میرا بچھڑا ہوا دوست سردار سکھدیپ سنگھ

Aashoor Asim

Councller (250+ posts)
آج سردار سکھدیپ سنگھ سے جدا ہوئے پورے دو سال ہو چکے ہیں

میں برطانیہ کے شہر لندن میں عرصہ آٹھ سال سے مقیم ہوں۔ یہ شہر جہاں دنیا کے بڑے تجارتی شہروں میں سے ایک ہے، وہیں اس شہر کی اہمیت پاکستان اور بھارت میں بہت زیادہ ہے۔

لندن شہر ہمیشہ باہر سے آنے والے تارکینِ وطن کو ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں جگہ دیتا ہے اور دنیا بھر سے لوگ روزگار کی تلاش میں اس شہر میں آتے ہیں اور یہ شہر ایک ماں کی طرح انہیں رہنے کو چھت اور کھانے کو روٹی دیتا ہے۔ پاکسان سے یہاں آ کر محنت مزدوری کرنے والی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ اس وقت لندن کا مئیر ایک پاکستانی نژاد صادق خان ہے۔

دوسری طرف بھارت سے آنے والوں کا سلسلہ 1950 کی دہائی سے جاری ہے اور اب یہ عالم ہے کہ مغربی لندن کا ایک بڑا حصہ بھارت کا ہوم ٹاؤن کہلاتا ہے۔ بھارت سے آنے والوں میں سے سب سے زیادہ سکھ برادری کے لوگ اس شہر میں آئے اور وہ علاقہ جہاں پر اس وقت میں مقیم ہوں، اس کو "منی انڈیا" یا "منی امرتسر" کہا جاتا ہے۔

یہ مشہور علاقہ "ساؤتھ ہال" کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہاں پر سکھ، پاکستانی اور صومالین مسلمان ایک بڑی تعداد میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔

میں آٹھ سال سے ساؤتھ ہال میں مقیم ہوں اور یہاں پر آنے والا میرا پہلا دوست ایک سکھ سردارسکھدیپ سنگھ تھا۔ سکھدیپ سنگھ پہلا شخص تھا جس نے مجھے نوکری حاصل کرنے میں میری مدد کی اور شروع کے تین ماہ اپنے گھر میں سر چھپانے کی جگہ دی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکھدیپ کے ساتھ دوستی گہری ہوتی گئی۔

سکھدیپ ایک زبردست محبِ وطن نوجوان تھا، اس کے ساتھ ہمیشہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو لے کر بحث ہوا کرتی تھی، کرکٹ میچوں پر شدت کے ساتھ ہمارے مکالمے ہوا کرتے تھے۔ پاکستان کی تخلیق سے آج کے حالات تک، 65 سے لے کر کارگل کی جنگوں تک، سقوطِ ڈھاکہ سے لے کر ممبئی اٹیکس تک اور کرکٹ سے لے کر فلموں تک الغرض ہر طرح کے سیاسی، معاشرتی اور فنونِ لطیفہ کے موضوعات پر زبردست مباحثے ہوا کرتے تھے۔

میں ہمیشہ سکھدیپ سے کہا کرتا تھا کہ مجھ میں اور تم میں یہ فرق ہے کہ میں جانتا ہوں کہ پاکستان نے کچھ سیاسی اور علاقائی غلطیاں کی ہیں لیکن افسوس کہ تم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ بھارت نے اپنی غلط سفارتی پالیسی کی وجہ سے پاکستان سے زیادہ سیاسی اور علاقائی مسائل بڑھائے ہیں اور بھارت ہی دراصل خطے میں امن نہیں چاہتا اور پھر اپنی بات کے حق میں دلائل کے انبار لگا دیا کرتا تھا لیکن وہ ہمیشہ ہندو ایسٹبشلمنٹ کی زبان بولتا تھا کہ پاکستان ہی دراصل امن نہیں چاہتا اور پاکستان کے جنگی جنون کی وجہ سے ہمارا خطہ جہنم بنا ہوا ہے۔

انہی بحثوں کو لے کر ایک دن سکھدیپ کے ساتھ زبردست جھڑپ ہوئی اور ہماری لڑائی ہو گئی اور آج سردار سکھدیپ سنگھ سے جدا ہوئے پورے دو سال ہو چکے ہیں۔

چند دنوں سے کرتارپور راہدری کو لے کر پورے پاکستان، بھارت اور دنیا بھر میں چرچا ہو رہا ہے۔ میں بھی یہ خبریں پچھلے تین دن سے دیکھ رہا ہوں، دونوں ملکوں کا میڈیا اپنی اپنی سائیڈ کی سٹوری سنا رہا ہے۔ آج کرتارپور راہداری کا سنگِ بنیاد بھی رکھا گیا، ابھی یہی خبریں ٹی وی پر دیکھ رہا تھا کہ دوپہر کو اچانک میرے گھر کی ڈور بیل بجی تو میں سمجھا کہ شاید ڈاکیا ہو گا۔

دروازہ کھولا تو سامنے بچھڑا ہوا دوست سردار سکھدیپ سنگھ ہرے رنگ کی پگڑی پہنے، ہاتھوں میں پھولوں کا بڑا سا گلدستہ تھامے، مسکراتا ہوا کھڑا تھا۔ میں ایک دم سکھدیپ کو اتنے سالوں بعد دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ سکھدیپ سنگھ نے دونوں بازو پھیلا کر مجھے ایک زور دار جپھی ڈالی اور چومتے ہوئے کہا

"یار تو صحیح کہتا تھا، پاکستان بڑے دل والوں کا بڑا ملک ہے۔ پاکستان نے ہم سکھوں کو بابا گرونانک کے قدموں تک رسائی نہیں دی، اس نے ہم کو منہ مانگے داموں خرید لیا ہے اور ثابت کر دیا کہ پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت خطے میں امن چاہتی ہے لیکن ہمارا (بھارتی) میڈیا، حکومت اور ایسٹبلشمنٹ صرف جنگ اور امن کی تباہی کی باتیں کر رہے ہیں۔ گرو تو ٹھیک کہتا تھا، میں صرف ایک مخصوس طبقعے کی زبان بولا کرتا تھا، لیکن آج پتہ چلا کہ میرے دل کی زبان اور ہے"

یہ کہہ کر سکھدیپ نے پھولوں کا گلدستہ مجھے تمھایا اور اپنی ہری پگڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا

"گرو یہ ہرے رنگ کی پگڑی صرف پگڑی نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تم جیسے پاکستانی دوستوں کو خراجِ تحسین ہے"۔

یہ کہہ کر سکھدیپ نے مجھے پھر سے گلے لگایا اور یہ کہہ کر رخصت ہو گیا کہ پھر ملیں گے

میں ہاتھوں میں بڑا سا گلدستہ تھامے دروازے پر کھڑا سوچ رہا ہوں کہ کرتارپور راہداری ایک ماسٹر سٹروک ہے، جس نے ہندوستان کے بارہ کروڑ لوگوں کی سوچ کو ایک ہی لمحے میں بدل کر رکھ دیا ہے اور بھارت سے لے کر لندن تک اور نیروبی سے لے کر کینیڈا تک ساری دنیا کے سکھ آج بھارت کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

بھلا اس سے بڑھ کر سفارت کاری کیا ہو گی ؟ بھلا اس سے بڑھ کر پاکستان کی خدمت کیا ہو گی ؟

شکریہ عمران خان
شکریہ جنرل باجوہ

تحریر: عاشور بابا
 
Last edited by a moderator:

SaRashid

Minister (2k+ posts)
آج سردار سکھدیپ سنگھ سے جدا ہوئے پورے دو سال ہو چکے ہیں

میں برطانیہ کے شہر لندن میں عرصہ آٹھ سال سے مقیم ہوں۔ یہ شہر جہاں دنیا کے بڑے تجارتی شہروں میں سے ایک ہے، وہیں اس شہر کی اہمیت پاکستان اور بھارت میں بہت زیادہ ہے۔

لندن شہر ہمیشہ باہر سے آنے والے تارکینِ وطن کو ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں جگہ دیتا ہے اور دنیا بھر سے لوگ روزگار کی تلاش میں اس شہر میں آتے ہیں اور یہ شہر ایک ماں کی طرح انہیں رہنے کو چھت اور کھانے کو روٹی دیتا ہے۔ پاکسان سے یہاں آ کر محنت مزدوری کرنے والی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ اس وقت لندن کا مئیر ایک پاکستانی نژاد صادق خان ہے۔

دوسری طرف بھارت سے آنے والوں کا سلسلہ 1950 کی دہائی سے جاری ہے اور اب یہ عالم ہے کہ مغربی لندن کا ایک بڑا حصہ بھارت کا ہوم ٹاؤن کہلاتا ہے۔ بھارت سے آنے والوں میں سے سب سے زیادہ سکھ برادری کے لوگ اس شہر میں آئے اور وہ علاقہ جہاں پر اس وقت میں مقیم ہوں، اس کو "منی انڈیا" یا "منی امرتسر" کہا جاتا ہے۔

یہ مشہور علاقہ "ساؤتھ ہال" کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہاں پر سکھ، پاکستانی اور صومالین مسلمان ایک بڑی تعداد میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔

میں آٹھ سال سے ساؤتھ ہال میں مقیم ہوں اور یہاں پر آنے والا میرا پہلا دوست ایک سکھ سردارسکھدیپ سنگھ تھا۔ سکھدیپ سنگھ پہلا شخص تھا جس نے مجھے نوکری حاصل کرنے میں میری مدد کی اور شروع کے تین ماہ اپنے گھر میں سر چھپانے کی جگہ دی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکھدیپ کے ساتھ دوستی گہری ہوتی گئی۔

سکھدیپ ایک زبردست محبِ وطن نوجوان تھا، اس کے ساتھ ہمیشہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو لے کر بحث ہوا کرتی تھی، کرکٹ میچوں پر شدت کے ساتھ ہمارے مکالمے ہوا کرتے تھے۔ پاکستان کی تخلیق سے آج کے حالات تک، 65 سے لے کر کارگل کی جنگوں تک، سقوطِ ڈھاکہ سے لے کر ممبئی اٹیکس تک اور کرکٹ سے لے کر فلموں تک الغرض ہر طرح کے سیاسی، معاشرتی اور فنونِ لطیفہ کے موضوعات پر زبردست مباحثے ہوا کرتے تھے۔

میں ہمیشہ سکھدیپ سے کہا کرتا تھا کہ مجھ میں اور تم میں یہ فرق ہے کہ میں جانتا ہوں کہ پاکستان نے کچھ سیاسی اور علاقائی غلطیاں کی ہیں لیکن افسوس کہ تم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ بھارت نے اپنی غلط سفارتی پالیسی کی وجہ سے پاکستان سے زیادہ سیاسی اور علاقائی مسائل بڑھائے ہیں اور بھارت ہی دراصل خطے میں امن نہیں چاہتا اور پھر اپنی بات کے حق میں دلائل کے انبار لگا دیا کرتا تھا لیکن وہ ہمیشہ ہندو ایسٹبشلمنٹ کی زبان بولتا تھا کہ پاکستان ہی دراصل امن نہیں چاہتا اور پاکستان کے جنگی جنون کی وجہ سے ہمارا خطہ جہنم بنا ہوا ہے۔

انہی بحثوں کو لے کر ایک دن سکھدیپ کے ساتھ زبردست جھڑپ ہوئی اور ہماری لڑائی ہو گئی اور آج سردار سکھدیپ سنگھ سے جدا ہوئے پورے دو سال ہو چکے ہیں۔

چند دنوں سے کرتارپور راہدری کو لے کر پورے پاکستان، بھارت اور دنیا بھر میں چرچا ہو رہا ہے۔ میں بھی یہ خبریں پچھلے تین دن سے دیکھ رہا ہوں، دونوں ملکوں کا میڈیا اپنی اپنی سائیڈ کی سٹوری سنا رہا ہے۔ آج کرتارپور راہداری کا سنگِ بنیاد بھی رکھا گیا، ابھی یہی خبریں ٹی وی پر دیکھ رہا تھا کہ دوپہر کو اچانک میرے گھر کی ڈور بیل بجی تو میں سمجھا کہ شاید ڈاکیا ہو گا۔

دروازہ کھولا تو سامنے بچھڑا ہوا دوست سردار سکھدیپ سنگھ ہرے رنگ کی پگڑی پہنے، ہاتھوں میں پھولوں کا بڑا سا گلدستہ تھامے، مسکراتا ہوا کھڑا تھا۔ میں ایک دم سکھدیپ کو اتنے سالوں بعد دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ سکھدیپ سنگھ نے دونوں بازو پھیلا کر مجھے ایک زور دار جپھی ڈالی اور چومتے ہوئے کہا

"یار تو صحیح کہتا تھا، پاکستان بڑے دل والوں کا بڑا ملک ہے۔ پاکستان نے ہم سکھوں کو بابا گرونانک کے قدموں تک رسائی نہیں دی، اس نے ہم کو منہ مانگے داموں خرید لیا ہے اور ثابت کر دیا کہ پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت خطے میں امن چاہتی ہے لیکن ہمارا (بھارتی) میڈیا، حکومت اور ایسٹبلشمنٹ صرف جنگ اور امن کی تباہی کی باتیں کر رہے ہیں۔ گرو تو ٹھیک کہتا تھا، میں صرف ایک مخصوس طبقعے کی زبان بولا کرتا تھا، لیکن آج پتہ چلا کہ میرے دل کی زبان اور ہے"

یہ کہہ کر سکھدیپ نے پھولوں کا گلدستہ مجھے تمھایا اور اپنی ہری پگڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا

"گرو یہ ہرے رنگ کی پگڑی صرف پگڑی نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تم جیسے پاکستانی دوستوں کو خراجِ تحسین ہے"۔

یہ کہہ کر سکھدیپ نے مجھے پھر سے گلے لگایا اور یہ کہہ کر رخصت ہو گیا کہ پھر ملیں گے

میں ہاتھوں میں بڑا سا گلدستہ تھامے دروازے پر کھڑا سوچ رہا ہوں کہ کرتارپور راہداری ایک ماسٹر سٹروک ہے، جس نے ہندوستان کے بارہ کروڑ لوگوں کی سوچ کو ایک ہی لمحے میں بدل کر رکھ دیا ہے اور بھارت سے لے کر لندن تک اور نیروبی سے لے کر کینیڈا تک ساری دنیا کے سکھ آج بھارت کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

بھلا اس سے بڑھ کر سفارت کاری کیا ہو گی ؟ بھلا اس سے بڑھ کر پاکستان کی خدمت کیا ہو گی ؟

شکریہ عمران خان
شکریہ جنرل باجوہ

تحریر: عاشور بابا
ایک سے بڑھ کر ایک بے غیرت بیٹھا ہوا ہے یہاں۔ سکھڑے ان کے باپ ہیں، کیوں کہ یہ 1947 میں ان کی نانیوں دادیوں کو اٹھا کر لے گئے تھے، اور دس لاکھ مسلمانوں کے خون سے رنجیت سنگھ کی قبر کو نہلایا تھا۔
 

c'estmoi

Chief Minister (5k+ posts)
ایک سے بڑھ کر ایک بے غیرت بیٹھا ہوا ہے یہاں۔ سکھڑے ان کے باپ ہیں، کیوں کہ یہ 1947 میں ان کی نانیوں دادیوں کو اٹھا کر لے گئے تھے، اور دس لاکھ مسلمانوں کے خون سے رنجیت سنگھ کی قبر کو نہلایا تھا۔

I can see how much you are burning.
 

c'estmoi

Chief Minister (5k+ posts)
آج سردار سکھدیپ سنگھ سے جدا ہوئے پورے دو سال ہو چکے ہیں

میں برطانیہ کے شہر لندن میں عرصہ آٹھ سال سے مقیم ہوں۔ یہ شہر جہاں دنیا کے بڑے تجارتی شہروں میں سے ایک ہے، وہیں اس شہر کی اہمیت پاکستان اور بھارت میں بہت زیادہ ہے۔

لندن شہر ہمیشہ باہر سے آنے والے تارکینِ وطن کو ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں جگہ دیتا ہے اور دنیا بھر سے لوگ روزگار کی تلاش میں اس شہر میں آتے ہیں اور یہ شہر ایک ماں کی طرح انہیں رہنے کو چھت اور کھانے کو روٹی دیتا ہے۔ پاکسان سے یہاں آ کر محنت مزدوری کرنے والی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ اس وقت لندن کا مئیر ایک پاکستانی نژاد صادق خان ہے۔

دوسری طرف بھارت سے آنے والوں کا سلسلہ 1950 کی دہائی سے جاری ہے اور اب یہ عالم ہے کہ مغربی لندن کا ایک بڑا حصہ بھارت کا ہوم ٹاؤن کہلاتا ہے۔ بھارت سے آنے والوں میں سے سب سے زیادہ سکھ برادری کے لوگ اس شہر میں آئے اور وہ علاقہ جہاں پر اس وقت میں مقیم ہوں، اس کو "منی انڈیا" یا "منی امرتسر" کہا جاتا ہے۔

یہ مشہور علاقہ "ساؤتھ ہال" کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہاں پر سکھ، پاکستانی اور صومالین مسلمان ایک بڑی تعداد میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔

میں آٹھ سال سے ساؤتھ ہال میں مقیم ہوں اور یہاں پر آنے والا میرا پہلا دوست ایک سکھ سردارسکھدیپ سنگھ تھا۔ سکھدیپ سنگھ پہلا شخص تھا جس نے مجھے نوکری حاصل کرنے میں میری مدد کی اور شروع کے تین ماہ اپنے گھر میں سر چھپانے کی جگہ دی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکھدیپ کے ساتھ دوستی گہری ہوتی گئی۔

سکھدیپ ایک زبردست محبِ وطن نوجوان تھا، اس کے ساتھ ہمیشہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو لے کر بحث ہوا کرتی تھی، کرکٹ میچوں پر شدت کے ساتھ ہمارے مکالمے ہوا کرتے تھے۔ پاکستان کی تخلیق سے آج کے حالات تک، 65 سے لے کر کارگل کی جنگوں تک، سقوطِ ڈھاکہ سے لے کر ممبئی اٹیکس تک اور کرکٹ سے لے کر فلموں تک الغرض ہر طرح کے سیاسی، معاشرتی اور فنونِ لطیفہ کے موضوعات پر زبردست مباحثے ہوا کرتے تھے۔

میں ہمیشہ سکھدیپ سے کہا کرتا تھا کہ مجھ میں اور تم میں یہ فرق ہے کہ میں جانتا ہوں کہ پاکستان نے کچھ سیاسی اور علاقائی غلطیاں کی ہیں لیکن افسوس کہ تم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ بھارت نے اپنی غلط سفارتی پالیسی کی وجہ سے پاکستان سے زیادہ سیاسی اور علاقائی مسائل بڑھائے ہیں اور بھارت ہی دراصل خطے میں امن نہیں چاہتا اور پھر اپنی بات کے حق میں دلائل کے انبار لگا دیا کرتا تھا لیکن وہ ہمیشہ ہندو ایسٹبشلمنٹ کی زبان بولتا تھا کہ پاکستان ہی دراصل امن نہیں چاہتا اور پاکستان کے جنگی جنون کی وجہ سے ہمارا خطہ جہنم بنا ہوا ہے۔

انہی بحثوں کو لے کر ایک دن سکھدیپ کے ساتھ زبردست جھڑپ ہوئی اور ہماری لڑائی ہو گئی اور آج سردار سکھدیپ سنگھ سے جدا ہوئے پورے دو سال ہو چکے ہیں۔

چند دنوں سے کرتارپور راہدری کو لے کر پورے پاکستان، بھارت اور دنیا بھر میں چرچا ہو رہا ہے۔ میں بھی یہ خبریں پچھلے تین دن سے دیکھ رہا ہوں، دونوں ملکوں کا میڈیا اپنی اپنی سائیڈ کی سٹوری سنا رہا ہے۔ آج کرتارپور راہداری کا سنگِ بنیاد بھی رکھا گیا، ابھی یہی خبریں ٹی وی پر دیکھ رہا تھا کہ دوپہر کو اچانک میرے گھر کی ڈور بیل بجی تو میں سمجھا کہ شاید ڈاکیا ہو گا۔

دروازہ کھولا تو سامنے بچھڑا ہوا دوست سردار سکھدیپ سنگھ ہرے رنگ کی پگڑی پہنے، ہاتھوں میں پھولوں کا بڑا سا گلدستہ تھامے، مسکراتا ہوا کھڑا تھا۔ میں ایک دم سکھدیپ کو اتنے سالوں بعد دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ سکھدیپ سنگھ نے دونوں بازو پھیلا کر مجھے ایک زور دار جپھی ڈالی اور چومتے ہوئے کہا

"یار تو صحیح کہتا تھا، پاکستان بڑے دل والوں کا بڑا ملک ہے۔ پاکستان نے ہم سکھوں کو بابا گرونانک کے قدموں تک رسائی نہیں دی، اس نے ہم کو منہ مانگے داموں خرید لیا ہے اور ثابت کر دیا کہ پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت خطے میں امن چاہتی ہے لیکن ہمارا (بھارتی) میڈیا، حکومت اور ایسٹبلشمنٹ صرف جنگ اور امن کی تباہی کی باتیں کر رہے ہیں۔ گرو تو ٹھیک کہتا تھا، میں صرف ایک مخصوس طبقعے کی زبان بولا کرتا تھا، لیکن آج پتہ چلا کہ میرے دل کی زبان اور ہے"

یہ کہہ کر سکھدیپ نے پھولوں کا گلدستہ مجھے تمھایا اور اپنی ہری پگڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا

"گرو یہ ہرے رنگ کی پگڑی صرف پگڑی نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تم جیسے پاکستانی دوستوں کو خراجِ تحسین ہے"۔

یہ کہہ کر سکھدیپ نے مجھے پھر سے گلے لگایا اور یہ کہہ کر رخصت ہو گیا کہ پھر ملیں گے

میں ہاتھوں میں بڑا سا گلدستہ تھامے دروازے پر کھڑا سوچ رہا ہوں کہ کرتارپور راہداری ایک ماسٹر سٹروک ہے، جس نے ہندوستان کے بارہ کروڑ لوگوں کی سوچ کو ایک ہی لمحے میں بدل کر رکھ دیا ہے اور بھارت سے لے کر لندن تک اور نیروبی سے لے کر کینیڈا تک ساری دنیا کے سکھ آج بھارت کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

بھلا اس سے بڑھ کر سفارت کاری کیا ہو گی ؟ بھلا اس سے بڑھ کر پاکستان کی خدمت کیا ہو گی ؟

شکریہ عمران خان
شکریہ جنرل باجوہ

تحریر: عاشور بابا

Awesome! I went out with my co-workers the other night and one of my co-workers who is a sikh was very happy and was thanking IK.
 

Altruist

Minister (2k+ posts)
Whatever is said about this day is not enough as this corridor will lead to the heart of the Sikh community and will change their views about Pakistan.
 

Back
Top