ن لیگ کے حمایتی چاہے وہ پیشے کے لحاظ سے کوئی ریڑھی فروش ہے یا ڈاکٹر انجینئر، تعلیمی قابلیت مڈل پاس ہے یا سکالر فلاسفر۔ اپنے سب سے بڑے مخالف عمران خان پہ جب بات کریں تو ذاتی نوعیت کے اعتراضات اٹھاتے ہیں، جن میں بیشتر کو ہم سماجی بُرائی یا گناہ کے طور جانتے ہیں۔ مثال کے طور پہ، عمران خان نشہ کرتا ہے۔ عمران خان بدزبان اور منہ پھٹ ہے۔ عمران خان شراب پیتا ہے۔ عمران خان کے ناجائز تعلقات ہیں۔ عمران خان جوا کھیلتا ہے۔ عمران خان کا عقیدہ درست نہیں ہے۔ وغیرہ
بالفرض ہم ان سب باتوں کو سچ مان لیں اور بغیر کسی ثبوت کے عدالت میں کیس کر دیں، تفتیش ہو، پیشی ہو تو عدالت یا ریاست کسی شخص کو کِس قانون کے تحت سزا دے سکتی ہے؟ اسلام کے احکامِ شرعیہ میں اِن گناہوں کا قانون قیاس اور سدِ ذریعہ کے اصولوں پہ مرتب کیا جاتا ہے۔ مثلا ہتھیار کی نمائش کو جُرم سدِ ذریعہ میں قرار دیا جاتا ہے کہ اس سے ماحول خراب ہوگا اور انتشار کا خطرہ ہے۔ شراب نوشی کو بھی سدِ ذریعہ کے اصول پہ جُرم سمجھا جاتا ہے کہ کوئی نشے میںدھت ہوکر باہر آئے گا اور کسی کو مالی و جانی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
گناہ بہرحال گناہ ہےاس سے ہر دم پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ ہمیںایک دن خُدا کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔
تحریکِ انصاف کے وہ حمایتی جن کا تعلق پڑھی لکھی کلاس سے ہے وہ اپنے حریف نوازشریف پہ جو اعتراضات اُٹھاتے ہیں انہیں ہم جرائم کے طور پہ جانتے ہیں۔ مثال کے طور پہ چوری کرنا، حق تلفی کرنا، سفارش، رشوت، جھوٹے گواہ پیش کرنا یا اپنی آمدن سے بڑھ کر اثاثے بنا لینا وغیرہ۔
دوسرے سیاسی نعروںکی طرح ان باتوں کو بھی آج الزامات قرار دیا جاتا، مگر عدالتِ اعظمی میںڈیڑھ سال کیس چلنے اور الزام ثابت ہو جانے کیبعد ان کی نوعیت اب جُرم کی ہے۔ایسی صورتحال جب ایک مُجرم عدالت کے سامنے کھڑا کیا جائے تو عدالت شریعاً قانوناً پُورا حق رکھتی ہے کہ سزا سُنا سکے۔
ایسے تمام گناہ جِن سے کسی کی حق تلفی نہ ہو، ظلم کا عنصر نہ ہو، کسی کو ایزا نہ دی جائے، کسی سے دھوکہ دہی نہ ہو اور کسی کا کوئی نقصان نہ ہو، اُن کا معاملہ خالصتاً انسان اور خُدا کے مابین ہو جاتا ہے۔ مثلاً میں نماز نہیں پڑھتا، حج پہ نہیں جاتا، روزہ نہیں رکھتا، طہارت نہیں کرتا، عقیدہ درست نہیں رکھتا، توہمات کا شکار ہوتا ہوں یا شراب پیتا ہوں، ریاست مُجھے ہرگز پوچھنے یا حُکم دینے کا حق نہیں رکھتی کہ میاںاُٹھو اور دین پہ عمل کرو۔ میں صرف اپنے خُدا کو جوابدہ ہوں۔
اس کے برعکس جب میںکسی جُرم کا ارتکاب کرتا ہوں تو اِس سے بالواسطہ دوسرا انسان متاثر ہو جاتا ہے۔ یہ معاملہ جب حکمران کا ہو تو لاکھوں کروڑوں عوام کی زندگیاں متاثر ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں اشرافیہ کیطرف سے کیے جانے والے جُرائم کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ خُدا نے عدالت/ریاست کو خُود یہ حق دیا ہے کہ وہ انصاف کرے ! اپنی کتاب میں رہنمائی فرما دی ہے اور باقی عقل و دانش پہ چھوڑ دیا ہے۔ مگر جُرم کی سزا دینا اور انصاف نافذ کرنا ہرصورت ریاست پہ فرض ہے۔
المختصر ہر جُرم مذہب کی رُو سے ایک گناہ ہے، مگر ہر گناہ بغیر توجیہ کے جُرم نہیں بن جاتا۔ ایک مجُرم بہرحال ایک گنہگار کے برابر نہیں ہو سکتا۔