MariaAli
Banned
لینا حا شر
میٹرو بس کی بہت سی کرامات کے ساتھ ساتھ ایک اور کرامت بھی منظر عام پر آ گی ہے کہ اس کا ملبہ نالہ لئ میں ڈالا گیا ہےجس کی وجہ سےمون سون کی بارشوں میں نشیبی علاقے زیر آب آنے کا خدشہ ہے،اور اس خدشہ کے پیش نظر اس کی صفائی کے لیے یکم جولائی تک اس کا کنڑول واسا کے حوالے کیا جائے تاکہ لئ کو پرانی والی حالت میں لا کر سیلاب کو گزشتہ سالوں میں زیر آب آنے والے علاقوں تک ہی محدود رکھا جائے.کیونکہ اگر مزید ایک اور علاقہ زیر آب آئے گا تو ہمارے وزیر اعظم اپنے خواب غفلت سے بوکهلائے ہوئے اٹھیں گے اور کہیں گے نہ جانے کہاں سے سے اتنا پانی آگیا ۔
ان کی معصومیت پر قربان ہونے کو دل کرتا ہے.ان کی یہ بات اتنی ہی معصومانہ لگی جتنی ہمیں ہمارے برادر خورد کی لگتی تهی ۔ جب وہ لگ بهگ ساڑھے تین برس کا تھا اور جب وه بستر گیلا کر دیتا تھا اور اس بات سے انکاری ہوتا تھا کہ اس نازیبا حرکت میں اس کا ہی کارنامہ ہے تب وه کہتا تھا کہ نجانے کہاں سے آیا پانی۔ ویسے تو ہر سال بہت سے علاقے زیرآب آتے ہیں اس سال چند کا اضافہ ہو جائے گا تو کون سی قیامت آ جائے گی اور اس میں حکومت بیچاری کا کیا قصور ؟ اگر لوگ گرمی سے مرتے ہیں یا سیلاب سے.یہ تو اللہ کی کرنی ہے.بندہ اور یہ حکومت کیا کر سکتی ہے.اس سیلاب سے کتنا جانی مالی نقصان ہو گا یہ تو اللہ ہی جانے لیکن اس سے ہمارے وزرا کو بہت فائدہ ہو گا.ان کے ہاتھ ایک نادر موقع لگ جائے گا تصاویر بنوانے کا .تصاویر بھی ایسی جن میں انہوں نے یہ زرد رنگ کےلمبے لمبے پلاسٹک کے بوٹ پہنے ہوں گے اور ان ہی بوٹوں سمیت وہ پانی میں اتریں گے اور ساتھ ان کے میڈیا والے ان کی پل پل کی خبر دینےکو بے تاب ہوں گے جو ان وزرا کی پبلسٹی کو چار چاند لگا دے گی اور یک بار میڈیا والے ایسے مواقع اپنے کیمرے کی آنکھ میں بند کر لیں تو اس کو باوقت ضرورت وزرا اپنی مرادیں بر لانے کے کے استمال کرتے رہتے ہیں.
جب میٹرو بس کی وجہ سے یہ نادر موقع وزرا کے ہاتھ لگ رہا ہے تو واسا کو اس میں رکاوٹیں نہیں ڈالنی چاہیے یہ تو وزرا کی سیدھی سیدھی حق تلفی ہے آخر ان بچاروں کا کیا قصور ہے.ان کے سینے میں بھی دل ہے جو کہ ملک رقوم کے درد سے بهرا پڑا ہےان کے بھی کچھ ارمان ہوں گے.آخر کب تک وه وزیراعلی کے پیچھے کھڑے ہو کراپنی تصاویر بنواتے رہیں. ان کی دلی آرزو پوری ہونے کو ہے. تو برائے مہربانی نالہ لئی کی صفائی کر کے ان کی امیدوں کا صفایا نہ کرے۔ میٹرروبس کے عظیم افتتاح کے موقع پر جناب زت مآب نوازشریف فرماتے ہیں یہ پاکستان جیسا نہیں لگتا.یہ جملہ چلو بهر پانی میں ڈوب مرنے کے لیے کافی ہے.آپ بھی کہتے ہوں گے کہ آخر کیوں؟
اس کیوں کا جواب میٹرو پر سوار ہونے کے بعد مل جائے گا.کیوں کہ بس پر سوار افراد اپنے اردگرد کے مناظر بھی تو اپنی گناه گار آنکھوں سے دیکھیں گے.وه غربت ،گندگی.ہسپتالوں کی حالت زار . گورنمنٹ اسکولوں کا بھی مشاہدہ کریں گے.ٹوٹی سڑکوں پر جب ان کے قدم بوسہ لیں گے تو یہ تمام تر مناظر چیخ چیخ کر کہیں گے کہ یہ ہے پا کستان یہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے.ہمارا مشوره ہےکہ اس سنہری موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے اور واسا کو ا حکام صادر کر دیئے جائیں کہ وه نالہ لئی کی صفائی سے باز رہے بلکہ نالہ لئ کو مزید مٹی سے بهر دیا جائے.تاکہ یہ تمام علاقے جو کہ میٹرو کی خوبصورتی کو ماند کررہے ہیں یعنی گندی کے ڈھیر، بوسیدہ عمارات، لوگوں کی مفلسی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، تاریکی میں ڈوبے گهر ،لوڈشیڈنگ کے مارے لوگ اور خاص طور پر مرد حضرات جو نیم برہنہ حالت میں تازه ہوا کے جھونکے کی تلاش میں گھروں سے شلواریں چڑھائے نمودار ہوتے ہیں اور کچھ ناہنجار شلواروں کو ہی نیکر بنا کر اپنی دہلیز کی چوکهٹ پار کر جاتے ہیں ۔
آخر ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہے وہاں سرے عام اس طرح کی فحاشی پھلانے والے کو سزا دینی چاہئے اور سزا پانی کی موت ہی ہو تو مناسب رہے گی .کیونکہ مون سون کے موسم میں غریبوں کو مفت دی جاتی اس میں حکومت کا کوئی خرچہ نہیں ہوتا اور پهر میٹرو بنانے والے کہہ سکیں خس کم جہاں پاک .اور آپ اپنے وزیر اعظم کی طرح کہہ سکیں پاکستان جیسا نہیں لگتا .مون سون کے موسم میں سب کچھ پانی میں چھپ جائے اور درمیان میں چلے میٹرو بس تو یہ ہو گا نہ وه منظر جو آپ کی آنکھوں کو بیرون ملک میں بہت بهایا ہوگا.ہاں اگر کہیں کسی کمی کمین پاکستانی کی لاش تیرتے ہوئے نظر آ جائے تو اس کو بالکل نظر انداز کر دیجئے. اس ہی طرح جس طرح ہمارے سیاست دان عوام کے مسائل کو انداز کرتے ہیں. تصور کیجئے شام کا پہر ہو سورج ڈوب رہا ہےاور آپ میٹرو بس پر سوار ہوں اور تاحدنگاه پانی ہی پانی ہو.تو آپ کا دل بھی یہ پکار اٹهے گا کہ پاکستان جیسا نہیں لگتا.میٹرو بس والوں سے التماس ہے ایسے مناظر حساس لوگ نہ دیکھں تاکہ کوئی اس کی نقشہ کشی اس طرح نہ بیان کر دے۔اس طرف شہر ادھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پر نہ رویا ہو گا
http://www.saach.tv/urdu/42987/
میٹرو بس کی بہت سی کرامات کے ساتھ ساتھ ایک اور کرامت بھی منظر عام پر آ گی ہے کہ اس کا ملبہ نالہ لئ میں ڈالا گیا ہےجس کی وجہ سےمون سون کی بارشوں میں نشیبی علاقے زیر آب آنے کا خدشہ ہے،اور اس خدشہ کے پیش نظر اس کی صفائی کے لیے یکم جولائی تک اس کا کنڑول واسا کے حوالے کیا جائے تاکہ لئ کو پرانی والی حالت میں لا کر سیلاب کو گزشتہ سالوں میں زیر آب آنے والے علاقوں تک ہی محدود رکھا جائے.کیونکہ اگر مزید ایک اور علاقہ زیر آب آئے گا تو ہمارے وزیر اعظم اپنے خواب غفلت سے بوکهلائے ہوئے اٹھیں گے اور کہیں گے نہ جانے کہاں سے سے اتنا پانی آگیا ۔
ان کی معصومیت پر قربان ہونے کو دل کرتا ہے.ان کی یہ بات اتنی ہی معصومانہ لگی جتنی ہمیں ہمارے برادر خورد کی لگتی تهی ۔ جب وہ لگ بهگ ساڑھے تین برس کا تھا اور جب وه بستر گیلا کر دیتا تھا اور اس بات سے انکاری ہوتا تھا کہ اس نازیبا حرکت میں اس کا ہی کارنامہ ہے تب وه کہتا تھا کہ نجانے کہاں سے آیا پانی۔ ویسے تو ہر سال بہت سے علاقے زیرآب آتے ہیں اس سال چند کا اضافہ ہو جائے گا تو کون سی قیامت آ جائے گی اور اس میں حکومت بیچاری کا کیا قصور ؟ اگر لوگ گرمی سے مرتے ہیں یا سیلاب سے.یہ تو اللہ کی کرنی ہے.بندہ اور یہ حکومت کیا کر سکتی ہے.اس سیلاب سے کتنا جانی مالی نقصان ہو گا یہ تو اللہ ہی جانے لیکن اس سے ہمارے وزرا کو بہت فائدہ ہو گا.ان کے ہاتھ ایک نادر موقع لگ جائے گا تصاویر بنوانے کا .تصاویر بھی ایسی جن میں انہوں نے یہ زرد رنگ کےلمبے لمبے پلاسٹک کے بوٹ پہنے ہوں گے اور ان ہی بوٹوں سمیت وہ پانی میں اتریں گے اور ساتھ ان کے میڈیا والے ان کی پل پل کی خبر دینےکو بے تاب ہوں گے جو ان وزرا کی پبلسٹی کو چار چاند لگا دے گی اور یک بار میڈیا والے ایسے مواقع اپنے کیمرے کی آنکھ میں بند کر لیں تو اس کو باوقت ضرورت وزرا اپنی مرادیں بر لانے کے کے استمال کرتے رہتے ہیں.
جب میٹرو بس کی وجہ سے یہ نادر موقع وزرا کے ہاتھ لگ رہا ہے تو واسا کو اس میں رکاوٹیں نہیں ڈالنی چاہیے یہ تو وزرا کی سیدھی سیدھی حق تلفی ہے آخر ان بچاروں کا کیا قصور ہے.ان کے سینے میں بھی دل ہے جو کہ ملک رقوم کے درد سے بهرا پڑا ہےان کے بھی کچھ ارمان ہوں گے.آخر کب تک وه وزیراعلی کے پیچھے کھڑے ہو کراپنی تصاویر بنواتے رہیں. ان کی دلی آرزو پوری ہونے کو ہے. تو برائے مہربانی نالہ لئی کی صفائی کر کے ان کی امیدوں کا صفایا نہ کرے۔ میٹرروبس کے عظیم افتتاح کے موقع پر جناب زت مآب نوازشریف فرماتے ہیں یہ پاکستان جیسا نہیں لگتا.یہ جملہ چلو بهر پانی میں ڈوب مرنے کے لیے کافی ہے.آپ بھی کہتے ہوں گے کہ آخر کیوں؟
اس کیوں کا جواب میٹرو پر سوار ہونے کے بعد مل جائے گا.کیوں کہ بس پر سوار افراد اپنے اردگرد کے مناظر بھی تو اپنی گناه گار آنکھوں سے دیکھیں گے.وه غربت ،گندگی.ہسپتالوں کی حالت زار . گورنمنٹ اسکولوں کا بھی مشاہدہ کریں گے.ٹوٹی سڑکوں پر جب ان کے قدم بوسہ لیں گے تو یہ تمام تر مناظر چیخ چیخ کر کہیں گے کہ یہ ہے پا کستان یہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے.ہمارا مشوره ہےکہ اس سنہری موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے اور واسا کو ا حکام صادر کر دیئے جائیں کہ وه نالہ لئی کی صفائی سے باز رہے بلکہ نالہ لئ کو مزید مٹی سے بهر دیا جائے.تاکہ یہ تمام علاقے جو کہ میٹرو کی خوبصورتی کو ماند کررہے ہیں یعنی گندی کے ڈھیر، بوسیدہ عمارات، لوگوں کی مفلسی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، تاریکی میں ڈوبے گهر ،لوڈشیڈنگ کے مارے لوگ اور خاص طور پر مرد حضرات جو نیم برہنہ حالت میں تازه ہوا کے جھونکے کی تلاش میں گھروں سے شلواریں چڑھائے نمودار ہوتے ہیں اور کچھ ناہنجار شلواروں کو ہی نیکر بنا کر اپنی دہلیز کی چوکهٹ پار کر جاتے ہیں ۔
آخر ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہے وہاں سرے عام اس طرح کی فحاشی پھلانے والے کو سزا دینی چاہئے اور سزا پانی کی موت ہی ہو تو مناسب رہے گی .کیونکہ مون سون کے موسم میں غریبوں کو مفت دی جاتی اس میں حکومت کا کوئی خرچہ نہیں ہوتا اور پهر میٹرو بنانے والے کہہ سکیں خس کم جہاں پاک .اور آپ اپنے وزیر اعظم کی طرح کہہ سکیں پاکستان جیسا نہیں لگتا .مون سون کے موسم میں سب کچھ پانی میں چھپ جائے اور درمیان میں چلے میٹرو بس تو یہ ہو گا نہ وه منظر جو آپ کی آنکھوں کو بیرون ملک میں بہت بهایا ہوگا.ہاں اگر کہیں کسی کمی کمین پاکستانی کی لاش تیرتے ہوئے نظر آ جائے تو اس کو بالکل نظر انداز کر دیجئے. اس ہی طرح جس طرح ہمارے سیاست دان عوام کے مسائل کو انداز کرتے ہیں. تصور کیجئے شام کا پہر ہو سورج ڈوب رہا ہےاور آپ میٹرو بس پر سوار ہوں اور تاحدنگاه پانی ہی پانی ہو.تو آپ کا دل بھی یہ پکار اٹهے گا کہ پاکستان جیسا نہیں لگتا.میٹرو بس والوں سے التماس ہے ایسے مناظر حساس لوگ نہ دیکھں تاکہ کوئی اس کی نقشہ کشی اس طرح نہ بیان کر دے۔اس طرف شہر ادھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پر نہ رویا ہو گا
http://www.saach.tv/urdu/42987/
Last edited by a moderator: