Zafar Bukhari
Politcal Worker (100+ posts)
ہر پاکستانی کی طرح میرا بھی یہی سوال ہے کہ آخر ہمارا معاشرہ کس سمت بڑھ رہا ہے؟ہماری معاشرتی زندگی کا کوئی ایک پہلو بھی اگر منافقت سے پاک ہوتا تو عام لوگوں کے اذہان کنفیوژن سے پاک ہوتے۔ہمارے معاشرے میں اپنی ذات کے لئے الگ اور دوسروں کےلئے الگ معیار رکھے جاتے ہیں۔یہ اصول اگر عوام(جن کا تعلیمی معیار نسبتاً کم ہوتا ہے)روا رکھتے تو بھی سمجھ میں آنے والی بات تھی مگر یہاں تو منافقت کا ارفع ترین منصب ہمارے اہلِ علم کے پاس ہے۔اس منافقت کا کھلم کھلا اظہار ہر متناذعہ خبر یا واقعہ کے سامنے آنے کے وقت سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
یہی چیز گزشتہ دنوں چند بلاگرز کی گمشدگی کے بعد سامنے آئی جب ہر طرف سے اہلِ دانش نے نہ صرف بغیر تحقیق کیے ان لاپتہ افراد کو بیگناہ قرار دینا شروع کردیا بلکہ ذمہ داروں کا تعین اور ان کے لئے سزائیں بھی تجویز کر ڈالیں۔بعض خواتین و حضرات نے تو بین ا لا قوامی شہرت حاصل کرنے کے لئے ریاست کو ہی مطعون کرنا شروع کردیا۔یہ سلسلہ شاید زیادہ شدت اختیار کر جاتا اگر ان بلاگرز کی کارستانیاں سامنے نہ لائی جاتیں۔مگر کرتوت سامنے آنے کے بعد بھی سوشل میڈیا پہ اچھل کود جاری رہا اور بہت سے خود ساختہ دانشوروں نے اپنی منافقت ایک متعفن قے کی طرح سوشل میڈیا پہ انڈیل دی۔
ٹوئٹر پہ ایک صاحب ْان اداروں کے اوپر برس رہے تھے جنہوں نے اْن کے بقول اس ملک کو اپنی فسطائیت کے باعث برباد کر دیا تھا۔ایسے میں ایک صاحب نے اْنکی خاطر کرنی شروع کردی تو وہ بْرا مان گئے اور اْس شخص کو بلاک کردیا۔اس پہ بلاک ہونے والے شخص نے ایک زبردست تبصرہ کیا۔اس نے سوال کیا کہ میں نے اِس صحافی سے اختلاف کیا (کوئی نازیبا کلمات نہیں کہے)تو دوسروں کو برداشت اور آزادئ اظہار کا مفہوم سمجھانے والے نے میرے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا مگر یہی صحافی جب اس شخص کے دفاع میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا کہ جس نے وجہءِ تخلیقِ کائناتﷺ کی شان میں غلیظ ترین گستاخیاں کی تھیں۔
اِس موقعہ پہ ایک اور بنیادی سوال زیرِبحث رہا کہ کیا صحافی ہونا انسان کو ہر قسم کی اخلاقیات فرائض سے مبراء کردیتا ہے؟ایسے لا تعداد صحافی ہیں جو ٹو ئٹر پہ ہزاروں گستاخوںکو بلاک کرنے کے بعد رات کو ٹیلی ویژن کو عدم برداشت کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔
ایک اور سوال بھی نہایت اہم ہے کہ پاکستان میں متنازعہ بننے والے ہر شخص یا ادارے کے دفاع کے لئے برطانوی نشریاتی اِدارے سے وابستہ رہنے والےدانش ور ہی سب سے پہلے کیوں سامنے آتے ہیں؟
سبین محمود کا کیس ہو یا پھر ماما قدیر(یا اْس کے بھانجے)سب سربرآوردہ صحافیوں(بالخصوص بی بی سی اور جیو کے صحافیوں)نے دل کھول کر ریاست کو گالیاں دیں اور اپنی طرف سے مطمئن ہو کر بیٹھ گئے کہ فساد ٹلنے والا نہیں مگر شاید اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ستم ظریفی یہ کہ اِن دانش وروں میں سے بہت سوں نے ٹیلی ویژن پہ آکے یہ کہا کہ بظاہر سبین محمود قتل کے پیچھے راء کا ہاتھ ہو سکتا ہے مگر کسی ایک نے بھی اس بات پہ معافی نہیں مانگی کہ ہم نے جن اِداروں پہ اِلزامات لگائے وہ غلط تھے۔
ذاتی طور پہ ہم میں سے بہت سوں کو ریاست سے شکایات ہو سکتی ہیں مگر اہم سوال یہ ہے کہ اگر ریاست ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی تو کیا ہم اپنے فرائض کے ساتھ انصاف برت رہے ہیں؟کم از کم صحافیوں کے اِس گالم گلوچ بریگیڈ کے لوگ تو ہر گز نہیں برت رہے۔اِن لوگوں کے نزدیک ہر وہ کام جس میں فوج کا کوئی کردار ہو ،دْشنام طرازی کا سزاوار ہے۔اِن لوگوں کی اکثریت رہنے کے لئے تو ڈیفنس کا اِنتخاب کرتی ہے مگر ڈیفنس ہاوءسنگ اتھارٹی پہ معترض ہوتی ہے۔جام لنڈھانے کے لئے تو فوجی جنرلز کا ساتھ دینے کو ترجیح دیتے ہیں مگر ان جنرلز سے ملکی مفاد کا کوئی کام سرزد ہوجائے تو طو فان کھڑا کر دیتے ہیں۔
اِن تمام چیزوں کے باوجود اِس بار ان لوگوں کا پالا ہر اْس شخص سے پڑاہے جس کے دل میں حضورﷺ کی محبت ہو۔اب یہ نہیں ہوگا کہ ان لوگوں کو برا بھلا کہنے والے بد تمیز کہلائیں اور آقاﷺ کی گستاخی کرنے والے ترقی پسند شاعر۔موم بتی مافیا کی سر خیل آنٹیاں انسانی حقوق کی علمبردار کہلائیں مگر حضورﷺ کی ازواجؓ پہ زبان درازی کی جائے۔اگر یہ لوگ گستاخوں کو بلیک میلنگ کے ذریعے بچانے کی کوشش کریں گے تو اِن کو بھی عوامی غیظ کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور اگر بات منطق اور دلیل سے کرنا چاہیں تو پھر سب کو معلوم ہے کہ گالیاں وہی دیتا ہے(اور گستاخیاں وہی کرتا ہے) جس کے پاس دلائل نہ ہوں۔
یہی چیز گزشتہ دنوں چند بلاگرز کی گمشدگی کے بعد سامنے آئی جب ہر طرف سے اہلِ دانش نے نہ صرف بغیر تحقیق کیے ان لاپتہ افراد کو بیگناہ قرار دینا شروع کردیا بلکہ ذمہ داروں کا تعین اور ان کے لئے سزائیں بھی تجویز کر ڈالیں۔بعض خواتین و حضرات نے تو بین ا لا قوامی شہرت حاصل کرنے کے لئے ریاست کو ہی مطعون کرنا شروع کردیا۔یہ سلسلہ شاید زیادہ شدت اختیار کر جاتا اگر ان بلاگرز کی کارستانیاں سامنے نہ لائی جاتیں۔مگر کرتوت سامنے آنے کے بعد بھی سوشل میڈیا پہ اچھل کود جاری رہا اور بہت سے خود ساختہ دانشوروں نے اپنی منافقت ایک متعفن قے کی طرح سوشل میڈیا پہ انڈیل دی۔
ٹوئٹر پہ ایک صاحب ْان اداروں کے اوپر برس رہے تھے جنہوں نے اْن کے بقول اس ملک کو اپنی فسطائیت کے باعث برباد کر دیا تھا۔ایسے میں ایک صاحب نے اْنکی خاطر کرنی شروع کردی تو وہ بْرا مان گئے اور اْس شخص کو بلاک کردیا۔اس پہ بلاک ہونے والے شخص نے ایک زبردست تبصرہ کیا۔اس نے سوال کیا کہ میں نے اِس صحافی سے اختلاف کیا (کوئی نازیبا کلمات نہیں کہے)تو دوسروں کو برداشت اور آزادئ اظہار کا مفہوم سمجھانے والے نے میرے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا مگر یہی صحافی جب اس شخص کے دفاع میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا کہ جس نے وجہءِ تخلیقِ کائناتﷺ کی شان میں غلیظ ترین گستاخیاں کی تھیں۔
اِس موقعہ پہ ایک اور بنیادی سوال زیرِبحث رہا کہ کیا صحافی ہونا انسان کو ہر قسم کی اخلاقیات فرائض سے مبراء کردیتا ہے؟ایسے لا تعداد صحافی ہیں جو ٹو ئٹر پہ ہزاروں گستاخوںکو بلاک کرنے کے بعد رات کو ٹیلی ویژن کو عدم برداشت کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔
ایک اور سوال بھی نہایت اہم ہے کہ پاکستان میں متنازعہ بننے والے ہر شخص یا ادارے کے دفاع کے لئے برطانوی نشریاتی اِدارے سے وابستہ رہنے والےدانش ور ہی سب سے پہلے کیوں سامنے آتے ہیں؟
سبین محمود کا کیس ہو یا پھر ماما قدیر(یا اْس کے بھانجے)سب سربرآوردہ صحافیوں(بالخصوص بی بی سی اور جیو کے صحافیوں)نے دل کھول کر ریاست کو گالیاں دیں اور اپنی طرف سے مطمئن ہو کر بیٹھ گئے کہ فساد ٹلنے والا نہیں مگر شاید اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ستم ظریفی یہ کہ اِن دانش وروں میں سے بہت سوں نے ٹیلی ویژن پہ آکے یہ کہا کہ بظاہر سبین محمود قتل کے پیچھے راء کا ہاتھ ہو سکتا ہے مگر کسی ایک نے بھی اس بات پہ معافی نہیں مانگی کہ ہم نے جن اِداروں پہ اِلزامات لگائے وہ غلط تھے۔
ذاتی طور پہ ہم میں سے بہت سوں کو ریاست سے شکایات ہو سکتی ہیں مگر اہم سوال یہ ہے کہ اگر ریاست ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی تو کیا ہم اپنے فرائض کے ساتھ انصاف برت رہے ہیں؟کم از کم صحافیوں کے اِس گالم گلوچ بریگیڈ کے لوگ تو ہر گز نہیں برت رہے۔اِن لوگوں کے نزدیک ہر وہ کام جس میں فوج کا کوئی کردار ہو ،دْشنام طرازی کا سزاوار ہے۔اِن لوگوں کی اکثریت رہنے کے لئے تو ڈیفنس کا اِنتخاب کرتی ہے مگر ڈیفنس ہاوءسنگ اتھارٹی پہ معترض ہوتی ہے۔جام لنڈھانے کے لئے تو فوجی جنرلز کا ساتھ دینے کو ترجیح دیتے ہیں مگر ان جنرلز سے ملکی مفاد کا کوئی کام سرزد ہوجائے تو طو فان کھڑا کر دیتے ہیں۔
اِن تمام چیزوں کے باوجود اِس بار ان لوگوں کا پالا ہر اْس شخص سے پڑاہے جس کے دل میں حضورﷺ کی محبت ہو۔اب یہ نہیں ہوگا کہ ان لوگوں کو برا بھلا کہنے والے بد تمیز کہلائیں اور آقاﷺ کی گستاخی کرنے والے ترقی پسند شاعر۔موم بتی مافیا کی سر خیل آنٹیاں انسانی حقوق کی علمبردار کہلائیں مگر حضورﷺ کی ازواجؓ پہ زبان درازی کی جائے۔اگر یہ لوگ گستاخوں کو بلیک میلنگ کے ذریعے بچانے کی کوشش کریں گے تو اِن کو بھی عوامی غیظ کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور اگر بات منطق اور دلیل سے کرنا چاہیں تو پھر سب کو معلوم ہے کہ گالیاں وہی دیتا ہے(اور گستاخیاں وہی کرتا ہے) جس کے پاس دلائل نہ ہوں۔
Last edited by a moderator: