تاریخ: 17 ستمبر 2014
موجودہ استحصالی نظام کو بدلنا لازمی ہے
تحریر: سید انور محمود
فیصلہ دھرنوں کے حق میں ہوتا ہے یا دھرنوں کےخلاف پارلیمینٹ میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کے حق میں، عوام کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ جو سیاسی نظام اس ملک میں رایج ہے وہ عام لوگوں کےلیے نہیں ہے بلکہ خواص کےلیے ہے، عمران خان نے اسی نظام کےتحت انتخابات میں حصہ لیا تھا، تحریک انصاف کا دھرنا انتخابی دھاندلی کےلیے ہے ، کیا عمران خان کا کوئی ایک مطالبہ بھی عوام کے مسائل سے تعلق رکھتا ہے، یقینا نہیں، وہ تبدیلی کا نعرہ لگارہے ہیں مگر سوال ہے کونسی تبدیلی، معاشی یا صرف انتخابی؟ پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو نےبھی روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا، چار مرتبہ پیپلز پارٹی اس ہی نعرہ کو لگاکر برسراقتدار آئی اور اُسکے آخری دور میں کرپشن کے سارئے ریکارڈ ٹوٹ گے۔ پاکستان عوامی تحریک بھی دھرنا دیئے ہوئے ہے، ماڈل ٹاون کے افسوسناک واقعہ کے علاوہ ، علامہ طاہرالقادری کے پاس ایک دس نکاتی ایجنڈا ہے ، بلاشبہ عوام یہ سب کچھ چاہتے ہیں، لیکن کیا پاکستان معاشی طور پر اتنی ترقی کرچکا ہے کہ اس پر عمل ہوسکے، علامہ طاہر القادری خود ایک ریسرچ اسکالر ہیں یقینا وہ جانتے ہیں کہ مجمع میں کھڑئے ہوکر کسی منصوبے کا ذکر کرنا بہت آسان ہوتا ہے، لیکن اُس پر عمل کرنا بہت مشکل۔دوسری طرف اس وقت پاکستان کی پارلیمینٹ میں ایک نکاتی ایجنڈئے پر اتحاد کرنے والے کہتے ہیں کہ وہ "جمہوریت کی بقا کےلیے ایک ہوئے ہیں"، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ، یہ جمہوریت یاعوام کی بہتری اور ترقی کے بجائے اپنی لوٹ کھسوٹ ، ریاست اور وسعت طلبی کےلیے عوام کواس لوٹ مار کے نظام کی زنجیروں میں جکڑے رکھنا چاہتے ہیں۔موجودہ نظام نے صرف طاقتور طبقے کو تحفظ اور قوت دی ہوئی ہے، اور یہ طبقے اس استحصالی نظام کو بدلنے کی کوشش تو دور کی بات ہے یہ تک قبول کرنے کو تیار نہیں کہ یہ نظام عوام دشمن ہے۔ اگر تو زور اس نکتے پر ہے کہ کرپٹ نظام کو کیسے بچایا جائے تو پھر معاشرے میں انارکی پھیلے گی، اور اگر انارکی سے بچنا ہے تو اس رویے کو بدلنا ہو گا، افسوس کہ اگر یہ بات کی جائے تو اسے بھی یہی مخصوص طبقہ ٹی وی چینل پر آکر جمہوریت دشمنی قرار دے دیتا ہے، حالانکہ جمہوریت کے دشمن تو خود جمہوریت کے دعویدار بنے ہوئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم معاشی اور سیاسی طور پر ترقی کیوں نہیں کرپارہے ؟ جواب سیدھا سادھا ہے کہ ہمارا سیاسی نظام لوٹ کھسوٹ پر مبنی ہے، اس نظام میں سارا فاہدہ ملک کے ایک فیصد جاگیرداروں، امیروں،بڑئےبڑئے سرکاری ملازموں کو ہے۔عام لوگوں کےلیے یہ ایک جابرانہ نظام ہے جس میں آبادی کی اکثریت بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، ملک کی 65فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچےزندگی گذاررہی ہے، پینے کا صاف پانی یا تعلیم کا حصول ملک کی ایک کثیر تعداد کو میسر نہیں ، عام آدمی کا واسطہ ایک ایسے بے رحم عدالتی و دفتری نظام سے پڑتا ہے، جو اُن کے ساتھ جانوروں سے زیادہ بدتر سلوک کرتا ہے۔ بھوک سے لڑتے ہوئے پاکستانی عوام ایک ایسے استحصالی اور شرمناک نظام میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں، جہاں اُنہیں آئی ایم ایف، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملک کے وسائل پر مسلط چند فیصد مافیا نے زندہ درگور کر رکھا ہے۔ نہ علاج کرانے کےلیے پیسے ہیں اور نہ پیٹ بھرنے کا کوئی مستقل سہارا۔جو نظام پولیس ، پٹواریوں، کرپٹ سرکاری ملازمین اورخوشامدیوں کے بل بوتے پر چلے، وہاں طاقتور ادارے اور افراد اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، اُن سے فلاحی یا اجتماعی مفاد کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔جب صدر اور وزیر اعظم غریبوں کو انصاف فراہم کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے موجودہ نظام سے عام آدمی کو کوئی فاہدہ نہیں۔ نظام کی خرابیاں اپنی جگہ، لیکن ان خرابیوں میں سب سے اہم کردار اقربا پروری اور اہم عہدوں پر نا اہل افراد کی تقرریوں نے ادا کیا ہے۔انتظامی اور سیاسی عہدوں پر براجمان کرپٹ چھوٹے بڑے حکمران اینٹی کرپشن، ایف آئی اے، احتساب بیورو، پبلک اکاوُنٹس کمیٹی اور ایسے ہی اَن گنت اداروں کے باوجود دندناتے پھرتے ہیں اور قانون ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔نظام تبدیل کرنے کی خواہش اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی، جب تک یہ تمام ادارئے اپنی ذمیداری ایمانداری سے ادا نہیں کرتے، عدالتیں جلد انصاف مہیا نہیں کرتیں اور مجرموں کو اُنکے جرم کے مطابق پوری سزا نہ ملے۔موجودہ استحصالی نظام کو بدلنا لازمی ہے، نظام میں تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک سیاسی اور انتظامی عہدوں پر باصلاحیت، اہل اور دیانت دار لوگوں کو آگے آنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔
فیصلہ دھرنوں کے حق میں ہوتا ہے یا دھرنوں کےخلاف پارلیمینٹ میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کے حق میں، عوام کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ جو سیاسی نظام اس ملک میں رایج ہے وہ عام لوگوں کےلیے نہیں ہے بلکہ خواص کےلیے ہے، عمران خان نے اسی نظام کےتحت انتخابات میں حصہ لیا تھا، تحریک انصاف کا دھرنا انتخابی دھاندلی کےلیے ہے ، کیا عمران خان کا کوئی ایک مطالبہ بھی عوام کے مسائل سے تعلق رکھتا ہے، یقینا نہیں، وہ تبدیلی کا نعرہ لگارہے ہیں مگر سوال ہے کونسی تبدیلی، معاشی یا صرف انتخابی؟ پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو نےبھی روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا، چار مرتبہ پیپلز پارٹی اس ہی نعرہ کو لگاکر برسراقتدار آئی اور اُسکے آخری دور میں کرپشن کے سارئے ریکارڈ ٹوٹ گے۔ پاکستان عوامی تحریک بھی دھرنا دیئے ہوئے ہے، ماڈل ٹاون کے افسوسناک واقعہ کے علاوہ ، علامہ طاہرالقادری کے پاس ایک دس نکاتی ایجنڈا ہے ، بلاشبہ عوام یہ سب کچھ چاہتے ہیں، لیکن کیا پاکستان معاشی طور پر اتنی ترقی کرچکا ہے کہ اس پر عمل ہوسکے، علامہ طاہر القادری خود ایک ریسرچ اسکالر ہیں یقینا وہ جانتے ہیں کہ مجمع میں کھڑئے ہوکر کسی منصوبے کا ذکر کرنا بہت آسان ہوتا ہے، لیکن اُس پر عمل کرنا بہت مشکل۔دوسری طرف اس وقت پاکستان کی پارلیمینٹ میں ایک نکاتی ایجنڈئے پر اتحاد کرنے والے کہتے ہیں کہ وہ "جمہوریت کی بقا کےلیے ایک ہوئے ہیں"، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ، یہ جمہوریت یاعوام کی بہتری اور ترقی کے بجائے اپنی لوٹ کھسوٹ ، ریاست اور وسعت طلبی کےلیے عوام کواس لوٹ مار کے نظام کی زنجیروں میں جکڑے رکھنا چاہتے ہیں۔موجودہ نظام نے صرف طاقتور طبقے کو تحفظ اور قوت دی ہوئی ہے، اور یہ طبقے اس استحصالی نظام کو بدلنے کی کوشش تو دور کی بات ہے یہ تک قبول کرنے کو تیار نہیں کہ یہ نظام عوام دشمن ہے۔ اگر تو زور اس نکتے پر ہے کہ کرپٹ نظام کو کیسے بچایا جائے تو پھر معاشرے میں انارکی پھیلے گی، اور اگر انارکی سے بچنا ہے تو اس رویے کو بدلنا ہو گا، افسوس کہ اگر یہ بات کی جائے تو اسے بھی یہی مخصوص طبقہ ٹی وی چینل پر آکر جمہوریت دشمنی قرار دے دیتا ہے، حالانکہ جمہوریت کے دشمن تو خود جمہوریت کے دعویدار بنے ہوئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم معاشی اور سیاسی طور پر ترقی کیوں نہیں کرپارہے ؟ جواب سیدھا سادھا ہے کہ ہمارا سیاسی نظام لوٹ کھسوٹ پر مبنی ہے، اس نظام میں سارا فاہدہ ملک کے ایک فیصد جاگیرداروں، امیروں،بڑئےبڑئے سرکاری ملازموں کو ہے۔عام لوگوں کےلیے یہ ایک جابرانہ نظام ہے جس میں آبادی کی اکثریت بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، ملک کی 65فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچےزندگی گذاررہی ہے، پینے کا صاف پانی یا تعلیم کا حصول ملک کی ایک کثیر تعداد کو میسر نہیں ، عام آدمی کا واسطہ ایک ایسے بے رحم عدالتی و دفتری نظام سے پڑتا ہے، جو اُن کے ساتھ جانوروں سے زیادہ بدتر سلوک کرتا ہے۔ بھوک سے لڑتے ہوئے پاکستانی عوام ایک ایسے استحصالی اور شرمناک نظام میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں، جہاں اُنہیں آئی ایم ایف، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملک کے وسائل پر مسلط چند فیصد مافیا نے زندہ درگور کر رکھا ہے۔ نہ علاج کرانے کےلیے پیسے ہیں اور نہ پیٹ بھرنے کا کوئی مستقل سہارا۔جو نظام پولیس ، پٹواریوں، کرپٹ سرکاری ملازمین اورخوشامدیوں کے بل بوتے پر چلے، وہاں طاقتور ادارے اور افراد اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، اُن سے فلاحی یا اجتماعی مفاد کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔جب صدر اور وزیر اعظم غریبوں کو انصاف فراہم کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے موجودہ نظام سے عام آدمی کو کوئی فاہدہ نہیں۔ نظام کی خرابیاں اپنی جگہ، لیکن ان خرابیوں میں سب سے اہم کردار اقربا پروری اور اہم عہدوں پر نا اہل افراد کی تقرریوں نے ادا کیا ہے۔انتظامی اور سیاسی عہدوں پر براجمان کرپٹ چھوٹے بڑے حکمران اینٹی کرپشن، ایف آئی اے، احتساب بیورو، پبلک اکاوُنٹس کمیٹی اور ایسے ہی اَن گنت اداروں کے باوجود دندناتے پھرتے ہیں اور قانون ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔نظام تبدیل کرنے کی خواہش اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی، جب تک یہ تمام ادارئے اپنی ذمیداری ایمانداری سے ادا نہیں کرتے، عدالتیں جلد انصاف مہیا نہیں کرتیں اور مجرموں کو اُنکے جرم کے مطابق پوری سزا نہ ملے۔موجودہ استحصالی نظام کو بدلنا لازمی ہے، نظام میں تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک سیاسی اور انتظامی عہدوں پر باصلاحیت، اہل اور دیانت دار لوگوں کو آگے آنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔