میں نمبر ون ہوں
شکرکرتا ہوں تمہارا مالک ، دعاکرتا ہوں گزر نہ جائیں یہ دن کبھی، میری روزی یوں ہی
اپنے عروج سے گلے ملی رہے، میں یوں ہی کہانیاں گھڑ گھڑ کے رقم کماتا رہوں، مالک تم ان دونوں کو ہمت اور استقامت دیتے رہنا کہ وہ دونوں ہیں تو میری دہاڑی کے دام بڑھ گئے ہیں، مالک تو سدا انکو اسلام آباد میں بٹھائے رکھنا، تجھے کربلا کے شہیدوں کا واسطہ میری روزی کے ان ذرائع کی حفاظت کرنا،آمین
یہ دعا مانگتے ہی میں نے جائے نماز لپیٹ کر کمرے میں ایک جانب رکھ دی اور کاغذ قلم لیکر بیٹھ گیا،14 اگست سے 27 ۱گست سال 2014 کے تمام ایام میری زندگی میں ناقابل فراموش بن چکے ہیں، میں اپنے رب کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے، کہ اس نے مجھ فقیر پر بڑا کرم کیا اور ملک کے سیاسی ماحول کا درجہ حرارت بڑھا دیا،اور میں اتنے قلیل عرصے میں اپنی تجوریوں کو منہ تک دوبارہ بھرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کچھ پاگل میرے اوپر کینچڑ اچھال رہے ہیں ، کوئی مجھے دلال کہتا ہے تو کوئی مجھے قلم کا قاتل کہتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ میں جو کچھ کرتا ہوں اپنی روزی کو حلال کرنے کے لئے کرتا ہوں، اور رات جب سوتا ہوں تو میرا دل مطمئن ہوتا ہے کہ میں نے آج کی دہاڑی کو حلال کر لیا۔ سچ اس ملک میں حلال کھانا بڑا مشکل ہے مجھ جیسوں کے لئے۔ دامن پر جابجا کتنے ہی داغ لیکر کوئی مجھ سے پوچھے کہمیں کس دل سے اپنی دہاڑی کو حلال کرتا ہوں۔ مگر ہر بار دل اس بات سے مطمئن ہو جاتا ہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں مجھ جیسے اور بھی کتنے ہی مظلوم ہیں جو اپنی روزی جب حلال کرتے ہیں تو عوام سے گالیاں کھاتے ہیں۔ مگر سچ کہوں میں بڑا خوش نصیب ہوں کہ اتنی گالیاں کھا کھا کر بھی میری استقامت پر فراق نہیں پڑتا بلکہ اب تو میں عوام کی گالیوں سے محظوظ ہوتا ہوں اور اگر کسی دن مجھے عوام سے گالیاں نہ پڑیں اس دن مجھے گمان ہوتا ہے کہ میں اپنی دہاڑی صحیح طور سے حلال نہیں کر پایا۔ عوام کچھ بھی کہہ لے میرا دل مطمئن رہتا ہے کیونکہ میں لفافے میں ملے مختلف رنگت کے کاغذوں کا حق دل کی گہرائیوں سے ادا کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے یہ سب پڑھکربھی بہت سے احمق اور جذباتی میرے اوپر لعن طعن کریں گے، مگر آج ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کہ وہ سوچیں جو مجھے گالیاں دیتے ہیں، بکاﺅ کہتے ہیں، کیا مجھے جینے کا حق نہیں؟؟ کیا میری ، میرے گھر والوں کی کوئی خواہشات نہیں؟؟؟ کیا مجھے اختیار نہیں کہ میں اپنے ہنر کی قیمت لے سکوں؟؟؟ رنگ ساز اپنی محنت کے عوض اجرت مانگتا ہے، رات میں بکنے والی بھی اپنی اوڑھنی کی قیمت مانگتی ہے، تو کیا میں اپنے لفظوں کی قیمت نہیں مانگ سکتا؟؟؟
اب کوئی کہے گا کہ میں جس ادارے سے منسلک ہوں وہ مجھے تنخواہ دیتا ہے اس پر میرا پورا حق ہے مگر اپنے لفظوں کی قیمت لگا کر ان کے عوض لفافے لینا میرے لئے جائز نہیں، تو میرا سوال یہ ہی کہ اس مہنگے ملک میں جہاں مرغی سے مہنگی دالیں ہیں میں اپنی محدود ماہانہ تنخواہ میں کیسے اپنا اور اپنے گھروالوں کے اخراجات پورے کر سکتا ہوں؟؟؟ یہ ہی وجہ پولیس والے بھی مجبور ہوتے ہیں چائے پانی کے لئے اور میں بھی مجبور ہوں لفافوں کے لئے، آخر میرا بھی دل ہے، مجھے بھی جینا ہے، میری بھی خواہشات ہیں۔ اور اپنی معصوم خواہشات کےلئے میں اپنی محنت، اپنی کہانیوں کے عوض لفافے لے لیتا ہوں تو کون سی قیامت آ جاتی ہے؟؟؟ میں کسی کی محنت تو اپنے نام نہیں کرتا، کسی کا حق تو نہیں مارتا، کہیں چوری تو نہیں کرتا بس کرتا ہوں تو اتنا کہ اپنی کہانیوں کے بدلے لفافے وصول کر لیتا ہوں اور وہ لفافے میرے ملک میں لوگوں کی ایک اقلیت کو پسند نہیں آتے اور وہ مجھے آئے دن القابات سے نوازتے رہتے ہیں ، اپنے الفاظ ضائع کرتے رہتے ہیں ۔ وہ کتنی ہی گالیاں دے لیں مجھے میرے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے، کیونکہ میرا دل مطمئن ہے، میں اپنے رب کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے ایسا ہنر دیا جس کے ذریعے میں گھر بیٹھے لفافے وصول کر لیتا ہوں، نہ مجھے کسی کا ناپ لینا ہوتا ہے نہ کسی کی بوری بنانی پڑتی ہے، بنانی پڑتی ہے تو روز ایک نئی کہانی بنانی پڑتی ہے اور میری ہر نئی کہانی میری امید سے بڑھ کر مجھے لفافے دے جاتی ہے۔ میرے رب تیرا بہت شکر کہ تو نے مجھے ایسے ملک میں رکھا جہاں میں جو چاہوں لکھ دوں دام ملنا لازمی ہوتا ہے۔
اور میرا دل خوش ہے کہ میں اتنے بڑے ملک میں تنہا نہیں ہوں جہاں ہر دوسرا انسان اپنے اردگرد تنہائی محسوس کرتا ہے، وہاں میں ہر پل اپنے چار سو ایسے کتنے ہی چہروں کو پاتا ہوں جو میری طرح لفافے بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، مگر مجھے یقین ہے اس دوڑ میں میرا حریف دور دور تک کوئی نہیں بن سکتا، میں نمبر ون ہوں، میں نمبر ون ہوں۔ مجھے گالیاں دینے والے بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ میں لفافے بنانے کی دوڑ میں نمبر ون ہوں۔۔۔۔ جل گئے ناں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
از طرف
لفافہ چوہدری
( ۔۔۔۔۔۔۔۔)
شکرکرتا ہوں تمہارا مالک ، دعاکرتا ہوں گزر نہ جائیں یہ دن کبھی، میری روزی یوں ہی
اپنے عروج سے گلے ملی رہے، میں یوں ہی کہانیاں گھڑ گھڑ کے رقم کماتا رہوں، مالک تم ان دونوں کو ہمت اور استقامت دیتے رہنا کہ وہ دونوں ہیں تو میری دہاڑی کے دام بڑھ گئے ہیں، مالک تو سدا انکو اسلام آباد میں بٹھائے رکھنا، تجھے کربلا کے شہیدوں کا واسطہ میری روزی کے ان ذرائع کی حفاظت کرنا،آمین
یہ دعا مانگتے ہی میں نے جائے نماز لپیٹ کر کمرے میں ایک جانب رکھ دی اور کاغذ قلم لیکر بیٹھ گیا،14 اگست سے 27 ۱گست سال 2014 کے تمام ایام میری زندگی میں ناقابل فراموش بن چکے ہیں، میں اپنے رب کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے، کہ اس نے مجھ فقیر پر بڑا کرم کیا اور ملک کے سیاسی ماحول کا درجہ حرارت بڑھا دیا،اور میں اتنے قلیل عرصے میں اپنی تجوریوں کو منہ تک دوبارہ بھرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کچھ پاگل میرے اوپر کینچڑ اچھال رہے ہیں ، کوئی مجھے دلال کہتا ہے تو کوئی مجھے قلم کا قاتل کہتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ میں جو کچھ کرتا ہوں اپنی روزی کو حلال کرنے کے لئے کرتا ہوں، اور رات جب سوتا ہوں تو میرا دل مطمئن ہوتا ہے کہ میں نے آج کی دہاڑی کو حلال کر لیا۔ سچ اس ملک میں حلال کھانا بڑا مشکل ہے مجھ جیسوں کے لئے۔ دامن پر جابجا کتنے ہی داغ لیکر کوئی مجھ سے پوچھے کہمیں کس دل سے اپنی دہاڑی کو حلال کرتا ہوں۔ مگر ہر بار دل اس بات سے مطمئن ہو جاتا ہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں مجھ جیسے اور بھی کتنے ہی مظلوم ہیں جو اپنی روزی جب حلال کرتے ہیں تو عوام سے گالیاں کھاتے ہیں۔ مگر سچ کہوں میں بڑا خوش نصیب ہوں کہ اتنی گالیاں کھا کھا کر بھی میری استقامت پر فراق نہیں پڑتا بلکہ اب تو میں عوام کی گالیوں سے محظوظ ہوتا ہوں اور اگر کسی دن مجھے عوام سے گالیاں نہ پڑیں اس دن مجھے گمان ہوتا ہے کہ میں اپنی دہاڑی صحیح طور سے حلال نہیں کر پایا۔ عوام کچھ بھی کہہ لے میرا دل مطمئن رہتا ہے کیونکہ میں لفافے میں ملے مختلف رنگت کے کاغذوں کا حق دل کی گہرائیوں سے ادا کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے یہ سب پڑھکربھی بہت سے احمق اور جذباتی میرے اوپر لعن طعن کریں گے، مگر آج ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کہ وہ سوچیں جو مجھے گالیاں دیتے ہیں، بکاﺅ کہتے ہیں، کیا مجھے جینے کا حق نہیں؟؟ کیا میری ، میرے گھر والوں کی کوئی خواہشات نہیں؟؟؟ کیا مجھے اختیار نہیں کہ میں اپنے ہنر کی قیمت لے سکوں؟؟؟ رنگ ساز اپنی محنت کے عوض اجرت مانگتا ہے، رات میں بکنے والی بھی اپنی اوڑھنی کی قیمت مانگتی ہے، تو کیا میں اپنے لفظوں کی قیمت نہیں مانگ سکتا؟؟؟
اب کوئی کہے گا کہ میں جس ادارے سے منسلک ہوں وہ مجھے تنخواہ دیتا ہے اس پر میرا پورا حق ہے مگر اپنے لفظوں کی قیمت لگا کر ان کے عوض لفافے لینا میرے لئے جائز نہیں، تو میرا سوال یہ ہی کہ اس مہنگے ملک میں جہاں مرغی سے مہنگی دالیں ہیں میں اپنی محدود ماہانہ تنخواہ میں کیسے اپنا اور اپنے گھروالوں کے اخراجات پورے کر سکتا ہوں؟؟؟ یہ ہی وجہ پولیس والے بھی مجبور ہوتے ہیں چائے پانی کے لئے اور میں بھی مجبور ہوں لفافوں کے لئے، آخر میرا بھی دل ہے، مجھے بھی جینا ہے، میری بھی خواہشات ہیں۔ اور اپنی معصوم خواہشات کےلئے میں اپنی محنت، اپنی کہانیوں کے عوض لفافے لے لیتا ہوں تو کون سی قیامت آ جاتی ہے؟؟؟ میں کسی کی محنت تو اپنے نام نہیں کرتا، کسی کا حق تو نہیں مارتا، کہیں چوری تو نہیں کرتا بس کرتا ہوں تو اتنا کہ اپنی کہانیوں کے بدلے لفافے وصول کر لیتا ہوں اور وہ لفافے میرے ملک میں لوگوں کی ایک اقلیت کو پسند نہیں آتے اور وہ مجھے آئے دن القابات سے نوازتے رہتے ہیں ، اپنے الفاظ ضائع کرتے رہتے ہیں ۔ وہ کتنی ہی گالیاں دے لیں مجھے میرے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے، کیونکہ میرا دل مطمئن ہے، میں اپنے رب کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے ایسا ہنر دیا جس کے ذریعے میں گھر بیٹھے لفافے وصول کر لیتا ہوں، نہ مجھے کسی کا ناپ لینا ہوتا ہے نہ کسی کی بوری بنانی پڑتی ہے، بنانی پڑتی ہے تو روز ایک نئی کہانی بنانی پڑتی ہے اور میری ہر نئی کہانی میری امید سے بڑھ کر مجھے لفافے دے جاتی ہے۔ میرے رب تیرا بہت شکر کہ تو نے مجھے ایسے ملک میں رکھا جہاں میں جو چاہوں لکھ دوں دام ملنا لازمی ہوتا ہے۔
اور میرا دل خوش ہے کہ میں اتنے بڑے ملک میں تنہا نہیں ہوں جہاں ہر دوسرا انسان اپنے اردگرد تنہائی محسوس کرتا ہے، وہاں میں ہر پل اپنے چار سو ایسے کتنے ہی چہروں کو پاتا ہوں جو میری طرح لفافے بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، مگر مجھے یقین ہے اس دوڑ میں میرا حریف دور دور تک کوئی نہیں بن سکتا، میں نمبر ون ہوں، میں نمبر ون ہوں۔ مجھے گالیاں دینے والے بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ میں لفافے بنانے کی دوڑ میں نمبر ون ہوں۔۔۔۔ جل گئے ناں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
از طرف
لفافہ چوہدری
( ۔۔۔۔۔۔۔۔)