Zia Hydari
Chief Minister (5k+ posts)
26 دسمبر 1994 کو پروین شاکر 42 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ آج ان کو ہم سے بچھڑے 22برس ہو چکے ہیں مگر ان کی یاد آج بھی تازہ ہے۔
مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، میرے ہونے کی گواہی دیں گے
ان کی پہلی کتاب خوشبو 1976 میں شائع ہوئی جبکہ ان کی دیگر مشہور کتابوں میں انکار، صدِبرگ، خود کلامی اور کف آئینہ شامل ہیں۔
اپنی تنہائی میرے نام پہ آباد کرے
کون ہو گا جو مجھے اس طرح یاد کرے
دل عجب شہرکہ جس پہ بھی کھلا در اس کا
وہ مسافر ہر سمت سے اسے برباد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئی طرز کی ایجاد کرے -
پروین سے پہلے کسی شاعرہ نے صنف نازک کے جذبات ایسی ترجمانی کی جو ہلے کوئی نہیں کر سکا۔
بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے
ہماری زندگی برباد کر کے
پلٹ کر پھر یہیں آجایئں گے ہم
وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے
رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے
مگر ہاں منت صیاد کر کے
بدن میرا چھوا تھا اس نے لیکن
گیا ہے روح کو آباد کر کے
ہر آمر طول دینا چاہتا ہے
مقرر ظلم کی معیاد کر کے -
سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں، اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990ء میں ٹرینٹی کالج جو امریکہ سے تعلق رکھتا تھا سےتعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے ان کا بیٹا مراد پیدا ہوا، بعد میں انہوں نے طلاق لے لی۔
یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے
کیا پذیرائی ہو اُن کی جو بُلائے نہ گئے
اب وہ نیندوں کا اُجڑنا تو نہیں دیکھیں گئے
وہی اچھّے تھے جنھیں خواب دکھائے نہ گئے
رات بھر میں نے کھُلی آنکھوں سے سپنا دیکھا
رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چُرائے نہ گئے
بارشیں رقص میں تھیں اور زمیں ساکت تھی
عام تھا فیض مگر رنگ کمائے نہ گئے
پَر سمیٹے ہوئے شاخوں میں پرندے آ کر
ایسے سوئے کہ ہَوا سے بھی جگائے نہ گئے
تیز بارش ہو ، گھنا پیڑ ہو ، اِک لڑکی ہو
ایسے منظر کبھی شہروں میں تو پائے نہ گئے
روشنی آنکھ نے پی اور سرِ مژگانِ خیال
چاند وہ چمکے کہ سُورج سے بجھائے نہ گئے