Arslan
Moderator
نواز شریف کے لئے اعلیٰ پوزیشن دوبارہ حاصل کر لینا کچھ مشکل نہیں ہے- لیکن یقینی طور پر یہ وہاں اطمینان محسوس نہیں کرتے- ان کا اداس طرز عمل، ایک ایسے شخص کو ظاہر کرتا ہے جو شدید کرب میں مبتلا ہے،اس سے انکی قوم کو بہت کم اعتماد حاصل ہو رہا ہے جس کی انہیں قیادت کرنی ہے-
دلچسپ بات یہ ہے کہ، حالیہ مہینوں میں ایک ہی نایاب لمحہ ایسا آیا جب انہیں پچھلے ماہ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری سے ملاقات کے دوران مسکراتے ہوۓ دیکھا گیا-
نواز شریف کے حکومت میں ابتدائی 80 دن اتنے قابل ذکر نہیں گزرے جس کی بنا پر عوام حکومت پر اپنا اعتماد قائم کر سکے- ان کے بےحد تاخیر کے ساتھ کیے جانے والے پہلے قومی خطاب میں توجہ اور رہنمائی کا فقدان تھا- تقریباً تمام اہم معاملات پر انکا عارضی نقطہ نظر اور پس و پیش نے ملک میں پھیلے ہوۓ جمود کو اور تقویت بخشی ہے-
اب جبکہ ہنی مون پیریڈ ختم ہونے کو ہے، حکومت کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کو کچھ بھی نہیں ہے- وزیر اعظم کی گھبراہٹ مشہور ہے- بہت سے اہم سفارتی اور سرکاری عہدے خالی پڑے ہیں کیوں کہ وزیر اعظم فیصلہ نہیں کر پا رہے-
میاں صاحب اختیارات کی حوالگی سے متعلق کبھی بھی نیک نام نہیں رہے، لیکن اس بار جس طرح سے انہوں نے اہم عہدے، جیسے، غیرملکی تعلقات، دفاع اور تجارت اپنے پاس رکھے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات اس بار زیادہ ہی خراب ہیں-
باقی جو ہیں وہ وہی پرانے چہرے ہیں، جو تیرہ سال پہلے بھی پی ایم ایل-این انتظامیہ کا حصّہ تھے، چناچہ یہ آج کے یکسر تبدیل شدہ اندرونی اور بیرونی حالات کے لحاظ سے کوئی نیا ویژن یا خیال لے کر نہیں آۓ ہیں-
نیا خون متعارف کرانے میں انکی ہچکچاہٹ، اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ میاں صاحب اپنی پرانی پارٹی اسٹائل کی انتظامیہ ہی رکھنا چاہتے ہیں- اہم معاملات پر مشاورت صرف قریبی خاندانی ارکان اور چند قابل بھروسہ ساتھیوں تک محدود ہے-
یہ حکومت نیوٹرل گیر پہ چل رہی ہے- پارٹی کے اس اصلاحاتی ایجنڈے کے نفاذ کے لیے ابھی تک کوئی اہم اقدام نہیں کیا گیا ہے جس کا سب سے زیادہ دعویٰ کیا گیا تھا-
مثال کے طور پر معیشت کو لے لیں، یہ میاں صاحب کی ترجیحات میں سرفہرست تھا- لیکن فی الحال کوئی واضح پالیسی بنتی نظر نہیں آتی- نیشنل اسمبلی میں ایک بڑی اکثریت ہونے کے باوجود نواز شریف کوئی ایسا فیصلہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتے جو فوری طور پر معیشت کو سنبھالا دے سکے- یہ ایڈ ہاکزم کی بد ترین شکل ہے-
پچھلے ہفتے کے خطاب میں وزیر اعظم صاحب نے بڑی تفصیل سے یہ بیان کیا کہ کیا کچھ غلط ہوا ہے، لیکن کیا کیا جانا چاہیے اس حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا گیا- بظاھر ٹیکسیشن میں اصلاحات میاں صاحب کی ترجیحات کا حصّہ نہیں ہیں-
گزشتہ ہفتے انہوں نے لندن ٹیلیگراف کو جو انٹرویو دیا اس میں یہ بالکل واضح ہے: میں نے ابھی تک اس مسئلہ پر گفتگو نہیں کی کیونکہ یہ ابھی ابتدائی دن ہیں-
تو آخر میاں صاحب کو اس اہم مسئلہ پر سوچنے کے لئے کتنا وقت درکار ہے؟
نواز شریف نے انکم اور کارپوریٹ ٹیکس میں کٹوتی کا بھی اشارہ دیا- ہمیں ملک میں ٹیکس کم کرنا ہوں گے، انکم ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس اور تمام ٹیکسز، انہوں نے ٹیلیگراف کو بتایا- ٹیکس جو ملکی جی ڈی پی کے 9 فیصد سے بھی کم پر مشتمل ہے، دنیا کی سب سے کم شرح ہے، ایسے میں، ٹیکس بیس پھیلاۓ بغیر امیروں کے لئے ٹیکس میں کٹوتی، تباہی کا منصوبہ ہے-
میاں صاحب کی حکومت پہلے ہی پاکستان کی بیمار معیشت کو سہارا دینے کے لئے آئ ایم ایف کے 3.5 بلین ڈالر کے بیل آوٹ پیکج پر متفق ہو چکی ہے- اس پروگرام کے لئے پاکستان کو اپنا مالیاتی خسارہ کم کرنے کی ضرورت ہے- لیکن کیا یہ بنیادی ٹیکس اصلاحات کے بغیر ممکن ہے؟ اس صورت حال کے پیش نظر، حکومت کے لئے آئ ایم ایف پروگرام کی شرایط پوری کرنا انتہائی دشوار ثابت ہوگا-
دہشتگردی کے مسئلہ کو لے کر بھی نواز شریف بہت متنازعہ اور الجھن کا شکار نظر آتے ہیں- گزشتہ ہفتے کے خطاب کا ایک بڑا حصّہ، بڑھتی ہوئی دہشتگردی سے ہونے والی انسانی اور مالیاتی نقصانات کے لئے مخصوص تھا- انہوں نے بالکل درست کہا کہ سیاسی استحکام اور معاشی ترقی اس برائی کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں- لیکن جب بات ریاست کے اختیارات کو لاحق اس چیلنج کے خلاف ایکشن کی آئ تو انکا ارادہ کمزور نظر آیا-
ملٹری آپشن کے امکانات کو باہر رکھتے ہوۓ، میاں صاحب ابھی تک عسکریت پسندوں سے بات چیت کے ذریعہ امن معاہدے کے تصور پہ ہی اٹکے ہوۓ ہیں- اس بات کا انہیں کوئی اندازہ نہیں کہ اس طرح کے اقدامات ماضی میں ناکام رہے ہیں اور اس بار بھی ان کی کامیابی کی کوئی امید نہیں-
ایسا لگتا ہے کہ حکومت ہر حال میں دہشتگردوں کو خوش کرنا چاہتی ہے جبکہ طالبان نے یہ بالکل واضح کر دیا ہے کہ وہ صرف اپنی شرطوں پر بات چیت کے لئے تیار ہیں-
ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران وزیر داخلہ نثار علی خان کا یہ تبصرہ کہ پچھلی انتظامیہ مذاکرات کے لئے سنجیدہ نہیں تھی، طالبان کو خوش کرنے کے لئے حکومت کی بے چینی کا ثبوت ہے- انہوں نے یہ کہہ کر عسکریت پسندوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو مسترد کر دیا کہ ڈائلاگ ہی واحد راستہ ہے-
اس طرح کے تبصرے نا صرف دہشتگردی کو جائز قرار دیتے ہیں بلکہ ان کے خلاف برسر پیکار ہماری سیکورٹی فورسز کے عزائم کو بھی کمزور بنا سکتے ہیں-
وزیر صاحب ان نام نہاد امن مذاکرات کے لئے پیشگی شرایط بھی نہیں رکھنا چاہتے- اس سے زیادہ شکست خوردگی اور کیا ہوگی-
ایک خیال یہ بھی فروغ پا رہا ہے کہ پنجاب پر کوئی حملہ نہ ہو اس لئے نواز شریف، دہشتگردوں سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں- نواز شریف کی امن پیشکش پر پنجابی طالبان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان اختلاف، اس تاثر کو مزید تقویت بخشتا ہے-
بہت سوں کا یہ ماننا ہے کہ پنجابی طالبان کی دھمکی کے بعد وزیر اعظم نے لشکر جھنگوی کے دو سزا یافتہ ارکان کی پھانسی رکوا دی ہے- اس گروپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ان افراد کو پھانسی دی گئی تو بڑے حکومتی لیڈروں کو نشانہ بنایا جاۓ گا-
تو پھر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اگر پھانسی معطل کرنے کے بعد اس گروپ نے میاں شریف کے امن مذاکرات کا خیر مقدم کیا- پورے ملک کے استحکام کی قیمت پر ایک صوبے کے لئے امن خریدنا عقلمندی نہیں-
توقع تو یہ تھی کہ تیسری بار حکومت میں آنے کے بعد شریف انتظامیہ نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ سبق حاصل کیا ہوگا اور یہ اختلافات میں گھرے اس ملک میں تھوڑا سیاسی استحکام لاۓ گی- لیکن حکومت کی کارکردگی دیکھتے ہوۓ مستقبل کے بارے میں امید بہت کم ہے-
میاں صاحب کو اپنی خیالی دنیا سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ صورت حال ناقابل واپسی ہو جاۓ-
source
source