المیہ ہے کہ پاکستان میں جن کے پاس قابلیت ہے ان کے پاس وسائل نہیں اور جن کے پاس وسائل ہیں ان کے پاس قابلیت نہیں ۔۔۔ مفکر، شعرا، ادیب اور لکھاری کسی بھی معاشرے کا ایک حساس حصہ ہوتے ہیں۔۔ تخلیاتی کام کے لیے ذہنی اور جسمانی فراغت یا سکون چاہیے ہوتا ہے۔۔۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ ایسے خاص لوگ دوسری دنیا سے دنیاداری میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔۔۔ ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جو وقت ایک انسان اپنی پروفیشنل قابلیت کو بڑھانے کے لیے انجینئرنگ، ڈاکٹریٹ، قانون یا بزنس میں صرف کرتا ہے۔۔۔ وہی قیمتی وقت ایک شاعر معاشرے کے مختلف پہلوئوں پر سوچنے اور اپنے افکار و نظریات کو الفاط کی شکل دینے میں لگا دیتا ہے۔۔۔ ایک قابل شاعر کو قدران مل جانا خوش نصیبی سے کم نہیں ہوتا۔۔۔
پنجابی شاعر جمیل چشتی کی قابلیت پر شک کی گنجائش نہیں۔۔ بزرگ ہیں لیکن میرے اچھے دوست ہیں۔۔۔ میرا ان سے احترام کا ایک تعلق ہے، جب کبھی میں ان کے پاس جاتا ہوں تو ان سے ان کا کوئی لکھا ہوا پنجابی کلام سنتا ہوں۔۔ وہ سناتے چلے جاتے ہیں اور میں سنتا چلا جاتا ہوں۔۔ کچھ پنجابی کے اشعار لکھ کر ساتھ لے جاتا ہوں اور اُن کو سمجھنے کے لیے رہنمائی حاصل کرتا ہوں۔۔ صائم چشتی صاحب کو اپنا استاد مانتے ہیں ۔۔۔ نصرت فتح علی خان کے ساتھ ان کا کافی گہرا تعلق رہا۔۔ ان کے لکھے ہوئے کلام مرحوم نے قوالی کی صورت میں پڑھے۔۔ ماضی میں پی ٹی وی کے پروگرام میں بھی شرکت کر چکے ہیں۔۔ اب ایک چھوٹی سی نائی کی دکان ہے اور ساتھ میں دیگ پکوائی کا کام کرتے ہیں۔۔۔ کوئی مشاعرہ یا محفل میں مدعو کر لیتا ہے تو بخوشی جاتے ہیں اور جو جتنی عزت افزائی کرے اس میں ہی خوش رہتے ہیں۔۔۔ رزق حلال کمانا اورساتھ ساتھ شاعری کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔۔۔ میرا ان کے ساتھ گپ شپ لگانا۔۔ چائے کی پیالی پینا۔۔۔ ان کی شاعری کی تعریف میں واہ واہ کرنا ہی ان کے لیے سب سے بڑی خوشی ہوتا ہے۔۔۔
میں ان کو ایک حقیقی خوشی کیسے دے سکتا تھا۔۔ سوچتا رہا ۔۔۔ ان کو یوٹیوب کے بارے میں بتانے لگا۔۔۔ پھر ان سے کچھ ویڈیوز ریکارڈ کروانے کی ضد کی۔۔ وہ رضامند ہوئے تو یہ ویڈیوز آپ سب کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔۔ اللہ جمیل صاحب کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرے اور ان کی محنت کا اچھا صلہ دے۔۔ آمین ۔۔۔ معاشرے کے ایسے لوگوں کی قدر کرنا اور ان کا احترام ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔۔
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم