منگل 31 جنوری 2017
تحریر: خداداد
میاں محمّد شریف (مرحوم) نواز شریف کے خواب میں۔
بھولے بیٹا۔۔!
ابّا جی آپ۔۔؟
ہاں بیٹا میں۔ یہ کیا ہو رہا ہے بیٹا؟ جائیداد کے حساب کتاب میں وہ معاملات بھی میرے ذِمّے ڈال رہے ہو جن کا مجھے علم ہی نہیں۔
ابّا جی مجبوری ہے۔ باہر والوں نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ بچوں کے لیے جو جمع کیا سب لوگوں کو معلوم ہو گیا۔ لوگ تو سب جان کر بھی بھول جاتے لیکن عمران اور اس کے چمچے پیچھے لگ گئے اور اب عدالت کے جج تنگ کر رہے ہیں۔ میری اور بچوں کی عزت اچھال رہے ہیں۔
اور اسی لیے تم کم بختوں نے میری عزت اچھالنا مناسب سمجھا۔ میں زندہ ہوتا تو کیا ایک قطری لفنگے کی مِنّت سماجت کرنی پڑتی کاغذ کے بے وقعت ٹکڑوں کے لیے؟ کیا یہی تربیت دی تھی میں نے؟
ابّا جی آپ ہی تو کہتے تھے کہ مصیبت میں گدھے کو بھی باپ بنانے سے گریز نہ کرو۔
اوئے نالائقو! تم تو باپ کو گدھا بنا رہے ہو۔ ساری زندگی تمہیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ ایک پولیس کانسٹیبل بھرتی ہونے کی صلاحیت نہیں تھی تم میں۔ میں نے تمہیں پاکستان کا وزیر اعظم بنوایا۔ ایک بار نہیں دو بار۔ امیرالموءمنینی کے شوق میں جب اٹک قلعے میں دھر لیے گئے تو جدّہ میں تمہارے لیے پناہ کا بندوبست کیا۔ یہ صلہ دے رہے ہو میری عمر بھر کی شفقت کا؟
ابّا جی میں بھی آپ کی طرح اپنی اولاد کا خیال ہی کر رہا ہوں۔ ان کی آنے والی نسلوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش ہی کر رہا ہوں۔ ان کے ساتھ شفقت ہی کر رہا ہوں۔
ابے گدھے! تمہیں کیا پتہ شفقت کیا ہوتی ہے، تم ان کے ساتھ کرپشن کر رہے ہو، سب کو دو نمبری پر لگا دیا ہے تم نے۔ میرے پھول جیسے بچوں پر لوگ لعنتیں بھیج رہے ہیں۔ عدالت میں روز جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ ہر کوئی تم سے رسیدیں مانگ رہا ہے اور تم ہر بات گھما پھرا کے مجھ پر ڈال دیتے ہو۔
ابّا جی آپ فکر نہ کریں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میرے اور بچوں کے وکیلوں نے صرف بات پر مٹّی ڈالنے کے لیے آپ کا نام لیا ہے۔
اچھا بیٹا! جیسے تمہاری مرضی۔ جسم پر تو منوں مٹّی پڑ گئی تھی۔ میاں محمّد شریف کا بس نام ہی رہ گیا تھا۔ اس پر بھی مٹّی ڈال دو۔۔
[email protected]
تحریر: خداداد
میاں محمّد شریف (مرحوم) نواز شریف کے خواب میں۔
بھولے بیٹا۔۔!
ابّا جی آپ۔۔؟
ہاں بیٹا میں۔ یہ کیا ہو رہا ہے بیٹا؟ جائیداد کے حساب کتاب میں وہ معاملات بھی میرے ذِمّے ڈال رہے ہو جن کا مجھے علم ہی نہیں۔
ابّا جی مجبوری ہے۔ باہر والوں نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ بچوں کے لیے جو جمع کیا سب لوگوں کو معلوم ہو گیا۔ لوگ تو سب جان کر بھی بھول جاتے لیکن عمران اور اس کے چمچے پیچھے لگ گئے اور اب عدالت کے جج تنگ کر رہے ہیں۔ میری اور بچوں کی عزت اچھال رہے ہیں۔
اور اسی لیے تم کم بختوں نے میری عزت اچھالنا مناسب سمجھا۔ میں زندہ ہوتا تو کیا ایک قطری لفنگے کی مِنّت سماجت کرنی پڑتی کاغذ کے بے وقعت ٹکڑوں کے لیے؟ کیا یہی تربیت دی تھی میں نے؟
ابّا جی آپ ہی تو کہتے تھے کہ مصیبت میں گدھے کو بھی باپ بنانے سے گریز نہ کرو۔
اوئے نالائقو! تم تو باپ کو گدھا بنا رہے ہو۔ ساری زندگی تمہیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ ایک پولیس کانسٹیبل بھرتی ہونے کی صلاحیت نہیں تھی تم میں۔ میں نے تمہیں پاکستان کا وزیر اعظم بنوایا۔ ایک بار نہیں دو بار۔ امیرالموءمنینی کے شوق میں جب اٹک قلعے میں دھر لیے گئے تو جدّہ میں تمہارے لیے پناہ کا بندوبست کیا۔ یہ صلہ دے رہے ہو میری عمر بھر کی شفقت کا؟
ابّا جی میں بھی آپ کی طرح اپنی اولاد کا خیال ہی کر رہا ہوں۔ ان کی آنے والی نسلوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش ہی کر رہا ہوں۔ ان کے ساتھ شفقت ہی کر رہا ہوں۔
ابے گدھے! تمہیں کیا پتہ شفقت کیا ہوتی ہے، تم ان کے ساتھ کرپشن کر رہے ہو، سب کو دو نمبری پر لگا دیا ہے تم نے۔ میرے پھول جیسے بچوں پر لوگ لعنتیں بھیج رہے ہیں۔ عدالت میں روز جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ ہر کوئی تم سے رسیدیں مانگ رہا ہے اور تم ہر بات گھما پھرا کے مجھ پر ڈال دیتے ہو۔
ابّا جی آپ فکر نہ کریں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میرے اور بچوں کے وکیلوں نے صرف بات پر مٹّی ڈالنے کے لیے آپ کا نام لیا ہے۔
اچھا بیٹا! جیسے تمہاری مرضی۔ جسم پر تو منوں مٹّی پڑ گئی تھی۔ میاں محمّد شریف کا بس نام ہی رہ گیا تھا۔ اس پر بھی مٹّی ڈال دو۔۔
[email protected]