مولانا طارق جمیل کا یہ کہنا کہ میڈیا جھوٹ پھیلاتا ہے میں مبالغہ آرائی بھی نہیں
بڑے میڈیا ہاؤسز باقاعدہ پارٹی پوزیشن لے چکے ہیں- کسے یاد نہیں قومی اسمبلی کے فلور پر میاں نواز شریف نے چوہدری نثار کو خصوصی تاکید کی تھی کہ جنگ/جیو کا نام لے کر کریڈٹ دیا جاۓ- میرشکیل الرحمن کے نوازشریف سے تعلقات کسی سے ڈھکے چپھے تو نہیں- حکومتی اشتہارات میں جنگ گروپ سب سے زیادہ مال بناتا رہا- اس کے نام نہاد بڑے صحافی عمران خان کی ازدواجی زندگی کے بخیے ادھیڑتے رہے- اخبارات کی شہ سرخیاں وہ خبریں بنیں جو اہل شرفاء شاید خلوت میں بھی نہ کریں- اب بھی جیو کے بڑے اینکر اپنے بغض کا برملا اظہار کرتے ہیں- یہ کہاں کی صحافتی اقدار ہیں؟ کیا انہیں صحافی بھی قرار دینا چاہیے
دوسری جانب موجودہ حکومت کا بڑا حمایتی چینل اے آر وائی بھی اسی ڈگر پہ ہے- جیو کے ساتھ جس کا کوئی نظریاتی اختلاف نہیں بلکہ مارکیٹ قبضہ کی جنگ ہے- اس کے بھی دیہاڑی دار صحافی لٹھ لے کر شریفوں کے پیچھے پڑے رہتے تھے
سیاسی جماعتوں نے صحافیوں کے روپ میں بندے پلانٹ کیے ہوۓ ہیں جو ان کا ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں- بڑے نامور صحافی کبھی اپنے بارے سروے کروا کر دیکھ لیں، خلق خدا ان کے بارے کیا راۓ رکھتی ہے، لگ پتا جاۓ گا- اب تو آپ صحافی کا نام لیں، لوگ خود بتا دیتے ہیں کہ یہ حکومتی کیمپ میں ہے یا مخالف کمیپ میں- غیرجانبدار صحافی ڈھونڈنا ایسی ہی ہے جیسے بھوسے میں سے سوئی کھوجنا- کئیوں کے بارے تو یہ تاثر عام ہے کہ وہ ایک تنخواہ ادارے سے اور دوسری اپنی پروردہ سیاسی جماعت سے بٹورتے ہیں- جس کے ہاتھ میں مائیک اور شکل ٹی وی سکرین پر آر ہی ہے وہ جو چاہے تمہت لگاۓ، کسی کی پگڑی سرعام اچھال دے- ثبوت کی ضرورت اور نہ قانون کا ڈر- آخرت کا تو ویسے بھی نہیں
مولانا نے سچ بول کر گویا مکھیوں کے جتھے میں ہاتھ دے دیا اور پھر ان کے شر سے بچنے کے لیے معافی بھی مانگ لی مگر کیا اس سے ان کی کہی ہوئی بات جھٹلائی جا سکتی ہے