۔
مہاراج۔ جہاں یہ سب کُچھ اور بہت کُچھ اُس دیش کا کُچھ نہ بگھاڑ سکیں۔ اُس کا آپ کیا بگھاڑ پائیں گے۔؟
بس کردے۔ نجُو۔ تُو نے تو ہمارا کلیجہ ہلا ڈالا۔ جس دیش کو اتنے کھٹن سے ۔ اتنا بلی دان دے کر اور خون کی ہولی کھیل کر پایا۔ اُس کے یہ بھاگے ہیں۔ ان پاپیوں کو بلی کی سُندھرتا کا اگر پتہ ہوتا تو یہ کھبی بھی ایسا نہ کرتے۔ جانے کن شبتوں میں تمہیں ہم دھنے وار کہیں ۔ کہ تمہارے ان وچاروں اور اس سماچار کے کارن ہماری سینا اور سینا پتی اس یلغار میں جھونکے جانے سے بچ گئے۔
مہاراجہ نرندر کُمار ۔ جو کافی خاموشی سے نجُو کی مُخبری سُن رہا تھا۔ جزبات سے بھرے آواز میں بول پڑا۔
مہاراجہ جی۔ آپ کا دھنے وار۔ میں تو سمجھا تھا کہ آج میرا پرلوگ سُدھارنے کا دن آگیا۔ آپ جیسے مہاپُرش اس سنسار میں بہت کم ہیں۔ ایک آخری بات ۔ وہاں کے پردھان منتری اور اُس کا پریوار نوٹنکی میں بھی سب سے آگے ہے۔ کھبی اُس کا ویر تو کھبی سپُتری۔ ۔
اپنی رپورٹس پیش کرنے کے بعد نجُو مہاراجہ کی اجازت سے جاتے ہوئے سوچھنے لگا کہ آج کیا ہوگیا۔ اُلٹی گنگا کیوں بہنے لگی۔ کیونکہ وہ سمجھا تھا کہ اس رپورٹ سے مہاراجہ اس کا سر اس کے کندھوں پر نہیں رہنے دیگا۔
مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ مہاراجہ ویسے ہی مہاراجہ نہیں بنا تھا۔ دربار میں اپنے درباریوں کے آگے خُود کو ماہان بھی تو ثابت کرنا تھا۔ اسی لیئے نجُو سے ڈرامائی انداز میں بات کی۔ وہ نجُو کے علاوہ اپنی طافوکالی چرن ۔ سانپ حقانی و ناگن جہانگیر سے معلُومات اکھٹی کر چُکا تھا۔ کہ اس مُلک کو فتح کر نا اُس کے لیئے مُشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ اس لیئے مہاراجہ نے زمین کی جگہ انسانوں پرانویسٹ کرنے والے فارمُولے میں عافیت جانی تھی۔ اور اُن انسانوں میں اُس مُلک کی پردھان منتری نُوری نت پہلے نمبر پر تھی۔۔
نجو پریم شیٹی ۔ مہاراجہ نرندر کُمار کے دربار میں بے چینی سے اُس کا مُنتظر تھا، کہ کب وہ آئے اور کب یہ اپنی ساری رپورٹیں اُس تک پہنچائے۔
مہاراج کی جے ہو۔ ۔مہاراج کی جے ہو۔ کی سداوں سے جیسے ہی دربار کے درودیوار گونج اُٹھے۔ اُس کی چاپلُوسانہ حس جاگ اُٹھی۔ وہ سمجھ گیا کہ اب کیا کرنا ہے۔
ابھی مہاراج تخت پر بیٹھا بھی نہیں تھا کہ یہ اُس کے پیروں میں ہاتھ جوڑے اُلٹے مُنہ لیٹ گیا۔
مہاراج کی جے ہو۔ اس نے بھی وہی گھسا پٹھا جُملہ دہرایا۔
پھر مہاراج کی اجازت سے سیدھا ہو کر سرجُھکائے اور ہاتھ باندھے کھڑا ہوگیا۔
بولو نجُو ۔ کیسے پدارے ہو۔ کیا سماچار ہیں ہمارے لیئے۔
نجُو کیا بولتا جو اُس کے پاس تھا اگر بتاتا تو مارا جاتا اور اگر چُھپاتا تو مارا جاتا۔۔
کیا ہوا۔ ایسے مہا بُت بن کے کیوں کھڑے ہو۔ کُچھ تو بولو۔ مہاراجہ نجُو پر گرم ہوکر بولا۔
۔ مہاراج کا سایا ہم پر رہے ۔ میں یہ کہنا چاہ رہا تھا۔ جس دیش پر آپ یلغار کرکے اُسے اپنا بنانا چاہتے ہیں ایسا شاید ممکن نہ ہو۔۔
کیا۔۔؟ کیا کہا تم نے ۔۔؟ کہاں گیا تیرا ابھیمان۔؟ تم تو ایک شکتی مان کی طرح سوچھتے تھے۔ پھر ایسا کیا ہوا اس تھوڑے سے سمے میں کہ تم اپنا مان سمان سب کُچھ اُسی دیش میں چھوڑ آئے جہاں تمہیں جاسُوسی کے لیئے بھیجا تھا ۔۔؟ مہاراجہ کو شاید نجو کی بات دل پرکسی تیر کی طرح لگی جس کے جواب میں ایک ہی سانس میں اُس نے اُردو اور ہندی کی کھچڑی نجُو کے مُنہ پر ماری۔
مہاراج۔ آپ ہی بتاو ناں۔ جس دیش کو پچھلے ستر سال سے دیمک لگا ہوا ہو۔ جس کے ایک ایک ناگرگ کا خون روزانہ نچوڑا جائے مگر وہ پھر بھی کھڑا رہے۔ جس کا پردھان منتری اور اُس کا ویر روزانہ گاو ماتھا کے چرن کھائیں ۔ بغیر ڈھکار کے۔ اور بعد میں اُس چرن کی شکتی سے اُس دیش کے ہر ادارے کے ساتھ بالادکار کرے۔ اور اُس بالادکار سے جنم لینے والے ہر قسم کے ناجائز دھن پر اپنا حق جتائیں۔ وہ دھن اتنا ہو جس سے چھوٹے چھوٹے دیش خریدے جاسکیں ۔
نجُو یہاں تک ایک ہی سانس میں بولا۔اور سانس بحال کرنے کے بعد پھر بولنے لگا۔۔
مہاراج۔ جہاں یہ سب کُچھ اور بہت کُچھ اُس دیش کا کُچھ نہ بگھاڑ سکیں۔ اُس کا آپ کیا بگھاڑ پائیں گے۔؟
بس کردے۔ نجُو۔ تُو نے تو ہمارا کلیجہ ہلا ڈالا۔ جس دیش کو اتنے کھٹن سے ۔ اتنا بلی دان دے کر اور خون کی ہولی کھیل کر پایا۔ اُس کے یہ بھاگے ہیں۔ ان پاپیوں کو بلی کی سُندھرتا کا اگر پتہ ہوتا تو یہ کھبی بھی ایسا نہ کرتے۔ جانے کن شبتوں میں تمہیں ہم دھنے وار کہیں ۔ کہ تمہارے ان وچاروں اور اس سماچار کے کارن ہماری سینا اور سینا پتی اس یلغار میں جھونکے جانے سے بچ گئے۔
مہاراجہ نرندر کُمار ۔ جو کافی خاموشی سے نجُو کی مُخبری سُن رہا تھا۔ جزبات سے بھرے آواز میں بول پڑا۔
مہاراجہ جی۔ آپ کا دھنے وار۔ میں تو سمجھا تھا کہ آج میرا پرلوگ سُدھارنے کا دن آگیا۔ آپ جیسے مہاپُرش اس سنسار میں بہت کم ہیں۔ ایک آخری بات ۔ وہاں کے پردھان منتری اور اُس کا پریوار نوٹنکی میں بھی سب سے آگے ہے۔ کھبی اُس کا ویر تو کھبی سپُتری۔ ۔
اپنی رپورٹس پیش کرنے کے بعد نجُو مہاراجہ کی اجازت سے جاتے ہوئے سوچھنے لگا کہ آج کیا ہوگیا۔ اُلٹی گنگا کیوں بہنے لگی۔ کیونکہ وہ سمجھا تھا کہ اس رپورٹ سے مہاراجہ اس کا سر اس کے کندھوں پر نہیں رہنے دیگا۔
مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ مہاراجہ ویسے ہی مہاراجہ نہیں بنا تھا۔ دربار میں اپنے درباریوں کے آگے خُود کو ماہان بھی تو ثابت کرنا تھا۔ اسی لیئے نجُو سے ڈرامائی انداز میں بات کی۔ وہ نجُو کے علاوہ اپنی طافوکالی چرن ۔ سانپ حقانی و ناگن جہانگیر سے معلُومات اکھٹی کر چُکا تھا۔ کہ اس مُلک کو فتح کر نا اُس کے لیئے مُشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ اس لیئے مہاراجہ نے زمین کی جگہ انسانوں پرانویسٹ کرنے والے فارمُولے میں عافیت جانی تھی۔ اور اُن انسانوں میں اُس مُلک کی پردھان منتری نُوری نت پہلے نمبر پر تھی۔۔
Last edited: