واقعہ غدیرکی صحیح تحقیق کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ غدیر خم صرف اعلان دوستی کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقت کچھ اور ہے۔۱۔واقعہ روزِغدیر کی تحقیق:
حقیقتِ غدیر تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ یہ ہے کہ غدیر کی تاریخی حقیقت اورواقعیّت میں تحقیق کی جائے ، حجۃُالوداع رسولِ گرامیِ اسلام [ص]کا آخری سفرِ حج ہے اس خبرکے پاتے ہی مختلف اسلامی ممالک سے جوق در جوق مسلمان آپ [ص] کی خدمت میں آئے اور بے مثال و کم نظیر تعداد کے ساتھ فرائض حج کو انجام دیا اور اسکے بعد سارے مسلمان شہرِ مکّہ سے خارج ہوئے اور غدیر خُم پر پہنچے کہ جہاں سے اُنہیں اپنے اپنے شہرو دیار کی طرف کوچ کرنا تھا ۔
اہلِ عراق کو عراق کی طرف ، اہلِ شام کو شام کی طرف ،بعض کو مشرق کی سمت اوربعض کو مغرب کی سمت ،ایک تعدادکو مدینہ ، اور اسی طرح مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قبیلوں اور دیہاتوں کی طرف لَوٹنا تھا،رسولِ خدا [ص]ایسے مقام کا انتخاب کرتے اور توقّف کرتے ہیں شدید گرمی کا عالم ہے ، سائبان اور گرمی سے بچنے کے دوسرے وسائل موجود نہیں ہیں اور عورتوں اور مردوں پر مشتمل ایک لاکھ بیس ہزار (۰۰۰،۱۲۰)حاجیوں کی اتنی بڑی تعداد کو ٹہرنے کا حکم دیتے ہیں یہاں تک کہ(۱) پچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیاجائے ،آگے چلے جانے والوں کو واپس بلایا جائے اور پھر آپؐ نے اُونٹوں کے کجا ووں اور مختلف وسائل سے ایک اُونچی جگہ بنانے کا حکم د یا تاکہ سب لوگ آپؐ کو آسانی سے دیکھ سکیں، اور اسلامی ممالک سے آ ئے ہو ئے حاجیوں کے جمع ہونے تک انتظار کیا گیا، گرمی کی شدّت سے پسینے میں شرابور لوگ صرف اس لئے جمع ہوئے تھے کہ پیغمبراکرم [ص] کا پیغام غور سے سنیں اور آپ [ص] یہ فرمائیں! ( ۱ ) واقعہ غدیر کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت حاجیوں کا جمع غفیر تھا جوکہ مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے تھے جنکی تعداد مؤرّخین نے نوّے ہزار (۰۰۰،۹۰) سے ایک لاکھ بیس ہزار (۰۰۰،۱۲۰)تک نقل کی ہے اورحج کی ادائگی کے بعد اپنے اپنے وطن لَوٹتے ہوئے ۱۸؍ ذی الحجہ کے دن خدا کے حکم سے سرزمینِ غدیر خُم پر جمع ہوئے اور جنہوں نے رسولِ خد اؐکے پیام کو سُننے کے بعدحضرت علی ۔ کی بیعت کی،غدیر کے دن لوگوں کی اس عام بیعت کا اعتراف بہت سارے مؤرِّخین نے کیا ہے ۔جو مندرجہ ذیل ہیں!
۱ ۔ سیرہ حلبی ، ج ۳ ص ۲۸۳ : حلبی :
۲ ۔ سیرہ نبوی ، ج ۳ ص ۳ : زینی دحلان
۳ ۔ تاریخُ الخُلَفاء ، ج ۴ : سیوطی (متوفّٰی ۹۱۱ ہجری)
۴ ۔ تذکرۃُخواص الاُمّۃ ، ص ۱۸ : ابنِ جَوزی(متوفّٰی ۶۵۴ ہجری)
۵ ۔ احتجاج ، ج ۱ ص ۶۶ : طبرسی (متوفّٰی ۵۸۸ ہجری)
۶ ۔ تفسیرِ عیّاشی ، ج ۱ ص ۳۲۹/۳۳۲ حدیث ۱۵۴ : ثمر قندی
۷ ۔ بحارُا لا نوار ، ج ۳۷ ص ۱۳۸ حدیث ۳۰ : علّامہ مجلسی
۸۔ اثباتُ الہُداۃ ، ج ۳ حُرِّعاملی ص ۵۴۳ /۵۴۴ حدیث ۵۹۰/۵۹۱/۵۹۳ :
۹ ۔ تفسیرِبرہان ، ج ۱ ص ۴۸۵ حدیث ۲ ، ص ۴۸۹ حدیث ۶ :بحرانی
۱۰ ۔ حبیبُ السَّیر ، ج ۱ ص ۲۹۷/۳۷۵/۴۰۴/۴۱۲/۴۴۱ : خواند میر
’’اے لوگو !میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ‘‘
پھر آپ [ص]کی لوگوں سے بار بارتاکید کی کہ آج کے اس واقعہ کو اپنی اَولادوں،آئندہ آنے والی نسلوں اور اپنے شہرودیار کے لوگوں تک پہنچادیں۔
یہ اہم واقعہ کیا ہے؟
کیا صرف یہ ہے کہ آپ [ص] یہ فرمائیں ! میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ؟
کیا ایسی حرکت کسی عام شخص سے قابلِ قبول ہے ؟
کیا ایسی حرکت بیہودہ ،اذیّت ناک اور قابل مذمّت نہیں ہے ؟
پھر کسی نے اعتراض کیوں نہیں کیا؟
کیا مسلمان یہ نہیں جانتے تھے کہ پیغمبراکرم [ص] حضرت علی ۔ کو دوست رکھتے ہیں ؟ کیا علی ۔ ایسے صف شکن مجاہد کی محبّت پہلے سے مسلمانوں کے دلوں میں نہیں بسی ہوئی تھی؟۲۔فرشتہ وحی کا بار بار نزول:
اگر غدیر کا دن صرف دوستی کے اعلان کے لئے تھا تو ایسا کیوں ہواکہ جبرئیل امین جیسا عظیم فرشتہ تین بار آپ [ص] پر نازل ہو اور پیغامِ الٰہی سے آپ [ص] کو آگاہ کرے؟! جیسا کہ آنحضرت [ص]نے خود ارشاد فرمایا!۔ ’’إِنَّ جِبْرَئيلَ۔هبَطَ إِلَیَّ مِرٰاراً ثَلٰاثاً یَأْ مُرُنِیْ عَنِ السَّلٰامِ رَبِّیْ وَهوَالسَّلٰامُ أَنْ أَقُوْمَ فِی هذا الْمَشْهدِ، فأُعْلِمَ کُلَّ أَبْبضٍ وَ أَسْوَدٍ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طٰالِبٍ أَخِیْ وَ وَصِییّ وَ خَلِیفَتِی عَلٰی أُمَّتِیْ وَ الْإِمٰامُ مِنْ بَعْدِیْ أَلَّذِی مَحَلَّه مِنِّیْ مَحَلَُ هارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلّٰا إنَّہٗ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَ هوَ وَلِیُّکُمْ بَعْدَ اﷲِ وَرَسُوْلِه وَ قَدْ أَنْزَلَ اﷲ تَبٰارَ کَ وَ تَعٰا لٰی عَلَیَّ بِذٰ لِکَ آية مِنْ کِتٰابِه!‘‘(إِنَّمٰاوَلِیُّکُمُ اﷲُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوة وَیُؤْ تُوْن الزَّکٰوة وَ همْ رٰاکِعُوْنَ )(۱)وَعَلِیُّ بْنَ أَبِیْطالِبٍ أَلَّذِیْ أَ قٰامَ الصَّلٰوةوَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَهوَرٰاکِعٌ یُرِیْد اﷲَ عزَّ وَجَلَّ فِیْ کُلّ حٰالٍ (۲)
جبرائیل ۔ تین بار وحی لے کرمجھ پرنازل ہو ئے اور درود و سلام کے بعد فرمایا کہ یہ مقام غدیرہے یہاں قیام فرمائیں اورہر سیاہ و سفید،یہ بات جان لے کہ حضرت علی ۔ میرے بعدخطبہ کے مدارک و اسناد :
(۱) ۔ احتجاج ، ج ۱، ص ۶۶ : طبرسی
( ۲)۔ اقبا ل الاعمال ،ص۴۵۵: ابن طاؤوس
( ۳)۔ کتاب الیقین،باب۱۲۷: ابن طاؤوس
( ۴) التحصین ، باب۲۹: ابن طاؤوس
(۵)۔روضۃُالواعظین ،ص۸۹ :قتال نیشابوری
(۶)۔ البرہان،ج۱ ص۴۳۳:بحرانی
(۷)۔ اثباتُ الہُداۃ ، ج۳ ص۲ : عاملی
(۸)۔ بحارُالانوار ، ج۳۷ص ۲۰۱:بحرانی
( ۹)۔ کشف المہم،ص ۵۱:بحرانی
(۱۰)۔تفسیرِ صافی،ج۲، ص۵۳۹:فیض کاشانی
آپ کے وصی خلیفہ اورتمہارے پیشوا ہیں ، انکا مقام میری نسبت ایسا ہی ہے جیسا مقام ہارون کا موسٰی ؑ کی نسبت تھا ،بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گاعلی ۔ خدا اور رسول [ص] کے بعد تمہارے رہنما ہیں خدا وندِ صاحب عزّت و جلال نے اپنی پا ک وبابرکت کتاب قرآنِ مجید میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی۔
اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمہارے ولی اور سرپرست خدا،رسول [ص] اوروہ لوگ ہیں جو ایمان لائیں ،نماز بپا کریں اور حالتِ رکوع میں زکٰوۃ ادا کریں یہ بات تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو کہ علی ۔ نے نماز بپا کی اور حالتِ رکوع میں زکٰوۃ ادا کی اور ہر حال میں مرضیِ خدا کے طلبگار رہے ۔
[FONT=&]غدیر کا تاریخی واقعہ [1] [/FONT] [FONT=&]تاریخ اسلام میں دلچسپی رکھنے والوں کو غدیر کے واقعے کے بارے میں یہ جان لینا چاہئے کہ غدیر کا واقعہ، ایک مسلم الثبوت واقعہ ہے اور اس میں کسی بھی طرح کا شک و شبہہ نہيں ہے۔ اس واقعے کو صرف شیعوں نے نقل نہيں کیا ہے بلکہ سنی محدثین نے بھی، چاہے وہ ماضی بعید سے تعلق رکھتے ہوں یا وسطی دور سے یا پھر اس کے بعد کے ادوار سے، ان سب نے اس واقعے کو نقل کیا ہے۔ یعنی اسی واقعے کو نقل کیا ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آخری حج [2] کے موقع پر غدیر خم میں رونما ہوا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج کے فرائض انجام دینے والے مسلمانوں کے اس عظیم کاروان کے کچھ لوگ آگے بڑھ چکے تھے، آنحضرت نے کچھ لوگوں کو انہیں بلانے کے لئے بھیجا اور پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیا۔ وہاں ایک عظیم اجتماع عمل میں آ گیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نوے ہزار کچھ دیگر کا قول ہے کہ ایک لاکھ اور بعض مورخین نے وہاں جمع ہوئے حاجیوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بتائی لکھی ہے۔ اس تپتے صحراء میں عرب کے باشندے بھی جن میں بہت سے صحراء کی گرمی کے عادی تھی، تمازت آفتاب کے باعث ریت پر کھڑے نہیں ہو پا رہے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے پیروں کے نیچے اپنی عبائيں بچھا لیں تاکہ زمین پر پیر رکھنا ممکن ہو سکے۔ اس بات کا ذکر اہل سنت کی کتابوں میں بھی کیا گیا ہے۔ ایسے عالم میں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی جگہ سے اٹھے، امیر المومنین علیہ السلام کو اٹھایا اور لوگوں کے سامنے ہاتھوں پر اٹھاکر کہا: «من كنت مولاه فهذا على مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه». البتہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی آنحضرت نے کچھ باتيں ارشاد فرمائیں تاہم سب سے اہم حصہ یہی ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس حصے میں، ولایت کے مسئلے کو، یعنی اسلامی حکومت کے مسئلے کو باضابطہ اور واضح طور پر پیش کر رہے ہيں اور امیر المومنین علیہ السلام کو اس کی اہلیت رکھنے والے شخص کی شکل میں متعارف کرا رہے ہيں۔ اسے برادران اہل سنت نے بھی اپنی معتبر کتابوں میں، ایک دو کتابوں میں نہيں بلکہ دسیوں کتابوں میں، نقل کیا ہے ۔ مرحوم علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر میں ان سب کا ذکر کیا ہے اور ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں نے اس سلسلے میں بے شمار کتابیں لکھی ہیں
[/FONT] [FONT=&]غدیر میں ولایت کا مفہوم[/FONT]
[FONT=&]غدیر کے موضوع میں ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدا کے حکم کی پیروی اور قرآن مجید کے واضح حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایک اہم ترین فریضہ ادا کیا: «و ان لم تفعل فما بلغت رسالته.» امیر المومنین کو ولایت و خلافت کے عہدے پر متعین کرنا اتنا اہم ہے کہ اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو کار رسالت انجام ہی نہیں دیا! یا پھر اس سے یہ مراد ہے کہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری نہيں کی کیونکہ خداوند عالم نے حکم دیا ہے کہ اس کام کو کرو، یا اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کام کو انجام نہ دینے کی صورت میں، پیغمبر اعظم کی رسالت ہی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اور اس کے ستون متزلزل ہو جائيں گے۔ اس سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے، گویا اصلی ذمہ داری پوری ہی نہيں کی گئ! اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس کے یہ بھی معنی ہوں اور اگر یہ معنی ہیں تو پھر یہ معاملہ کافی اہم ہو جاتا ہے یعنی حکومت کی تشکیل، ولایت و ملک کے نظم و نسق کا معاملہ، دین کے اصل ستونوں میں سے ہے اور عظیم پیغمبر اسی لئے اس امر کی خاطر اتنا اہتمام کرتے ہيں اور اپنی اس ذمہ داری کو لوگوں کے سامنے کچھ اس طرح سے ادا کرتے ہیں کہ شاید انہوں نے کسی بھی واجب پر اس طرح سے عمل نہ کیا ہو! نہ نماز، نہ زکات، نہ روزہ اور نہ جہاد۔ مختلف قبیلوں اور سماجی طبقوں سے تعلق رکھنے والوں کو مکہ اور مدینے کے درمیان ایک چوراہے پر ایک اہم کام کے لئے اکٹھا کرتے ہيں اور پھر اس امر کا اعلان کرتے ہيں کہ جس کی خبریں پورے عالم اسلام میں پھیل گئيں کہ پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک نیا پیغام پہنچایا ہے۔ [/FONT] [FONT=&]
[/FONT][FONT=&]
[/FONT]
تمام محبان علی سے درخوست ہو گی کے کسی بھی طرح اس تھریڈ کو خراب کرنے والوں کی ضد میں آ کر اس تھریڈ کو خراب نہ ہونے دیں جو بغض علی رکھتے ہیں ان کو یہ دن بہت ناگوار گزرتا ہے جس طرح ابلیس نے الله کے امر خلیفہ کا انکار کیا اور وہ شیطان بن گیا حالنکہ وہ عبادت گزار بھی تھا تو ناصبی کی عبادت ابلیس کی عبادت کے قریب بھی نہیں ہے جس کو تمام بھولے کام سارےوقت سجدہ یاد آئیں تو وہ جب بغض علی رکھے جو کے خلیفہ بلا فصل اور ولی الله ہے انکا بغض رکھنے والا شیطان سے بھی بد تر ہو گا