سیانے کہتے ہیں کہ جب بُرائی آئی ہوئی ہوتی ہے تو اُونٹ پر بیٹھے شخص کو بھی کُتا کاٹ لیتا ہے۔
شریفین کے ساتھ بھی آج کل ایسا کچھ ہی ہو رہا ہے۔
ابھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تازہ تازہ اردو ترجمہ جاری ہوا تھا اور پٹوار خانہ (بشمول وزراء کے) دو دن پہلے کھاۓ لڈو کی قے کرنے میں مصروف تھا کہ سجن جندل آ دھمکے۔ ہماری مستقبل کی ''عقلمند ترین'' وزیر اعظم مریم نواز نے ضروری سمجھا کہ سجن جندال کو اپنے ابو کے بچپن کا سجن ثابت کریں، وہ یہ بھی بھول بیٹھیں کہ ابو کے بچپن کا سجن پاکستان بارے کیسی کیسی باتیں ٹویٹ کرچکا ہے۔ پھر شریفین کو سجن جندال اور میاں صاحب کے درمیاں مری میں ہونے والی خفیہ غُٹرغوں پر گالیاں پڑ ہی رہی تھیں کہ خان صاحب نے پریڈ گراؤنڈ جیسی بڑی جلسہ گاہ تین دن کے نوٹس پر بھر کر اِنکے زخموں پر تیزاب اُنڈیل دیا۔ آج اپنی طرف سے ڈان لیکس پر اِنہوں نے چالاکی دکھائی اور نہر کی گہرائی ماپنے واسطے وزیر اعظم ہاؤس سے وہ کاغذ جاری کیا جِس پر ''بِگ بوٹ '' اور ''ڈاگ فادر'' کا اتفاق نہیں ہوا تھا، یہ چلتری اتنی مہنگی پڑی کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر ایک فوجی میجر جنرل نے ایک ٹویٹ کر کے وزیراعظم کا باندر بُھرکس تو نکالا ہی، ساتھ ساتھ ریاست پاکستان کے منتظمِ اعلیٰ کے اختیارات پر بھی نہایت سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے۔ ابھی ہم جیسے لوگ اس مخمصے میں پھنسے ہوۓ ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کے منہ پر برسنے والے زناٹے دار تھپڑ پر خوشی کا اظہار کریں یا وزارت عظمیٰ کے عہدے کا ہی جنازہ نکال دینے پر جمہوریت کی قبر پر قل خوانی کا کوئی انتظام کریں؟ آج ہی اوکاڑہ میں نواز شریف نے اپنی طرف سے بہت جاندار تقریر کی تھی، بِلکُل اختتامی جملوں میں پی ٹی آئی کے جلسے میں آئی خواتین پر ایک ذو معنی سوال ''بہنیں اُدھر کیا کر رہی تھیں ؟'' کر کے خود ہی اپنے پاؤں میں گولی مار لی۔ اِس وقت کوئی بھی وزیر اعظم کی تقریر کی بات نہیں کر رہا، ہر کوئی حسبِ توفیق ''خواتین دشمنی'' پر میاں صاحب پر تبراء بھیجنے میں مصروف ہے۔
اعتزاز احسن کی بات یاد آ رہی ہے کہ ناہلی سے تو یہ بچ گئے ہیں لیکن اب اِن پر بہت بُرا وقت شروع ہونے والا ہے۔
کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ابھی تک وزیر اعظم ہے اور پٹواری یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ لوگوں کے لاکھ واویلے کے باوجود نواز شریف نے اپنی کرسی نہیں چھوڑی لیکن غور سے دیکھا جاۓ تو واقعی پاناما فیصلے کو ابھی ہفتہ بھی نہیں ہوا اور اِسوقت ذِلّت بھی پریشان ہے کہ اور کِس کِس زاویے سے شریفوں کا مقدر بنوں ؟
آئی ایس پی آر کی تازہ تازہ ٹویٹ نے تو یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں رہنے والے کو وزیر اعظم کہا جاتا ہے یا تمام اداروں کے سربراہ کو وزیر اعظم کہا جاتا ہے؟
بظاہر یہی لگتا ہے کہ آنیوالے دن شریفوں کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں لا رہے، لیکن دیکھتے ہیں یہ اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
شریفین کے ساتھ بھی آج کل ایسا کچھ ہی ہو رہا ہے۔
ابھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تازہ تازہ اردو ترجمہ جاری ہوا تھا اور پٹوار خانہ (بشمول وزراء کے) دو دن پہلے کھاۓ لڈو کی قے کرنے میں مصروف تھا کہ سجن جندل آ دھمکے۔ ہماری مستقبل کی ''عقلمند ترین'' وزیر اعظم مریم نواز نے ضروری سمجھا کہ سجن جندال کو اپنے ابو کے بچپن کا سجن ثابت کریں، وہ یہ بھی بھول بیٹھیں کہ ابو کے بچپن کا سجن پاکستان بارے کیسی کیسی باتیں ٹویٹ کرچکا ہے۔ پھر شریفین کو سجن جندال اور میاں صاحب کے درمیاں مری میں ہونے والی خفیہ غُٹرغوں پر گالیاں پڑ ہی رہی تھیں کہ خان صاحب نے پریڈ گراؤنڈ جیسی بڑی جلسہ گاہ تین دن کے نوٹس پر بھر کر اِنکے زخموں پر تیزاب اُنڈیل دیا۔ آج اپنی طرف سے ڈان لیکس پر اِنہوں نے چالاکی دکھائی اور نہر کی گہرائی ماپنے واسطے وزیر اعظم ہاؤس سے وہ کاغذ جاری کیا جِس پر ''بِگ بوٹ '' اور ''ڈاگ فادر'' کا اتفاق نہیں ہوا تھا، یہ چلتری اتنی مہنگی پڑی کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر ایک فوجی میجر جنرل نے ایک ٹویٹ کر کے وزیراعظم کا باندر بُھرکس تو نکالا ہی، ساتھ ساتھ ریاست پاکستان کے منتظمِ اعلیٰ کے اختیارات پر بھی نہایت سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے۔ ابھی ہم جیسے لوگ اس مخمصے میں پھنسے ہوۓ ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کے منہ پر برسنے والے زناٹے دار تھپڑ پر خوشی کا اظہار کریں یا وزارت عظمیٰ کے عہدے کا ہی جنازہ نکال دینے پر جمہوریت کی قبر پر قل خوانی کا کوئی انتظام کریں؟ آج ہی اوکاڑہ میں نواز شریف نے اپنی طرف سے بہت جاندار تقریر کی تھی، بِلکُل اختتامی جملوں میں پی ٹی آئی کے جلسے میں آئی خواتین پر ایک ذو معنی سوال ''بہنیں اُدھر کیا کر رہی تھیں ؟'' کر کے خود ہی اپنے پاؤں میں گولی مار لی۔ اِس وقت کوئی بھی وزیر اعظم کی تقریر کی بات نہیں کر رہا، ہر کوئی حسبِ توفیق ''خواتین دشمنی'' پر میاں صاحب پر تبراء بھیجنے میں مصروف ہے۔
اعتزاز احسن کی بات یاد آ رہی ہے کہ ناہلی سے تو یہ بچ گئے ہیں لیکن اب اِن پر بہت بُرا وقت شروع ہونے والا ہے۔
کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ابھی تک وزیر اعظم ہے اور پٹواری یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ لوگوں کے لاکھ واویلے کے باوجود نواز شریف نے اپنی کرسی نہیں چھوڑی لیکن غور سے دیکھا جاۓ تو واقعی پاناما فیصلے کو ابھی ہفتہ بھی نہیں ہوا اور اِسوقت ذِلّت بھی پریشان ہے کہ اور کِس کِس زاویے سے شریفوں کا مقدر بنوں ؟
آئی ایس پی آر کی تازہ تازہ ٹویٹ نے تو یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں رہنے والے کو وزیر اعظم کہا جاتا ہے یا تمام اداروں کے سربراہ کو وزیر اعظم کہا جاتا ہے؟
بظاہر یہی لگتا ہے کہ آنیوالے دن شریفوں کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں لا رہے، لیکن دیکھتے ہیں یہ اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔