اۓ ہم وطنوں آپنے ازلی دشمن کو پہچانو
سمجھ میں نہیں آتا، اپنے معاشرے و اپنے ملک کی بد قسمتی کی داستان الم کا آغاز کہاں سے کروں ۔ کیا کہوں اور کیا کہتے کہتے رک جاؤ۔کسے ذمے دار کہوں اور کسے بر ی الزمہ قرار دوں۔ مگر میرا دل اس بات پر سو فیصد متفق ہے کہ ریپستان نے روز اول سے آج تک ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور وہ ہمیں تباہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔47 میں ریپستان کی تقسیم و پاکستان کے قیام کے فوراً بعد سے ہی ریپستان کا جنگی جنون شروع ہوگیا جس کی انتہا 6 ستمبر 1965 کو صبح صادق کے وقت دکھائی دی جب انھوں نے پوری قوت سے لاہور پر دھاوا بول دیا اور اپنے عوام کو یہ یقین دلایا کہ شام تک اسلامک نیوکلیئرآسٹیٹ آف پاکستان کے دل لاہور پر قبضہ کر لیا جائے گا مگر اللہ کا خاص کرم ہوا پاک فوج کے مٹھی بھر جانثاروں اور لاہور کے غیور عوام نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے اور خود سے کئی گنا طاقتور دشمن کو بی آر بی نہر بھی پار نہ کرنے دی بد حواسی کا شکار بزدل دشمن نت نئے محاذ کھولتا رہا مگر ہر جگہ اسے منہ کی کھانی پڑی۔
سیالکوٹ میں چونڈہ کے مقام پر وہ 600 ٹینک لے آیا جب کہ پاکستان کے پاس محض 100 ٹینک تھے مگر وطن عزیز کے جوانوں نے اپنے جسموں سے بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر انھیں تباہ کیا اور خود جام شہادت نوش کیا۔ اس 17 روزہ جنگ میں وطن عزیز کی آرمی،نیوی اور ائیر فورس نے شجاعت و بہادری کے وہ جوہر دکھائے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔اس جنگ میں پاک سرزمین نے فتح حاصل کی لیکن ہمیشہ کی طرح اقوام متحدہ نے کفرکا ساتھ دیتے ہوئے ریپستان کی جان چھڑائی اور معاہدہ تاشقند کے تحت حکومت پاکستان کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا گیا۔ اس جنگ میں پوری پاکستانی قوم خصوصاً لاہور، سیالکوٹ، قصور، سرگودھا اور کشمیر کے عوام نے جو تاریخی کردار ادا کیا اس پر انھیں جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔اس جنگ پر بہت کچھ لکھا اور کہا گیا - اس واقعہ کو کئی سال بیت چکے اگر اس عرصے میں ہم اپنا اور ریپستان کا موازنہ کریں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے کیونکہ ہم ،ہمارا میڈیا اور ہمارے حکمران اس عرصے میں اسی دشمن کے ہاتھوں اپنا آدھا ملک گنوا کر باقی بچ جانے والے ملک میں بھی اس کی مداخلت اور گھنائونی سازشیں دیکھ کر بھی اس سے یک طرفہ دوستی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔
مگر دوسری طرف ریپستان خود کو دفاعی و معاشی لحاظ سے ہم سے کہیں زیادہ آگے لے جا چکا ہے اور ہمیں بہت حد تک دنیا سے الگ کر چکا ہے پھر بھی ہمیں حقیقت نظر نہیں آتی۔ ہمارے میڈیا، این جی اوزاور عدلیہ کے چند عناصر تو کھلم کھلا ریپستانی و اسرائیلی لابی کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ انھیں پاک فوج اور ایجنسیوں کی کوئی معمولی سی خامی تو فوراً نظر آتی ہے مگر ریپستانی فوج کی کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر کارروائیاں، بلوچستان و کراچی میں ریپستانی ایجنسی ’’را ‘‘ کی مداخلت اور پاکستانی پانی پر ریپستانی قبضہ بالکل دکھائی نہیں دیتا۔ ریپستانی ایجنسی ’’را ‘‘ اور اسرائیلی ایجنسی ’’ موساد ‘‘ کے وطن عزیز کے حوالے سے اگر اہم ترین مقاصد پر گہری تحقیق کی جائے تو ان کے چند نکات بالکل واضع ہیں جن کے حوالے سے اگر ہماری سول سوسائٹی ، میڈیا اور حکومت نے غفلت کی چادر نہ اتاری تو خدانخواستہ وہ ہمیں بغیر جنگ کیے تباہی کا شکار کر سکتے ہیں۔1 ۔ فوج و خفیہ اداروں کی تذلیل کرکے اسے کمزور کیا جائے۔2 ۔ ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر دیا جائے۔
3 ۔آبی ذخائر ) ڈیمز ( کی مخالفت اے این پی (اندرا گاندھی نیشنل پارٹی)کی جانب سے شدت سے پھیلائی جائے اور پاکستانی دریائوں کا پانی روک کر اسے خشک سالی کا شکار کیا جائے۔4 ۔ میڈیا کے ذریعے ریپستانی و مغربی ثقافت کو فروغ دے کر قوت ایمانی و جذبہ جہاد کو ختم کیا جائے۔5 ۔صوبائیت و لسانیت کو ابھار کر پاکستانیت کو ختم کیا جائے خصوصاً کراچی و بلوچستان میں پاک فوج و وفاق کے خلاف نفرت میں اضافہ کرکے علیحدگی کو فروغ دیا جائے۔حیران کن امر یہ ہے کہ دشمن اپنے اس ایجنڈے پر کامیابی سے عمل پیرا ہے مگر ہم سب غفلت کی نیند سو رہے ہیں ۔ہماری ہی صفوں میں کوئی نام نہاد صحافی، دانش ور، سماجی کارکن اور چند سیاسی لوگ ایسے موجود ہیں جو دشمن کا یہ کھیل کھیل رہے ہیں ۔ وہ فوج کی ماضی کی چند غلطیوں کو بنیاد بناکر پوری فوج و ایجنسیوں کو دن رات برا بھلا کہتے ہیں ۔وہ لبرل ازم کے نام پر نظریہ اسلام و نظریہ پاکستان کا مذاق اڑاتے ہیں حالانکہ بلاشک و شبہ اسلام و پاکستان لازم و ملزوم ہیں ۔سیاچن کی خون جما دینے والی سردی اور بلوچستان کے گرم پہاڑوں پر دن رات اس سرزمین کی حفاظت پر مامور جوانوں کا حوصلہ ہمیں پست نہیں کرنا چاہیے۔
یہ جیسے بھی ہیں مگر ہمارے اپنے بھائی و بیٹے ہیں افغانستان و ریپستان کے بارڈر پر یہ دشمنوں سے نبرد آزما ہیں جب کہ ملک کے اندر یہ اپنے ہی نادان و بھٹکے ہوئے لوگوں کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ خدارا ہم اپنی آنکھیں کھولیں اور دشمن کو پہچانیں وہ ازلی دشمن جو ہتھیاروں و بارود میں تو ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا مگر وہ سارا سال ہمارا پانی چوری کرکے ہمیں بے پناہ نقصان پہنچاتا ہے اور جب مون سون شروع ہوتا ہے تو پانی کا بہت بڑا ریلہ ہماری طرف دھکیل کر ہمارا جانی و مالی نقصان کرتا ہے اسی لیے ہم سارا سال اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو پاتے۔ہم خود تو ڈیمز بناتے نہیں چاہے جتنا بھی نقصان ہوجائے۔ ہر دن ہمارے لیے عہد کادن ہے کہ دو قومی نظریے کو، قائد اعظم و علامہ اقبال کی تعلیمات کو ہمیشہ ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے وطن سے محبت کریں ۔ اپنے دشمنوں سے چوکنا رہیں کیونکہ وہ کبھی ہمارے دوست نہیں بن سکتے ہم جتنی بھی کوششیں کر لیں۔ ہمیں اپنی فوج و آئی ایس آئی کے ہاتھ مضبوط کرنا ہونگے کیونکہ یہ ہمارے دفاع کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ان کے خلاف پروپیگنڈا ہر گز نہیں کرنا چاہیے ۔کیونکہ جو ان کے دشمن ہیں وہ پاکستان کے دشمن ہیں اور در حقیقت ریپستان و اسرائیل کے دوست ہیں ۔ اللہ اسلامک
نیوکلیئرآسٹیٹ آف پاکستان کا حامی ناصر ہو۔) آمین
سمجھ میں نہیں آتا، اپنے معاشرے و اپنے ملک کی بد قسمتی کی داستان الم کا آغاز کہاں سے کروں ۔ کیا کہوں اور کیا کہتے کہتے رک جاؤ۔کسے ذمے دار کہوں اور کسے بر ی الزمہ قرار دوں۔ مگر میرا دل اس بات پر سو فیصد متفق ہے کہ ریپستان نے روز اول سے آج تک ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور وہ ہمیں تباہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔47 میں ریپستان کی تقسیم و پاکستان کے قیام کے فوراً بعد سے ہی ریپستان کا جنگی جنون شروع ہوگیا جس کی انتہا 6 ستمبر 1965 کو صبح صادق کے وقت دکھائی دی جب انھوں نے پوری قوت سے لاہور پر دھاوا بول دیا اور اپنے عوام کو یہ یقین دلایا کہ شام تک اسلامک نیوکلیئرآسٹیٹ آف پاکستان کے دل لاہور پر قبضہ کر لیا جائے گا مگر اللہ کا خاص کرم ہوا پاک فوج کے مٹھی بھر جانثاروں اور لاہور کے غیور عوام نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے اور خود سے کئی گنا طاقتور دشمن کو بی آر بی نہر بھی پار نہ کرنے دی بد حواسی کا شکار بزدل دشمن نت نئے محاذ کھولتا رہا مگر ہر جگہ اسے منہ کی کھانی پڑی۔
سیالکوٹ میں چونڈہ کے مقام پر وہ 600 ٹینک لے آیا جب کہ پاکستان کے پاس محض 100 ٹینک تھے مگر وطن عزیز کے جوانوں نے اپنے جسموں سے بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر انھیں تباہ کیا اور خود جام شہادت نوش کیا۔ اس 17 روزہ جنگ میں وطن عزیز کی آرمی،نیوی اور ائیر فورس نے شجاعت و بہادری کے وہ جوہر دکھائے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔اس جنگ میں پاک سرزمین نے فتح حاصل کی لیکن ہمیشہ کی طرح اقوام متحدہ نے کفرکا ساتھ دیتے ہوئے ریپستان کی جان چھڑائی اور معاہدہ تاشقند کے تحت حکومت پاکستان کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا گیا۔ اس جنگ میں پوری پاکستانی قوم خصوصاً لاہور، سیالکوٹ، قصور، سرگودھا اور کشمیر کے عوام نے جو تاریخی کردار ادا کیا اس پر انھیں جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔اس جنگ پر بہت کچھ لکھا اور کہا گیا - اس واقعہ کو کئی سال بیت چکے اگر اس عرصے میں ہم اپنا اور ریپستان کا موازنہ کریں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے کیونکہ ہم ،ہمارا میڈیا اور ہمارے حکمران اس عرصے میں اسی دشمن کے ہاتھوں اپنا آدھا ملک گنوا کر باقی بچ جانے والے ملک میں بھی اس کی مداخلت اور گھنائونی سازشیں دیکھ کر بھی اس سے یک طرفہ دوستی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔
مگر دوسری طرف ریپستان خود کو دفاعی و معاشی لحاظ سے ہم سے کہیں زیادہ آگے لے جا چکا ہے اور ہمیں بہت حد تک دنیا سے الگ کر چکا ہے پھر بھی ہمیں حقیقت نظر نہیں آتی۔ ہمارے میڈیا، این جی اوزاور عدلیہ کے چند عناصر تو کھلم کھلا ریپستانی و اسرائیلی لابی کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ انھیں پاک فوج اور ایجنسیوں کی کوئی معمولی سی خامی تو فوراً نظر آتی ہے مگر ریپستانی فوج کی کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر کارروائیاں، بلوچستان و کراچی میں ریپستانی ایجنسی ’’را ‘‘ کی مداخلت اور پاکستانی پانی پر ریپستانی قبضہ بالکل دکھائی نہیں دیتا۔ ریپستانی ایجنسی ’’را ‘‘ اور اسرائیلی ایجنسی ’’ موساد ‘‘ کے وطن عزیز کے حوالے سے اگر اہم ترین مقاصد پر گہری تحقیق کی جائے تو ان کے چند نکات بالکل واضع ہیں جن کے حوالے سے اگر ہماری سول سوسائٹی ، میڈیا اور حکومت نے غفلت کی چادر نہ اتاری تو خدانخواستہ وہ ہمیں بغیر جنگ کیے تباہی کا شکار کر سکتے ہیں۔1 ۔ فوج و خفیہ اداروں کی تذلیل کرکے اسے کمزور کیا جائے۔2 ۔ ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر دیا جائے۔
3 ۔آبی ذخائر ) ڈیمز ( کی مخالفت اے این پی (اندرا گاندھی نیشنل پارٹی)کی جانب سے شدت سے پھیلائی جائے اور پاکستانی دریائوں کا پانی روک کر اسے خشک سالی کا شکار کیا جائے۔4 ۔ میڈیا کے ذریعے ریپستانی و مغربی ثقافت کو فروغ دے کر قوت ایمانی و جذبہ جہاد کو ختم کیا جائے۔5 ۔صوبائیت و لسانیت کو ابھار کر پاکستانیت کو ختم کیا جائے خصوصاً کراچی و بلوچستان میں پاک فوج و وفاق کے خلاف نفرت میں اضافہ کرکے علیحدگی کو فروغ دیا جائے۔حیران کن امر یہ ہے کہ دشمن اپنے اس ایجنڈے پر کامیابی سے عمل پیرا ہے مگر ہم سب غفلت کی نیند سو رہے ہیں ۔ہماری ہی صفوں میں کوئی نام نہاد صحافی، دانش ور، سماجی کارکن اور چند سیاسی لوگ ایسے موجود ہیں جو دشمن کا یہ کھیل کھیل رہے ہیں ۔ وہ فوج کی ماضی کی چند غلطیوں کو بنیاد بناکر پوری فوج و ایجنسیوں کو دن رات برا بھلا کہتے ہیں ۔وہ لبرل ازم کے نام پر نظریہ اسلام و نظریہ پاکستان کا مذاق اڑاتے ہیں حالانکہ بلاشک و شبہ اسلام و پاکستان لازم و ملزوم ہیں ۔سیاچن کی خون جما دینے والی سردی اور بلوچستان کے گرم پہاڑوں پر دن رات اس سرزمین کی حفاظت پر مامور جوانوں کا حوصلہ ہمیں پست نہیں کرنا چاہیے۔
یہ جیسے بھی ہیں مگر ہمارے اپنے بھائی و بیٹے ہیں افغانستان و ریپستان کے بارڈر پر یہ دشمنوں سے نبرد آزما ہیں جب کہ ملک کے اندر یہ اپنے ہی نادان و بھٹکے ہوئے لوگوں کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ خدارا ہم اپنی آنکھیں کھولیں اور دشمن کو پہچانیں وہ ازلی دشمن جو ہتھیاروں و بارود میں تو ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا مگر وہ سارا سال ہمارا پانی چوری کرکے ہمیں بے پناہ نقصان پہنچاتا ہے اور جب مون سون شروع ہوتا ہے تو پانی کا بہت بڑا ریلہ ہماری طرف دھکیل کر ہمارا جانی و مالی نقصان کرتا ہے اسی لیے ہم سارا سال اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو پاتے۔ہم خود تو ڈیمز بناتے نہیں چاہے جتنا بھی نقصان ہوجائے۔ ہر دن ہمارے لیے عہد کادن ہے کہ دو قومی نظریے کو، قائد اعظم و علامہ اقبال کی تعلیمات کو ہمیشہ ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے وطن سے محبت کریں ۔ اپنے دشمنوں سے چوکنا رہیں کیونکہ وہ کبھی ہمارے دوست نہیں بن سکتے ہم جتنی بھی کوششیں کر لیں۔ ہمیں اپنی فوج و آئی ایس آئی کے ہاتھ مضبوط کرنا ہونگے کیونکہ یہ ہمارے دفاع کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ان کے خلاف پروپیگنڈا ہر گز نہیں کرنا چاہیے ۔کیونکہ جو ان کے دشمن ہیں وہ پاکستان کے دشمن ہیں اور در حقیقت ریپستان و اسرائیل کے دوست ہیں ۔ اللہ اسلامک
نیوکلیئرآسٹیٹ آف پاکستان کا حامی ناصر ہو۔) آمین