پاک فوج زندہ آباد۔
پاکستان پائندہ آباد۔
میں ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے پاک فوج کو دعوت دیتا ہوں کہ خدارا آئیے اور اس نظام کو بدلیے۔
جس جمہوریت کو بجانے کے لیے پاک فوج کو دیوار سے لگایا جارہا ہے وہ جمہوریت نہیں ہے۔
اسوقت جبکہ حکومت وقت اپنی بقاہ کے لیے دشمنوں سے گٹھ جوڑ کیے ہوئے ہے اسوقت یہ بہت ضروری ہے کہ فوج ایک بار پھر اس نام نہاد جمہوریت کی بساط لپیٹ دے۔ میں ہر گز فوج کو سیاست میں داخلے کی ترغیب نہیں دے رہا۔ حکومت نام ہے ایک نظام کا جسے بحالت مجبوری تبدیل کیا جاسکتا ہے جبکہ حکومت چوروں اور جھوٹوں پر مبنی ہو جنکے ووٹ ہی تصدیق نہ ہوسکتے ہوں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا مجبوری ہوسکتی ہے کہ نظام کو ٹھیک کرنے والے ہی نظام کا بیڑا غرق کررہے ہوں وہ بھی صرف اپنے اقتدار اور مفاد کے لیے۔
میرا فوج سے مطالبہ یہ ہے کہ اس غیر قانونی حکومت کا تختہ الٹے' ایک نگران حکومت بنائے جو کہ نظام کو ٹھیک کرنے کے ساتھ ساتھ تمام مگرمچھوں کو جیل میں ڈالے۔ اسطرح نہیں جسطرح ماضی میں کوشش کی گئی۔ اس بار حقیقی طور پر نظام بدلا جائے۔ ماضی میں فوج نے تختہ الٹ کر نظام نہیں بدلا بلکہ اسی نظام سے مصتفید لوگوں کو پھر حکومت کا حصہ بنا لیا جبکہ برائے نام احتساب کے لیے سیاسی لیڈروں پر مقدمات چلائے گئے صرف بلیک میل کرنے کے لیے۔ اس بار حقیقی نظام بدلا جائے اور عدالتوں میں غیر جانبدار اور ایماندار ججوں کو تائنات کیا جائے۔ چاہے اسکے لیے کچھ ججوں کو بھی گھر جانا پڑے مگر پاکستان میں نظام ٹھیک کرنے کے لیے اب مزید دیر نہ کی جائے۔
اور دنیا کی پروا مت کیجیے جبکہ آدھی دنیا میں ویسے بھی نام کی جمہوریت بھی موجود نہیں۔ اسلیے پاکستان پر جو بھی تنکید ہوگی وہ جمہوریت کی وجہ سے نہیں بلکہ فطری پاکستان بلکہ اسلام دشمنی کی وجہ سے ہوگی حالانکہ اسلام کا صرف نعرہ لگایا جاتا ہے حقیقی اسلام تو دور دور تک نہیں ہے۔ اور یہ فطری دشمنی ہر حال میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرتی رہے گی چاہے پاکستان میں جمہوریت ہو' نہ ہو یا نام کی جمہوریت ہو جو کہ آج ہے۔ اگر پاکستان نے لامحالہ ہرحال میں دنیا کی باتیں سننی ہی ہیں تو مرضی تو کم از کم اپنی کرے چاہے جس کو جتنی مرضی تکلیف ہو۔ اور ویسے بھی جب نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے ہم اپنے ملک میں کچھ بھی کریں اس سے کسی کو چاہے جتنی مرچیں لگیں اس سے ہمیں بحثیت قوم کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے اگر ہم آزاد ہیں تو۔ اگر آپ کو پھر بھی دنیا کی فکر ہے تو لگتا آپ آزاد نہیں ہیں۔ اور اگر آپ آزاد نہیں تو پھر ظاہر ہے قوم بھی غلام ہے۔ اگر قوم ہی غلام ہے فوج کے ہونے کا مقصد کیا صرف قوم ترانے بجانا رہ گیا ہے۔ یا پھر ان دہشتگردوں سے لڑنا جو کہ دنیا ہی کی بڑی طاقتوں کی سرپرستی میں پاکستان میں انتشار پھیلا کر کمزور کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔ یعنی جس دنیا کی فکر کرکے آپ اس بوسیدہ نظام پر ہاتھ نہیں ڈال رہے اسی دنیا نے تو یہ نظام ہم پر مسلط کررکھا ہے۔ یقیناً پاک فوج کا کردار اس سے کچھ بڑا ہے جو کہ فوج آج ادا کررہی ہے۔
صرف چند فوری اقدامات کرنے ہیں جسکے بعد حالات کم از کم اتنے سنبھل جائیں گے کہ آدھے سے زیادہ مسائل خود بہ خو حل ہوسکتے ہیں۔ مثلاً
حکومت کا تختہ الٹتے ہی میڈیا پر تین دن کے لیے پابندی لگائی جائے اور ضرورت پڑنے پر پابندی کو دو دن کے لیے مزید بڑہا جاسکتا ہے۔
چند گرفتاریاں کی جائیں چند گھنٹوں میں خاص طور پر اعلہ قائدین کی اور ان کے چمچے اور کانٹوں کی۔
کچھ ججوں کو بھی فارغ کیا جائے جن پر کرپشن کا معمولی سا بھی الزام ہے۔
گرفتاری کس کس کی کرنی ہیں یہ آئی ایس آئی سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔
نگران حکومت کا خاکہ پہلے سے موجود ہو اور اس میں تعلیم یافتہ لوگ موجود ہوں۔ یونیورسٹیز کے پروفیسرز اور عالم دین حضرات کو لازماً شامل کیا جائے۔
نگران حکومت میں ہر ادارے کا نیا افسر ہو جو پرانے کو ہٹا کر لگایا جائے اور جس کے زمہ ایک مہینے کے اندر اندر ہر کرپٹ ملازمین کو ہٹا کر نیا آدمی میرٹ پر بھرتی کرنا ہو۔ دھنگا فساد ضرور ہوگا مگر جب بڑے بڑے مگرمچھ جیل میں ہوں گے تو چھوٹے کرپٹ زیادہ واویلہ نہیں کریں گے۔
عوام کو سکھ کا سانس دینے کے لیے فوری طور پر ٹیکس میں چھوٹ دی جائے اور گوداموں پر چھاپے مارکر سستے داموں اشیا کی فراہمی کی جائے۔ البتہ نگران حکومت چلانے کے لیے حکومت ایک فنڈ کا اعلان کرے جس میں صاحب حیثیت لوگ اپنی مرضی سے ٹیکس جمع کروا سکیں۔
فوری طور پر کسی بیرونی دنیا کے بیان پر جواب دینے کی بجائے اندر موجود جتنے حامد میر جعفر موجود ہیں انہیں بھی پہلے چند گھنٹوں میں گرفتار کیا جائے یا کم از کم نظر بند کیا جائے۔
حالات کو پرامن رکھنے کے لیے عوام کے لیے مزید سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے یعنی زرائع ابلاغ اور زرائع امدورفت جبکہ اشیا خودونوش کی فراہمی اور انکی قیمتوں کو کم کرنا کے بارے میں' میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں۔
فوج اعلان کرے کہ ہر سرکاری افسر کا احتصاب ہوگا اسلیے اگر کوئی انسان کا بچہ بننا چاہتا ہے تو خود بہ خود لوٹا ہوا مال حکومت کے حوالے کرے ورنہ مال ضبط تو کر ہی لیا جائیگا اوپر سے جیل بھی جانا پرے گا۔
نگران حکومت کو زیادہ اختیارات دیے جائیں تاکہ وہ آزادی سے اور جلد از جلد نظام کو ٹھیک کرسکیں۔
نظام کو ٹھیک کرنے کے ضمن میں نیا الیکشن کمیشن مرتب کیا جائے جو اپنی تشکیل کے فوراً بعد تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائے۔ ووٹ کا حق ہر ایک دیا جائے مگر ایک پڑھے لکھے اور قابل شخص کے ووٹ کو زیادہ ترجیح دی جائے۔
بائیومیٹریکس ٹیکنولوجی متعرف کی جائے تاکہ دھاندلی نہ ہوسکے۔
عدالتی نظام کی تبدیلی کے ضمن میں ہر کیس کا فیصلہ چھے مہینے کے اندر اندر سنانے کا قاعدہ بنایا جائے تاکہ سیاسی مقدمات کسی کو بلیک میل کرنے کے لیے نہ بنائے جاسکیں۔
ان تمام تجاویز میں مزید بھی شامل کی جاسکتی ہیں جو حکومت کا تختہ الٹنے کے ایک ہفتے میں ہوجانے چاہییں تاکہ عوام کو کچھ نظر آئے کہ نظام بدل رہا ہے۔ دوسرے ہفتے میں الیکشن تین ماہ بعد کروانے کا اعلان کیا جائے اور اس مدد کو تین میں مزید بڑہایا بھی جاسکتا ہے
یہ وہ اقدامات ہیں جو فوج سامنے ائے بغیر بھی کرسکتی ہے جبکہ نگران حکومت کے اراکین کا تعین ٹھیک ہو۔ لیکن اگر پاک فوج میری باتوں سے اتفاق نہیں کرتی توان سوالوں کا جواب دیدے کہ
آخر وہ کونسا موقع آئیگا جب آپ عوام کو بچانے کے لیے آئیں گے۔
کیا چودہ قتل کروا کر کیا اٹھائیس قتل کروانے ہیں پھر آپ کے کان پر جوں رینگے گی۔
وہ کونسا گناہ باقی رہ گیا ہے جو نواز شریف نے کرنا ہے تو آپ یہ سمجھیں گے کہ اب نواز کی حکومت گرادو۔
آپ کے صبر کا پیمانہ کیا ہے جسکے لبریز ہونے تک عوام آپ سے امید یں نہ لگائے۔
قسم ہے پیدا کرنے والے کی کہ اگر پاک فوج یہ سمجھ رہی ہے کہ پاک فوج نظام نہیں بدل سکتی تو جو پاک فوج کے خیال میں پاک فوج کرسکتی ہے وہ بھی فوج سے نہیں ہوگا۔
پاکستان پائندہ آباد۔
میں ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے پاک فوج کو دعوت دیتا ہوں کہ خدارا آئیے اور اس نظام کو بدلیے۔
جس جمہوریت کو بجانے کے لیے پاک فوج کو دیوار سے لگایا جارہا ہے وہ جمہوریت نہیں ہے۔
اسوقت جبکہ حکومت وقت اپنی بقاہ کے لیے دشمنوں سے گٹھ جوڑ کیے ہوئے ہے اسوقت یہ بہت ضروری ہے کہ فوج ایک بار پھر اس نام نہاد جمہوریت کی بساط لپیٹ دے۔ میں ہر گز فوج کو سیاست میں داخلے کی ترغیب نہیں دے رہا۔ حکومت نام ہے ایک نظام کا جسے بحالت مجبوری تبدیل کیا جاسکتا ہے جبکہ حکومت چوروں اور جھوٹوں پر مبنی ہو جنکے ووٹ ہی تصدیق نہ ہوسکتے ہوں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا مجبوری ہوسکتی ہے کہ نظام کو ٹھیک کرنے والے ہی نظام کا بیڑا غرق کررہے ہوں وہ بھی صرف اپنے اقتدار اور مفاد کے لیے۔
میرا فوج سے مطالبہ یہ ہے کہ اس غیر قانونی حکومت کا تختہ الٹے' ایک نگران حکومت بنائے جو کہ نظام کو ٹھیک کرنے کے ساتھ ساتھ تمام مگرمچھوں کو جیل میں ڈالے۔ اسطرح نہیں جسطرح ماضی میں کوشش کی گئی۔ اس بار حقیقی طور پر نظام بدلا جائے۔ ماضی میں فوج نے تختہ الٹ کر نظام نہیں بدلا بلکہ اسی نظام سے مصتفید لوگوں کو پھر حکومت کا حصہ بنا لیا جبکہ برائے نام احتساب کے لیے سیاسی لیڈروں پر مقدمات چلائے گئے صرف بلیک میل کرنے کے لیے۔ اس بار حقیقی نظام بدلا جائے اور عدالتوں میں غیر جانبدار اور ایماندار ججوں کو تائنات کیا جائے۔ چاہے اسکے لیے کچھ ججوں کو بھی گھر جانا پڑے مگر پاکستان میں نظام ٹھیک کرنے کے لیے اب مزید دیر نہ کی جائے۔
اور دنیا کی پروا مت کیجیے جبکہ آدھی دنیا میں ویسے بھی نام کی جمہوریت بھی موجود نہیں۔ اسلیے پاکستان پر جو بھی تنکید ہوگی وہ جمہوریت کی وجہ سے نہیں بلکہ فطری پاکستان بلکہ اسلام دشمنی کی وجہ سے ہوگی حالانکہ اسلام کا صرف نعرہ لگایا جاتا ہے حقیقی اسلام تو دور دور تک نہیں ہے۔ اور یہ فطری دشمنی ہر حال میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرتی رہے گی چاہے پاکستان میں جمہوریت ہو' نہ ہو یا نام کی جمہوریت ہو جو کہ آج ہے۔ اگر پاکستان نے لامحالہ ہرحال میں دنیا کی باتیں سننی ہی ہیں تو مرضی تو کم از کم اپنی کرے چاہے جس کو جتنی مرضی تکلیف ہو۔ اور ویسے بھی جب نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے ہم اپنے ملک میں کچھ بھی کریں اس سے کسی کو چاہے جتنی مرچیں لگیں اس سے ہمیں بحثیت قوم کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے اگر ہم آزاد ہیں تو۔ اگر آپ کو پھر بھی دنیا کی فکر ہے تو لگتا آپ آزاد نہیں ہیں۔ اور اگر آپ آزاد نہیں تو پھر ظاہر ہے قوم بھی غلام ہے۔ اگر قوم ہی غلام ہے فوج کے ہونے کا مقصد کیا صرف قوم ترانے بجانا رہ گیا ہے۔ یا پھر ان دہشتگردوں سے لڑنا جو کہ دنیا ہی کی بڑی طاقتوں کی سرپرستی میں پاکستان میں انتشار پھیلا کر کمزور کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔ یعنی جس دنیا کی فکر کرکے آپ اس بوسیدہ نظام پر ہاتھ نہیں ڈال رہے اسی دنیا نے تو یہ نظام ہم پر مسلط کررکھا ہے۔ یقیناً پاک فوج کا کردار اس سے کچھ بڑا ہے جو کہ فوج آج ادا کررہی ہے۔
صرف چند فوری اقدامات کرنے ہیں جسکے بعد حالات کم از کم اتنے سنبھل جائیں گے کہ آدھے سے زیادہ مسائل خود بہ خو حل ہوسکتے ہیں۔ مثلاً
حکومت کا تختہ الٹتے ہی میڈیا پر تین دن کے لیے پابندی لگائی جائے اور ضرورت پڑنے پر پابندی کو دو دن کے لیے مزید بڑہا جاسکتا ہے۔
چند گرفتاریاں کی جائیں چند گھنٹوں میں خاص طور پر اعلہ قائدین کی اور ان کے چمچے اور کانٹوں کی۔
کچھ ججوں کو بھی فارغ کیا جائے جن پر کرپشن کا معمولی سا بھی الزام ہے۔
گرفتاری کس کس کی کرنی ہیں یہ آئی ایس آئی سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔
نگران حکومت کا خاکہ پہلے سے موجود ہو اور اس میں تعلیم یافتہ لوگ موجود ہوں۔ یونیورسٹیز کے پروفیسرز اور عالم دین حضرات کو لازماً شامل کیا جائے۔
نگران حکومت میں ہر ادارے کا نیا افسر ہو جو پرانے کو ہٹا کر لگایا جائے اور جس کے زمہ ایک مہینے کے اندر اندر ہر کرپٹ ملازمین کو ہٹا کر نیا آدمی میرٹ پر بھرتی کرنا ہو۔ دھنگا فساد ضرور ہوگا مگر جب بڑے بڑے مگرمچھ جیل میں ہوں گے تو چھوٹے کرپٹ زیادہ واویلہ نہیں کریں گے۔
عوام کو سکھ کا سانس دینے کے لیے فوری طور پر ٹیکس میں چھوٹ دی جائے اور گوداموں پر چھاپے مارکر سستے داموں اشیا کی فراہمی کی جائے۔ البتہ نگران حکومت چلانے کے لیے حکومت ایک فنڈ کا اعلان کرے جس میں صاحب حیثیت لوگ اپنی مرضی سے ٹیکس جمع کروا سکیں۔
فوری طور پر کسی بیرونی دنیا کے بیان پر جواب دینے کی بجائے اندر موجود جتنے حامد میر جعفر موجود ہیں انہیں بھی پہلے چند گھنٹوں میں گرفتار کیا جائے یا کم از کم نظر بند کیا جائے۔
حالات کو پرامن رکھنے کے لیے عوام کے لیے مزید سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے یعنی زرائع ابلاغ اور زرائع امدورفت جبکہ اشیا خودونوش کی فراہمی اور انکی قیمتوں کو کم کرنا کے بارے میں' میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں۔
فوج اعلان کرے کہ ہر سرکاری افسر کا احتصاب ہوگا اسلیے اگر کوئی انسان کا بچہ بننا چاہتا ہے تو خود بہ خود لوٹا ہوا مال حکومت کے حوالے کرے ورنہ مال ضبط تو کر ہی لیا جائیگا اوپر سے جیل بھی جانا پرے گا۔
نگران حکومت کو زیادہ اختیارات دیے جائیں تاکہ وہ آزادی سے اور جلد از جلد نظام کو ٹھیک کرسکیں۔
نظام کو ٹھیک کرنے کے ضمن میں نیا الیکشن کمیشن مرتب کیا جائے جو اپنی تشکیل کے فوراً بعد تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائے۔ ووٹ کا حق ہر ایک دیا جائے مگر ایک پڑھے لکھے اور قابل شخص کے ووٹ کو زیادہ ترجیح دی جائے۔
بائیومیٹریکس ٹیکنولوجی متعرف کی جائے تاکہ دھاندلی نہ ہوسکے۔
عدالتی نظام کی تبدیلی کے ضمن میں ہر کیس کا فیصلہ چھے مہینے کے اندر اندر سنانے کا قاعدہ بنایا جائے تاکہ سیاسی مقدمات کسی کو بلیک میل کرنے کے لیے نہ بنائے جاسکیں۔
ان تمام تجاویز میں مزید بھی شامل کی جاسکتی ہیں جو حکومت کا تختہ الٹنے کے ایک ہفتے میں ہوجانے چاہییں تاکہ عوام کو کچھ نظر آئے کہ نظام بدل رہا ہے۔ دوسرے ہفتے میں الیکشن تین ماہ بعد کروانے کا اعلان کیا جائے اور اس مدد کو تین میں مزید بڑہایا بھی جاسکتا ہے
یہ وہ اقدامات ہیں جو فوج سامنے ائے بغیر بھی کرسکتی ہے جبکہ نگران حکومت کے اراکین کا تعین ٹھیک ہو۔ لیکن اگر پاک فوج میری باتوں سے اتفاق نہیں کرتی توان سوالوں کا جواب دیدے کہ
آخر وہ کونسا موقع آئیگا جب آپ عوام کو بچانے کے لیے آئیں گے۔
کیا چودہ قتل کروا کر کیا اٹھائیس قتل کروانے ہیں پھر آپ کے کان پر جوں رینگے گی۔
وہ کونسا گناہ باقی رہ گیا ہے جو نواز شریف نے کرنا ہے تو آپ یہ سمجھیں گے کہ اب نواز کی حکومت گرادو۔
آپ کے صبر کا پیمانہ کیا ہے جسکے لبریز ہونے تک عوام آپ سے امید یں نہ لگائے۔
قسم ہے پیدا کرنے والے کی کہ اگر پاک فوج یہ سمجھ رہی ہے کہ پاک فوج نظام نہیں بدل سکتی تو جو پاک فوج کے خیال میں پاک فوج کرسکتی ہے وہ بھی فوج سے نہیں ہوگا۔
Last edited by a moderator: