Mojo-jojo
Minister (2k+ posts)
مگر ناچنا تو پڑے گا
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: اتوار 23 دسمبر 2012 ,* 18:34 GMT 23:34 PST
موضاعات تو بہت ہیں مگر اب شاید الفاظ ڈھیٹ ہو گئے ہیں
باقاعدہ لکھنے والے جانتے ہیں کہ کسی کسی دن ذہن بالکل خالی سکرین کی طرح ہوجاتا ہے۔ قلم کی نِب غصیلے گدھے کی طرح اینٹھ جاتی ہے۔ لاکھ ایڑ لگائیں آگے نہیں بڑھتی۔ موضوعات کی لاشیں ادھر ادھر بکھری ہوتی ہیں۔ پر سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کے چہرے سے کپڑا اٹھا کر دیکھیں، کس کی نبض ٹٹولیں، کس کے اکڑے ہوئے لاشے کو سیدھا کرنے کی کوشش کریں اور کس کے کھلے ہوئے ڈراؤنے منہ کو حروف کی روئی سے بند کرنے کا سوچیں۔ بالکل سجھائی نہیں دیتا کہ کون سے موضوع کا جسم ابھی بھی گرم ہے اور کونسا تعفن زدہ ہو رہا ہے۔
آج دن بھر حروف اور الفاظ کی خوشامد میں گذر گیا۔ لیکن کوئی حرف خوف سے پیچھے ہٹ گیا، کوئی لفظ غصے سے گھورنے لگا۔ کوئی طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا کر کھسک لیا۔ کسی نے فحش اشارے شروع کردئیے، کسی نے دانت نکوس دیے اور کچھ حروف نے طنزیہ حملےشروع کردیے ۔
’ابے علامہ اب تک تو نے ہمیں اتنی بے دردی سے استعمال کر کے کیا اکھاڑ لیا۔ کیا ہم کوئی زرِ خرید غلام ہیں کہ جب بھی کوئی اچھوتا فلسفہ بگھارنے کو تیرا دل چاہے گا تو ہم سرجھکا کے تیرے قدموں میں بیٹھ جائیں گے۔ ارے او داد پرست سستے کالم باز، کیا ہمیں آرام کرنے کا حق نہیں، ہمارا دل نہیں، ہماری اپنی کوئی زندگی نہیں۔ چل یہاں سے پھوٹ لے اور ہمیں بھی کچھ دیر کمر سیدھی کرنے دے۔‘
میں نے حرف و لفظ کو جذباتی کرنے کی بھی کوشش کی۔ یہاں تک کہا کہ کچھ شرم کرو خیبر پختونخوا کے ایک نڈر سیاست داں بشیر بلور کی موت پر ہی چند جملوں میں ڈھل جاؤ۔ یہ نہیں ہوسکتا تو شہدائے پولیو کو ہی خراجِ عقیدت پیش کردو یا پھر جناح اسپتال کراچی میں لائے جانے والے ایک زخمی کو اس کے مخالفین نے جس طرح ایمرجنسی وارڈ کے بستر پر پڑے پڑے کلاشنکوف سے بھون دیا، کچھ اس کی ہی لاج رکھ لو ۔
اور اگر تمہیں ان موضوعات پر ساتھ دینا گراں گزرتا ہے تو پھر ضلع دادو کے علاقے سیتا روڈ میں ایک ہزار لوگوں کے مجمع نے توہینِ قرآن کے الزام میں تھانے میں بند ایک شخص کو پولیس سے چھین کر ہلاک کر کے چوک میں اس کی لاش جو جلا دی ، اس واقعے پر ہی تین حرف بن جاؤ۔ لیکن کوئی حرف ٹس سے مس ہوا اور نا ہی کسی لفظ کے دل میں میرے لئے رحم پیدا ہوا۔
میری بے بسی اور حروف و الفاظ کی بے اعتنائی دیکھ کر ادھر ادھر کھڑے کچھ موضوعات میری طرف چلتے ہوئے آئے اور ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
جیسے کیا اکیس دسمبر کو قیامت ٹل گئی ہے یا پھر اکیس دسمبر کو دراصل سور پھونکا جا چکا ہے جس کی آواز آہستہ ایک پرکیف نغمے کی طرح ابھرے گی اور پھر بلند ہوتی اور ہوتی اور ہوتی چلی
جائے گی یہاں تک کہ اس کی شدت سے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں۔
کیا موجودہ حالات میں اتتخابات کا بروقت انعقاد ممکن ہے ؟
علامہ طاہر القادری اب اپنی واسکٹ کی جیب میں کونسی اور کس کی گیدڑ سنگھی لائے ہیں ؟
کیا ستائیس دسمبر کو گڑھی خدا بخش کے مزار سے بلاول بھٹو کی نئی قیادت ابھرے گی؟ مگر سچی بات یہ ہے کہ خود میرا دل بھی حرف و لفظ کی بے مروتی سے بجھ سا گیا تھا لہٰذا میں نے ان موضوعات سے معذرت کرلی۔
ایک بات کہوں؟ واقعی میں اس وقت خالی پیپے کی طرح محسوس کر رہا ہوں۔ طرح طرح کے الٹے سیدھے خیالات آرہے ہیں۔ کراچی کے ساحل پر ٹہلنے والے مداری کا وہ بندر یاد آرہا ہے جو شام تک کرتب دکھاتے دکھاتے تھک کے چور ہوجاتا ہے پھر بھی تماشائیوں کے منورنجن کے لئے اسے مداری ڈنڈے کے اشاروں اور گلے میں بندھی رسی کے جھٹکوں سے ڈگڈگی کی ڈگ ڈگ پر کبھی جنٹل مین کی طرح چلواتا ہے، کبھی اسے آہنی چھلے میں سے گزرنے کا حکم دیتا ہے تو کبھی لکڑی کی چھوٹی سی پیڑھی پر صاحب لوگوں کی طرح ٹانگ پر ٹانگ رکھ کے بیٹھنے کی فرمائش جاری کر دیتا ہے۔ کیونکہ بچے تالیاں بجائیں گے تو ہی پیٹ بھرے گا۔
اور مجھے ایک پرانی بلیک اینڈ وائٹ ہندی فلم کا کوٹھا بھی بری طرح یاد آرہا ہے۔ جس پر شام ڈھلے تماشائی گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے اگال دان سامنے رکھے مورچھل کی ہوا کے سائے میں چھنو کے مجرے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور چھنو شدید اداسی کے عالم میں اپنے کمرے میں ٹہل رہی ہے۔ آج اس کا مجرا کرنے کا قطعاً موڈ نہیں لیکن نائکہ سر پے سوار ہے۔
’بیٹی تماشائی منتظر ہیں۔ جلدی سے بندیا ٹھیک کر کے آجاؤ۔ مجھے تمہاری طبیعت کا پورا احساس ہے
مگر ناچنا تو پڑے گا۔۔۔۔‘
اس وقت مجھے میرا قلم کبھی مداری لگ رہا ہے تو کبھی نائکہ ۔۔۔۔
بٹ دا شو مسٹ گو اون۔
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: اتوار 23 دسمبر 2012 ,* 18:34 GMT 23:34 PST

موضاعات تو بہت ہیں مگر اب شاید الفاظ ڈھیٹ ہو گئے ہیں
باقاعدہ لکھنے والے جانتے ہیں کہ کسی کسی دن ذہن بالکل خالی سکرین کی طرح ہوجاتا ہے۔ قلم کی نِب غصیلے گدھے کی طرح اینٹھ جاتی ہے۔ لاکھ ایڑ لگائیں آگے نہیں بڑھتی۔ موضوعات کی لاشیں ادھر ادھر بکھری ہوتی ہیں۔ پر سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کے چہرے سے کپڑا اٹھا کر دیکھیں، کس کی نبض ٹٹولیں، کس کے اکڑے ہوئے لاشے کو سیدھا کرنے کی کوشش کریں اور کس کے کھلے ہوئے ڈراؤنے منہ کو حروف کی روئی سے بند کرنے کا سوچیں۔ بالکل سجھائی نہیں دیتا کہ کون سے موضوع کا جسم ابھی بھی گرم ہے اور کونسا تعفن زدہ ہو رہا ہے۔
آج دن بھر حروف اور الفاظ کی خوشامد میں گذر گیا۔ لیکن کوئی حرف خوف سے پیچھے ہٹ گیا، کوئی لفظ غصے سے گھورنے لگا۔ کوئی طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا کر کھسک لیا۔ کسی نے فحش اشارے شروع کردئیے، کسی نے دانت نکوس دیے اور کچھ حروف نے طنزیہ حملےشروع کردیے ۔
’ابے علامہ اب تک تو نے ہمیں اتنی بے دردی سے استعمال کر کے کیا اکھاڑ لیا۔ کیا ہم کوئی زرِ خرید غلام ہیں کہ جب بھی کوئی اچھوتا فلسفہ بگھارنے کو تیرا دل چاہے گا تو ہم سرجھکا کے تیرے قدموں میں بیٹھ جائیں گے۔ ارے او داد پرست سستے کالم باز، کیا ہمیں آرام کرنے کا حق نہیں، ہمارا دل نہیں، ہماری اپنی کوئی زندگی نہیں۔ چل یہاں سے پھوٹ لے اور ہمیں بھی کچھ دیر کمر سیدھی کرنے دے۔‘
میں نے حرف و لفظ کو جذباتی کرنے کی بھی کوشش کی۔ یہاں تک کہا کہ کچھ شرم کرو خیبر پختونخوا کے ایک نڈر سیاست داں بشیر بلور کی موت پر ہی چند جملوں میں ڈھل جاؤ۔ یہ نہیں ہوسکتا تو شہدائے پولیو کو ہی خراجِ عقیدت پیش کردو یا پھر جناح اسپتال کراچی میں لائے جانے والے ایک زخمی کو اس کے مخالفین نے جس طرح ایمرجنسی وارڈ کے بستر پر پڑے پڑے کلاشنکوف سے بھون دیا، کچھ اس کی ہی لاج رکھ لو ۔
اور اگر تمہیں ان موضوعات پر ساتھ دینا گراں گزرتا ہے تو پھر ضلع دادو کے علاقے سیتا روڈ میں ایک ہزار لوگوں کے مجمع نے توہینِ قرآن کے الزام میں تھانے میں بند ایک شخص کو پولیس سے چھین کر ہلاک کر کے چوک میں اس کی لاش جو جلا دی ، اس واقعے پر ہی تین حرف بن جاؤ۔ لیکن کوئی حرف ٹس سے مس ہوا اور نا ہی کسی لفظ کے دل میں میرے لئے رحم پیدا ہوا۔
میری بے بسی اور حروف و الفاظ کی بے اعتنائی دیکھ کر ادھر ادھر کھڑے کچھ موضوعات میری طرف چلتے ہوئے آئے اور ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
جیسے کیا اکیس دسمبر کو قیامت ٹل گئی ہے یا پھر اکیس دسمبر کو دراصل سور پھونکا جا چکا ہے جس کی آواز آہستہ ایک پرکیف نغمے کی طرح ابھرے گی اور پھر بلند ہوتی اور ہوتی اور ہوتی چلی
جائے گی یہاں تک کہ اس کی شدت سے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں۔
کیا موجودہ حالات میں اتتخابات کا بروقت انعقاد ممکن ہے ؟
علامہ طاہر القادری اب اپنی واسکٹ کی جیب میں کونسی اور کس کی گیدڑ سنگھی لائے ہیں ؟
کیا ستائیس دسمبر کو گڑھی خدا بخش کے مزار سے بلاول بھٹو کی نئی قیادت ابھرے گی؟ مگر سچی بات یہ ہے کہ خود میرا دل بھی حرف و لفظ کی بے مروتی سے بجھ سا گیا تھا لہٰذا میں نے ان موضوعات سے معذرت کرلی۔
ایک بات کہوں؟ واقعی میں اس وقت خالی پیپے کی طرح محسوس کر رہا ہوں۔ طرح طرح کے الٹے سیدھے خیالات آرہے ہیں۔ کراچی کے ساحل پر ٹہلنے والے مداری کا وہ بندر یاد آرہا ہے جو شام تک کرتب دکھاتے دکھاتے تھک کے چور ہوجاتا ہے پھر بھی تماشائیوں کے منورنجن کے لئے اسے مداری ڈنڈے کے اشاروں اور گلے میں بندھی رسی کے جھٹکوں سے ڈگڈگی کی ڈگ ڈگ پر کبھی جنٹل مین کی طرح چلواتا ہے، کبھی اسے آہنی چھلے میں سے گزرنے کا حکم دیتا ہے تو کبھی لکڑی کی چھوٹی سی پیڑھی پر صاحب لوگوں کی طرح ٹانگ پر ٹانگ رکھ کے بیٹھنے کی فرمائش جاری کر دیتا ہے۔ کیونکہ بچے تالیاں بجائیں گے تو ہی پیٹ بھرے گا۔
اور مجھے ایک پرانی بلیک اینڈ وائٹ ہندی فلم کا کوٹھا بھی بری طرح یاد آرہا ہے۔ جس پر شام ڈھلے تماشائی گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے اگال دان سامنے رکھے مورچھل کی ہوا کے سائے میں چھنو کے مجرے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور چھنو شدید اداسی کے عالم میں اپنے کمرے میں ٹہل رہی ہے۔ آج اس کا مجرا کرنے کا قطعاً موڈ نہیں لیکن نائکہ سر پے سوار ہے۔
’بیٹی تماشائی منتظر ہیں۔ جلدی سے بندیا ٹھیک کر کے آجاؤ۔ مجھے تمہاری طبیعت کا پورا احساس ہے
مگر ناچنا تو پڑے گا۔۔۔۔‘
اس وقت مجھے میرا قلم کبھی مداری لگ رہا ہے تو کبھی نائکہ ۔۔۔۔
بٹ دا شو مسٹ گو اون۔
Last edited by a moderator: