الوداعی ظہرانے کی تقریب میں روزیرِ اعظم نواز شریف نے صدر آصف علی زرداری کا انوکھا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے زرداری کی جمہوریت کے ساتھ سچائی کے گن گائے اور تفصیل سے بتایا کہ کس طرح وہ چارٹر آف ڈیموکریسی پر قایم رہے۔ زرداری نے وعدہ کیا کہ وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی حکومت کی حمایت کرتے رہیں گے۔
یہ سب بڑا عجیب لگ رہاتھا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ نواز شریف زرداری کو ملک اور جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دے رہے تھے۔ وہ زرداری کی مذمت کر تے اور بے وفایی کے قصے ہر قدم پر دہراتے۔
لیکن اب یوں لگ رہا تھا کہ میاں صاحب نے زرداری سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ مثلا یہ کہ سیاست مفاہمت کا نام ہے اور مخالف اور دشمن میں فرق ہوتا ہے۔
یوں لگتا تھا کہ بہت سی قتل و غارت گری کے بعد پاکستانی فلموں کے عین مطابق سب ہنسی خوشی کی زندگی بسر کرنے والے تھے۔
صدر زرداری کوبہت ساری باتوں کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا ۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر صدر کے ختیارات کم کئے اور اٹھارویں ترمیم پر دستخط کرکے صدر کے عہدہ کو صرف رسمی حیچیت دے دی۔ پیپلز پارٹی نے عام انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کی اور تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدار کی پرامن منتقلی ممکن ہو سکی۔
اگرچہ پانچ سال میں سکینڈلز نے ،مسلسل ان کی حکومت کو ہلایے رکھا لیکن شدیدتر مخالفتوں کے باوجود ان کے خلاف کوئی متحدہ محاذ نہ بن پایا اور پارلیمان میں جتنی بھی پارٹیاں تھیں انہوں نے سب کو کو اقتدار میں حصہ دیا۔ شاید انہی صلاحیتوں کی وجہ سے ممتاز سیاستداں جاوید ہاشمی کو کہنا پڑا کہ زرداری کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔
صدر زرداری نے صدارت میں اپنے پانچ سال کامیابی سے مکمل کئے۔ عدلیہ، فوج، اسٹبلشمنٹ اور اپوزیشن نے تمام زور لگایا مگر کویی بھی ان جیسا جوڑ توڑ کا بادشاہ چابت نہ ہو سکا۔ یہ کریڈٹ بھی ان ہی کو جاتا ہے کہ ان کی حکومت کے دوران کسی کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
زرداری کی قسمت کی دیوی ان پر بس اتنی ہی مہربان رہی جتنا کہ اوپر ڈکر آیا ہے۔ بہت سے اچھے کام کرنے کے باوجود ان کا تشخص منفی رہا۔ اپوزیشن کا کوئی ایک بھی شخص گرفتار نہیں ہوا۔ ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی رہی جو میڈیا سے لیکر سڑکوں تک سب کو حاصل تھی۔ اور اس آزادی میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ وہی بنے۔
ان کے سیاسی رویے کی وجہ سے سیاسی ماحول بنا اگرچہ اس کا بڑا فائدہ عمران خان کو حاصل ہوا اور نوجوان نسل سیاست میں فعال ہوئی۔
صدر زرداری کا ایک اور بڑا کام یہ ہے کہ انہوں نے اٹھارویں ترمیم منظور کراکے صوبوں کو خودمختاری دی جو کہ ایک پرانا مطالبہ تھا۔
عدلیہ نے صدر زرداری کا کردار محدود کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ شاید یہ زرداری کو رفیق تارڑ بنانے کی کوشش تھی۔ مگر انہوں نے مونالیزا کی سی پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ اسکا مقابلہ کیا اور اپنی کاریگری سے یہ نوبت نہیں آنے دی۔
زرداری نے اسلام آباد سے بیٹھ کر پارٹی چلائی۔ ان کا اسٹائل ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو سے مختلف تھا۔ جیسے بینظیر بھٹو نے پارٹی اور حکومتی معاملات چلانے کے لیے اپنی ٹیم منتخب کی جو ان کے والد کی ٹیم سے مختلف تھی، اسی طرح زرداری نے بھی اپنی ٹیم چنی جو بی بی کی ٹیم سے مختلف تھی۔ بڑی ہنرمندی کے ساتھ انہوں نے پیپلز پارٹی کو متحد اورمنظم رکھا۔ انہیں مخدوم امین فہیم سے لیکر اعتزاز احسن تک کی وفاداری حاصل رہی۔ بطور صدر کے انہیں کوئی انتظامی اختیارات تو حاصل نہیں تھے لیکن وہ پیپلز پارٹی کے بلاشرکت غیرے لیڈر تھے لہٰذا ان کا حرف حرفِ آخر ہی ہوتا تھا۔ جیالوں نے انہیں غیر مشروط طور پر بھٹو خاندان کا وارث تسلیم کر لیا تھا۔
وہ پاکستان کے ایسے لیڈر ثابت ہویے جنہیں سب سے زیادہ بحرانوں کا سامنا رہاا۔ میمو گیٹ، ریمنڈ ڈیوس، ججوں کی بحالی، سی آئی اے کے ڈرون حملے، توانائی کا بحران، کابینہ میں کرپشن، جارحانہ عدلیہ اور میڈیا۔
ان کے اہداف بڑے معتدل قسم کے تھے۔ عمران خان کا دعوی تھا کہ وہ تین ماہ میں پاکستان کو بدل کے رکھ دیں گے۔ صدر زرداری کا دعوا یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسی حکومت کی قیادت کی جس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی آئینی مدت پوری کی۔
وہ ایک ان تھک اور لچکدار سیاستدان رہے۔ سوائے سوئس خط کے باقی تمام معاملات میں ان کا رویہ ہمیشہ لچکدار رہا۔
تاہم لوگوں کے ذہن میں ان سے متعلق چند سوال رہیں گے۔
ایک تو یہ کہ صدر کے خلاف مقدمات کا کیا ہوگا؟ کیونکہ اب ان کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔ ان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے بلکہ ادھر ہی رہ کر پارٹی کی از سرنو تنظیم کرینگے۔ کئی لوگوں کو اس دعوے پر شبہ ہے ۔ اگر زرداری محفوظ جگہ کی تلاش میں نکل جاتے ہیں تو یقینا پیچھے کئی ڈرامے پیش آئیں گے۔
وہ ڈرامے کیا ہوں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔
یہ سب بڑا عجیب لگ رہاتھا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ نواز شریف زرداری کو ملک اور جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دے رہے تھے۔ وہ زرداری کی مذمت کر تے اور بے وفایی کے قصے ہر قدم پر دہراتے۔
لیکن اب یوں لگ رہا تھا کہ میاں صاحب نے زرداری سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ مثلا یہ کہ سیاست مفاہمت کا نام ہے اور مخالف اور دشمن میں فرق ہوتا ہے۔
یوں لگتا تھا کہ بہت سی قتل و غارت گری کے بعد پاکستانی فلموں کے عین مطابق سب ہنسی خوشی کی زندگی بسر کرنے والے تھے۔
صدر زرداری کوبہت ساری باتوں کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا ۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر صدر کے ختیارات کم کئے اور اٹھارویں ترمیم پر دستخط کرکے صدر کے عہدہ کو صرف رسمی حیچیت دے دی۔ پیپلز پارٹی نے عام انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کی اور تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدار کی پرامن منتقلی ممکن ہو سکی۔
اگرچہ پانچ سال میں سکینڈلز نے ،مسلسل ان کی حکومت کو ہلایے رکھا لیکن شدیدتر مخالفتوں کے باوجود ان کے خلاف کوئی متحدہ محاذ نہ بن پایا اور پارلیمان میں جتنی بھی پارٹیاں تھیں انہوں نے سب کو کو اقتدار میں حصہ دیا۔ شاید انہی صلاحیتوں کی وجہ سے ممتاز سیاستداں جاوید ہاشمی کو کہنا پڑا کہ زرداری کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔
صدر زرداری نے صدارت میں اپنے پانچ سال کامیابی سے مکمل کئے۔ عدلیہ، فوج، اسٹبلشمنٹ اور اپوزیشن نے تمام زور لگایا مگر کویی بھی ان جیسا جوڑ توڑ کا بادشاہ چابت نہ ہو سکا۔ یہ کریڈٹ بھی ان ہی کو جاتا ہے کہ ان کی حکومت کے دوران کسی کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
زرداری کی قسمت کی دیوی ان پر بس اتنی ہی مہربان رہی جتنا کہ اوپر ڈکر آیا ہے۔ بہت سے اچھے کام کرنے کے باوجود ان کا تشخص منفی رہا۔ اپوزیشن کا کوئی ایک بھی شخص گرفتار نہیں ہوا۔ ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی رہی جو میڈیا سے لیکر سڑکوں تک سب کو حاصل تھی۔ اور اس آزادی میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ وہی بنے۔
ان کے سیاسی رویے کی وجہ سے سیاسی ماحول بنا اگرچہ اس کا بڑا فائدہ عمران خان کو حاصل ہوا اور نوجوان نسل سیاست میں فعال ہوئی۔
صدر زرداری کا ایک اور بڑا کام یہ ہے کہ انہوں نے اٹھارویں ترمیم منظور کراکے صوبوں کو خودمختاری دی جو کہ ایک پرانا مطالبہ تھا۔
عدلیہ نے صدر زرداری کا کردار محدود کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ شاید یہ زرداری کو رفیق تارڑ بنانے کی کوشش تھی۔ مگر انہوں نے مونالیزا کی سی پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ اسکا مقابلہ کیا اور اپنی کاریگری سے یہ نوبت نہیں آنے دی۔
زرداری نے اسلام آباد سے بیٹھ کر پارٹی چلائی۔ ان کا اسٹائل ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو سے مختلف تھا۔ جیسے بینظیر بھٹو نے پارٹی اور حکومتی معاملات چلانے کے لیے اپنی ٹیم منتخب کی جو ان کے والد کی ٹیم سے مختلف تھی، اسی طرح زرداری نے بھی اپنی ٹیم چنی جو بی بی کی ٹیم سے مختلف تھی۔ بڑی ہنرمندی کے ساتھ انہوں نے پیپلز پارٹی کو متحد اورمنظم رکھا۔ انہیں مخدوم امین فہیم سے لیکر اعتزاز احسن تک کی وفاداری حاصل رہی۔ بطور صدر کے انہیں کوئی انتظامی اختیارات تو حاصل نہیں تھے لیکن وہ پیپلز پارٹی کے بلاشرکت غیرے لیڈر تھے لہٰذا ان کا حرف حرفِ آخر ہی ہوتا تھا۔ جیالوں نے انہیں غیر مشروط طور پر بھٹو خاندان کا وارث تسلیم کر لیا تھا۔
وہ پاکستان کے ایسے لیڈر ثابت ہویے جنہیں سب سے زیادہ بحرانوں کا سامنا رہاا۔ میمو گیٹ، ریمنڈ ڈیوس، ججوں کی بحالی، سی آئی اے کے ڈرون حملے، توانائی کا بحران، کابینہ میں کرپشن، جارحانہ عدلیہ اور میڈیا۔
ان کے اہداف بڑے معتدل قسم کے تھے۔ عمران خان کا دعوی تھا کہ وہ تین ماہ میں پاکستان کو بدل کے رکھ دیں گے۔ صدر زرداری کا دعوا یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسی حکومت کی قیادت کی جس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی آئینی مدت پوری کی۔
وہ ایک ان تھک اور لچکدار سیاستدان رہے۔ سوائے سوئس خط کے باقی تمام معاملات میں ان کا رویہ ہمیشہ لچکدار رہا۔
تاہم لوگوں کے ذہن میں ان سے متعلق چند سوال رہیں گے۔
ایک تو یہ کہ صدر کے خلاف مقدمات کا کیا ہوگا؟ کیونکہ اب ان کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔ ان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے بلکہ ادھر ہی رہ کر پارٹی کی از سرنو تنظیم کرینگے۔ کئی لوگوں کو اس دعوے پر شبہ ہے ۔ اگر زرداری محفوظ جگہ کی تلاش میں نکل جاتے ہیں تو یقینا پیچھے کئی ڈرامے پیش آئیں گے۔
وہ ڈرامے کیا ہوں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔