Afaq Chaudhry
Chief Minister (5k+ posts)

محمد سمیع
کراچی گزشتہ تین عشروںسے جل رہا ہے ۔سیاسی اور فوجی کئی حکومتیں اس دوران گزرگئیںلیکن کوئی حکومت کراچی کے درد کا درماں نہ کرسکی۔ اب تو اس شہر کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ ’’تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم‘‘۔منی پاکستان کہلانے والے روشنی کے اس شہر کی بدقسمتی کا آغاز 1985ء میں ایک ٹریفک کے حادثے سے ہوا۔ ویسے تو ٹریفک کے حادثات میں پتا نہیں کتنے لوگ روزانہ مرتے رہتے ہیں جس کی بنیادی ذمہ داری تو ٹریفک پولیس کے محکمہ پر ہوتی ہے جس کے ذمہ داران اپنی ذمہ داری نبھانے سے زیادہ اپنے مفادات سے دلچسپی رکھتے ہیں اور ایک یہ ہی محکمہ کیا نیچے سے اوپر تک جتنے محکمے ہیں بشمول صدارت اور وزارت عظمیٰ ، سب کے ذمہ داران کا یہی وتیرہ ہے جس کا نتیجہ ہے کہ آج وطن عزیز اپنی تاریخ کے سنگین ترین دور سے گزررہا ہے ۔ لیکن اس ٹریفک حادثے کو بنیاد بناکر جس قسم کی سیاست کی گئی اس کے نتیجے میں شہر میں لسانی فسادات کا سلسلہ شروع ہو ا ۔ اب تک کتنی قیمتی جانیں گئیں اور لوگوں کو کتنا مالی خسارہ ہوچکا اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے ۔ حکومتیں اپنے آپ کو دوام بخشنے میں دلچسپی رکھتی ہیں لہٰذا بجائے کہ اس مسئلہ کا کوئی حل نکلتا ، اس کی گھمبیرتا میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ’’مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے۔‘‘ اس کے بعد بھتوں کاسلسلہ چل نکلا۔ لوگوں کو اپنی جان بچانے یا بھتہ دینے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے اور ظاہر ہے کہ ’’جان ہے تو جہان ہے پیارے‘‘۔پھر اہدافی قتل کا سلسلہ شروع ہوا۔ روزانہ دس پندرہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ معمول بن چکا ہے۔ اس مسئلے پر مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور اداروں کے قائدین کے بیانات سے رائے عامہ یہ بنی ہے کہ یہ سارا ظلم شہریوں پر اس لیے ہورہا ہے کہ اقتدار میں شامل مختلف سیاسی گروپس شہر پر اپنے غلبہ کے لیے کوشاں ہیں ۔ اس پر مستزاد مذہبی فرقہ وارانہ تعصبات کی بناء پر وقتاً فوقتاً لوگوں کی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ حکومت کمیٹیاں بناتی ہے کبھی اس کا نام کور کمیٹی ہوتا ہے تو کبھی امن کمیٹی علیٰ ھٰذا القیاس۔ ضابطۂ اخلاق طے ہوتے ہیں۔ قائدین اس ضابطہ پر عملدرآمد کا عزم کرتے ہیں ،اظہار یکجہتی کے لیے آپس میں گلے ملتے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگس اور مذہبی قتل و قتال میں ملوث گروہوں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ ان کی سرگرمیوں میں وقفہ رہے لہٰذا شہریوں کو سکون کے چند دن مل جاتے ہیں اور پھر دوبارہ ان وارداتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ انشورنس کمپنی میں کام کرنے والوں کو خوب معلوم ہے کہ حکومت نے گاڑیوں کی کم از کم تھرڈ پارٹی انشورنس لازمی کررکھی ہے۔کسی گاڑی کو کسی دوسری گاڑی سے نقصان پہنچتا ہے یا کوئی گاڑی کے حادثہ کا شکار ہوکر دم توڑدیتا ہے تو انشورنس کمپنی کو نقصان کی تلافی کرنی ہوتی ہے۔ انشورنس کمپنیوں نے آپس میں ایک معاہدہ کررکھا ہوتا ہے جس کو وہ Knock for knock agreement کہتے ہیںجس کے تحت انہوں نے طے کررکھا ہے کہ ہر کمپنی اپنی گاڑی کا نقصان برداشت کرلے بجائے اس کے کہ ایک کمپنی دوسری کمپنی پر نقصان کے ازالے کا دعویٰ کرے۔اس کو ہم gentlemen agreement کہہ سکتے ہیں۔ لگتا ہے کچھ اسی طرح کا معاہد ہ ان وارداتوں میں ملوثٖ پارٹیوں نے آپس میں کر رکھا ہے کہ تم ہمارے لوگوں کو مارتے رہو ،ہم تمہارے لوگوں کو مارتے رہیںاور مارکھانے والے افراد تحفظ حاصل کرنے کے لیے ہماری جماعتوں ہی سے رجوع کرتے رہیں۔ اس طرح ہم دونوں کا ووٹ بینک برقرار رہے گا۔اگر ایسا کوئی معاہد ہ ہے تو ہم اسے gentlemen agreement تو ہر گز نہیں کہہ سکتے البتہ اسے devils agreement کا نام ضرور دیا جاسکتا ہے۔ بتدریج اس میں دو باتوں کا اور اضافہ ہوا ہے۔ ایک تو بھتہ خوروں کے نئے نئے گروہ وجود میں آتے جارہے ہیں۔ دوسرا اغوا برائے تاوان میں اضافہ ہوگیا ہے۔ لوگوں نے بالخصوص تاجر طبقے نے پہلی مرتبہ بھتہ خوری کے خلاف شدید احتجاج شروع کردیا تاکہ حکومت پر دبائو بڑھ سکے۔ لیکن جب صورتحال میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا تو تاجروں نے اپنا کاروبار غیر ممالک میں منتقل کرنا شرو ع کردیا۔ جب صورتحا ل یہ ہوچکی ہو تو حکومت کس منہ سے بیرونی سرمایہ داروں کو ملک میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے سکتی ہے اور اگر دے بھی تو اس کا کیا نتیجہ نکلنا ہے۔ زندگی کے ہرشعبہ پر ان حالات کا اثر پڑا ہے۔ لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں لہٰذا معاشرتی نظام میں ہیجان برپا ہے۔ کئی جماعتیں نفرت انگیز سیاست میں ملوث ہوکر سیاسی نظام کو گندہ کررہی ہیں اور معیشت کو امن و امان کی صورتحال سے خطرے کے نتیجے میں معاشی نظام زبوں حالی کا شکا ر ہے۔ اس صورتحال کے باوجود ہمارے ذمہ داران کے روئیے ملاحظہ فرمائیں۔ ہمارے صدر مملکت جنہیں اپنی ہی جماعت کی حکومت کے چار سال گزرنے کے بعد اس مسئلہ کی شدت کا احساس ہوا ہے اور انہوں نے صوبائی حکومت سے سوا ل کیا ہے کہ وسائل و اختیارات کے باوجود کراچی میں امن قائم کیوں نہیں ہورہا ہے۔ ان کے اس روئیے کو تجاہل عارفانہ کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ ۔سندھ میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔وفاقی حکومت بھی ان ہی کی پارٹی کی ہے جن پر ان کا حکم چلتا ہے۔ صوبائی وزرائے داخلہ نے اس مسئلہ سے نمٹنے میں ناکامی پر وزارت سے اپنی جا ن چھڑالی ہے۔وفاقی وزیر داخلہ کی ان معاملات میں پھرتیوں کے منفی نتائج کا بالآخر ارکان سندھ اسمبلی نے بھی نوٹس لیا ہے ۔یہ بات واقعی ناقابل فہم ہے کہ جن معاملات سے وفاقی حکومت اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے تو انہیں صوبائی معاملہ قرار دے دیتی ہے لیکن صوبہ سندھ کے معاملے میں صوبائی وزیر داخلہ کا کوئی قابل ذکر کردا ر نظر نہیں آتاالبتہ وفاقی وزیر داخلہ زیادہ دخیل نظر آتے ہیں۔وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ کراچی کے مسئلے پر چیف جسٹس کی تجاویز پر عمل درآمد کروائیں گے۔ چیف جسٹس کی تجاویز کو سامنے آئے ہوئے ایک طویل عرصہ گزرچکا ہے ۔ ان تجاویز میں صدر مملکت کے سوال کا جواب موجود ہے ۔ ان پر عمل درآمد کے لیے وزیر اعظم کو اور کتنا وقت درکار ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی ان کے تازہ بیانات سے ہی ظاہر ہے۔ دیگر سیاسی جماعتیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناکامی پر ان کی برطرفی کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جس ملک کا وزیر اعظم سزا یافتہ ہونے کے باوجود استعفیٰ دینے پر آمادہ نہیں ، وہاں اس قسم کا مطالبہ عبث ہے۔پتہ نہیں کب تک کراچی کے شہری نتائج بھگتتے رہیں گے۔
یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
http://www.jasarat.com/epaper/index.php?page=03&date=2012-06-06یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔