کائنات کو کس نے پیدا کیا ہے۔
کائنات ایک مادی وجود ہے۔ ہر مادی چیز کی طرح کائنات بھی خود بخود وجود پذیر نہیں ہوسکتی۔ اسکی کوئی علت ہونی چاہیے۔ یہ علت وہ شے خود نہیں ہو سکتی۔ ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ کسی کمرے میں اگر کوئی چیز رکھی ہوئ ہے۔ مثلا ایک پانی کا مٹکہ رکھا ہوا ہے، تو اسکے بارے میں یہ سوال لازماً اٹھے گا کہ اسے کس نے بنایا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ خود اپنے آپ کو بنالے۔ ٹھیک یہی بات اس کائنات کی ہر شے اور خود کائنات پر بھی صادق آتی ہے کہ ان میں کوئی بھی اپنی تخلیق پر آپ قادر نہیں۔
سائنس یہ مان چکی ہے کہ کائنات کا وجود ابدی نہیں ہے۔ یہ آج سے پندرہ بلین سال قبل ایک عظیم دھماکے , کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور کس نے کیا۔ اس بات کے جواب میں سائنس بالکل خاموش ہے۔ وہ صرف اتنا بتادیتی ہے کہ یہ دھماکہ کسی خارجی طاقت کی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ لیکن یہ خارجی طاقت کون تھی اور اس نے ایسا کیوں کیا، اس کا جواب سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
کائنات اور اسکی ہر چیز کے بارے میں ایک خالق کا سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ انکا تجزیہ کرکے یہ بتایا جاسکتا ہے کہ انہیں ایک خالق کی ضرورت ہے۔ انکا مادی ہونا اور قابل تجزیہ ہونا لازم کرتا ہے کہ یہ بنائی گئی ہیں، خود بخود سے وجود میں نہیں آئیں۔ ان کا خالق کون ہے؟ ایک منکر خدا کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔
اس بات کا جواب صرف مذہب دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اپنی بے حد و حساب طاقت کا تذکرہ ’’کن فیکون‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے۔ جو عظیم تخلیقات اللہ تعالیٰ کے حکم’’کن‘‘ سے انجام پائیںان میں تخلیق کائنات کے علاوہ تخلیق آدم علیہ السلام، پیدائش حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تخلیق حیات و موت بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمودات کی سائنسی تصدیق نہ لازم ہے اور نہ ہی اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے (کیونکہ سائنسی تحقیق ایک ارتقائی عمل اور جاری سلسلہ ہے اور کسی بھی مرحلہ پر حاصل کی گئی معلومات اور نتائج حتمی قرار نہیں دئے جاسکتے ہیں)۔تاہم اگر کہیں سائنس آج لاتعداد وسائل استعمال کرنے کے بعد اور زبردست کوشش و تجربات کے بعد وہی نتائج اخذ کرتی ہے جو قرآن نے آج سے پندرہ صدی قبل ہی بیان کئے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ سائنسی تحقیق کے نتائج پر غور کرکے انہیں تسلیم کیا جائے۔ اس کا استدلال خود قرآن کریم سے اخذ ہوتا ہے۔ قرآن پاک بار بار انسان کو غور و فکر، تدبر و تحقیق اور تفکر پر اُبھار رہا ہے۔ لطیف ذرہ ہگس بوسون یا’ خدائی عنصر ‘اللہ تعالیٰ کے حکم’’کُن‘‘ سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔ ’’کُن‘‘ اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور اس نور کے عظیم ذرے نے پوری کائنات کو مایہ سے ٹھوس حیثیت دی، اسے ماہیتٔ اور کمیت بخش دی، اسے عدم سے وجود عطا کیا۔ سائنسی تحقیق کے ’خدائی عنصر‘ کی خصوصیات پر غور کریں تو ’’کُن‘‘ سے اس کا تعلق بھی ظاہر ہو رہا ہے۔ سائنس دان خدا کو الگ رکھ کر’ خدائی عنصر‘ کی بات کریں یا کسی لطیف عنصر کو خدا کے برابر لا کھڑا کریں لیکن ’کُن‘ کی عظیم الشان قوت و طاقت اپنی جگہ ایک ایسی بڑی حقیقت ہے جس سے آنکھیں بند کرنا غیرممکن ہے اور دیر سویر اس بڑی قوت کوتسلیم کرنا ہی ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
جی ہاں منکر دین اس کا جواب نہیں دے سکتے ہیں، منکر دین کا کام وسوسہ پھیلانا ہوتا ہے۔ یہ مدلل گفتگو نہیں کر سکتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اپنے آپ کو ایکس مسلم شو کرتے ہیں، جبکہ حقیقت میں یہ بہروپئے ہوتے ہیں۔
. الحاد کی طرف راغب ہونے والے نام نہا مسلمانوں میں آدھی تعداد قادیانی ،اسماعیلی اور اہل تشیع کے وہ افراد ہیں جو کبھی شیعہ بھی نہیں تھے ، ان کا ارتقا ایک کفر سے دوسرے کفر میں خود با خود ہی ہو جاتا ہے.ان کے ملحد ہونے کے پیچھے بچپن میں ہی ان کی الحاد پر تربیت ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ کچھ بہروپیے اور بھی ہے ، وہ ہے عیسائی ، ہندو اور دوسرے مذہب کے شدت پسند افراد جنہوں نے مسلمان ہونے کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ، فیس بک کے ایک اکاؤنٹ سے وہ خود مسلمان شو کرتے ہیں تو دوسرے سے ملحد. ان سب کے استاد اور پروفیسر مستشرقین اور عیسائی مشنریوں کے اسلام پر اٹھاۓ گئے بھونڈے اعتراض، مسلمانوں نے انکے ہر آرٹیکل ہر اعتراض کا مدلل و معقول جواب دیا ہے، بجائے اسکے کہ وہ انکا جواب الجواب دیتے انہوں نے اپنی ٹرٹراہٹ جاری رکھی ہوئی ہیں ،، جہاں سے یہ سب علم کے علمبردار ہونے کا چیمپئن بنتے ہیں. سوشل میڈیا پر جس قدر یہ افراد ایکٹو اور منظم ہیں، ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے ، وہ ہے اسلامی تعلیمات کومسخ کر کے پیش کرنا ، عام فہم رکھنے والے مسلمان کو کنفیوز کرنا اور وسوسے ڈالنا ,جیسے شیطان وسوسہ ڈالتا ہے ، سیکولرازم اور لبرل ازم پھیلانا تاکہ مسلمانوں کو اسلام کے دائرے سے کسی نہ کسی طریقے سے باہر پھینک دیا جائے ،