منکرینِ بائیبل اور نائن زیرو کے ماڈرن سدوم
اہلَ مغرب انجیل کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں مگر اس قرآن کو جلاتے ہیں جو کل انبیاء کی حرمت کا امین اور قدرت کے ازلی و ابدی قوانین سے انحراف کرنے والوں کیلئے تنبیہ و ہدایت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ اپنی بائیبل کے اسباق بھلا کر گمراہی کے راستے پر گامزن ہیں ، ہم بھی قرآن بھلا کر ان کا قابل قبول برانڈ اسلام اپنائیں اور ان کے مادر پدر آزاد ہم نوالہ ہم پیالہ بن جائیں۔ انہوں نے اپنے ہر پاپ کو پُن بنانے اور پیغامبروں پر ناشائستہ الزامات لگانے کیلئے انجیل میں اپنی من و مرضی سے تبدلیاں کیں۔ ان بدبختوں نے ہم جنس پرستی سے روکنے والے سیدنا لوط علیہ السلام پر راست باز بیٹیوں سے گناہ گاری تک کا دجالی الزام لگا دیا۔ مگر وہ ہم جنس پرستی کی پراگندگی قانونی حیثیت قرار دینے کیلئے اس پلید الفطرت بد فعلی کو انسانیت کی فلاح اور سکون آور قرار دیتے ہوئے یہ بھول گئے کہ اسی مقدس بائبل کے بابِ پیدائش باب کی انیسویں آیت میں ہم جنس پرستی کو قوانین قدرت سے شدید متصادم ” حرکات گناہ ” کہا گیا ہے۔ اسی کلام مقدس میں مغرب کے عقل مندوں اور ان کے حواری گمراہوں کیلئے یہ کھلا اعلان ہے کہ خدا نے ہم جنس پرستوں كو ” ناپسنديده عقل كے حوالے كرديا ” ۔
ناموس انبیاء کے عدو اور جنسی گمراہی میں غرق مغرب اور ان کے سیکولر بغل بچوں کو قرآن کے امر بالمعروف اور نہی عنی المنکر سے عداوت و بغاوت ہے تو ان کیلئے معتبر و مقدس انجیل بھی كرنتھيوں کے چھٹے باب کی نویں آيت میں یہ چشم کشا اعلان كرتی ہے كه ہم جنس پرست ” بدكار ” خدا كی بادشاہی كے وارث نه ہوں گے ” ۔ ثابت ہوتا ہے کہ آئرلینڈ کے حالیہ ریفرنڈم میں ہم جنس پرستی کے حمایتی گروہ کا یہ خودساختہ دعوی انتہائی کاذبانہ تھا کہ یسوع مسیح نے ہم جنس پرستی کی کبھی مخالفت نہیں کی تھی۔ مقدس انجیل کے احکام کے باوجود ہم جنس پرستی کی تائید کرنے والے عیسائیوں پر لازم ہے کہ وہ یا خود کو منکرینِ انجیل و مسیح مان کر اپنے قومی پرچموں سے صلیب کی مذہبی علامت ختم کریں، یا پھر کھلے دل سے یہ تسلیم کریں کہ ہم جنس پرستی کی مخالفت دراصل سنت الہیہ و شیوہء پیغمبراں ہے، اور یہ صدائے حق، قرآن حکیم اور انجیل مقدس کا مشترکہ فلسفہ و بیان ہے۔۔
سورۃ الاعراف میں بیان ہے کہ ” لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بناکر بھیجا ۔ پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا ، کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہوکہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔ مگر اس قوم کا جواب تھا کہ ، نکالو ان لوگوں کو اپنی بستیوں سے، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں “۔ سیدنا لوط کی دعوتِ حق کے باعث قوم انہیں جلا وطن کرنے پر تیار ہو گئی۔ جبکہ آج بھی گمراہوں کی طرف سے روکنے والوں کیلئے کچھ ایسے ہی طعن و دشنام ہوتے ہیں جو قو، لوط کے حضرت لوط اور ان کے حواریوں کیلئے تھے۔ اور انجیل کے وارث گورے ہم جنس پرستی کی مخالفت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ ظلم و جبر گردانتے ہیں۔ مشرف دور میں متحدہ کی زیر سرپرستی ہم جنس پرست پریڈ کا اہتمام ہوا تو اس کیخلاف آواز اٹھانے والوں نے بھی اپنا حق ادا کیا، لیکن دوسری طرف مغربی پریس نے ہم جنس پرستی کیخلاف آواز پر تنقید میں لکھا کہ، ” بھارت میں ہم جنس پرستوں کے تعلقات کو قانونی حیثیت ملنے کے بعد مذہبی انتہا پسندوں کی جکڑ میں آئے ہوئے پاکستانی ہم جنس پرستوں کو بھی حوصلہ ملا ہے “۔
بی بی سی کے الفاظ سے مغرب کی غلاظت آلودہ سوچ کا اندازہہوتا ہے، جو اس بدفعلی کو روکنا ظلم اور مذہبی انتہا پسندی سمجھتا ہے۔ اگر ہم جنس پرستی کی مخالفت مذہبی انتہا پسندی ہے تو پھر گوروں کو تسلیم کرنا ہو گا کہ اسے گناہ گاری قرار دینے والی انجیل بھی معاذ اللہ مذہبی انتہا پسندی ہے۔ گورے انجیل میں دوسری خود ساختہ تبدیلیوں اور تحریفوں کی طرح وہ تمام آیات بھی کیوں حذف نہیں کرتے جن میں ہم جنس پرستی کی کھلی ممانعت موجود ہے۔
بی بی سی نے لکھا کہ ” کراچی کے ہم جنس پرستوں نے گزشتہ دنوں شہر کی مصروف ترین سڑک شاہراہ فیصل پر پریڈ بھی کی۔ ہم جنس پرستوں کی نشانی، آٹھ رنگوں والی ٹی شرٹس پہنے ہوئے ان نوجوانوں کی عام لوگ تو شناخت نہیں کر سکے مگر وہ لوگ انہیں دیکھ کر فتح کا نشان بناتے رہے جو انہیں سمجھتے ہیں یا ان کے قریب ہیں “۔ بی بی سی کیلئے یہ لکھنا معیوب ہو گا لیکن مجھے یہ حقیقت بتانے میں کوئی قباحت نہیں کہ ان ہم جنس پرستوں کیلئے وکٹری کا نشان بنانے والے، دراصل متحدہ مافیہ ہیڈ کواٹرز نائن زیرو کے وہی لوگ تھے جو کراچی میں قادیانیت کی شیطانی تبلیغ اور ہم جنس پرست کلبوں کے سرپرست ہیں. اس بات کا اندازہ لگانے کیلئے کہ مغرب و سامراج کا پسندیدہ اسلام کیا ہے، یہ اپنے دجالی مقاصد کیلئے کیا کیا حربے استعمال کرتے ہیں اور کیسے کیسے ننگِ دین لوگ ان کیلئے استعمال ہوتے ہیں، بی بی سی پر شائع ہونے والا یہ آرٹیکل دیکھئے۔ اس تحریر میں سعودیہ سے امریکہ منتقل ہونے والے ایک جعلی امام داعیہ عبداللہ کے بارے بتایا گیا کہ وہ واشنگٹن میں ہم جنس پرستوں کا نکاح پڑھواتا ہے۔ اس دین فروش امریکی ایجنٹ جعلی مولوی عبدللہ کا اقرار ہے کہ اس نے خود بھی ایک مرد سے شادی کر رکھی ہے اور وہ ہم جنس پرستوں کے درمیان نکاح پڑھاتا ہے۔ نام نہاد امریکی اسلام کے علمبردار اس ملعون کا شیطانی دعوی ہے کہ قرآن میں ہم جنس پرستوں کے نکاح کی ممانعت کہیں نہیں ہے۔۔
اٹل حقیقت ہے کہ قوانین قدرت ازل سے ابد تک ایک جیسے ہیں، ان میں کبھی کوئی تبدیلی آئی نہ آئے گی۔ سلطنت روم کی تنزلی کی علامت ، پومپیائی تہذیب کے لوگ بھی قوم لوط کی طرح جنسی بے جنسی بدفعلی اور غیر فطری فعل میں مبتلا تھے، لہذا ان کا انجام بد بھی قوم لوطؑ جیسا ہی ہوا تھا۔ قوم لوط کے گمراہوں کا شہر سدوم آگ اور پتھروں کی بارش سے نیست و نابود کیا گیا ۔ تو پومپائی کی بستی پر ویسو ویئس پہاڑ سے پھوٹنے والے لاوے اور گرم راکھ نے اس شہر کو موت کی وادی بنا دیا۔ یہ بھیانک حادثہ اتنی تیزی سے رونما ہوا کہ شہر کی ہر چیز اور ہر باشندہ پلک جھپکتے میں اس لاوے میں زندہ حنوط ہو کر رہ گیا۔ یہ لوگ آج تک اسی حالت میں پڑے ہیں، جیسے کہ دوہزار سال پہلے موت کے مونہہ میں جاتے وقت تھے۔ گویا زمانوں کو عبرت دینے کیلئے وہ وقت اور موت کے مناظر ہمیشہ کیلئے تھم گیے ہیں۔ لیکن تعجب ہے کہ اس کے باوجود، جہاں کبھی پومپیائی آباد تھا، اس کے آس پاس کے لوگوں نے اب تک کوئی خاص عبرت نہیں پکڑی ہے۔ نیپلس میں عیاشی اور ہم جنس پرستی کی اجارہ داری پومپیائی کے گمراہوں کی شہوت پرستی سے مختلف نہیں۔ نزدیک ہی کیپری کا جزیرہ سیاحوں کیلئے اشتہارات میں ’’ ہم جنس پرستوں کی جنت‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ طوفانِ غلاظت صرف کیپری یا اٹلی تک ہی محدود ہیں، بلکہ قریب قریب تمام مغربی دنیا ، مشرق بعید اور بھارت کی یہی صورتحال ہوتی جارہی ہے۔
امریکی ریاستوں میں یم جنس پرست شادیوں کے دجالی قوانین اور آئرلینڈ میں ہم جنس پرست شادیوں پر ریفرنڈم میں اعلی اور مہذب گوروں کا اپنے ہی مذہب اور انجیلی اسباق کیخلاف کھلی بغاوت کا اعلان گواہ ہے کہ ، مغرب و سامراج میں اخلاقی زوال پذیری ہمہ وقت روبہ عمل ہے۔ آج مغربی گمراہ اور ان کے مشرقی روشن خیال حواری ، ماضی کی تباہ شدہ، معدوم و معتوب تہذیبوں سےعبرت حاصل کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔
اور یہی امریکہ اور اس کے حواری مغرب کے تاریک الفطرت صاف ستھرے لوگوں کی عین “روشن خیالی” ہے۔ تاریخ تہذیب اور داستانِ ثقافت و سیاست گواہ ہیں کہ ہم جنس پرستی اور اس کے علمبرداروں کا عنصر جس ملک و تہذیب ، جماعت یا گروہ میں بھی شامل ہوا وہ قدرت کے انتقام اور ناکامیوں کی داستاں ٹھہری ۔ قوم لوط پر آگ اور پتھروں کی بارش، پومپیائی شہر کا آتش فشانی لاوے میں غرق ہونا، ہم جنس پرست تہذیب کے امریکہ میں ہولناک طوفان ، فوزیہ قصوری جیسے ہم جنس پرستانہ عناصر کی موجودگی کی نحوست سے سونامی لیگ کی ناکامیاں، قوانین قدرت سے ٹکرانے والے گمراہوں کی بربادیوں کی نہ رکنے والی اندوہناک کہانی ہے۔
اہلَ مغرب انجیل کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں مگر اس قرآن کو جلاتے ہیں جو کل انبیاء کی حرمت کا امین اور قدرت کے ازلی و ابدی قوانین سے انحراف کرنے والوں کیلئے تنبیہ و ہدایت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ اپنی بائیبل کے اسباق بھلا کر گمراہی کے راستے پر گامزن ہیں ، ہم بھی قرآن بھلا کر ان کا قابل قبول برانڈ اسلام اپنائیں اور ان کے مادر پدر آزاد ہم نوالہ ہم پیالہ بن جائیں۔ انہوں نے اپنے ہر پاپ کو پُن بنانے اور پیغامبروں پر ناشائستہ الزامات لگانے کیلئے انجیل میں اپنی من و مرضی سے تبدلیاں کیں۔ ان بدبختوں نے ہم جنس پرستی سے روکنے والے سیدنا لوط علیہ السلام پر راست باز بیٹیوں سے گناہ گاری تک کا دجالی الزام لگا دیا۔ مگر وہ ہم جنس پرستی کی پراگندگی قانونی حیثیت قرار دینے کیلئے اس پلید الفطرت بد فعلی کو انسانیت کی فلاح اور سکون آور قرار دیتے ہوئے یہ بھول گئے کہ اسی مقدس بائبل کے بابِ پیدائش باب کی انیسویں آیت میں ہم جنس پرستی کو قوانین قدرت سے شدید متصادم ” حرکات گناہ ” کہا گیا ہے۔ اسی کلام مقدس میں مغرب کے عقل مندوں اور ان کے حواری گمراہوں کیلئے یہ کھلا اعلان ہے کہ خدا نے ہم جنس پرستوں كو ” ناپسنديده عقل كے حوالے كرديا ” ۔
ناموس انبیاء کے عدو اور جنسی گمراہی میں غرق مغرب اور ان کے سیکولر بغل بچوں کو قرآن کے امر بالمعروف اور نہی عنی المنکر سے عداوت و بغاوت ہے تو ان کیلئے معتبر و مقدس انجیل بھی كرنتھيوں کے چھٹے باب کی نویں آيت میں یہ چشم کشا اعلان كرتی ہے كه ہم جنس پرست ” بدكار ” خدا كی بادشاہی كے وارث نه ہوں گے ” ۔ ثابت ہوتا ہے کہ آئرلینڈ کے حالیہ ریفرنڈم میں ہم جنس پرستی کے حمایتی گروہ کا یہ خودساختہ دعوی انتہائی کاذبانہ تھا کہ یسوع مسیح نے ہم جنس پرستی کی کبھی مخالفت نہیں کی تھی۔ مقدس انجیل کے احکام کے باوجود ہم جنس پرستی کی تائید کرنے والے عیسائیوں پر لازم ہے کہ وہ یا خود کو منکرینِ انجیل و مسیح مان کر اپنے قومی پرچموں سے صلیب کی مذہبی علامت ختم کریں، یا پھر کھلے دل سے یہ تسلیم کریں کہ ہم جنس پرستی کی مخالفت دراصل سنت الہیہ و شیوہء پیغمبراں ہے، اور یہ صدائے حق، قرآن حکیم اور انجیل مقدس کا مشترکہ فلسفہ و بیان ہے۔۔
سورۃ الاعراف میں بیان ہے کہ ” لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بناکر بھیجا ۔ پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا ، کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہوکہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔ مگر اس قوم کا جواب تھا کہ ، نکالو ان لوگوں کو اپنی بستیوں سے، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں “۔ سیدنا لوط کی دعوتِ حق کے باعث قوم انہیں جلا وطن کرنے پر تیار ہو گئی۔ جبکہ آج بھی گمراہوں کی طرف سے روکنے والوں کیلئے کچھ ایسے ہی طعن و دشنام ہوتے ہیں جو قو، لوط کے حضرت لوط اور ان کے حواریوں کیلئے تھے۔ اور انجیل کے وارث گورے ہم جنس پرستی کی مخالفت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ ظلم و جبر گردانتے ہیں۔ مشرف دور میں متحدہ کی زیر سرپرستی ہم جنس پرست پریڈ کا اہتمام ہوا تو اس کیخلاف آواز اٹھانے والوں نے بھی اپنا حق ادا کیا، لیکن دوسری طرف مغربی پریس نے ہم جنس پرستی کیخلاف آواز پر تنقید میں لکھا کہ، ” بھارت میں ہم جنس پرستوں کے تعلقات کو قانونی حیثیت ملنے کے بعد مذہبی انتہا پسندوں کی جکڑ میں آئے ہوئے پاکستانی ہم جنس پرستوں کو بھی حوصلہ ملا ہے “۔
بی بی سی کے الفاظ سے مغرب کی غلاظت آلودہ سوچ کا اندازہہوتا ہے، جو اس بدفعلی کو روکنا ظلم اور مذہبی انتہا پسندی سمجھتا ہے۔ اگر ہم جنس پرستی کی مخالفت مذہبی انتہا پسندی ہے تو پھر گوروں کو تسلیم کرنا ہو گا کہ اسے گناہ گاری قرار دینے والی انجیل بھی معاذ اللہ مذہبی انتہا پسندی ہے۔ گورے انجیل میں دوسری خود ساختہ تبدیلیوں اور تحریفوں کی طرح وہ تمام آیات بھی کیوں حذف نہیں کرتے جن میں ہم جنس پرستی کی کھلی ممانعت موجود ہے۔
بی بی سی نے لکھا کہ ” کراچی کے ہم جنس پرستوں نے گزشتہ دنوں شہر کی مصروف ترین سڑک شاہراہ فیصل پر پریڈ بھی کی۔ ہم جنس پرستوں کی نشانی، آٹھ رنگوں والی ٹی شرٹس پہنے ہوئے ان نوجوانوں کی عام لوگ تو شناخت نہیں کر سکے مگر وہ لوگ انہیں دیکھ کر فتح کا نشان بناتے رہے جو انہیں سمجھتے ہیں یا ان کے قریب ہیں “۔ بی بی سی کیلئے یہ لکھنا معیوب ہو گا لیکن مجھے یہ حقیقت بتانے میں کوئی قباحت نہیں کہ ان ہم جنس پرستوں کیلئے وکٹری کا نشان بنانے والے، دراصل متحدہ مافیہ ہیڈ کواٹرز نائن زیرو کے وہی لوگ تھے جو کراچی میں قادیانیت کی شیطانی تبلیغ اور ہم جنس پرست کلبوں کے سرپرست ہیں. اس بات کا اندازہ لگانے کیلئے کہ مغرب و سامراج کا پسندیدہ اسلام کیا ہے، یہ اپنے دجالی مقاصد کیلئے کیا کیا حربے استعمال کرتے ہیں اور کیسے کیسے ننگِ دین لوگ ان کیلئے استعمال ہوتے ہیں، بی بی سی پر شائع ہونے والا یہ آرٹیکل دیکھئے۔ اس تحریر میں سعودیہ سے امریکہ منتقل ہونے والے ایک جعلی امام داعیہ عبداللہ کے بارے بتایا گیا کہ وہ واشنگٹن میں ہم جنس پرستوں کا نکاح پڑھواتا ہے۔ اس دین فروش امریکی ایجنٹ جعلی مولوی عبدللہ کا اقرار ہے کہ اس نے خود بھی ایک مرد سے شادی کر رکھی ہے اور وہ ہم جنس پرستوں کے درمیان نکاح پڑھاتا ہے۔ نام نہاد امریکی اسلام کے علمبردار اس ملعون کا شیطانی دعوی ہے کہ قرآن میں ہم جنس پرستوں کے نکاح کی ممانعت کہیں نہیں ہے۔۔
اٹل حقیقت ہے کہ قوانین قدرت ازل سے ابد تک ایک جیسے ہیں، ان میں کبھی کوئی تبدیلی آئی نہ آئے گی۔ سلطنت روم کی تنزلی کی علامت ، پومپیائی تہذیب کے لوگ بھی قوم لوط کی طرح جنسی بے جنسی بدفعلی اور غیر فطری فعل میں مبتلا تھے، لہذا ان کا انجام بد بھی قوم لوطؑ جیسا ہی ہوا تھا۔ قوم لوط کے گمراہوں کا شہر سدوم آگ اور پتھروں کی بارش سے نیست و نابود کیا گیا ۔ تو پومپائی کی بستی پر ویسو ویئس پہاڑ سے پھوٹنے والے لاوے اور گرم راکھ نے اس شہر کو موت کی وادی بنا دیا۔ یہ بھیانک حادثہ اتنی تیزی سے رونما ہوا کہ شہر کی ہر چیز اور ہر باشندہ پلک جھپکتے میں اس لاوے میں زندہ حنوط ہو کر رہ گیا۔ یہ لوگ آج تک اسی حالت میں پڑے ہیں، جیسے کہ دوہزار سال پہلے موت کے مونہہ میں جاتے وقت تھے۔ گویا زمانوں کو عبرت دینے کیلئے وہ وقت اور موت کے مناظر ہمیشہ کیلئے تھم گیے ہیں۔ لیکن تعجب ہے کہ اس کے باوجود، جہاں کبھی پومپیائی آباد تھا، اس کے آس پاس کے لوگوں نے اب تک کوئی خاص عبرت نہیں پکڑی ہے۔ نیپلس میں عیاشی اور ہم جنس پرستی کی اجارہ داری پومپیائی کے گمراہوں کی شہوت پرستی سے مختلف نہیں۔ نزدیک ہی کیپری کا جزیرہ سیاحوں کیلئے اشتہارات میں ’’ ہم جنس پرستوں کی جنت‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ طوفانِ غلاظت صرف کیپری یا اٹلی تک ہی محدود ہیں، بلکہ قریب قریب تمام مغربی دنیا ، مشرق بعید اور بھارت کی یہی صورتحال ہوتی جارہی ہے۔
امریکی ریاستوں میں یم جنس پرست شادیوں کے دجالی قوانین اور آئرلینڈ میں ہم جنس پرست شادیوں پر ریفرنڈم میں اعلی اور مہذب گوروں کا اپنے ہی مذہب اور انجیلی اسباق کیخلاف کھلی بغاوت کا اعلان گواہ ہے کہ ، مغرب و سامراج میں اخلاقی زوال پذیری ہمہ وقت روبہ عمل ہے۔ آج مغربی گمراہ اور ان کے مشرقی روشن خیال حواری ، ماضی کی تباہ شدہ، معدوم و معتوب تہذیبوں سےعبرت حاصل کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔
اور یہی امریکہ اور اس کے حواری مغرب کے تاریک الفطرت صاف ستھرے لوگوں کی عین “روشن خیالی” ہے۔ تاریخ تہذیب اور داستانِ ثقافت و سیاست گواہ ہیں کہ ہم جنس پرستی اور اس کے علمبرداروں کا عنصر جس ملک و تہذیب ، جماعت یا گروہ میں بھی شامل ہوا وہ قدرت کے انتقام اور ناکامیوں کی داستاں ٹھہری ۔ قوم لوط پر آگ اور پتھروں کی بارش، پومپیائی شہر کا آتش فشانی لاوے میں غرق ہونا، ہم جنس پرست تہذیب کے امریکہ میں ہولناک طوفان ، فوزیہ قصوری جیسے ہم جنس پرستانہ عناصر کی موجودگی کی نحوست سے سونامی لیگ کی ناکامیاں، قوانین قدرت سے ٹکرانے والے گمراہوں کی بربادیوں کی نہ رکنے والی اندوہناک کہانی ہے۔
آئرلینڈ نے قدرت کو للکار کر اپنی تباہی و بربادی کا سامان خود پیدا کیا ہے۔ ائرش ریفرنڈم میں ہم جنس پرستی کی حمایت حاصل کرنے والوں نے وکٹری کا نشان بنا کر ہم جنس پرستانی کی فتح کا نہیں دراصل اپنی ابدی بربادی کا اعلان کیا ہے۔ حق الیقین ہے کہ قدرت کا غیص و غضب سامراجی سدومیوں، مغرب میں آئرلینڈ اور مشرق میں نائن زیرو جیسے گمراہوں کو بھی قوم لوط اور اہل پومپیائی کی طرح جلد غریق حشر کر دے گا۔ یقیناً میرے اس کلمہء حق کے جواب میں مغربی بغل بچوں، فوزیہ قصوری آٖف سونامی اور نائن زیرو کے متحدہ روشن خیال حواریوں کی طرف سے غلاظت آلودہ فحش کلامی کا طوفان اٹھے گا۔ بلا شبہ حق کی تلقین کرنے والوں کیلئے طعن و دشنام کے ایسے تحائف ہی ان بھٹکے ہوئے گروہوں کا دائمی وطیرہ رہا ہے۔ سورۃ الحجر کی آیت 70 گواہ ہے کہ سیدنا لوط علیہ السلام نے قوم کے گمراہوں کو جنسی بد فعلی سے روکا تو وہ جواباً کہنے لگے ۔۔۔۔ ” کیا ہم تمہیں بارہا منع نہیں کرچکے ہیں کہ تم دنیا بھرکے ٹھیکے دار نہ بنو ؟ ” ۔ احبابِ گرامی دراصل یہ بھی ایک تسلسلِ روشِ گمراہین ہے کہ بعین قوم لوط جیسے ہی طنزیہ کلمات و جوابات آج کے ماڈرن گمراہوں کے پاس بھی ہیں۔ اس حوالے سے مغربی عیسائیوں کی طرف سے یہ دجالی دلیل اور کذب بیانی قابل صد لعنت ہے کہ مغربی ویب سائٹس ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینے کیلئے نبیء برحق سیدنا عیسی روح اللہ علیہ السلام کو بھی معاذ اللہ ہم جنس پرست ثابت کرنے کیلئے میدانِ دجل میں اتر آئی ہیں ۔۔۔ عیسائیت کی اس ناقابل یقین بدبختی پر یقین نہ ہو تو ذیل میں دئے گئے اس لنک پر خود دیکھ لیجئے ۔۔۔
سیدنا عیسی روح اللہ علیہ السلام پر ہم جنس پرست ہونے کا دجالی الزام
( فاروق درویش — 03224061000 — 03324061000)