پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کی وادی سوات میں حکام کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کے خلاف تقریباً سولہ سال قبل بنائے گئے قتل اور اقدام قتل کے نو مقدمات دوبارہ کھول گئے ہیں۔
بدھ کو مینگورہ میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت میں ان کیسسز کی سماعت ہوئی اور ان مقدمات میں نامزد پچیس کے قریب ملزمان کو سخت سکیورٹی انتظامات میں پیش کیا گیا۔
ایک سرکاری وکیل نےپشاور میں بی بی سی کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کو بتایا کہ انیسو چورانوے میں مولانا صوفی محمد اور ان کے تین بیٹوں عبداللہ، عبد الرحمان اور فضل اللہ کی طرف سے حکومت کے خلاف مسلح تحریک شروع کرنے کے دوران قتل اور اقدام قتل کے نو مقدمات درج کرائے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقدمات سوات کے مختلف تھانوں کبل، مٹہ اور خوازہ خیلہ میں درج کیے گئے جن میں سابق ممبر صوبائی اسمبلی بدیع الزمان کے قتل کا مقدمہ بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج مینگورہ میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی کورٹ کے جج عاصم امام کی عدالت میں ان کیسسز کی سماعت ہوئی اور پچیس نامزد ملزمان کو پیش کیا گیا تاہم مولانا صوفی محمد اور ان کے بیٹوں کو بعض نامعلوم وجوہات کی بناء پر عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکا۔
سرکاری وکیل نے مزید بتایا کہ پہلے یہ افواہ گرم تھی کہ شاید صوفی محمد اور ان کے بیٹوں کے خلاف درج مقدمات واپس لے لیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوفی محمد کے خلاف قصاص اور دیت کے کیسسز درج ہیں جس میں مقدمہ واپس لینا یا جرم معاف کرنے کا اختیار صرف متاثرہ پارٹی کو حاصل ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ملزمان کی پیشی کے وقت کچہری کے احاطے میں سخت حفاظی انتظامات کیے گئے تھے اور پولیس نے سارے علاقے کو سیل کیا ہوا تھا۔
مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ انھیں ملزمان نے عدالت کے احاطے میں دھمکیاں بھی دیں اور فلم بنانے سے منع کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب ملزمان کو گاڑیوں سے اتارا جارہا تھا تو وہاں موجود صحافیوں نے فلم بنائی جس پر چند ملزمان نے کہا کہ ایسا کرنے پر صحافی خطرناک نتائج کےلیے تیار رہیں۔
ادھر بعض اخباری اطلاعات کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے ججوں اور سرکاری وکلاء کو بھی شدت پسندوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔
ایک سرکاری وکیل کے مطابق حکومت کو درخواستوں کے باوجود انھیں کسی قسم کی کوئی سکیورٹی فراہم نہیں کی جارہی ہے جسکی سے وہ عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض علاقوں میں انھیں لوگ کرایہ پر مکان دینے سے بھی انکار کررہے ہیں۔
بدھ کو مینگورہ میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت میں ان کیسسز کی سماعت ہوئی اور ان مقدمات میں نامزد پچیس کے قریب ملزمان کو سخت سکیورٹی انتظامات میں پیش کیا گیا۔
ایک سرکاری وکیل نےپشاور میں بی بی سی کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کو بتایا کہ انیسو چورانوے میں مولانا صوفی محمد اور ان کے تین بیٹوں عبداللہ، عبد الرحمان اور فضل اللہ کی طرف سے حکومت کے خلاف مسلح تحریک شروع کرنے کے دوران قتل اور اقدام قتل کے نو مقدمات درج کرائے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقدمات سوات کے مختلف تھانوں کبل، مٹہ اور خوازہ خیلہ میں درج کیے گئے جن میں سابق ممبر صوبائی اسمبلی بدیع الزمان کے قتل کا مقدمہ بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج مینگورہ میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی کورٹ کے جج عاصم امام کی عدالت میں ان کیسسز کی سماعت ہوئی اور پچیس نامزد ملزمان کو پیش کیا گیا تاہم مولانا صوفی محمد اور ان کے بیٹوں کو بعض نامعلوم وجوہات کی بناء پر عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکا۔
سرکاری وکیل نے مزید بتایا کہ پہلے یہ افواہ گرم تھی کہ شاید صوفی محمد اور ان کے بیٹوں کے خلاف درج مقدمات واپس لے لیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوفی محمد کے خلاف قصاص اور دیت کے کیسسز درج ہیں جس میں مقدمہ واپس لینا یا جرم معاف کرنے کا اختیار صرف متاثرہ پارٹی کو حاصل ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ملزمان کی پیشی کے وقت کچہری کے احاطے میں سخت حفاظی انتظامات کیے گئے تھے اور پولیس نے سارے علاقے کو سیل کیا ہوا تھا۔
مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ انھیں ملزمان نے عدالت کے احاطے میں دھمکیاں بھی دیں اور فلم بنانے سے منع کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب ملزمان کو گاڑیوں سے اتارا جارہا تھا تو وہاں موجود صحافیوں نے فلم بنائی جس پر چند ملزمان نے کہا کہ ایسا کرنے پر صحافی خطرناک نتائج کےلیے تیار رہیں۔
ادھر بعض اخباری اطلاعات کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے ججوں اور سرکاری وکلاء کو بھی شدت پسندوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔
ایک سرکاری وکیل کے مطابق حکومت کو درخواستوں کے باوجود انھیں کسی قسم کی کوئی سکیورٹی فراہم نہیں کی جارہی ہے جسکی سے وہ عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض علاقوں میں انھیں لوگ کرایہ پر مکان دینے سے بھی انکار کررہے ہیں۔