_Dictator_
Politcal Worker (100+ posts)
مولوی
کبھی سوچا ہے ہمارے معاشرے میں مولوی کو ن بنتا ہے؟ کیسے بنتا ہے؟۔ گھر میں جو سب سے نالائق ،نکما اور غبی بچہ ہوتا ہے ، جو سکول میں بار بار فیل ہوتا ہے، جو اور کسی کام کے لائق نہیں ہوتا، اس کو اٹھا کر مدرسے میں ڈال دیا جاتا ہے کہ اب یہ صرف مولوی ہی بن سکتا ہے، کہ مولوی بننے کے لئے دماغ کی چنداں ضرورت نہیں۔ کبھی ایسا ہوا کہ کسی گھر میں کوئی بچہ بہت لائق ہو اور ماں باپ کہیں کہ ہم اسے مولوی بنائیں گے؟ کبھی نہیں، والدین لائق بچے کو ڈاکٹر بنائیں گے، انجینئر بنائیں گے، پائلٹ بنائیں گے، فوج میں اعلیٰ افسر بنائیں گے، مگر مولوی کبھی نہیں بنائیں گے۔
یا پھر وہ بچے مولوی بنتے ہیں، جن کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا، جن کی کفالت کا ذمہ کوئی نہیں اٹھاتا، پھر ان کیلئے بہترین جائے پناہ مدرسہ ہوتی ہے، جہاں پر ان کو پھینک دیا جاتا ہے، وہ وہیں رہتے ہیں، وہیں کھاتے پیتے ہیں، اورپھر وہیں ان کو ایک مخصوص پراسس کے ذریعے انسانوں سے مولویوں میں کنورٹ کردیا جاتا ہے۔
مولوی بننے کے صرف یہی دو راستے نہیں ہیں، بلکہ مولوی بننے کے ان گنت راستے اور بے شمار طریقے ہیں، کیونکہ مولوی وہ واحد عہدہ ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے آپ کو کسی ڈگری کی ضرورت نہیں، کسی تعلیم کی ضرورت نہیں، کسی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں، یہاں تک کہ دماغ کی بھی بالکل ضرورت نہیں۔ اس لئے آپ دیکھیں گے کہ معاشرے کے جو افراد اپنی اپنی فیلڈز میں ناکام ہوجاتے ہیں، وہ بھی مولوی بن جاتے ہیں، جیسا کہ مولوی طارق جمیل ، جو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران بھگوڑا ہوگیا اور مولوی بن گیا۔ مولوی بننے کے لئے آپ کو صرف دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک داڑھی اور دوسری زبان۔ آپ کتنے بڑے مولوی ہیں اس کا فیصلہ آپ کی داڑھی اور زبان کی لمبائی سے لگایا جاتا ہے۔ جس کی جتنی لمبی داڑھی ، وہ اتنا بڑا مولوی اور جس کی جتنی لمبی زبان، وہ اتنا بڑا علامہ۔
مولویوں کی اکثریت اس قابل بھی نہیں ہوتی کہ اپنی روزی روٹی خود کما سکیں، ان کی کفالت کا بوجھ بھی قوم کے ذمے ہوتا ہے، ذرا سوچیں قوم کی باسی روٹیاں توڑ کر پیٹ بھرنے والے مولوی جب دین کے معاملے میں قوم کی رہنمائی کریں گے تو قوم کو کدھر لے کر جائیں گے؟جو طبقہ اپنی روزی روٹی کمانے کی اہلیت نہیں رکھتا، جو طبقہ زندگی کے کسی اور شعبے میں کامیابی حاصل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا، وہ طبقہ دین کے معاملے میں قوم کا رہبر بنے گا تو اس قوم کا کیا حشر ہوگا۔ وہی ہوگا جو آج ہمارا ہورہا ہے۔
دیکھا جائے تو مولوی ایک ناقص العقل، جاہل شخص ہوتا ہے۔ جو زندگی کے سادہ سے مسائل کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ پھر یہی مولوی جب مذہبی کتابیں کھول کر ان کی اپنے حساب سے تشریح کرکے قوم کی رہنمائی کرتا ہے تو سوچیے، ذرا سوچیے اس کا کتنا خطرناک نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلتا ہے، انتشار کو فروغ ملتا ہے، فرقہ بندی اور گروہی اختلافات جنم لیتے ہیں، لوگ ایک دوسرے کو کافر سمجھنے لگتے ہیں، ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کے لئے لپکنے لگتے ہیں، سارا کا سارا معاشرہ تعفن زدہ ہوجاتا ہے، صرف اور صرف اس گندے ، نالائق ، اور متعفن شخص کی وجہ سے جس کو ہم مولوی کہتے ہیں۔
گزشتہ چند دنوں میں آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ بریلوی فرقہ کے لوگ جن کو بڑا امن پسند سمجھا جاتا ہے، ان کو بھی مولویوں نے چند لمحوں میں کس طرح متشدد بنا دیا، دنیا جہان کی گالیاں بکی گئیں، توڑ پھوڑ کی گئی، میٹرو سٹیشن کو آگ لگا دی گئی، جو ہاتھ لگا اس کو پیٹ دیا گیا، بغیر کسی وجہ اور بغیر کسی مقصد کے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مولوی کا ہر روپ ہی انسانیت کے لئے خطرہ ہے۔ مولوی کسی شکل میں بھی ، کسی فرقے میں بھی امن پسند نہیں ہوسکتا ۔ مولوی، مولوی ہوتا ہے، معاشر ے کا ایک بگڑا ہواعنصر، ایک ناسور، ایک انتشار پسند ذہنیت کا مالک۔
لہذا معاشرے کو انتشار، فتنہ و فساد اور خونریزی سے پاک کرنا ہے تو مولوی کو ایک تدریجی عمل کے ذریعے بالکل ختم کرناہوگا، دین کو سمجھنے کے لئے، کسی ٹھیکیدار، کسی بیچ کے آدمی، کسی دلال، کسی مولوی کی ضرورت نہیں۔
- Featured Thumbs
- http://ytimg.googleusercontent.com/vi/USYMDOnxcXg/mqdefault.jpg