جس طرح وائرس کی پہلی خبر کے ساتھ ہی حرمین شریفین کو بند کیا گیا، وہ کسی بھی طرح قابل تحسین نہیں تھا۔ علامتی طور پر ہی صحیح مگر سعودیہ کی با وسائل حکومت احتیاطی تدابیر کےے ساتھ کچھ نہ کچھ نفری رکھ کر ان مقامات کو اس طرح کھلا رکھ سکتی تھی کہ کفار اور ان کے پس خوردہ ذہنی غلاموں کو باتیں بنانے کا موقع نہ ملتا۔ مگر سعودی حکومت نے تو ان مقامات کو ایسے بند کیا جیسے وہ ایسے ہی کسی بہانے کے انتظار میں تھے اور ساتھ ہی ساری دنیا میں مساجد و مدارس کو بند کرنے کا ایک جواز فراہم کر دیا گیا۔ اسی طرح رمضان میں تراویح پر پابندی کاقابل ذکر فیصلہ بھی سب سے پہلے یہیں سے آیا، جس نے دنیا بھر کے دین دار لوگوں کو بیک فٹ پر دھکیل دیا، اور ان کے لئے مشکلات کھڑی کیں۔
چنانچہ موم بتی مافیا اور کچھ نادان دوستوں کے لئے مساجد کو بند کرنے کا سب سے بڑا بہانہ یہی ہے کہ اگر خانہ کعبہ بند ہے ، مسجد نبوی بند ہے تو پاکستان میں مساجد کیوں بند نہیں ہو سکتیں۔اس ضمن میں یہی عرض ہے کہ ان مقامات کی بندش کسی غیبی آواز کے آنے پر نہیں کی گئی، جو ہم یہ سمجھیں کہ ان مقامات مقدسہ کی بندش خدا کے حکم کی تعمیل اور عین منشاء خداوندی ہے۔ بلکہ کہ یہ فیصلہ ان حکمرانوں نے کیا ہے، جنہیں روشن خیالی کا وائرس لاحق ہو چکا ہے۔ شراب خانے اور مندر بن رہے ہیں۔ سینما گھر آباد کئے جا رہے ہیں۔عورتوں کو مغربی طرز کی آزادی دی جا رہی ہے، ناچ گانے کی محافل اور میوزیکل کنسرٹ کروائے جا رہے ہیں۔لیکن بالفرض اگر ایسا کوئی فیصلہ شاہ فیصل مرحوم جیسے حاکم کی طرف سے بھی آیا ہوتا، تب بھی اسے یوں من و عن تسلیم نہیں کیا جا سکتا تھا کہ مسلمانوں کے لئےدلیل اور استدلال قرآن و سنت ہے، کوئی حکمران نہیں۔اور جہاں تک سرکاری اور درباری علماء اور ان کے فتاوی کا تعلق ہے تو ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی کہ ان فتاوی کا مصدر حکومت وقت کی خوشنودی ہوتی ہے، نا کہ کلمہ حق کہنا۔
اگر علماء احتیاطی تدابیرکو نا مان رہے ہوتے، مصافحہ معانقہ کرنے پر مصر رہتے۔ صفوں کےدرمیان فاصلے کونہ مانتے یا نماز کے دوران ماسک پہنے کی اجازت سمیت دوسری احتیاطی تدابیر کو تسلیم نہ کرتے تو ہم علماء حضرات سے شکوہ کر سکتے تھے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ وبا کے پھوٹنے سے ہی علماء کرام کی غالب اکثریت حکومتی عمال کے ساتھ تعاون کر رہی ہے، اور جو ایک چھوٹی سی اقلیت مزاحمت کار تھی، ان کا بھی سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو چکا ہے(یاد رہے کہ صفوں کے درمیان خلا نہ ہونے کی سخت تاکید ہے، اور اسی طرح منہ ڈھانپنا بھی مکروہ ہے)۔چنانچہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ علماء کے گھروں میں نماز پڑھنے کے فتاوی بھی موجود ہیں، اورنمازیوں کی بہت بڑی اکثریت ان کی وجہ سے گھروں میں نماز ادا کر رہی ہے(اور ان شاء اللہ اپنی نیت کے بقدر مساجد میں نماز پڑھنے کا ثواب حاصل کریں گے)جبکہ دوسری طرف مساجد بھی کھلی ہیں، اور اگر کوئی تمام تر احتیاطی تدابیر کے ساتھ مسجد میں آکر نماز ادا کرنا چاہے ،تو علماء ان کو بھی نہیں روک رہے۔
جو کوئی بھی مسجد آتا ہے، اپنی مرضی سے آتا ہے، کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کی جاتی۔
اگرچہ نمازی حضرات کی غالب اکثریت تقریبا ساٹھ سے اسی فیصد گھروں میں نماز پڑھ رہی ہے، مگر ان میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو مساجد کو بند کرنے پر زور دیتا ہو، بلکہ یہ جتنے بھی لوگ شور مچا رہے ہیں، ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جو کرونا سے پہلے بھی مساجد و مدارس کو بند کرنے کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے، اور بہت سے ایسے ہیں جو اگرچہ دوسروں کو گھروں میں نماز پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں، مگر خود گھر میں بھی پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی۔
لہذا حکومت سے گزارش ہے کہ اگر وہ چند قابل احترام علماء کی رائے کے مطابق اور سعودی حکومت کے طرز عمل کو سامنے رکھ کر لوگوں کو گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیتی ہے تو شوق سے ایسا جاری رکھے، لیکن جو لوگ مساجد کو کسی حد تک آباد رکھنا چاہتے ہیں، تو ان کی راہ روکنے کی بجائے ان کے ساتھ مل کر احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس عمل کو ریگولیٹ کیا جائے۔تا کہ کسی قسم کی افراتفری یا بے چینی کا ماحول پیدا نہ ہو۔
یہ معاملہ ایمان کا معاملہ ہے، چنانچہ جہاں ایک مسلمان کا ایمان یہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل مساجد سے حل ہوں گے، وہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئےقادر مطلق ذات ہمیں کرونا سے بچا کر بھی تباہ کر سکتی ہے، اور ساری قوم کو کرونا میں مبتلا کر کے بھی بچا سکتی ہے۔ اس کے لئے کوئی مشکل نہیں۔لہذا بالفرض اگر تمام مساجد خاکم بدہن بند بھی کر دی جائیں، تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وائرس نہیں پھیلے گا۔ آخر کو پورے یورپ اور امریکا میں بھی تو مساجد کے بغیر ہی پھیلا ہے۔
قصہ مختصر کہ اگر حکومت نماز کے متعلق ایس او پیز پر عمل درآمد کروانا چاہتی ہے، تو شوق سے کروائے، لیکن بغیر چانس دیئے مساجد بند کرنا چاہتی ہے،تو اسلامیان پاکستان اس کو قبول نہیں کریں گے۔کیونکہ اس طرز عمل سے (خدا نخواستہ)جو عذابی ریلا آئے گا، وہ صرف مساجد سے دوری رکھنے والے لوگوں کو ہی متاثر نہیں کرے گا، بلکہ دین دار طبقہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کرونا آج کل دین دار اور دین بے زار سب کو پکڑ رہا ہے، حالآنکہ کرونا کو لانے کے اصل ذمہ دار"میرا جسم میری مرضی" کا نعرہ لگانے والے لوگ ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری حفاظت فرمائے اور بنی نوع انسان کو کرونا اور ظالموں کے مظالم سے نجات دلائے۔آمین
چنانچہ موم بتی مافیا اور کچھ نادان دوستوں کے لئے مساجد کو بند کرنے کا سب سے بڑا بہانہ یہی ہے کہ اگر خانہ کعبہ بند ہے ، مسجد نبوی بند ہے تو پاکستان میں مساجد کیوں بند نہیں ہو سکتیں۔اس ضمن میں یہی عرض ہے کہ ان مقامات کی بندش کسی غیبی آواز کے آنے پر نہیں کی گئی، جو ہم یہ سمجھیں کہ ان مقامات مقدسہ کی بندش خدا کے حکم کی تعمیل اور عین منشاء خداوندی ہے۔ بلکہ کہ یہ فیصلہ ان حکمرانوں نے کیا ہے، جنہیں روشن خیالی کا وائرس لاحق ہو چکا ہے۔ شراب خانے اور مندر بن رہے ہیں۔ سینما گھر آباد کئے جا رہے ہیں۔عورتوں کو مغربی طرز کی آزادی دی جا رہی ہے، ناچ گانے کی محافل اور میوزیکل کنسرٹ کروائے جا رہے ہیں۔لیکن بالفرض اگر ایسا کوئی فیصلہ شاہ فیصل مرحوم جیسے حاکم کی طرف سے بھی آیا ہوتا، تب بھی اسے یوں من و عن تسلیم نہیں کیا جا سکتا تھا کہ مسلمانوں کے لئےدلیل اور استدلال قرآن و سنت ہے، کوئی حکمران نہیں۔اور جہاں تک سرکاری اور درباری علماء اور ان کے فتاوی کا تعلق ہے تو ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی کہ ان فتاوی کا مصدر حکومت وقت کی خوشنودی ہوتی ہے، نا کہ کلمہ حق کہنا۔
اگر علماء احتیاطی تدابیرکو نا مان رہے ہوتے، مصافحہ معانقہ کرنے پر مصر رہتے۔ صفوں کےدرمیان فاصلے کونہ مانتے یا نماز کے دوران ماسک پہنے کی اجازت سمیت دوسری احتیاطی تدابیر کو تسلیم نہ کرتے تو ہم علماء حضرات سے شکوہ کر سکتے تھے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ وبا کے پھوٹنے سے ہی علماء کرام کی غالب اکثریت حکومتی عمال کے ساتھ تعاون کر رہی ہے، اور جو ایک چھوٹی سی اقلیت مزاحمت کار تھی، ان کا بھی سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو چکا ہے(یاد رہے کہ صفوں کے درمیان خلا نہ ہونے کی سخت تاکید ہے، اور اسی طرح منہ ڈھانپنا بھی مکروہ ہے)۔چنانچہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ علماء کے گھروں میں نماز پڑھنے کے فتاوی بھی موجود ہیں، اورنمازیوں کی بہت بڑی اکثریت ان کی وجہ سے گھروں میں نماز ادا کر رہی ہے(اور ان شاء اللہ اپنی نیت کے بقدر مساجد میں نماز پڑھنے کا ثواب حاصل کریں گے)جبکہ دوسری طرف مساجد بھی کھلی ہیں، اور اگر کوئی تمام تر احتیاطی تدابیر کے ساتھ مسجد میں آکر نماز ادا کرنا چاہے ،تو علماء ان کو بھی نہیں روک رہے۔
جو کوئی بھی مسجد آتا ہے، اپنی مرضی سے آتا ہے، کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کی جاتی۔
اگرچہ نمازی حضرات کی غالب اکثریت تقریبا ساٹھ سے اسی فیصد گھروں میں نماز پڑھ رہی ہے، مگر ان میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو مساجد کو بند کرنے پر زور دیتا ہو، بلکہ یہ جتنے بھی لوگ شور مچا رہے ہیں، ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جو کرونا سے پہلے بھی مساجد و مدارس کو بند کرنے کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے، اور بہت سے ایسے ہیں جو اگرچہ دوسروں کو گھروں میں نماز پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں، مگر خود گھر میں بھی پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی۔
لہذا حکومت سے گزارش ہے کہ اگر وہ چند قابل احترام علماء کی رائے کے مطابق اور سعودی حکومت کے طرز عمل کو سامنے رکھ کر لوگوں کو گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیتی ہے تو شوق سے ایسا جاری رکھے، لیکن جو لوگ مساجد کو کسی حد تک آباد رکھنا چاہتے ہیں، تو ان کی راہ روکنے کی بجائے ان کے ساتھ مل کر احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس عمل کو ریگولیٹ کیا جائے۔تا کہ کسی قسم کی افراتفری یا بے چینی کا ماحول پیدا نہ ہو۔
یہ معاملہ ایمان کا معاملہ ہے، چنانچہ جہاں ایک مسلمان کا ایمان یہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل مساجد سے حل ہوں گے، وہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئےقادر مطلق ذات ہمیں کرونا سے بچا کر بھی تباہ کر سکتی ہے، اور ساری قوم کو کرونا میں مبتلا کر کے بھی بچا سکتی ہے۔ اس کے لئے کوئی مشکل نہیں۔لہذا بالفرض اگر تمام مساجد خاکم بدہن بند بھی کر دی جائیں، تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وائرس نہیں پھیلے گا۔ آخر کو پورے یورپ اور امریکا میں بھی تو مساجد کے بغیر ہی پھیلا ہے۔
قصہ مختصر کہ اگر حکومت نماز کے متعلق ایس او پیز پر عمل درآمد کروانا چاہتی ہے، تو شوق سے کروائے، لیکن بغیر چانس دیئے مساجد بند کرنا چاہتی ہے،تو اسلامیان پاکستان اس کو قبول نہیں کریں گے۔کیونکہ اس طرز عمل سے (خدا نخواستہ)جو عذابی ریلا آئے گا، وہ صرف مساجد سے دوری رکھنے والے لوگوں کو ہی متاثر نہیں کرے گا، بلکہ دین دار طبقہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کرونا آج کل دین دار اور دین بے زار سب کو پکڑ رہا ہے، حالآنکہ کرونا کو لانے کے اصل ذمہ دار"میرا جسم میری مرضی" کا نعرہ لگانے والے لوگ ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری حفاظت فرمائے اور بنی نوع انسان کو کرونا اور ظالموں کے مظالم سے نجات دلائے۔آمین