معرکۂ خیر و شَر اور فتنہ ٔ دجال

ibneislam

Banned
1339190933792.png

dl5.gif


http://archive.org/download/Markah_khair_o_shar/markah.pdf
 

ibneislam

Banned


’’قریب ہے کہ (کفر کی )قومیں تمہارے خلاف جنگ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دے کر بلائیں گی جس طرح بھوکے ایک دوسرے کو دستر خوان پر دعوت دے کر بلاتے ہیں‘‘۔اس پر ایک پوچھنے والے نے پوچھا کہ کیا اس وقت ایسا ہماری قلت ِ تعداد کی وجہ سے ہوگا ؟آپ ﷺنے فرمایا : ’’(نہیں،)بلکہ اس وقت تو تم زیادہ تعداد میں ہوگے ،لیکن تم سیلابی پانی کے جھاگ کی طرح ہوگے۔اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے ضرور ہی تمہاری ہیبت ختم کردیں گے اور تمہارے دلوں میں کمزوری ڈال دیں گے۔‘‘تو پوچھنے والے نے پوچھا :یارسول اللہ!یہ کمزوری کیا ہوگی؟ فرمایا:
((حُبُ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَةُ الْمَوْتِ ))
’’ دنیا کی محبت اور موت کو ناپسند کرنا ‘‘ ۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں :صحابہ﷡نے پوچھا :یارسول اللہ ﷺ!یہ کمزوری کیا ہوگی؟ آپﷺنے فرمایا :
(( حُبُّکُمُ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَتُکُمُ الْقِتَالَ ))
’’تمہارا دنیا سے محبت کرنا ’’قتال‘‘ کو ناپسند کرنا ۔‘‘
(ابوداؤد باب کتاب الملاحم ، مسندِ احمد واسنادہ صحیح)

فہرست مضامین
[TABLE="align: center"]
[TR]
[TD="align: right"]{پڑھنے سے پہلے............................................................................(6)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{باب اول:معرکہ ٔ خیر وشر اور دجال(احادیث مبارکہ کی روشنی میں)......................... (8)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{اسلام کی خاطر اجنبی بننے والوں کے لئے بشارت.............................................(8)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{فتنوں کے وقت میں بہترین شخص کون....................................................(11)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{کیا جہاد بند ہوجائے گا؟یا وہ ناقابل عمل (Infesable) ہوجائے گا؟ .....................(12)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{جہا د کے لئے نہ نکلنے والوں کے گھر وں میں مصیبت........................................(16)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{سرزمینِ خراسان(افغانستان )کی فضیلت اور اہمیت........................................(16)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{کالے جھنڈے والے خراسانی لشکر کے قیادت کے اوصاف................................(18)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{کالے جھنڈے والے خراسانی لشکر کو دیکھوتو..............................................(19)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{صوبہ سرحد اور قبائل....................................................................(22)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{خلافت کے دوبارہ قیام میں وسطِ ایشیائی ریاستوں کی فضیلت ................................(23)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{اہل کتاب کی کتابوں میں اس پاکیزہ لشکر کی بشارت.........................................(24)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{غزوہ ٔ ہندوستان کی فضیلت................................................................(27)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{عراق پر اہل مغرب کے قبضے کی پیشن گوئی ................................................(30)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{عراق پر قابض اہل مغرب سے جنگ کرنے والوں کا اعلیٰ مقام.............................(30)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{دریائے فرات (Euphrates) پر خونریز جنگ..........................................(31)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{اہل یمن اور اہل شام کے لئے دعائیں .....................................................(32)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{خروج مہدی کی نشانیاں..................................................................(34)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{خروج مہدی سے پہلے نفس زکیہ کی شہادت................................................(34)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{حج کے موقع پر منیٰ میں قتل عام..........................................................(35)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{رمضان میں دھماکہ کی آوازاوراس کے بعد دو اعلان کرنے والوں کا اعلان کرنا...............(36)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{مہدی کون ہوں گے؟...................................................................(38)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{حضرت مہدی کی بیعت اور وقت کا حکمران سفیانی کا اُ ن کے خلاف لشکر بھیجنا................(39)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{پانچ جنگ عظیم..........................................................................(40)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{جنگ عظیم میں مسلمانوں کا ہیڈ کوارٹر.....................................................(41)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{جنگ عظیم کا احوال......................................................................(42)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{جنگ عظیم میں روم کے خلاف فدائی معرکے..............................................(44)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{امریکہ اور یورپ میں رہنے والے مسلمانوں سے اپیل .....................................(46)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{مجاہدین کے نعروں سے روم(ویٹی کن Vatican City)کا فتح ہونا.........................(47)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{حضرت مہدی کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگیں........................................(48)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{کیا ان جنگوں میں اسرائیل برباد ہوجائے گا؟ ..............................................(49)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{رسول اللہﷺ کی پیشن گوئیاں اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں .............................(52)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{فتنہ ٔ دجال احادیث مبارکہ کی روشنی میں...................................................(53)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{دجال کی آمد کا انکار......................................................................(55)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{دجال سے پہلے دنیا کی حالت..............................................................(56)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{ہم کس طرف ہیں؟......................................................................(56)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{دجال سے پہلے کے تین سال.............................................................(58)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{دجال کا حلیہ.............................................................................(59)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{دجال کو ہر مومن شخص پہچان لے گا .....................................................(60)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{دجال کو غلط سمجھنے کے باوجود اس سے فائدہ اٹھانے اور اس کے خلاف نہ اُٹھنے والوں پر اللہ کا غضب نازل ہوگا...................................................................................(62)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{دجال کا دجل وفریب....................................................................(63)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{دجال کی بیخ کنی کے لئے حضرت عیسیٰ کا نزول..............................................(63)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{دجال کا قتل اور انسانیت کے دشمنوں یہودیوں کا خاتمہ.....................................(64)
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]{نازک حالات اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں................................................(66)
[/TD]
[/TR]
[/TABLE]













پڑھنے سے پہلے
موجودہ صورتحال اور مستقبل میں امت مسلمہ کو جن حالات و واقعات سے واسطہ پڑنا ہے ،اس کی نشاندہی اللہ کے رسولﷺنے اپنی فرمودات میں کردی ہے اور اس کے حوالے سے واضح رہنمائی اور ہدایات بھی عنایت فرمائی ہیں بشرطیکہ ہم اُ س کو جاننے کی کوشش کریں اور اُ س پر یقین کرتے ہوئے اُ س کے مطابق اپنا لائحہ عمل بنانے کی کوشش کریں ۔
زیر نظر تحریر دراصل اسی موضوع کے حوالے سے مولانا عاصم عمر صاحب کی معرکۃ الآراء کتاب ’’تیسری عالمی جنگ اور دجال‘‘سے ماخوذ ہے ۔اس کتاب کی اہمیت اور اثر پذیری کے حوالے سے شیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب حفظہ اللہ تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’محترم و مکرم جناب مولانا عاصم عمر صاحب کی گرانقدر زرین تالیف ’’تیسری عالمی جنگ اور دجال‘‘کے اہم چیدہ چیدہ موضوعات کے مطالعہ سے دل و دماغ منور و معطر ہوئے ہیں،ایمانی احساسات میں ایک عجیب سی حرارت محسوس ہوئی ہے ،دل سے بے اختیار دعائیں نکلیں ۔رب العالمین حضرت مولانا عاصم عمر صاحب کی اس عظیم علمی ،تحقیقی ،محنت و مشقت کو شرف پذیرائی عطافرماکر اس کا صلہ مولانا موصوف کو دارین میں عطافرمائے اور فرزندان توحید کو اس بیش بہا ،روح پرور کتاب سے استفادہ کی توفیق عطافرمائے۔‘‘
استاذ الحدیث جامعہ العلوم الاسلامیہ نیو ٹاؤن،کراچی،مولانا فضل محمد صاحب حفظہ اللہ موصوف کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’محترم جناب مولانا عاصم عمر صاحب مدظلہ ،مجاہدین کے جانے پہچانے خطیب اور عملی جہاد میں شریک پُر عزم نوجوان مجاہد ہیں ۔انہوں نے حضورﷺ کی پیشن گوئیوں کو اکھٹا کیا ہے جو حضرت محمدﷺنے قیامت تک آنے والے واقعات سے متعلق فرمائی ہیں اور اس میں رونماہونے والے واقعات پر گہری نگاہ ڈالی ہے۔خواب غفلت میں پڑے ہوئے مسلمانوں کو جگانے کی کوشش کی ہے ۔ان کو میدان جہادکی طرف آنے کی پوری پوری دعوت دی ہے اور مستقبل کے تمام خطرات سے ان کو آگاہ کیا ہے۔‘‘
اس کے علاوہ کتاب کے موضوع سے متعلق دوسری کتابوں میں موجود احادیث اور حوالہ جات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔جن میں کچھ درج ذیل ہیں:
٭ ’’فتنہ ٔدجال‘‘ از مولانا حافظ ظفر اقبال ،فاضل جامعہ اشرافیہ لاہور
٭ ’’یوم الغضب‘‘ از شیخ ڈاکٹر سفر بن عبد الرحمٰن الحوالی (مشہور سعودی عالم دین)
٭ ’’ھرمجدون‘‘از پروفیسر جمال الدین الامین ،جامعہ الازہر ،مصر
٭ ’’ایمان لانے کے بعد اہم ترین فرض عین‘‘از ڈاکٹر عبد اللہ عزام شہید﷫
نوٹ :اس موضوع سے متعلق مولانا عاصم عمر کی پوری کتاب کا مطالعہ ہی مفید رہے گا البتہ زیر نظر تحریر میں شامل دوسرے حوالہ جات بھی انشاء اللہ اس بات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں کوسمجھ کر عمل کرنے اور دوسروں کو بھی اس سے آگاہ کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!



باب اول:
معرکہ ٔ خیر وشر اور دجال
(احادیث مبارکہ کی روشنی میں)
اسلام کی خاطر اجنبی بننے والوں کے لئے بشارت
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’اسلام کی ابتداء اجنبیت کی حالت میں ہوئی تھی اور عنقریب اسلام دوبارہ اجنبیت کی حالت کی طرف لوٹے گا جیسے ابتداء میں ہواتھا ۔‘‘
[1]
حدیث میں لفظ ’’غریب‘‘ کا ترجمہ اجنبی اور غیر مانوس سے کیا گیا ہے ۔جس طرح ابتدائے اسلام میں لوگ اسلام کو اجنبی اور غیر مانوس سمجھتے تھے اسی طرح آج اکثر مسلمان اسلام کے بہت سے احکامات کو اجنبی سمجھنے لگے ہیں اور ان احکامات کے ساتھ ایسا برتاؤہے کہ گویا وہ ان کو جانتے ہی نہیں حالانکہ ان احکامات سے بھی ہمارا وہی تعلق ہے جو نماز روزہ وغیرہ سے ہے۔کہتے ہیں کہ اب اس کا دور ہی نہیں رہا۔ حالانکہ شریعت کا زیادہ بڑا حصہ انہی احکامات پر مشتمل ہوتاہے ۔اس لئے آج یہی کہاجاسکتا ہے کہ اسلام ایک ارب چالیس کروڑ کے ہوتے ہوئے بھی اجنبی بن کر رہ گیاہے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ بہت سے حضرات اس حدیث کو اپنی سستی اور بزدلی کے لئے آڑ بناتے ہیں ۔جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے دشمنوں سے مقابلہ کی تیاری کروتو کہتے ہیں کہ اسلام تو ہر دور میں کمزور رہا ہے اور اس حدیث کو دلیل میں پیش کرتے ہیں ۔وہ اس لئے کہ وہ حدیث کے لفظ ’’غریب‘‘ کو اردو کے غریب کے معنی میں استعمال کرتے ہیں جو درست نہیں۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’اسلام کی ابتداء اجنبیت کی حالت میں ہوئی تھی اور ایک بار پھر اسلام اُسی اجنبیت کی حالت میں چلاجائے گا ،سو مبارک باد ہے غرباء کے لئے ۔پوچھا کہ یارسول اللہﷺغرباء کون ہیں؟آپ ﷺنے جواب دیا کہ وہ لوگ جو لوگوں کو فساد مبتلا ہونے کے وقت ان کی اصلاح کریں گے‘‘۔
[2]
مذکورہ بالا حدیث میں ان لوگوں کو آپﷺنے مبارک باد دی ہے جو دنیا میں فساد عام ہوجانے کے وقت لوگوں کی اصلاح کریں گے اور لوگوں میں سب سے بڑا فساد یہ ہے کہ وہ اللہ کی سب سے بڑی صفت ’’حاکمیت ‘‘میں انسانوں کو شریک بنالیں۔لہٰذا شریعت کی نظر میں اللہ کی حاکمیت اور قانون کی جانب بلانا سب سے بڑی اصلاح کہلائے گی جس کے تحت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے گا ۔یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کررہے بلکہ اس پر قرآن کی آیت ’’کنتم خیر امة………‘‘کے بارے میں حضرت عبد اللہ ابن عباس ﷛کی تفسیر گواہ ہے۔رسول اللہﷺنے فرمایا :
’’اللہ کے سب سے محبوب لوگ غرباء ہوں گے ۔پوچھا گیا کہ غرباء کون ہیں؟ فرمایا ’’جو اپنے دین کو بچانے کے لئے فتنوں سے دور بھاگ جانے والے ۔اللہ تعالیٰ ان کو حضرت عیسیٰ﷣کے ساتھ شامل فرمائے گا ‘‘۔
[3]
’’ایسا وقت قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال وہ بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور (دور دراز کے)بارانی علاقوں میں دین کو بچانے کی کاخاطر فتنوں سے بھاگ جائے ‘‘۔
[4]
مبارک باد کے مستحق ہیں وہ لوگ جو اس وقت اپنا ایمان بچانے کے لئے اپنا گھر بار ،مال ودولت اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پہاڑوں کو اپنا نشیمن بنا چکے ہیں ،اور ایک ایسے وقت میں جب ’’ابلیس لعین اور اس کے ایجنٹوں ‘‘کے نیو ورلڈ آرڈر(New World Order)نے ہرمسلمان کو سودی کاروبار (چاہے وہ اسلامی بینکاری کے نام پر ہی ہواُس میں)ملوث کردیا ہے اور اگر کوئی براہ راست ملوث نہیں تو اس کو اس نظام کی ہوا ضرور لگ رہی ہے ،ایک ایسے وقت میں کہ جب امت کے سب سے معزز اور شریعت کے محافظ طبقے ،علماء کرام کو غیر شرعی فتاویٰ دینے پر مجبور کیا جارہا ہے ،دجالی قوتیں علی الاعلان اپنی حاکمیت اعلیٰ (Sovereignty) کا اعلان کررہی ہیں ،اورکل تک صرف اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کا دعویٰ کرنے والے مسلمان ،آج غیر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرکے اللہ کے ساتھ کھلا شرک کررہے ہیں .مقررین خاموش ہیں ،الاماشاء اللہ ،اہل قلم………سوائے چند ایک کے ………یا تو قلم کے تقدس کو فروخت کرچکے ہیں یا پھر باطل کی گیدڑ بھپکیوں نے ان کے قلم کی سیاہی کو منجمد کرکے رکھ دیا ہے ۔انہی لوگوں نے قرآن کریم کی ان آیات کا گلاگھونٹ کر رکھ دیا ہے جو مسلمانوں کو باطل کے سامنے سر اٹھاکر جینا سکھاتی ہیں ۔آج جس طرف نظر دوڑاؤ’’مصلحتوں‘‘کی چادریں اوڑھے ایسے مسلمان نظر آتے ہیں کہ اگر ان کے دور میں دجال نکل آئے اور اپنی خدائی کا دعویٰ کرے تو شاید یہ مصلحت کی چادر سے باہر نکلنا پسند نہ فرمائیں۔کیونکہ اس وقت بھی دجال کے ایجنٹ وہی بات کہہ رہے ہیں کہ یا تو ہماری صفوں میں شامل ہوجاؤیا پھر ہمارے دشمنوں کی………جبکہ اللہ کے رسولﷺ کی احادیث مطالبہ کررہی ہیں کہ اے مسلمانو!اب وہ وقت آ گیا ہے کہ دجال او ر اس کے ایجنٹوں کے دشمنوں یعنی اللہ کے مجاہدوں کی صفوں میں شامل ہوجاؤ۔کیونکہ اب درمیا ن کا کوئی راستہ نہیں ہے۔اس حوالے سے ایک حدیث بڑی قابل غور ہے جس میں دنیاوی زندگی کو مقصود بنانے والوں کے لئے اللہ کے رسولﷺ نے وعیدیں سنائی ہیں اوردوسری طرف اللہ کی راہ میں نکلنے کی وجہ سے اجنبی بننے والوں کے لئے بشارتیں دی ہیں۔
’’تباہ ہوجائے دینار کا بندہ………اور تباہ ہوجائے درہم کا بندہ………اور تباہ ہوجائے کمبل(چادر ) کا بندہ………اگر اِ س کو دیاجائے تو خوش ………اور نہ دیاجائے تو غصہ کرے………تو ایساشخص تباہ ہوجائے اور منہ کے بل گرے ………اور اگر اسے کانٹا بھی چبھے تو (اللہ کرے )نہ نکلے ………(اس کے برعکس) مبارک ہو اس بندے کو………جو اللہ کے راہ میں اپنے گھوڑے کی باگ تھامے ہوئے ………بال بکھرے اور گردآلود پاؤں ………اگر اسے پہرے پر لگادیاجائے تو پہرا دے………اور گر پچھلے لشکر میں چھوڑدیا جائے تو پچھلے لشکر ہی میں رہے ………اگر اجازت مانگے تو نہ ملے………اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ سنی جائے‘‘۔
فتنوں کے وقت میں بہترین شخص کون………
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’فتنوں کے دور بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھوڑے کی لگام (یا فرمایا)اپنے گھوڑے کی نکیل پکڑے اللہ کے دشمنوں کے پیچھے ہو ،وہ اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ کرتا ہو اور وہ اس کو ڈراتے ہوں ،یا (دوسرا )وہ شخص جو اپنی چراگاہ میں گوشہ نشین ہوجائے ،اس پر جوا للہ کا حق (زکوٰۃوغیرہ)ہے اس کو اداکرتاہو‘‘۔
[5]
’’حضرت امّ مالک بہزیہ﷝کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فتنے کا ذکر فرمایا اور اس کو کھول کر بیان کیا ۔تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ!اس فتنے کے زمانے میں سب سے بہتر شخص کو ن ہوگا ؟ آپﷺنے فرمایا
’’ان فتنوں کے زمانے میں سب سے بہتر شخص وہ ہوگا جو اپنے مویشیوںمیں رہے اور ان کی زکوۃ اداکرتا رہے اور اپنے رب کی بندگی میں مشغول رہے اور (دوسرا )وہ شخص جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑے ہوئے ہو(یعنی جہاد کے لئے ہر وقت تیار ہو)اور دشمنانِ دین کو خوف زدہ کرتا ہواور دشمن اس کو ڈراتے ہوں‘‘۔
[6]
مذکورہ حدیث اور کئی دیگر احادیث مین یہ ذکر ہے کہ دجال کے فتنے سے دو قسم کے لوگ محفوظ رہیں گے ۔پہلی قسم مجاہدین کی جو اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے جہاد کررہے ہوں گے اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنے مال مویشی لیکر پہاڑوں اور بیابانوں چلے جائیں گے اور اللہ کی اطاعت کررہے ہوں گے ۔فتنوں کے دور میں ایمان بچانے کے لئے گھر بار چھوڑدینا بھی اللہ رب العزت کے نزدیک بہت بڑی فضیلت رکھتا ہے مگر دوسری قسم کے اُ ن مجاہد لوگوں کے بارے میں کیا کہنا کہ اللہ رب العزت کے ہاں اُ ن کیا مقام ہوگاکہ جو صرف اپنے ایمان کی فکر نہیں کررہے ہوں گے بلکہ وہ ساری امت کے ایمان کو بچانے کی خاطر اور دجال کے فتنے کا زور توڑنے کی خاطر دجال اور اس کے ایجنٹوں سے قتال کررہے ہوں گے اور اس کے لئے اپنا گھر ،ماں باپ،بیوی بچے اور مال ودولت غرض یہ کہ سب کچھ امت کا ایمان بچانے کے لئے قربان کررہے ہوں گے۔اس لئے فضیلت کے اعتبار سے یہ لوگ پہلی قسم کے لوگوں سے بہت آگے ہوں گے۔
کیا جہاد بند ہوجائے گا؟یا وہ ناقابل عمل (Infesable) ہوجائے گا؟
رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’مجھے قیامت تک کے لئے’’تلوار ‘‘کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے ،یہاں تک کہ اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کی جانے لگے اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھ دیا گیا ہے ۔اور (جان لو)جس نے میرے (اس)امر کی مخالفت کی ،اُس کے لئے ذلت اور پستی رکھ دی گئی اور جس نے (میرے اس طریقے کو چھوڑکر)کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو اُنہی میں(شمار)ہوگا۔‘‘
[7]
’’اللہ نے جب سے مجھے بھیجا اُس وقت سے جہاد جاری ہے اور (اُ س وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ)میری امت کی آخری جماعت دجال سے قتال کرے گی ۔اس جہاد کو نہ تو کسی ظالم کا ظلم ختم کرسکے گا اور نہ کسی انصاف کرنے والے کا انصاف‘‘۔
[8]
’’یہ دین باقی رہے گا اس کی حفاظت کے لئے مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک قتال کرتی رہے گی‘‘۔
[9]
’’میری امت سے ایک گروہ قیامت تک ہمیشہ حق کے لئے لڑتا اور غالب رہے گا ۔آخر عیسیٰ ابن مریم ں نازل ہوں گے اس (گروہ )کے امیر ان سے کہیں گے ’’آئیے ہماری امامت کیجئے‘‘تو وہ کہیں گے ’’نہیں اللہ نے اس امت کو یہ شرف بخشا ہے کہ تم ہی آپس میں ایک دوسرے کے امیر ہو‘‘۔
[10]
’’جب تک آسمان سے بارش برستی رہے گی تب تک جہاد ترو تازہ رہے گا(یعنی قیامت تک)اور لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب ان کے’’قُرَّاء‘‘(قرآن پڑھنے والے)لوگ بھی یہ کہیں گے کہ یہ جہاد کا زمانہ نہیں ہے ۔لہٰذا ایسا دور جس کو ملے تو وہ جہاد کا بہترین زمانہ ہوگا ۔صحابہ ﷡نے پوچھا یارسول اللہﷺ!کیا کوئی (مسلمان )ایسا کہہ سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ’’ہاں (اور ایسے لوگوں پر )اللہ کی لعنت،فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت ہوگی‘‘۔
[11]
’’سلمہ بن نفیل ﷛ سے روایت ہے ‘کہتے ہیں کہ میں حضور اکرمﷺکی مجلس بابرکت میں بیٹھاتھا کہ ایک آدمی کہنے لگا:حضورلوگوں نے گھوڑے باندھ لئے ہیں اور ہتھیار رکھ دیئے ہیں کہتے ہیں اب کوئی جہاد۔ بس اب جنگ ختم ہوچکی ہے۔رسول اکرمﷺنے چہرہ مبارک آگے کیا ‘فرمانے لگے :’’جھوٹ کہتے ہیں، ابھی تو جنگ جاری ہے ‘میری امت میں تو ایک امت ہمیشہ حق پر قتال کرتی رہے گی ‘ان کے سامنے اللہ کچھ قوموں کے دل ہوا کردے گا اور انہی سے ان کو رزق بھی فراہم کرے گا حتی کہ قیامت آجائے گی اور حتی کہ اللہ کا وعدہ آجائے گا ‘اور قیامت تک کے لئے اللہ نے گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر رکھ دی ہے ‘‘۔
[12]
حضرت ابو رجاء الجزری حضرت حسن ﷛سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ کہیں گے کہ ’’اب کوئی جہاد نہیں ہے ‘‘۔تو جب ایسا دور آجائے تو تم جہاد کرنا کیونکہ وہ افضل جہاد ہوگا‘‘۔
[13]
’’حضرت ابراہیم ﷛کے سامنے یہ کہاگیا کہ لوگ کہتے ہیں (اب )کوئی جہاد نہیں ہے ۔تو انہوں نے فرمایا یہ بات شیطان نے پیش کی ہے‘‘۔
[14]
آجکل جاہل تو جاہل اچھے خاصے پڑھے لکھے دیندار حضرات بھی جہاد کے بارے میں وہی الفاظ استعمال کررہے ہیں جن کی طرف آپ ﷺنے اشارہ فرمایا ہے۔ خصوصاً 9/11 اور طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہوا کا رُخ ہی تبدیل ہوگیا ہو۔اس کے علاوہ مسلمانوں کی موجودہ ذلت اور مسکنت کی اصل وجہ یہی اللہ کے رسول ﷺنے بیان کی یہ امت ’’قتال فی سبیل اللہ ‘‘سے نفرت کرنے لگے گی۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
’’قریب ہے کہ (کفر کی )قومیں تمہارے خلاف جنگ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دے کر بلائیں گی جس طرح بھوکے ایک دوسرے کو دستر خوان پر دعوت دے کر بلاتے ہیں‘‘۔اس پر ایک پوچھنے والے نے پوچھا کہ کیا اس وقت ایسا ہماری قلت ِ تعداد کی وجہ سے ہوگا ؟آپﷺنے فرمایا :
’’(نہیں،)بلکہ اس وقت تو تم زیادہ تعداد میں ہوگے ،لیکن تم سیلابی پانی کے جھاگ کی طرح ہوگے۔اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے ضرور ہی تمہاری ہیبت ختم کردیں گے اور تمہارے دلوں میں کمزوری ڈال دیں گے۔‘‘تو پوچھنے والے نے پوچھا :
یارسول اللہ!یہ کمزوری کیا ہوگی ؟فرمایا((حُبُ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَةُ الْمَوْتِ ))’’دنیا کی محبت اور موت کو ناپسند کرنا ‘‘ ۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں :صحابہ﷡نے پوچھا :یارسول اللہﷺ!یہ کمزوری کیا ہوگی ؟
آپ ﷺنے فرمایا :
﴿﴿ حُبُّکُمُ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَتُکُمُ الْقِتَالَ﴾﴾
’’تمہارا دنیا سے محبت کرنا ’’قتال‘‘ کو ناپسند کرنا ۔‘‘
[15]
سو اللہ تعالیٰ کہ راہ میں لڑنے والوں کو کسی باتوں یا مخالفتوں اور طعن و تشنیع سے دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کو ان کے رسول ﷺنے پہلے ہی تسلی دیدی تھی کہ ایسے وقت میں جہاد کرنا افضل جہا ہوگا چنانچہ اللہ کی راہ میں قتال کرنے والے مجاہدین کواخلاص اوراللہ کو راضی رکھتے ہوئے اپنے کام میں لگے رہنا چاہیے ۔
جہا د کے لئے نہ نکلنے والوں کے گھر وں میں مصیبت
رسول اللہﷺنے فرمایا :
’’جس گھرانے کا کوئی بھی فرد قتال میں شرکت کے لئے نہ نکلے ،نہ ہی دھاگے یا سوئی یا اس کے برابر چاندی (یعنی مال )سے کسی مجاہد کی تیاری میں مدد دے اور نہ کسی مجاہد(کی غیر موجودگی میں اس )کے گھر والوں کی اچھی طرح خبر گیری کرے تو اللہ قیامت سے پہلے (دنیا ہی میں)اس پر ایک سخت مصیبت مسلط کردیتے ہیں۔‘‘
[16]
سرزمینِ خراسان(افغانستان )کی فضیلت اور اہمیت………
رسول اللہﷺنے فرمایا :
’’مشرق کی جانب سے ایسے لوگ برآمد ہوں گے جو علاقوں کے علاقے فتح کرتے ہوئے’’مہدی‘‘ کی مدد یعنی ان کی حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے پہنچیں گے۔‘‘
[17]
امام زہری ﷫کہتے ہیں کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ ’’کالے جھنڈے خراسان سے نکلیں گے تو جب وہ خراسان کی گھاٹی سے اتریں گے تو ’’اسلام‘‘کی طلب میں اتریں گے اور کوئی چیز اُن کے آڑے نہیں آئیں گی سوائے اہل عجم کے جھنڈوں کے جو مغرب سے آئیں گے‘‘۔
[18]
آپﷺکے زمانہ مبارکہ میں خراسان کی حدود عراق سے ہندوستان تک اور شمال میں دریائے آمو تک پھیلی ہوئی تھیں (دیکھئے معجم البلدان )۔خاص کر افغانستان ،صو بہ سرحد کے قبائلی علاقے باجوڑ اور مالاکنڈڈویژن اورافغانستان سے متصل ایران کا مشہدتک کا علاقہ شامل ہیں۔ اس وقت افغانستان میں وہ لشکر منظم ہورہا ہے جو باوجود ہر کوشش کہ دجالی قوتیں اس کو ختم نہیں کرسکیں ہیں بلکہ اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ مجاہدین ان پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں ۔عجیب اتفاق کہیے یا تقدیر مبرم کہ عرب مجاہدین کا پرچم بھی کالے رنگ کا ہے اور انشاء اللہ تمام طوفانوں کا سینہ چیرتا ہوا یہ لشکر بیت المقدس فتح کرے گا۔(واللہ اعلم)
مذکورہ بالا روایت سے بھی یہ واضح ہوتاہے کہ خراسان سے نکلنے والے لشکر کا اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام کے علاوہ ان کا کوئی ذاتی مفاد نہ ہوگا لہٰذا ابلیسی قوتیں کہاں برداشت کریں گی ،سو ان کے مقابلے کے لئے تمام کفر جمع ہوجائے گا ۔اگر موجودہ حالات پر اگر نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آرہا ہے یہودو نصاریٰ ان تمام حدیثوں کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کررہے ہیں۔اسی لئے امریکہ اور نیٹو کے ممالک مل کر اُ س لشکر کا راستہ روکنے کے لئے بھرپور تیاریوں میں مصروف ہیں اور اس میں وہ مسلمانوں کے ایمان کا سودا کرکے اُن کو بھی اپنے ساتھ شریک کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن احادیث مبارکہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ لشکر ہر رکاوٹ کودور کرتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچ کر دم لے گا۔اب مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس گروہ کے ساتھ اُن کی ہمدردی اور سپورٹ ہے ،اللہ کے مجاہدین کے خراسانی لشکر کے ساتھ یااس لشکر کو روکنے کے لئے ابلیسی قوتوں کے ساتھ۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے اور اانہیں کوئی طاقت واپس نہیں پھیر سکے گی یہاں تک کہ وہ ایلیا ء(یعنی بیت المقدس)میں نصب کردیئے جائیں۔‘‘
[19]
’’حضرت ابوہریرہ ﷛سے مرفوعاً روایت ہے کہ جب کالے جھنڈے مشرق سے نکلیں گے تو ان کو کوئی چیز روک نہ سکے گی حتیٰ کہ وہ ایلیا (یعنی بیت المقدس)میں نصب کردیئے جائیں گے‘‘۔
[20]
مبارک باد کے مستحق ہیں وہ لوگ جو ان حدیثوں کو سمجھ کر اس وقت افغانستان کے پہاڑوں کو اپنا مرکز بنارہے ہیں ۔اس حدیث میں ان مجاہدین کے لئے خوشخبری ہے کہ دجالی قوتیں اس خطہ پر آگ برساکرآگ کے سمندر میں کیوں نہ تبدیل کردیں لیکن محمد عربیﷺ کا رب اُس لشکر کو ضرور منظم فرمائے گا جو تاریخ کے دھاروں کو اور دنیا کے نقشے کو بدل کر رکھ دے گا۔
کالے جھنڈے والے خراسانی لشکر کے قیادت کے اوصاف
امام زہری ﷫سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
’’کالے جھنڈے مشرق سے آئیں گے جن کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی ۔جو جھول پہنی خراسانی اونٹنیوں کے مانند ہوں گے، بالوں والے ہوں گے ،ان کے نسب دیہاتی ہوں گے اور ان کے نام کنیت(سے مشہور)ہوں گے،وہ دمشق شہر فتح کریں گے ۔تین گھنٹے رحمت اُن سے دور رہے گی‘‘۔
[21]
اس روایت میں مشرق سے آنے والے مجاہدین کی چند نشانیاں بتائی گئی ہیں :
(۱) ان کے لباس ڈھیلے ڈھالے ہوں گے ۔
(۲) بالوں والے ہوں گے ۔
(۳) ان کے نسب دیہاتی ہوں گے ۔
(۴) وہ اپنے ناموں کے بجائے کنیت (Surname)سے مشہور ہوں گے ۔
اہل علم حضرات کو چاہیے کہ وہ نور نبوت میں ان تمام نشانیوں کے حامل افراد کو تلاش کرتے رہیں۔مذکورہ روایت میں ہے کہ اس لشکر والوں سے تین ساعت کے لئے رحمت کو اٹھالیا جائے گا۔یہ اللہ کی طرف سے آزمائش اور امتحان کے طور پر ہوگا تاکہ اللہ اپنے وعدوں پر سچا یقین رکھنے والوں کو پرکھ لے۔
کالے جھنڈے والے خراسانی لشکر کو دیکھوتو………
رسول اللہﷺنے فرمایا :
’’جب تم دیکھو کہ کالے جھنڈے خراسان کی طرف سے آئے ہیں تو ان میں شامل ہوجانا ۔کیونکہ ان میں اللہ کے خلیفہ ’’مہدی‘‘ہوں گے‘‘۔
[22]
’’جب تم دیکھو کہ خراسان سے سیاہ جھنڈے آرہے ہیں تو ان کی طرف آنا ، خواہ تمہیں برف پر سے کولھوں کے بل آنا پڑے‘‘
[23]
اللہ کے رسول ﷺاپنی امت کو پہلے ہی حکم فرمارہے ہیں کہ اس لشکر میں شامل ہوجانا ۔آخرت کے بڑے سودے کی خاطر دنیا کے چھوٹے سودے کو قربان کرکے کامیاب تاجر ہونے کا ثبوت دینا ………دیکھنا ماں کی ممتا………رفیق حیات کے آنسو یا پھر ………جگر کے ٹکڑوں کے چہرے ………کہیں میرے اور میرے پیارے جانثار صحابہ ﷡کی محبت کے راستے میں رکاوٹ بن کر نہ کھڑے ہوجائیں۔شہروں کے اجالوں کی چکا چوند ھ کہیں تمہیں پہاڑوں کے اندھیروں میں جانے سے نہ روک دے ،گارے اور مٹی کے گھر کو مسمار ہونے سے بچانے کے لئے اپنے آخرت کے محلوں کو تباہ نہ کرلینا ،جیل کی کال کوٹھریوں سے ڈر کر دجالی قوتوں کے سامنے سر نہ جھکا دینا ،کیونکہ قبر سے بڑی اور خطرناک کال کوٹھری کوئی نہیں۔آپ ا نے فرمایا کہ کچھ بھی ہو کسی چیز کی پرواہ نہ کرنا۔پس اس لشکر میں شامل ہوجانا حتیٰ کہ دوسری حدیث میں فرمایا کہ اگر برف پر گھسٹ کر بھی آنا پڑے تو بھی اس لشکر میں ضرور شامل ہو جانا۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اگر برف پر زیادہ دیر چلا جائے تو پاؤں جلنے کا خطرہ ہوجاتاہے اور برف کا جلا آگ کے جلے سے کئی گنا زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے ۔اس کے باوجود آپ ﷺنے فرمایا کہ ایمان کو بچانے کے لئے برف پر بھی چل کر آنا پڑے تو ضرور آنا ۔
پہلی حدیث میں جو ذکر ہے کہ اس میں ’’مہدی‘‘ہوں گے تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ جماعت حضرت مہدی کی ہی ہوگی ،اور عرب پہنچ کرحضرت مہدی کے ساتھ شامل ہوجائے گی ،اور اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ حضرت مہدی خود بھی اس جماعت میں ہوں لیکن اس وقت تک لوگوں کو ان کے مہدی ہونے کا علم نہ اور بعد میں حرم شریف پہنچ کر ان کا ظہور ہو(واللہ اعلم)۔اس بات کا اشارہ ایک حدیث سے اور ملتاہے کہ مشرق سے جانے والا لشکر حجازمقدس کی امارات کا سوال کریں گے مگر انکار کی صورت میں وہ جنگ کریں گے پھر وہ حضرت مہدی کو امارت کے عہدے پر فائز کریں گے ۔
’’حضرت عبد اللہ ﷛سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول ﷺکے پاس تشریف فرما تھے کہ بنی ہاشم کے کچھ نوجوان آئے جن کو دیکھ کر آپ ﷺکی آنکھیں سُرخ ہوگئیں اور چہرہ کا رنگ تبدیل ہوگیا ۔ حضرت عبداللہ ﷛کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہم آ پ کے چہرے پر ناپسند ید گی کے اثرا ت دیکھ رہے ہیں ۔آپ ﷺنے فرمایا ’’اہل بیت کے لئے اللہ نے دنیا کے مقابلے میں آخرت کو پسند کیا ہے اور یقینا میرے اہل بیت کو آزمائشوں ،جلاوطنی اور بے بسی کا سامنا ہوگا۔یہاں تک کہ ((یَاْتِیَ قَوْمٌ مَنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَعَھُمْ رَأیَاتٌ ُسوَدُ))مشرق سے کچھ(مجاہدین)لو گ آئیں گے جن کے جھنڈے کالے ہوں گے ۔چنانچہ وہ (مجاہدین)امارت(حکومت)کا سوال کریں گے لیکن یہ (بنو ہاشم )ان کو امارت نہیں دیں گے ،سو وہ جنگ کریں گے اور اس پران کی (غیبی )مد د کی جائے گی (اور وہ غلبہ پالیں گے تو)بنو ہاشم ان کو امارت دیں گے لیکن وہ اس کو قبول نہیں کریں گے اور وہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص (یعنی مہدی )کو امارت دے دیں گے جوزمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گاجیسے وہ اس سے پہلے ناانصافی سے بھری ہوئی تھی۔تو تم میں سے جو بھی اس وقت موجود ہو ان (مجاہدین)کے ساتھ شامل ہوجائے خواہ برف پر گھسٹ کر آنا پڑے‘‘۔
[24]
صوبہ سرحد اور قبائل………
صوبہ سرحد اور قبائل کے بارے میں شاہ نعمت اللہ ولی کی پیشن گوئیاں بھی ہیں جو یقینا اہل ایمان کے لئے دلی تسلی اور تقویت کا باعث ہوں گی۔ان پیشن گوئیوں کو شاہ اسماعیل شہید﷫نے اپنی کتاب ’’الاربعین‘‘میں بھی نقل فرمایا ہے ۔یہ پیشن گوئیاں فارسی اشعار کی شکل میں ہیں ۔اگر چہ پیشن گوئیاں کوئی قطعی یقین نہیں دیتی ہیں البتہ ان میں سے کئی اشعار کی احادیث سے بھی تائید ہوتی ہے ۔یہاں ہم ان کا ترجمہ پیش کررہے ہیں۔فرمایا :
’’اچانک مسلمانوں کے درمیان شور برپا ہوگا اور اس کے بعد وہ کافروں (بھارت)سے ایک بہادرانہ جنگ کریں گے پھر محرم کا مہینہ آئے گا اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں تلوار دے دیگااور وہ مسلح ہوکر جارحانہ اقدام کریں گے پھر’’حبیب اللہ‘‘نامی ایک شخص جو اللہ کی طرف سے صاحبِ قرآن ہوگا ،اللہ کی مدد کے ساتھ اپنی تلوار میان سے نکالے گا۔‘‘
’’صوبہ سرحد کے بہادر غازیوں کے لشکر سے زمین مرقد کی طرح لرز اٹھے گی ،لوگ دیوانہ وار جہاد کے لئے آگے بڑھیں گے اور راتوں رات ٹڈیوں اور چیونٹیوں کی طرح حملہ کریں گے یہاں تک کہ افغانی قوم فتح حاصل کرلے گی ۔جنگل ،پہاڑ اوردشت ودریا سے قبائل تیزی کے ساتھ ہر طرف سے آتشیں اسلحہ لئے ہوئے سیلاب کی مانند امڈ پڑیں گے ۔پنجاب ،دہلی ،کشمیر ،دکن اور جموں کو اللہ کی غیبی مدد سے فتح کرلیں گے ۔دین اور ایمان کے تمام بدخواہ مارے جائیں گے اور تمام ہند وستان ہندوانہ رسموں پاک ہوجائے گا ۔ہندوستان کی طرح یورپ کی قسمت بھی(ان مجاہدین کے ہاتھوں)خراب ہوجائے گی اور تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے گی ۔یہ جنگ و جدال چند سال تک سمندر اور میدان میں وحشیانہ طور جاری رہے گا ۔بے ایمان ساری دنیا کو تباہ کردیں گے آخر کار ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بنیں گے ۔اچانک موسم حج میں حضرت مہدی خروج فرمائیں گے۔‘‘



[1] صحیح مسلم ج:۱ص:۱۳۱۔

[2] المعجم الاوسط ج:۵ص:۱۴۹ و ج:۸ص:۳۰۸،عن ابو عیاش ۔

[3] حلیة الاولیا ء ابو نعیم ج:۱ص:۲۵ ۔کتاب الزھد الکبیر ج :۲ص ۱۱۶،عن عبداﷲ بن عمروؓ۔

[4] بخاری ج:۱ص:۱۵۔مصنف ابن ابی شیبہ ج:۷ص:۴۴۸۔

[5] ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ ووافقہ الذھبی رحمہ اللّٰہ ’’مستدر ک حاکم علی الصحیحین ج:۴ص:۵۱۰۔

[6] ترمذی شریف ،الفتن نعیم بن حماد ج:۱ص:۱۹۰وحدیث صحیح۔

[7] مسند احمد :مسندالمکثرین۔

[8] ابوداؤد ج:۳ص:۱۸،کتاب السنن ج:۲ص:۱۷۶،مسند ابی یعلیٰ ۴۳۱۱،سنن البھیقی الکبری،عن انس بن مالک ؓ۔

[9] صحیح مسلم ج:۳ص۱۵۲۴،عن جابر بن سمرہ ؓ۔

[10] مسلم واحمد ،بروایت عن جابر بن عبد اللّٰہ ؓ۔

[11] السنن الواردة فی الفتن ج:۳ص:۷۵۱،عن عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم واسنادہ فیہ کلام۔

[12] سنن نسائی۔

[13] کتاب السنن ج :۲ص:۱۷۶۔

[14] مصنف ابن ابی شیبة ج:۶ص:۵۰۹۔

[15] ابوداؤد باب کتاب الملاحم ، مسندِ احمد واسنادہ صحیح۔

[16] المعجم الاوسط الطبرانی :باب من بقیةمن اول اسمہ میم من موسیٰ۔

[17] عن عبداللّٰہ بن حارث ؓ،سنن ابن ماجہ ۔

[18] کنز العمال ۱۱/۱۶۲،’’الفتن‘‘ نعیم بن حماد ۔

[19]جامع ترمذی عن ابی ھریرہ ؓ۔

[20] مسند احمد ۲۴۴۱،رواہ الحاکم و صححہ۔

[21] الفتن نعیم بن حماد ج:۱ص:۲۰۶۔

[22] مسند احمد جلد:۵ص:۲۷۷۔کنز العمال ۱۴/۲۶۴،مستدرک حاکم ،مشکوة باب اشراط الساعةفصل ثانی ۔

[23] مسند احمد بن حنبل،مستدرک حاکم ۔

[24] سنن ابن ماجہ ج:۲ص:۱۳۶۶ واسنادہ فیہ کلام۔
 

ibneislam

Banned

خلافت کے دوبارہ قیام میں وسطِ ایشیائی ریاستوں کی فضیلت
’’ہلال بن عمرو نے فرمایا ،میں نے حضرت علی ﷛کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
ایک شخص ’’ماوراء النہر ‘‘سے چلے گا ،اس کو حارث حرّاث (کسان )کہاجاتا ہوگا۔اس کے لشکر کے اگلے حصہ (مقدمۃ الجیش)پر مامور شخص کا نام منصور ہوگا۔جو آل محمدﷺکیلئے (خلافت کے مسئلہ میں )راہ ہموار کرے گا یا مضبوط کرے گا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺکوقریش نے ٹھکانا دیا تھا ۔سو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اس لشکر کی مدد وتائید کرے ،یا یہ فرمایا کہ (ہر مسلمان پر واجب ہوگا کہ وہ )اس شخص کی اطاعت کرے۔‘‘
[1]
’’ماوراء النہر ‘‘دریا ئے آموکے اس پار وسطِ ایشائی (Central Asia) ریاستوں کے علاقوں کہا جاتا ہے۔جن میں ازبکستان،تاجکستان،ترکمانستان،آذربائیجان ،قازقستان اور چیچنیاوغیرہ شامل ہیں یا تو یہ لشکر چیچنیا و ازبکستان وغیرہ ہی سے حضرت مہدی کی حمایت کے لئے جائے گا یا پھر حارث نامی مجاہد اس لشکر کے ساتھ ہوں گے جس کا ذکر خراسان والی حدیث میں آیا ہے۔واللہ اعلم
واضح رہے کہ اس وقت خراسان(افغانستان)میں دجالی قوتوں سے برسرپکار مجاہدین میں بڑی تعداد ازبک مجاہدین کی بھی ہے جنہوں نے افغانستان میں اب تک امریکہ کے خلاف ہونے والی کاروائیوں میں ایسی ہمت وشجاعت کا مظاہرہ کیا ہے کہ عرب ساتھی بھی ان کی ہمت و بہادری کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔نیز طالبان کی پسپائی کے وقت تک تمام مہمان مجاہدین کی قیادت بھی امیر المومنین (حفظہ اللہ )نے ازبک مجاہدین ہی کو سونپ رکھی تھی ۔یہ ابھی امکان ہے کہ افغانستان ہی سے یہ مجاہدین اس لشکر کی قیادت کریں۔شاید یہی وجہ ہے کہ دجالی میڈیا پر ان کوسب سے زیادہ طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔بہرحال اللہ نے اس قوم کو بہت نواز اہے ۔علامہ ابو الحسن علی ندوی﷫نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ سویت یونین کی ستر سالہ بدترین غلامی کے باوجود اپنا ایمان بچانااس قوم کا ہی طرہ امتیاز ہے ورنہ کوئی اور قوم ہوتی شاید اس غلامی میں اپنا ایمان نہ بچاپاتی۔
اہل کتاب کی کتابوں میں اس پاکیزہ لشکر کی بشارت
مشہورسعودی عالم دین شیخ ڈاکٹر سفر بن عبد الرحمان الحوالی جن کانام عالم اسلام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور یہود و نصاریٰ کی سازشوں سے آگاہ کرنے کے حوالے سے خاص کر عالم عرب میں جانا جاتا ہے اور جس کی پاداش میں وہ پس زنداں تقریبا 15سال سے زندگی گزاررہے ہیں ۔وہ اپنی کتاب ’’یوم الغضب‘‘میں حضرت دانیال علیہ السلام کے ’’مکاشفے اور رویاء‘‘کی تفسیر کے حوالے سے اہل کتاب کے اقوال نقل کئے ہیں ۔اس حوالے سے مشہور مفسر ’’بیٹس‘‘(Bates)کی کچھ تشریحات حضرت دانیال ﷣کے مکاشفوں کے حوالے سے نقل کئے ہیں جو ہمیں غور وفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔یاد رہے کہ بیٹس اسرائیل کے قیام سے بہت عرصے قبل ہی فو ت ہوگیا تھا ۔
’’بیٹس‘‘(Bates)ایک مکاشفے کی تشریح کرتے ہوئے کہتاہے :
’’رومی حکمران اور بے دین یہودیوں کے درمیان یہ ’’اتحاد‘‘شمال کے لشکر کو حملہ آور ہونے سے روک نہ سکے گا ،جو کہ اس مشرکانہ عبادت کے سبب جو اس وقت یروشلم(اسرائیل کا دارالحکومت)میں ہورہی ہوگی ،ان لوگوں کو ایک زور آور سیلاب کی طرح آلے گااور اس زمین پر تباہی لے آئے گا۔‘‘
[2]
’’مشرق کے حکمران اپنی فوجیں جمع کریں گے تاکہ درندے کی قلمرو کی سرحدوں پر حملہ آور ہوں ۔دوسری طرف درندہ مغرب کے بادشاہوں کے ساتھ مل کر اپنی فوجیں جمع کریگااور’’ہرمجدون‘‘Armageddonکے منحوس معرکہ کی طرف بڑھے گا۔‘‘
[3]
’’بیٹس ‘‘کی تشریح کے مطابق یہ درندہ’’یروشلم‘‘میں ہوگا ۔اسی طرح عربی بائبل کے ناشر’’یوایل‘‘کے صحیفے کے اندر اس لشکر کی کیفیت یو ں بیان کیا گیا:
’’اس سے (اسرائیل سے)جنگ کے لئے اپنے آپ کو مخصوص کرو،اٹھو دوپہر کو چڑھ چلیں ،ہم پر افسوس کیونکہ دن ڈھلتا جاتا ہے اور شام کا سایہ بڑھتا جاتاہے ،اٹھو رات ہی کو چڑھ چلیں اور اس کے محلات ڈھادیں کیونکہ رب الافواج یو ں فرماتا ہے کہ درخت کاٹ ڈالو(ہوسکتاہے یہ غرقد کے درخت کی طرف اشارہ ہو۔راقم)اور یروشلم کے مقابل دمدمہ باندھو،یہ شہر سزا کا سزاوار ہے ،اس میں ظلم ہی ظلم ہے۔ جس طرح پانی چشمے سے پھوٹ نکلتاہے اسی طرح شرارت اس سے جاری ہے ۔ظلم اور ستم کی صدا اس میں سنی جاتی ہے ۔ہردم میرے سامنے دکھ درد اور زخم ہیں ۔دیکھ!شمالی ملک سے ایک گروہ آتا ہے اور انتہائی زمین سے ایک عظیم قوم برانگیختہ کی جائے گی ‘‘
[4]
اس لشکر کی مزید صفات یوں بیان کی گئی:
’’اور وہ(خدا)قوموں کے لئے دور سے ایک جھنڈا کھڑا کرے گا اور ان کو زمین کی انتہا سے سسکار کر بلائے گا اور دیکھ وہ دوڑ ے چلے آئیں گے ،نہ کوئی اُن میں تھکے گا نہ پھسلے گا ،نہ کوئی اونگھے گا نہ سوئے گا ،نہ اُن کا کمر بند کھلے گا اور انہ اُ ن کی جوتیوں کاتسمہ ٹوٹے گا ۔ان کے ’’تیر ‘‘تیز ہیں اور ان کی سب کمانیں کشیدہ ہوں گی۔ان کے گھوڑوں کے سم چقماق اور ان کی گاڑیاں گرد باد کی مانند ہوں گی۔وہ شیرنی کی مانند گرجیں گے ۔ہاں وہ جوان شیروں کی طرح دھاڑیں گے ،وہ غراکر شکار پکڑیں گے اور اسے بے روک ٹوک لے جائیں گے اور کوئی بچانے والا نہ ہوگا ۔اس روز وہ ان پر ایسا شور مچا ئیں گے جیسا سمندر کا شور ہوتا ہے (اس انجام کے بعد )اگر کوئی کوئی اس ملک (یعنی اسرائیل )پر نظر کرے تو بس اس میں اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی اس کے بادلوں سے تاریک ہوجاتی ہے۔‘‘
[5]
اُ ن کی مزید کیفیت یوں بیان کی گئی :
’’پس تمہارا ( یعنی اسرائیلیوں کا)پیچھا کرنے والے تیز رفتار ہوں گے ۔ایک کی جھڑ کی سے تمہارے ایک ہزار بھاگیں گے۔پانچ کی جھڑکی سے تم ایسے بھاگوں گے کہ تم اس علامت کی مانندجو پہاڑ کی چوٹی پر اور اس نشان کی مانند جو کوہ پر نصب کیا گیا ہو رہ جاؤگے۔‘‘
[6]
آخر میں Bates اس جنگ کا نتیجہ بھی بیان کرتاہے:
’’کم ہی کبھی درندے اور اس کے مدد گاروں کے خواب و خیال میں آیا ہوگا کہ میدان جنگ سے ان کو قیدی بناکر اس انجام کی طرف لے جایا جائے گا جس کی طرف وہ بھاگ بھاگ کر جارہے تھے اوریہ کہ ان دونوں کو ابدی آتش کی جھیل میں عذاب سہنے کو زندہ ڈال دیا جائے گا،(آگے کے الفاظ بھی قابل غورہیں)اور وہ ’’قدوسی‘‘(یعنی پاکیزہ لشکر)جو پریشانیوں میں مبتلا ’’پہاڑوں اور غاروں‘‘ میں چھپتے رہے ،خود ان قدوسیوں نے بھی کم ہی کبھی سوچاہوگا کہ آخر کار وہ بھی کسی دن سر اٹھائیں گے! ‘‘
غور کیجئے اور پھر غور کیجئے کہ آج کون ہے جو ’’جدید تہذیب‘‘ (ModernCivilization)کے علمبردار ہیں اور اُن کا دعویٰ ہے کہ "We are the Soul Supreme Power on the earth"اور جن کا یہ کہنا ہے کہ ہم ’’ایک بد مست ہاتھی کی طرح ہیں کہ ہمارے سامنے جو بھی آئے گا وہ ہمارے پیروں تلے کچلا جائے گا۔‘‘اور دوسری طرف کو ن ہے جودنیاوی لذات کو قربان کرکے، تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرتے ہوئے پہاڑوں اور غاروں میں زندگی گزاررہے ہیں ؟فَاعْتَبِرُوْا یٰآُولِی الْاَبْصَارِ’’پس اے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو‘‘۔
نوٹ: اس حوالے سے مزید مطالعہ کیجئے ’’یوم الغضب‘‘از ڈاکٹر سفر الحوالی۔
غزوہ ٔ ہندوستان کی فضیلت………
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’میری امت کے دولشکروں پر اللہ نے جہنم کی آگ حرام قرار دی ہے ۔ایک وہ لشکر جوہندوستان پر حملہ کرے گااوردوسرا جوعیسیٰ ابن مریم ﷦کا ساتھ دے گا‘‘
[7]
’’میری امت کے کچھ لوگ ہند وستان سے جنگ کریں گے،اللہ تعالیٰ ان کو فتح عطافرمائے گاحتیٰ کہ وہ ہندوستان کے باد شاہوں کو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پائیں گے ،اللہ ان مجاہدین کی مغفرت فرمائے گا (اور)جب وہ شام کی طرف پلٹیں گے تو عیسیٰ﷣کو وہاں موجود پائیں گے۔‘‘
[8]
مندرجہ بالاحدیث سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہوتاہے کہ جو لشکر حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ ابن مریم ﷦کی نصرت کے لئے نکلے گا وہ ہاتھ کے ہاتھ برصغیرپاک وہندمیں اللہ کے باغی اور ظالم وجابر حکمرانوں کابھی اقتدار ختم کرکے اور ان کو اپنی قید میں لے کر روانہ ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ جلیل القدر صحابی حضرت ابو ہریرہ ﷛نے اس لشکرمیں شرکت کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے نبی کریم ﷺکے ارشاد کو نقل فرمایا:
’’ضرور تمہارا ایک لشکرہند وستان سے جہاد کرے گا ،اللہ ان مجاہدین کو فتح عطافرمائے گا حتیٰ کہ وہ ان(ہندوستان )کے بادشاہوں کوبیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اوراللہ ان (مجاہدین)کی مغفرت فرمادے گا۔پھر جب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے تو حضرت عیسیٰ ﷣ کو شام میں پائیں گے۔‘‘
(اس پر )حضرت ابوہریرہ ﷛ فرماتے ہیں:
’’اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا ۔جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا کردی اور ہم واپس پلٹ آئے تو وہ میں ایک آزاد ابوہریرہ ﷛ہوں گا جو ملک شام میں (اس شان سے)آئے گا کہ وہاں عیسیٰ ابن مریم ﷣ کو پائیگا۔یارسول اللہ !اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ میں آپ ﷺکا صحابی ہوں۔‘‘(راوی کا بیان ہے )کہ رسول اللہﷺ(یہ بات سن کر )مسکرا پڑے اور ہنس کر فرمایا:’’بہت مشکل ،بہت مشکل۔‘‘
[9]
چنانچہ ایک اور جگہ حضرت ابوہریرہ ﷛سے مروی ہے کہ:’’میرے جگری دوست رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ:
((یَکُوْنُ فِیْ ھٰذِہٖ الْاُمَّةِ بَعْث ٌ اِلَی السَّنْدِ وَالْھِنْدِ))
’’اس امت میں سندھ اور ہند کی طرف لشکروں کی راونگی ہوگی۔‘‘
(اس پر حضرت ابوہریرہ ﷛فرماتے ہیں)اگر مجھے کسی ایسی مہم میں شرکت کا موقع لگا اور میں شہید ہوگیا تو ٹھیک ،اگر واپس لوٹا تو ایک آزاد ابوہریرہ ﷛ہوگا،جسے اللہ تعالیٰ نے جہنم سے آزاد کردیا ہوگا۔‘‘
[10]
ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ﷛سے مروی ہے کہ:
’’نبی کریم ﷺنے ہم سے غزوہ ٔ ہند کا و عدہ فرمایا ۔(آگے حضرت ابوہریرہ ﷛فرماتے ہیں)’’اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جا ن و مال اس میں خرچ کردوں گا ۔اگر قتل ہوگیا تو میں افضل شہدا ء میں شمار ہوں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ﷛ہوں گا۔‘‘
[11]
عراق پر اہل مغرب کے قبضے کی پیشن گوئی
حضرت عبداللہ بن عمرو ﷛سے روایت ہے کہ:
’’وہ وقت قریب ہے کہ جب بنو قنطورا ( یعنی اہل مغرب )تمہیں عراق سے نکال دیں ۔(راوی کہتے ہیں کہ )میں نے پوچھا کہ کیا پھرہم دوبارہ (عراق )واپس آسکیں گے ؟حضرت عبد اللہ نے فرمایا کہ آپ ایسا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ضرور۔انہوں نے فرمایا کہ ہاں (انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا)۔اور ان کے لئے (پھر)خوشحالی اور آسودگی کی زندگی ہوگی۔‘‘
[12]
عراق پر قابض اہل مغرب سے جنگ کرنے والوں کا اعلیٰ مقام
رسول اللہﷺنے فرمایا :
’’میری امت میں کچھ لوگ ایک ایسے علاقے میں اتریں گے جسے ’’بصرہ‘‘ کہاجائے گا اور یہ علاقہ ایک دریا کے قریب ہوگا جسے ’’دجلہ ‘‘کہا جائے گا اور اس دریا پر ایک ’’پل ‘‘ہوگا جس کے ساتھ مسلمان شہروں کے بہت سے لوگ ہوں گے ۔پھر جب آخری زمانہ آئے گا تو رومی (بنو قنطورا)پھیلے ہوئے چہروں اور چھوٹی آنکھوں والے آئیں گے تو وہ دریا کے کنارے اتریں گے تو اس علاقے کے لوگ تین (۳)گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے:
(۱) ایک گروہ بیلوں کی دُم پکڑے زمین سے چمٹ جائے گا (یعنی دنیا ہی کمانے میں لگے رہے) ،تو یہ لوگ ہلاکت میں پڑجائیں گے ۔
(۲) ایک گروہ اپنے مفادات کے چکر میں پڑجائے گا ( یعنی اُ ن کفار سے دوستی اختیار کرلے گاتو)یہ لوگ کفر کے مرتکب ہوں گے ۔
(۳) ایک گروہ اپنی اولاد کو پیچھے چھوڑ جائے گا اور ان دشمنوں سے قتال کرے گا ۔یہی لوگ شہدا ہوں گے (یعنی یہی لوگ صرف کامیا ب ٹہریں گے اللہ کی نظر میں )‘‘
[13]
جب کبھی بھی مسلمانوں پر کفار حملہ آور ہوئے اور انہوں مسلمانوں کی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے ان کے علاقوں پر قبضہ کرلیا تواُس معاشرے میں عموماً تین گروہ وجود میں آئے ۔ ہم اگرجائزہ لیں توآج بھی بالکل یہی صورت ہے ۔لیکن فیصلہ آج ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کس گروہ میں شامل ہو نے کی سعی اور کوشش کررہے ہیں ………؟
دریائے فرات (Euphrates) پر خونریز جنگ
رسول اللہﷺنے فرمایا :
’’عنقریب دریائے فرات سے سونے کا خزانہ نکلے گا ۔لہٰذا جوبھی اس وقت موجود ہو ،اس میں سے کچھ نہ لے۔‘‘
[14]
’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکلے ۔لوگ اس پر جنگ کریں گے اور ہر سو میں سے ننانوے مارے جائیں گے ۔ہر ایک بچنے والا یہی سمجھے گا کہ شاید میں ہی اکیلا بچا ہوں۔‘‘
[15]
رسول اللہﷺنے فرمایا :
’’تمہارے خزانے کے پاس تین شخص جنگ کریں گے ۔یہ تینوں خلیفہ کے لڑکے ہوں گے پھر بھی خزانہ ان میں سے کسی کی طرف منتقل نہ ہوگا ۔اس کے بعد مشرق سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے اور وہ تم سے اس شدت سے جنگ کریں گے کہ اس سے پہلے کسی قوم نے اس شدت سے جنگ نہ کی ہوگی ۔پھر اللہ کے خلیفہ مہدی کا خروج ہوگا ۔جب تم لوگ انہیں دیکھنا تو ان سے بیعت کرلینا اگرچہ اس بیعت کے لئے تمہیں برف پر گھسٹ کر آنا پڑے۔وہ اللہ کے خلیفہ مہدی ہوں گے۔‘‘
[16]
مذکورہ بالاحدیث میں جس خزانے کا ذکر ہے اس سے مراد یا تو وہی فرات والا خزانہ ہے یا وہی خزانہ ہے جو کعبہ میں دفن ہے اور جس کو حضرت مہدی نکالیں گے۔یہاں دو فریق پہلے سے اس خزانے کے لئے جنگ کررہے ہوں گے ۔پھر مشرق ے سیاہ جھنڈے والے آئیں گے ،جو صر ف اسلام کی طلب میں آئیں گے جس کا بیان اوپر گذر چکا ہے۔
اہل یمن اور اہل شام کے لئے دعائیں
رسول اللہﷺنے فرمایا :
’’اے اللہ!ہمارے شام میں برکت عطافرما۔اے اللہ!ہمارے یمن میں برکت عطا فرما ۔لوگوں نے کہا یارسول اللہﷺ!ہمارے نجد میں بھی ۔آپﷺنے فرمایا ہمارے شام میں برکت عطافرمااورہمارے یمن میں بھی۔لوگوں نے پھر کہا ہمارے نجد میں بھی ۔راوی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ تیسری بار رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ وہا ں زلزلے آئیں گے اور فتنے ہوں گے اور وہا ں شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا‘‘۔
[17]
’’جب رومی جنگ عظیم (ملاحم)میں اہل شام سے جنگ کریں گے تو اللہ تعالیٰ دو لشکروں کے ذریعے ان (اہل شام )کی مدد فرما ئے گا ایک مرتبہ ستر ہزار سے اور دوسری مرتبہ اسی (۸۰)ہزار اہل یمن کے ذریعے،جو اپنی بند تلواریں(یعنی بالکل پیک اور نیا اسلحہ ہے)لٹکائے ہوئے آئیں گے۔وہ کہتے ہوں گے کہ ہم پکے سچے اللہ کے بندے ہیں ۔ہم اللہ کے دشمنوں سے قتال کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ(اس جہاد کی برکت سے )ان لوگوں سے طاعون ،ہر قسم کی تکلیف اور تھکاوٹ کو اٹھالیں گے‘‘۔
[18]
شام اور یمن کی برکت تو آج بھی صاف نظر آرہی ہے کہ اللہ نے اس آخری معرکہ میں فلسطین و شام اور یمن کے مجاہدین کو جو حصہ عطاکیا ہوا ہے وہ آپ ﷺ کی دعا ہی کا اثر ہے ۔اس وقت دنیائے کفر کو ہلانے والے شام اور یمن کے ہی جانباز زیادہ ہیں۔خود شیخ اسامہ بن لادن(﷫)کا تعلق بھی یمن سے ہی ہے ۔یہ بھی قابل غور بات ہے کہ ’’نجد ‘‘کا علاقہ جس کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺفرمایا کہ وہاں زلزلے اور فتنہ ہوں گے اور شیطان کا سینگ ظاہر ہوگادراصل سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض اور اس کے ارد گرد کا علاقہ ہے اور اسی علاقے میں نصاریٰ(یعنی یورپ اور امریکہ )کی فوج کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے۔
خروج مہدی کی نشانیاں
کالے جھنڈوں کے خلاف اہل مغرب کے لشکر کا سربراہ بنو کندہ کے ایک لنگڑاشخص ہوگاحضرت کعب ﷛نے فرمایا :’’ظہورِمہدی کی علامت یہ ہے کہ (دوسری روایات کے مطابق خراسان سے کالے جھنڈوں کے نکلنے کے بعداُن کے خلاف)مغرب سے آنے والے جھنڈے ہیں ،جن کی قیادت ’’کندہ‘‘کا ایک لنگڑا آدمی کرے گا۔‘‘
[19]
غور کرنے کا مقام ہے کہ کہیں دنیا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ تو نہیں چکی کہ اہل مغرب اپنی فوج کا سربراہ ایک لنگڑے شخص کو بنائیں گے؟شاید ایسا ہوچکاہے ۔واللہ اعلم
جامعہ الازہر یونیوسٹی کے استاد ’’الاستاذمحمد جمال الدین ‘‘اس روایت کے حوالے سے اپنی کتاب ’’ھرمجدون‘‘(Armageddon)میں رقم طرازہیں:
’’مجھے گمان تک نہ تھا کہ امریکی ایک لنگڑے کا انتخاب کرکے اسے کمانڈر انچیف کے منصب پر فائز کریں گے ،بلکہ میں اپنے دل ہی دل میں سمجھتا تھا کہ ’’اعرج‘‘کے لفظ سے مراد ایک کمزور شخص ہے جس کی رائے میں کوئی وزن نہ ہوگا۔میرے تو وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ دنیا کی فوج کا سپہ سالار ایک لنگڑ ے کو بنانا روا سمجھیں گے جب میں نے دیکھا کہ جنرل رچرڈ مائرز(General Rchard Myres)بیساکھیوں پر چل کر آرہا ہے تاکہ وہ امریکی عوام کے سامنے افغانستان کے خلاف بری ،بحری اور فضائی آپریشن کا اعلان کرے تو میرے منہ سے نکل گیا ، اللہ اکبر !اے اللہ کے رسول ﷺآپ نے سچ فرمایاہے ۔‘‘
خروج مہدی سے پہلے نفس زکیہ کی شہادت
امام مجاہد﷫فرماتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریمﷺ کے ایک صحابی نے یہ بیان کیا ہے کہ :’’مہدی اس وقت تک نہیں آئیں گے جب تک ’’نفس زکیہ‘‘(یعنی بہت ہی پاکیزہ اورنیک ہستی )کو قتل نہ کردیا جائے ،چناچہ جب نفسی زکیہ قتل کردیئے جائیں گے تو آسمان والے اور زمین والے ان کے قاتلوں پر غضب ناک ہوجائیں گے،اس کے بعد لوگ حضرت مہدی کے پاس آئیں گے اور انہیں نئی دلہن کی طرح منائیں گے جیسے اس کو حجلہ عروسی میں لے جایا جاتاہے ۔وہ زمین کو عدل و انصاف بھردیں گے۔زمین اپنی پیداوار اُگادے گی اور آسمان خوب بَرسے گا اور ان کے خلافت میں امت ایسی خوشحال ہوگی کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوگی۔‘‘
[20]
گویا محسوس ایسا ہوتاہے کہ کوئی ایسی عظیم ہستی ہوگی جو نہ صرف اہل ایمان کے نزدیک محبوب اور پسنددیدہ ہوگی بلکہ اللہ رب العزت کے نزدیک بھی اُ س کا بہت بڑا مقام ہوگا اور فرشتے بھی اُ س کو بہت محبوب رکھتے ہوں گے۔چناچہ اُن کی شہادت پر زمین اور آسمان والے انتہائی غضبناک ہوکر انتقام کے لئے کھڑے ہوجائیں گے۔واللہ اعلم
حج کے موقع پر منیٰ میں قتل عام
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’ذی قعدہ کے مہینے میں قبائل کے درمیان کشمکش اور معاہدہ شکنی ہوگی چنانچہ حاجیوں کو لوٹا جائے گا اور ’’منیٰ‘‘میں جنگ ہوگی ۔بہت زیادہ قتل عام اور خون خرابہ ہوگا یہاں تک کہ عقبہ جمرہ پر بھی خون بہہ رہا ہوگا ۔نوبت یہاں تک آئے گی کہ حرم والا(یعنی حضرت مہدی)بھی بھاگ جائیں گے اور(بھاگ کر )وہ رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان آئیں گے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی ،اگرچہ وہ اس کو پسند نہ کررہے ہوں گے ۔ان سے کہا جائے گا کہ اگر آپ نے بیعت لینے سے انکا ر کیا توہم آپ کی گردن اڑادیں گے ۔چنانچہ پھر بیعت کریں گے بیعت کرنے والوں کی تعداداہل بدر کے برابر ہوگی ۔ان(بیعت کرنے والوں )سے زمین وآسمان والے خوش ہوں گے۔‘‘
[21]
مستدرک کی ہی دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمرو ﷛فرماتے ہیں کہ :
’’جب لوگ بھاگے بھاگے حضرت مہدی کے پاس آئیں گے تو اس وقت حضرت مہدی کعبہ سے لپٹے رو رہے ہوں گے۔(حضرت عبداللہ ابن عمرو﷛فرماتے ہیں کہ)گویا میں اُن کے آنسوں دیکھ رہا ہوں۔‘‘
رمضان میں دھماکہ کی آوازاوراس کے بعد دو اعلان کرنے والوں کا اعلان کرنا:
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’رمضان میں ایک زبردست آواز آئے گی ۔صحابی نے پوچھا ’’یارسول اللہ !یہ آواز رمضان کے شروع میں ہوگی ، یا درمیان میں یا آخر میں ؟‘‘آپ ا نے فرمایا ’نصف رمضان میں۔جب نصف رمضان میں جمعہ کی رات ہوگی تو آسمان سے ایک (زور دار )آواز آئے گی جس سے ستر ہزار(یعنی بے شمار)لوگ بے ہوش ہوجائیں گے اور ستر ہزار بہرے ہوجائیں گے(ایک اور روایت کے مطابق :’’ستر ہزار راستہ بھٹک جائیں گے ،ستر ہزار اندھے ہوجائیں گے ،ستر ہزار گونگے ہوجائیں گے اور ستر ہزار لڑکیوں کی بکارت زائل ہوجائی گی۔‘‘بحوالہ السنن الواردة الفتن) ۔صحابہ اکرام ﷡نے دریافت کیا کہ’’ یارسول اللہ ! تو آپ کی امت میں سے اس آواز سے محفوظ کون رہے گا؟‘‘آپ ﷺنے فرمایا ’’جو (اس وقت)اپنے گھروں میں رہے اور سجدوں میں گر کر پناہ مانگے اور زور زورسے تکبیریں کہے ،پھر اس کے بعد ایک اور آواز آئے گی ۔پہلی آواز جبرائیل کی ہوگی اور دوسری آواز شیطان کی ہوگی ۔(پھر فرمایا کہ واقعات کی ترتیب یہ ہوگی کہ)آواز رمضا ن میں ہوگی اور’’مَعْمَعَةُ‘‘(دراصل جنگ کی گھن گرج یا شورابہ ہوگا جوکہ)شوال کے مہینے میں ہوگی اور ذی قعدہ میں قبائل عرب بغاوت کریں گے اور ذی الحجہ میں حاجیوں کو لوٹا جائے گا ۔رہا محرم کا مہینہ تو محرم کا ابتدائی حصہ میری امت کے لئے آزمائش ہے اور اس کا آخری حصہ میری امت کے لئے نجات ہے ۔اس دن وہ سواری مع کجاوے کے جس پر سوارہوکر مسلمان نجات پائے گا ،اس کے لئے ایک لاکھ سے زیادہ قیمت والے اس مکان سے بہتر ہوگی جہاں کھیل و تفریح کا سامان ہو۔‘‘
[22]
امام زہری ﷫فرماتے ہیں :
’’اس سال ( یعنی حضرت مہدی کے خروج کے سال)دو اعلان کرنے والے اعلان کریں گے ۔آسمان سے اعلان کرنے والا اعلان کرے گا ۔اے لوگو!تمہارا امیر فلاں شخص ہے اور (اس کے برعکس) زمین سے اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ اس(پہلے اعلان کرنے والے)نے جھوٹ کہاہے۔چنانچہ نیچے والے(یعنی)اعلان کرنے والے لڑائی کریں گے،یہاں تک کہ درختوں کے تنے خون سے سرخ ہوجائیں گے۔‘‘
[23]
مہدی کون ہوں گے………؟
احادیث نبویہ ﷺسے ہمارے سامنے حضرت مہدی کی شخصیت اور ان کے ظہور کا جو نقشہ آتاہے کہ وہ عرب کے ایک قائد اور ایک رہنما کی حیثیت سے ابھریں گے۔ان کا نام محمد اور ان کے والد کاعبداللہ ہوگا۔رسولﷺنے ارشاد فرمایا :
’’زمین جب ظلم وجور سے بھر جائے گی ۔اللہ میر ی اولاد میں سے ایک آدمی بھیجے گا جس کا نام وہ ہی ہوگا جو میرا ہے۔اس کے باپ کا نام وہی ہوگا جو میرے باپ کاہے۔وہ زمین کو عدل وانصاف سے بالکل بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔نہ آسمان اپنی بوند ذرہ برابر بھی روکے گا اور نہ زمین اپنی نباتات روکے گی ۔وہ تمہارے درمیان سات یا آٹھ برس یا زیادہ سے زیادہ نو برس تک ٹھہرے گا ۔‘‘
[24]
’’مہدی مجھ میں سے ہوگا (یعنی میرے اولاد سے ہوگا)اس کی ناک درمیان سے بلند ہوگی ، پیشانی کشادہ ہوگی۔وہ زمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھردے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔وہ سات برس تک حکمرانی کرے گا۔‘‘
[25]
’’دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک عرب میں میری اولاد میں سے ایک شخص کی حکومت قائم ہوگی جس کانام میرے نام پر ہوگا۔‘‘
[26]
حضرت مہدی کی بیعت اور وقت کا حکمران سفیانی کا اُ ن کے خلاف لشکر بھیجنا………
’’جب راستے بند ہوجائیں گے اور فتنوں کا دور دورہ ہوگا تو مختلف اطراف سے سات(۷)عالم نکلیں گے۔انہوں نے ملاقات کے لئے وقت کا تعین نہیں کیا ہوگا ۔ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ پر ۳۱۰سے کچھ زیادہ آدمی بیعت کریں گے ۔وہ مکہ میں جمع ہوں گے ۔ جہاں ساتوں کی ملاقات ہوگی اور ایک دوسرے سے پوچھیں گے کیسے آنا ہوا؟وہ جواب دیں گے کہ ہم اس آدمی کی تلاش میں آئے ہیں جس کے ہاتھوں فتنوں کا فرو ہونا چاہیے اور جس کے ہاتھ پر قسطنطنیہ فتح ہوگا ۔ہمیں اس کا حلیہ ،اس کا نام اور اس کے باپ کا نام معلوم ہے۔ساتوں اس بات پر اتفاق ہوگا اور وہ اسے تلاش کریں گے ۔وہ اسے مکہ میں رکن یمانی (حجرِاسود)کے قریب پالیں گے اورکہیں گے ہمارا گناہ تم پر ہوگا اور ہمارا خون تیری گردن پر ، اگر تم بیعت کے لئے ہاتھ نہ پھیلاؤ گے۔سفیانی کا لشکر ہماری تلاش میں نکل پڑاہے ۔تب وہ رکنِ یمانی اور مقامِ ابراہیم کے درمیان بیٹھ کر اپنا ہاتھ بڑھا ئے گا ۔اس کے ہاتھ پر بیعت ہوگی اور اللہ اس کی محبت لوگوں کے دلوںمیں ڈال دے گا ۔وہ ایسی قوم کو لے کر روانہ ہوگا جو دن کو شیر معلوم ہوتے ہیں اور رات کو گوشہ نشین زاہد ۔‘‘
[27]
’’ام المومنین حضرت عائشہ ﷝سے روایت ہے کہ خواب میں اللہ کے رسول ﷺکا جسم حرکت کرنے لگاتوہم نے کہا :اے اللہ کے رسولﷺآیا آپ نے خواب میں ایسی بات کی جوآپ نے پہلے کبھی نہیں کی ۔آپﷺنے فرمایا :’’عجیب بات ہے کہ میری امت کے کچھ لوگ قریش کے ایک آدمی کو پکڑنے کیلئے بیت اللہ کی طرف جارہے ہیں ۔اس آدمی نے بیت اللہ میں پناہ لی ہوئی ہے ۔جب وہ (پکڑنے والے)کھلے میدان میں ہوں گے تو وہ زمین میں دھنس جائیں گے۔‘‘
[28]
’’ایک پناہ لینے والا بیت اللہ کی پناہ لے گا۔اس کی طرف ایک لشکر بھیجاجائے گا ۔ابھی وہ وہیں (میدان )میں ہوں گے کہ زمین میں دھنس جائیں گے۔‘‘
[29]
’’اس گھر (بیت اللہ )کی پناہ میں کچھ لوگ میں آئیں گے ، وہ محفوظ نہیں ہوں گے ،نہ ان کے پاس لڑنے کے لئے فوج ہوگی نہ سامان جنگ ، ان کی طرف ایک فوج بھیجی جائے گی ، جب وہ فوج کھلی جگہ پر ہوگی تو زمین میں دھنس جائے گی۔‘‘
[30]
پانچ جنگ عظیم
حضرت عبد اللہ ابن عمرو﷛نے فرمایا کہ (دنیا کی بتداء سے آخر دنیا تک )کل پانچ جنگِ عظیم ہیں۔
جن میں سے دو تو ( اس امت سے پہلے )گذر چکیں ہیں اور تین اس امت میں ہوں گی ۔
(۱) ترک جنگ عظیم
(۲)رومیوں سے جنگ عظیم اور
(۳)دجال سے جنگ عظیم اور دجال والی
جنگ عظیم کے بعد کوئی جنگِ عظیم نہ ہوگی‘‘۔
[31]
افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمان اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے ایک ہونے والی حقیقت کے لئے خود کو تیار نہیں کررہے لیکن کفر اس کا اعلان واضح اور دوٹوک الفاظ میں کررہا ہے ۔یورپ اور امریکہ کے دانشور چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ Third World War کسی بھی وقت شروع ہونے والی ہے ۔اس کے برعکس آج ہمارے پڑھے لکھے اور خاص کر دیندارحضرات کہتے ہی کہ کفارکے ساتھ آج جہاد کا یعنی ’’قتال ‘‘ کا زمانہ نہیں رہا ۔اس کے علاوہ اگر کوئی شخص اس انتظار میں ہے کہ حضرت مہدی کے آنے کے بعد جب وہ جنگ عظیم کا اعلان کریں گے توتب اُ س کی تیاری کریں گے تو اُس کو جان لینا چاہیے کہ ایسا شخص انتظار ہی کرتارہے گا کیونکہ حضرت مہدی کا خروج ایک ایسے وقت ہوگا جب جنگ چھڑ چکی ہوگی ۔
جنگ عظیم میں مسلمانوں کا ہیڈ کوارٹر
جنگِ عظیم جس کو رسول اللہﷺنے ’’الملحمة العظمة‘‘اور’’الملحمة الکبریٰ‘‘ بھی کہا ہے ، اس وقت مسلمانوں کا مرکز کے حوالے سے فرمایا :
’’جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ (فیلڈہیڈ کواٹر)شام کے شہروں میں سب سے اچھے شہر دمشق کے قریب ’’الغوطہ ‘‘کے مقام پر ہوگا ‘‘۔
[32]
الغوطہ (Al Ghutah)شام کے دارالحکومت دمشق سے مشرق میں تقریباً ساڑھے آٹھ کلومیٹر ہے۔گو کہ اس وقت شام میں بھی کوئی اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہ حکومت نہیں ہے مگر انشاء اللہ جلد ہی وہاں اسلام کے شیدائیوں کا غلبہ ہوگا۔
جنگ عظیم کا احوال
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’قیامت سے پہلے یہ واقعہ ضرور ہوکر رہے گا کہ ’’اہل روم ‘‘اعماق یا دابق (جو کہ شام کے شہر حلب کے قریب واقع ہے )پہنچ جائیں گے ،ان کی طرف ایک لشکر ’’مدینہ ‘‘سے پیش قدمی کرے گا جو اس زمانہ کے بہترین لوگوں میں سے ہوگا ۔جب دونوں لشکر آمنے سامنے صف بستہ ہوجائیں گے تو رومی (مسلمانوں سے)سے کہیں گے تم ہمارے اور اُن لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤجو ہمارے لوگوں کو قید کرکے لائے ہیں،ہم انہی سے جنگ کریں گے۔مسلمان کہیں گے کہ نہیں اللہ کی قسم!ہم ہر گز تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے ،اس پر تم ان سے جنگ کرو گے ۔اب ایک تہائی (1/3)مسلمان تو بھاگ کھڑے ہوں گے جن کی اللہ کبھی توبہ قبول نہ کرے گا اور ایک تہائی مسلمان شہید ہوجائیں گے جو اللہ کے نزدیک افضل الشہداء ہوں گے ۔باقی ایک تہائی فتح حاصل کرلیں گے (لہٰذا اس معرکہ میں ثابت قدمی کے اجر میں)یہ آئندہ ہر قسم کے فتنے سے محفوظ ہوجائیں گے ۔اس کے بعد قسطنطنیہ کو فتح کریں گے اور اپنی تلواریں زیتون کے درخت پر لٹکا کر ابھی مال غنیمت تقسیم کررہے ہوں گے کہ شیطان ان میں چیخ کر یہ آواز لگائے گا کہ ’’مسیح دجال ‘‘تمہارے پیچھے تمہارے گھروں میں گھس گیا ہے ۔یہ سنتے ہیں یہ لشکر روانہ ہوجائے گا اوریہ خبر اگرچہ غلط ہوگی لیکن جب یہ لوگ شام پہنچیں گے تو واقعی دجال نکل آئے گا ۔ابھی مسلمان جنگ کی تیاری اور صفیں سیدھی کررہے ہوں گے کہ نماز فجر کی اقامت ہوجائے گی اور فوراً بعد ہی حضرت عیسیٰ ابن مریم ﷦نازل ہوجائیں گے اور مسلمانوں کے امیر (دیگر احادیث کے مطابق حضرت مہدی )کو ان کی(یعنی مسلمانوں کی )امامت کا حکم فرمائیں گے ۔اللہ کا دشمن (دجال )حضرت عیسیٰ ﷣ کوکو دیکھ کر گھلنے لگے گاجیسے نمک گھلتا ہے ،چنانچہ وہ اگر اس کو چھوڑ بھی دیتے تو وہ اسی طرح گھل کر ہلاک ہوجاتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کو انہی کے ہاتھوں قتل کرائے گا اور وہ لوگوں کو اس کا خون دکھلائیں گے جو ان کے نیزے میں لگ گیا ہوگا ‘‘۔
[33]
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل شہداء بحری جہاد کے شہداء اور اعماقِ انطاکیہ کے شہداء اور دجال کے خلاف لڑتے ہوئے مارے جانے والے شہداء ہیں‘‘۔
[34]
ان جنگوں کے شہداء کے بارے میں ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے :
’’چنانچہ وہ ایک تہائی جو اِس جنگ میں شہید ہوں گے ان کا ایک شہید ،شہدا ء بدر کے دس شہیدوں کے برابر ہوگا ،شہداء بدر کا ایک شہید ستّر کی سفارش کرے گا جبکہ ملاحم (ان خطرناک جنگوں)کا شہید سات سو کی شفاعت کرے گا‘‘۔
[35]
’’جو دجال کے یا اس کے لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوں گے ا ن کی قبریں تاریک اور گھٹا ٹوپ راتوں میں چمک رہی ہوں گی۔‘‘
[36]
وضاحت:مندرجہ بالا حدیث مذکور فضیلت جزوی ہے ورنہ شہداء بدر کا مقام تمام شہداء سے بڑھ کرہے۔
جنگ عظیم میں روم کے خلاف فدائی معرکے………
حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷛نے فرمایا :
’’قیامت سے پہلے پہلے ایسا ضرور ہوگا کہ نہ میراث تقسیم ہوگی نہ مالِ غنیمت کی خوشی ہوگی ۔(پھراس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے )فرمایا کہ شام کے مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے ایک زبردست دشمن جمع ہوکر آئے گا ۔ان سے جنگ کرنے کے لئے مسلمان بھی جمع ہوجائیں گے ۔راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ دشمن سے آپ کی مراد ’’روم‘‘والے ہیں تو عبد اللہ بن مسعود ﷛نے فرمایا ’’ہاں ‘‘۔چنانچہ وہا ں زبردست جنگ ہوگی ۔مسلمان اپنی فوج سے ایسی جماعت کا انتخاب کرکے دشمن کے مقابلے میں بھیجیں گے جس سے یہ طے کریں گے کہ یا مر جائیں گے یا فتح یاب ہوں گے۔ چناچہ دونوں میں لڑائی ہوگی ۔حتیٰ کہ رات دونوں میں حائل ہوجائے گی اور دونوں فریق اپنی اپنی پناہ گاہوں میں چلے جائیں گے ۔ نہ ان کو غلبہ ہوگا نہ وہ غالب آئیں گے اور وہ فدائی دستہ (جو آج لڑا تھا )شہید ہوجائے گا ۔پھر مسلمان (دوبارہ)اپنی فوج میں سے ایسی جماعت کا انتخاب کرکے دشمن کےمقابلے میں بھیجیں گے جس سے یہ طے کریں گے کہ مرجائیں گے یا فتح یا ب ہوں گے۔چنانچہ جنگ ہوگی حتیٰ کہ رات دونوں کے درمیان حائل ہوجائے گی اور یہ دونوں اپنی اپنی پناہ گاہوں کی طرف چلے آئیں گے نہ یہ غالب ہوں گے اور نہ وہ،اور اس دن بھی لڑنے والے شہید ہوجائیں گے ۔پھر مسلمان (تیسری بار )اپنی فوج سے ایسی جماعت کا انتخاب کرکے دشمن کے مقابلے کے لئے بھیجیں گے جس سے یہ طے کریں گے کہ یا مرجائیں گے یا فتح یاب ہوں گے چنانچہ شام تک جنگ ہوتی رہے گی اور یہ دونوں پھر اپنی اپنی پناہ گاہ کی طرف چلے جائیں گے ،نہ یہ غالب ہوں گے نہ وہ ،اور اس دن بھی لڑنے والے شہیدہوجائیں گے۔چوتھے روز بچے کچھے مسلمان بھی جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔اللہ تعالیٰ کافروں کو شکست دے گا ۔اس روز ایسی زبردست جنگ ہوگی کہ اس سے پہلے ایسی جنگ نہ دیکھی گئی ہوگی ۔اس جنگ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میدان جنگ میں مرنے والے کی لاشوں کے اوپر سے پرندہ گزرنا چاہے گا (مگر لاشوں کی اتنی کثرت ہوگی وہ تھک ہار کراترنے کی جگہ نہ ملنے کے باعث)مر کر گر پڑے گا ۔جنگ میں شریک ہونے والے لو گ اپنے کنبے کے آدمیوں کو شمار کریں گے تو سو میں سے ایک آدمی جنگ سے بچا ہوگا۔پھر فرمایا اس حال میں کیامالِ غنیمت لے کر دل خوش ہوگا اور کیا ترکہ (مرنے والا جو چھوڑ کر جائے)بانٹنے کا دل چاہے گا ؟پھر فرمایا اسی دوران ایک ایسی جنگ کی خبر سنیں گے جو پہلی جنگ سے زیادہ سخت ہوگی ۔دوسری خبر یہ سنیں گے کہ دجال نکل آیا ہے جو (ان کے پیچھے )ان کے بچوں کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہتا ہے ۔یہ سن کر مسلمان مال ودولت پھینک دیں گے اور اپنے گھروں کی خبر گیری (اور دجال کے بارے میں پتہ کرنے)کے لئے اپنے آگے دس سوار بھیجیں گے تا کہ دجال کی صحیح خبر لائیں۔آپﷺنے فرمایا کہ ’’میں اُن سواروں کو اور اُن کے والدین کے نام اور گھوڑوں کے رنگ پہچانتا ہوں‘‘۔
[37]
نوٹ:حضرت حذیفہ ﷛سے روایت کردہ ایک مفصل حدیث میں یہ ذکر ہے کہ ’’جنگ اعماق ‘‘میں اللہ تعالیٰ کافروں پر فرات کے ساحل سے ’’خراسانی‘‘ کمانوں کے ذریعے تیر برسائے گا ۔‘‘
[38]
امریکہ اور یورپ میں رہنے والے مسلمانوں سے اپیل
یہ وہ حالات ہیں جن سے اس دنیاکا اور خاص کر مسلمانوں کا سابقہ پیش آنے ولاہے ۔ اس آنے والے طوفان کی وسعت اور ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ مغرب اور امریکہ میں آسودہ حال مسلمان بھی اس کے فتنہ انگیزیوں سے بچ نہ سکیں گے بلکہ حالات کی سنگینی بتلارہی ہے کہ مسلمانوں کواپنے مال اور جان کی حفاظت کرنا اور زند گی گزارنا مشکل ہوجائے گا۔اس حوالے سے جامعۃ الازہر کے پروفیسرامین محمد جما ل الدین9/11کے بعد اپنی کتاب میں ’’امریکہ اور یورپ میں رہنے والے مسلمانو ں سے اپیل ‘‘کے عنوان سے ایک فصل باندھتے ہوئے کہتے ہیں :
’’اپنے ملک اور وطن کی طرف چلے آؤ۔اپنا بستر بوریا باندھ لو ، ارادوں کو پختہ کرلو۔لوٹتے ہوئے ،توبہ کرتے ہوئے اور اپنے رب کی حمد و ثناء کرتے ہوئے کوچ کرجاؤ ۔تم وہاں (امریکہ اور یورپ) پُر امن اور خوشحال زندگی گزاررہے تھے ،آج وہاں خوف و ایذا کی فضاہے ،اور کل جو رہ جائے گا قتل و غارت گری کا شکار ہوجائے گا ۔ہاں!قتل وفنا۔اسی با ت سے تمہارے محبوب و معصوم نبی ﷺنے آگاہ کیا ہے اور ہم اس خطرناک اور اہم بیان میں تبلیغ کا فرض اداکررہے ہیں ۔امام بخاری ﷫کے شیخ نعیم بن حماد نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷛سے اور انہو ں نے نبی کریمﷺسے روایت کی ہے کہ آپﷺنے فرمایا :’’جو عرب باقی رہ جائیں گے رومی اُن پر لپک پڑیں گے اور اُن کو قتل کردیں گے ،یہاں تک کہ’’روم‘‘کی سرزمین میں کوئی عرب مَرد ،عورت یا بچہ قتل ہوئے بغیر باقی نہ بچے گا۔‘‘
[39]
محبوب نبی ﷺکے اس قول کی طرف دھیان دو :’’نہ عربی مَرد ، نہ عربی عورت اور نہ عربی بچہ‘‘۔
آپ ﷺنے مسلم اور مسلمہ نہیں کہا۔ آپﷺنے صرف عربی اور عربیہ کہا ہے ،کیونکہ رومی ان پر لپکیں گے جس کا عربی نا ک نقشہ ہوگا ،خواہ وہ عیسائی کیوں نہ ہواور نماز بھی نہ پڑھتا ہو ،وہ بغیر تمیز کے ہر ایک کو قتل کردیں گے۔سلسلہ کلام نفی میں ہے اور اسم نکرہ استعمال ہوا ہے جو عمومیت کا فائدہ دیتا ہے ، یعنی ان ممالک میں جو بھی رہ گیا اور اپنے وطن نہ لوٹا توبالکل نہ بچ پائے گا ۔‘‘
اس بات کا ہم نے عملی مظاہرہ برطانیہ میں ایک ائیر پورٹ پر مبینہ حملے کے بعد دیکھنے میں آیا کی لندن کی دیواروں پر یہ نعرے لکھے گئے کہ ’’سب پاکستانیوں کو ماردو‘‘سو اے عقل والوں !عبرت حاصل کرو۔
مجاہدین کے نعروں سے روم(ویٹی کن Vatican City)کا فتح ہونا
’’ایک دن نبی کریم ﷺنے (صحابہ کرام ﷡سے )پوچھا کہ کیا تم نے کسی ایسے شہر کے بارے میں سنا ہے جس کے ایک طرف سمندر اور دوسری طرف جنگل ہے ؟صحابہ ﷡نے عرض کیا ہاں یارسول اللہﷺ!آپ ﷺنے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں آئے گی جب تک کہ حضرت اسحاق ﷣کی اولاد میں سے ستر ہزار آدمی اس شہر کے لوگوں سے جنگ نہیں کرلیں گے ۔چنانچہ حضرت اسحاق کی اولاد میں سے وہ لوگ (جنگ ارادے سے )اس شہر میں آئیں گے ،تو اس شہر کے (نواحی علاقے میں )پڑاؤ ڈالیں گے ۔(اور شہر کا محاصرہ کرلیں گے )لیکن وہ لوگ شہروالوں سے ہتھیاروں کے ذریعے جنگ نہیں کریں گے اور نہ ان کی طرف تیر پھینکیں گے بلکہ لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبرکا نعرہ بلند کریں گے اور شہر کی دو طرف کی دیواروں میں سے ایک دیوار گر پڑے گی۔(راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ﷛نے یہاں سمندر کی جانب والی دیوار کہا تھا)۔اس کے بعد رسول ﷺنے یہ ارشاد فرمایا کہ پھر وہ لوگ دوسری مرتبہ لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر لگائیں گے تو شہر کی دوسری جانب والی دیوار بھی گر جائے گی ۔اس کے بعد وہ لوگ تیسری مرتبہ لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر کا نعرہ بلند کریں گے تو ان کے لئے شہر میں داخل ہانے کا راستہ کشادہ ہوجائے گا اور وہ شہر میں داخل ہوجائیں گے ۔پھر وہ مال غنیمت جمع کریں گے اور اس مالِ غنیمت کو آپس میں تقسیم کررہے ہوں گے کہ اچانک یہ آواز آئے گی کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ دجال نکل آیا ہے ،چنانچہ وہ سب کچھ چھوڑ کر (دجال سے لڑنے کے لئے )واپس لوٹ آئیں گے‘‘۔
[40]
یہاں حدیث میں جس شہر کا تذکرہ ہے اس سے مراد روم میں واقع ’’ویٹی کن ‘‘شہر ہے اور حضرت اسحاق علیہ السلا م کی جس اولاد کا تذکرہ اوپر حدیث میں آیا ہے جو کہ اللہ کے حکم سے حلقہ بگوش اسلام ہوجائی گی۔حدیث میں شہر کے دروازوں اور دیواروں کا ذکر ہے تو دیواروں سے مراد حقیقی دیوار بھی ہوسکتی ہے اور اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ دیوار سے مراد اس شہر کا دفاعی نظام ہو۔اس طرح دروازوں سے مراد اس شہر میں داخل ہونے والے راستے بھی ہوسکتے ہیں ۔
حضرت مہدی کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگیں
حضرت مہدی کے دو رمیں لڑی جانے والی جنگوں میں ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حضر ت مہدی کے وقت جنگ عظیم ہوگی ،یعنی حق اور باطل کا آخری معرکہ ہوگا جس میں دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹے گا جب تک کہ اس کی قوت ختم نہ ہوجائے ۔لہٰذا یہ جنگ عظیم کئی بڑی جنگوں پر مشتمل ہوگی ۔نیز صر ف حضرت مہدی کے علاقے تک محدود نہیں ہوگی بلکہ یہ جنگ بیک وقت کئی محاذوں پر چل رہی ہوگی ۔جن میں ایک محاذ تو وہ ہوگا جس پر خود حضرت مہدی کمانڈ کررہے ہوں گے ۔دوسرا محاذ فلسطین ہوگا اور تیسرا عراق کا ہوگا ،جس کو دریائے فرات والا محاذ کہا گیا ہے ۔اس کے علاوہ ایک اور بڑا محاذ ہندوستا ن کا ہوگا ۔اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹے محاذ ہوسکتے ہیں۔البتہ ان تمام محاذوں مرکزی کمانڈ دمشق کے قریب ’’الغوطہ‘‘ کا مقام پر حضرت مہدی کے ہاتھ میں ہوگی اور ہر محاذ کے کمانڈر سے حضرت مہدی کا رابطہ ہوگا۔
عسکری امور پر نظر رکھنے والے اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ آج بھی مجاہدین اسی طرح دشمن کے ساتھ جنگ کررہے ہیں ۔مرکزی کمانڈ کہیں ایک جگہ ہے اور ان کے تحت جگہ جگہ مجاہدین دشمن پر یلغار کررہے ہیں ۔لہٰذا ن باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے آنے والے احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔نیز یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان جنگوں کو بیان کرتے وقت نبی کریم ﷺنے کبھی تو پوری کی پوری تاریخ الفاظ میں بیان کردی اور کہیں تھوڑی تفصیل اور کبھی بہت تفصیل بیان کی ہے ۔اس لئے بعض دفعہ واقعات کی ترتیب میں تضاد (Contradiction) محسوس ہوتاہے حالانکہ حقیقت میں تضاد نہیں۔
کیا ان جنگوں میں اسرائیل برباد ہوجائے گا؟
یہا ں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دجال کی آمد سے قبل ہونے والی جنگوں میں اس خطہ میں متحدہ دشمنوں کو مکمل طور پر شکست ہوجائے گی ؟اگر مکمل شکست ہوگی تو اسرائیل قائم رہے گا یا ختم ہوجائے گا ؟جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو احادیث ِ مبارکہ میں غور کرنے کے بعدیہ بات زیادہ مناسب لگتی ہے کہ اس خطہ میں موجود دشمن مکمل طور پر شکست کھاجائے گا ،کیو نکہ صحیح احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت مہدی کے دور میں مکمل امن و امان اور خوشحالی ہوگی اور یہ اس صورت میں ہی ممکن ہے کہ جب دشمن ان علاقو ں سے بھاگ جائے ۔نیز فتح قسطنطنیہ اور فتح روم کے بعد والی حدیثیں بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ عرب کے خطے میں موجود دشمن شکست کھاجائے گا۔اب رہا اسرائیل کا مسئلہ تو یہ واضح ہے کہ جب کافروں کی متحدہ فوجوں کا خوفناک جنگوں کے بعد مار پڑے گی تو اس میں اسرائیل کی قوت بھی ختم ہوجائے گی ۔دجال کے بارے میں آتاہے کہ وہ کسی بات پر غصہ میں آکرنکلے گا ۔حضرت حفصہ﷝نبی کریمﷺسے رویت کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :
’’دجال کسی بات پر غصہ ہوکر نکلے گا ‘‘
[41]
ممکن ہے جب کافروں واضح شکست ہوجائے تب دجال غصہ کی حالت میں نکلے اور شکست خوردہ کفریہ طاقتیں دوبارہ اس کے ساتھ اکٹھا ہوجائیں گی۔یہاں ہم خود یہود کی کتابوں سے مختصر حوالے پیش کررہے ہیں جس سے صاف پتہ چلتاہے یہودیوں کی ناپاکی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسرائیل کو تباہ برباد کردے گا۔اگرچہ یہود ان واضح آیا ت میں تاویلیں کرتے ہیں ۔اسرائیل میں واپسی کے جس دن کا یہود ی انتظار کررہے ہیں ۔اس دن کے بارے میں خود ان کی کتابوں میں عجیب و غریب نقشہ کھینچا ہے ۔لیکن یہودی اپنی فطری چالبازی کامظاہرہ کرتے ہوئے ان کو غلط معنی پہناکر لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں،لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ توراتی صحیفوں میں ان کی بدکرداریوں اور ظلم و ستم کا تذکرہ یوں آتاہے:
’’اے یعقوب کے سردارواور بنی اسرائیل کے حاکموں سنو!کیا مناسب نہیں کہ تم عدالت سے واقف ہو؟تم نیکی سے عداوت اور بدی سے محبت رکھتے ہواور لوگوں کی کھال اتارتے اور ان کی ہڈیوں پر سے گوشت نوچتے ہواور میرے لوگوں کا گوشت کھاتے ہواور ان کی کھال اتارتے اور ان کی ہڈیوں کو توڑتے اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہو گویا وہ ہانڈی اور دیگ کے لئے گوشت ہیں۔‘‘
[42]
’’تم اے جادوگرنی کے بیٹو!اے زانی اور فاحشہ کے بچو!ادھر آگے آؤ۔تم کن(نیک )لوگوں پر ٹھٹھا مارتے ہو؟تم کس پر منہ پھاڑتے اور زبان نکالتے ہو؟کیا تم باغی اولاد اور دغا باز نسل نہیں ہو،جو بتوں کے ساتھ ہر ایک درخت کے نیچے اپنے آپ کو برانگیختہ کرتے اور وادیوں میں چٹانوں کے شگافوں کے نیچے بچوں کو ذبح کرتے ہو؟
[43]
ان کی کتاب میں ہی ان کے انجام کے بارے میں ’’ایزا خیل ‘‘میں آتاہے:
’’پھر اللہ کہتا ہے کہ کیونکہ تم لوگ میرے نزدیک کھوٹے سکے ثابت ہوئے ہو ، اس لئے تمہیں یروشلم میں جمع کروں گا جیسے لوگ سونا ،چاندی ،لوہا اور کانسی کو آگ میں ڈالنے کے لئے جمع کرتے ہیں ،اسی طرح میں تمہیں غصہ اور غضب کے درمیان جمع کروں گا ،اور پھر تمہیں پگھلادوں گا،میں تم پر اپنے غضب کی آگ بھڑکا دوں گا او ر تم اس میں پگھل جاؤگے پھر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ تمہارے رب نے تمہارے اوپر غضب نازل کیا ہے ۔‘‘
[44]
’’ان کی تباہی اور سزا کے اعلان کے بعد ،جس کے بعد ان کی لاشیں کھلے آسمان تلے ڈالدی جائیں گی ،جہاں گدھ اور کیڑے مکوڑے ان کو کھالیں گے حتیٰ کہ ان کے بادشاہوں اور لیڈروں کی ہڈیا ں بھی گل جائیں گی اور زمین پر کوڑے کرکٹ کی طرح پھیل جائے گی۔‘‘
[45]
یہودی اپنے یروشلم میں جمع ہونے کو اپنی آزادی اور فتح کا دن کہتے ہیں ۔حالانکہ ان کی کتابوں کے مطابق یہ دن ان کی تباہی اور بربادی کا دن ہوگا۔ان کی کتاب ’’زیفے نیاہ ‘‘(Zephaniah) میں ہے:
’’ تم لوگ خود کو اکٹھا کرو ۔ہاں ، اکٹھا کرو خود کو تم لوگ اے اللہ کے ناپسنددیدہ انسانوں! قبل اس کے کہ اللہ کا فیصلہ آجائے یا دن بھوسے کی طرح گزرجائے یا اللہ کا غضب تم پر نازل ہوجائے یا قبل اس کے کہ اللہ کے غضب کا دن تمہارے سامنے آجائے۔‘‘
اس ناپاک قوم کے بارے میں آخری اقتباس ’’ایزاخیل سے پیش کیاجارہا ہے تاکہ یہودیوں کی غلامی کرنے والوں کو پتہ چلے کہ ان کے آقا کے آقا کتنی ’’معزز اور مہذب ‘‘قوم ہیں۔ایزا خیل میں ہیں:
’’ تم نے میری مقدس چیزوں کو خراب اور میرے بہت سے احکامات کو روندا ہے ۔تیرے اندر ہی وہ لوگ ہیں جو خون بہانے کے لئے بہانہ ڈھونڈتے ہیں ۔تیرے اندر ہی رہ کر وہ قحبہ خانے (Pub)چلاتے ہیں ۔تیرے اندر ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے باپوں کی شرم وحیاء والی جگہوں کو کھولتے ہیں۔تیرے اندر ہیں کے لوگ حائضہ عورتوں سے لطف اٹھاتے ہیں ۔کوئی پڑوسی کی بیوی سے زنا کرتاہے ،کوئی اس کی بہن سے بدکاری کرتاہے ،کوئی دوسرا اس کی سالی سے ملوث ہوتاہے اور کوئی اپنے باپ کی بیٹی (یعنی)اپنی بہن کے ساتھ زنا کرتاہے ۔وہ سود لیتے ہیں اور پھلتے پھولتے ہیں ۔ان کے مذہبی رہنماؤں نے میری ہدایات پر ملمع کاری کی ہے۔وہ اس عمل کے ساتھ لوگوں کو غلط ہدایا ت جاری کرتے ہیں اور ان کے لئے میرے نام پر جھوٹ گھڑ تے ہیں ۔وہ کہتے ہیں یہی خدا کا فرمان ہیں حالانکہ اللہ نے کبھی ایسا فرمان جاری نہیں کیا۔‘‘
[46]
نوٹ:اس موضوع کو مزید سمجھنے کیلئے کتاب ’’یوم الغضب‘‘از شیخ سفر الحوالی کا مطالعہ مفید رہے گا۔
رسول اللہ کی پیشن گوئیاں اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں
شاہِ مصر کے خواب کی تعبیر جب حضرت یوسف علیہ السلام نے بیان فرمائی کہ تم پر سات سالہ قحط آئے گا تو اس قحط سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کے لئے بھی فرمادیا ۔چنانچہ شاہِ مصر نے اس پر عمل کرکے اپنی رعایا کو تباہی سے بچالیا۔اس امت کے امام محمد عربیﷺچودہ سو سال پہلے خبر دے رہے ہیں کہ دیکھو فلاں فلاں مسلم علاقوں پر ایسے حالات آئیں گے لہٰذاپہلے ہی سے اس کے بارے میں منصوبہ بندی کرکرکے رکھنا لیکن مسلمان اپنے پیارے نبی کی باتوں کو نہیں مانتے ۔ بلکہ غفلت کی دنیا کے باسی تو اس کو تقدیر کا لکھا کہہ کراپنی نااہلی کا کھلا مظاہرہ کرتے ہیں ۔حلانکہ اگر آج مغربی میڈیا یہ اعلان کردے کہ فلاں شہر میں سمندری طوفان آنے والا ہے یا فلاں علاقہ تباہ ہانے والا ہے لہٰذا چوبیس گھنٹے کے اندر شہر خالی کردیا جائے تو آپ دیکھیں گے کی شہر میں ان کا ایک کتا بھی نظر نہیں آئے گااور ا س وقت اس طرح موت کے خوف سے بھاگیں گے جیسے لکھی ہوئی موت کو بھی ٹال سکتے ہوں لیکن کیا وجہ ہے کہ اللہ کے رسول کی احادیث سننے کے بعد بھی مسلمانوں میں کوئی بیداری نہیں ہورہی ؟



[1] سنن ابی داؤد۳۷۳۹۔

[2] دیکھئے ’’بیٹس ‘ ‘ کی کتاب ص:214 بحوالہ ’’یوم الغضب ‘‘از شیخ سفر الحوالی‘‘فصل ھشتم۔

[3] دیکھئے ’’بیٹس ‘ ‘ کی کتاب ص:240 بحوالہ ’’یوم الغضب ‘‘ از شیخ سفر الحوالی‘‘فصل ھشتم۔

[4] یرمیاہ 7-6:4۔


[5] یسعیاہ ۵:۲۶ تا ۳۰۔

[6] یسعیاہ17-16,14-12,8:30۔

[7] مسند احمد بن حنبل کتاب الجھاد ،نسائی۔

[8] ’’الفتن ‘‘از نعیم بن حمادرحمہ اللّٰہ،باب غزوة الھند:۱/۴۱۰،حدیث:۱۲۰۱،۱۲۳۹۔

[9] ’’الفتن ‘‘از نعیم بن حماد رحمہ اللّٰہ،باب غزوة الھند:۱/۴۰۹۔۴۱۰،حدیث:۱۲۳۶،۱۲۳۸واسنادہ ضعیف ومسند اسحق بن راھویہ،قسم اول۔سوم:۱/۴۶۲حدیث:۵۳۷۔

[10] مسندا حمد :۲/۳۶۹،مسندابوہریرہ ؓ:۸۴۶۷۔البدایة والنھایةالابن کثیر ،الاخبار عن غزوہ الھند:۶/۲۲۳۔

[11] ’’السنن المجتبیٰ‘‘ و ’’السنن الکبریٰ‘‘از امام بھیقی و امام نسائی۔

[12] الفتن نعیم بن حماد ج:۲ص:۶۷۹۔

[13] سنن ابی داؤد۔

[14] صحیح بخاری ج:۶ص:۲۶۰۵۔سنن ترمذی ج:۴ص:۶۹۸۔عن ابی ھریرة ؓ۔

[15] صحیح مسلم ج:۴ص:۲۲۱۹۔عن ابی ھریرةؓ۔

[16] ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین وو افقہ الذھبی (مستدر ک حاکم ج:۴ص: ۵۱۰۔سنن ابن ماجہ ج:۲ص:۱۳۶۷۔

[17] بخاری شریف ۶۶۸۱،مسند احمد۵۹۸۷،عن عبد اللّٰہ بن عمرؓ۔

[18] الفتن نعیم بن حماد ج:۲ص:۴۶۹، واسنادہ فیہ کلام۔

[19] الفتن نعیم بن حماد:۲۰۵۔

[20] مصنف ابن ابی شیبہ ج:۷ص:۵۱۴ واسنادہ فیہ کلام۔

[21] المستدر ک علی الصحیحین ج:۴ص:۵۴۹ واسنادہ فیہ کلام۔

[22] المعجم الکبیر ج:۱۸ص:۳۳۲ واسنادہ فیہ کلام۔

[23] الفتن نعیم بن حماد کی یہ روایت ضعیف ہے مگرالفتن ہی میں دوسری سند سے روایت بھی آئی ہے جس میں کوئی نقص نہیں۔

[24] حدیث ِصحیح ۔طبرانی ،بزار ،ابو نعیم۔

[25] حدیثِ حسن ابوداؤد ،مستدرکِ حاکم۔

[26] جامع ترمذی۔

[27] عن عبد اﷲبن مسعودؓ۔کتاب الفتن ،باب اجتماع الناس بمکة و بیتھم للمھدی،ص۲۱۴از امام ابو عبد اللّٰہ نعیم بن حماد ۔

[28] بخاری و مسلم۔

[29] مسلم ،کتاب الفتن۔

[30] صحیح مسلم۔

[31] ’’الفتن ‘‘نعیم بن حماد ،ج:۲ص:۵۴۸۔السنن الواردة فی الفتن واسنادہ صحیح۔

[32] سنن ابو داؤد ج :۴ص:۱۱۱،مستدرک حاکم ج:۴ص:۵۳۲ ،عن ابی دردا ؓواسنادہ صحیح۔

[33] صحیح مسلم ج:۴ص:۲۲۲۱/ابن حبان ج:۱۵ص:۲۲۴۔عن ابی ھریرةؓ۔

[34] الفتن نعیم بن حماد ج:۲ص:۴۹۳ واسنادہ فیہ کلام۔

[35] الفتن نعیم بن حماد ج:۱ص۴۱۹۔

[36] الفتن نعیم بن حماد۔

[37] صحیح مسلم ج:۴ص:۲۲۲۳۔مستدر ک ج:۴ص۵۲۳۔مسند ابی یعلی ج:۹ص:۲۵۹۔

[38] السنن الواردةفی الفتن ج:۵ص:۱۱۱۰۔

[39] کتاب الفتن ،باب الاعماق وفتح القسطنطنیة،ص۲۶۰۔

[40] مسلم ج:۴ص:۲۲۳۸۔ عن ابی ھریرةؓ۔

[41] مسند احمد ج:۶ص:۲۸۳۔

[42] میکاہ کا صحیفہ،باب ۲آیت ۱تا۵ اور ۹تا ۱۰۔

[43] یسعیاہ:۵۷:۳۔۶۔

[44] 22:19-22

[45] 8:3


[46] ایزاخیل 22:1-9بحوالہ کتاب ’’یوم الغضب‘‘از ڈاکٹر سفر الحوالی۔​
 

ibneislam

Banned

خلافت کے دوبارہ قیام میں وسطِ ایشیائی ریاستوں کی فضیلت
ہلال بن عمرو نے فرمایا ،میں نے حضرت علی ﷛کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
ایک شخص ماوراء النہر سے چلے گا ،اس کو حارث حرّاث (کسان )کہاجاتا ہوگا۔اس کے لشکر کے اگلے حصہ (مقدمۃ الجیش)پر مامور شخص کا نام منصور ہوگا۔جو آل محمدﷺکیلئے (خلافت کے مسئلہ میں )راہ ہموار کرے گا یا مضبوط کرے گا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺکوقریش نے ٹھکانا دیا تھا ۔سو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اس لشکر کی مدد وتائید کرے ،یا یہ فرمایا کہ (ہر مسلمان پر واجب ہوگا کہ وہ )اس شخص کی اطاعت کرے۔
[1]
ماوراء النہر دریا ئے آموکے اس پار وسطِ ایشائی (Central Asia) ریاستوں کے علاقوں کہا جاتا ہے۔جن میں ازبکستان،تاجکستان،ترکمانستان،آذربائیجان ،قازقستان اور چیچنیاوغیرہ شامل ہیں یا تو یہ لشکر چیچنیا و ازبکستان وغیرہ ہی سے حضرت مہدی کی حمایت کے لئے جائے گا یا پھر حارث نامی مجاہد اس لشکر کے ساتھ ہوں گے جس کا ذکر خراسان والی حدیث میں آیا ہے۔واللہ اعلم
واضح رہے کہ اس وقت خراسان(افغانستان)میں دجالی قوتوں سے برسرپکار مجاہدین میں بڑی تعداد ازبک مجاہدین کی بھی ہے جنہوں نے افغانستان میں اب تک امریکہ کے خلاف ہونے والی کاروائیوں میں ایسی ہمت وشجاعت کا مظاہرہ کیا ہے کہ عرب ساتھی بھی ان کی ہمت و بہادری کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔نیز طالبان کی پسپائی کے وقت تک تمام مہمان مجاہدین کی قیادت بھی امیر المومنین (حفظہ اللہ )نے ازبک مجاہدین ہی کو سونپ رکھی تھی ۔یہ ابھی امکان ہے کہ افغانستان ہی سے یہ مجاہدین اس لشکر کی قیادت کریں۔شاید یہی وجہ ہے کہ دجالی میڈیا پر ان کوسب سے زیادہ طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔بہرحال اللہ نے اس قوم کو بہت نواز اہے ۔علامہ ابو الحسن علی ندوی﷫نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ سویت یونین کی ستر سالہ بدترین غلامی کے باوجود اپنا ایمان بچانااس قوم کا ہی طرہ امتیاز ہے ورنہ کوئی اور قوم ہوتی شاید اس غلامی میں اپنا ایمان نہ بچاپاتی۔
اہل کتاب کی کتابوں میں اس پاکیزہ لشکر کی بشارت
مشہورسعودی عالم دین شیخ ڈاکٹر سفر بن عبد الرحمان الحوالی جن کانام عالم اسلام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور یہود و نصاریٰ کی سازشوں سے آگاہ کرنے کے حوالے سے خاص کر عالم عرب میں جانا جاتا ہے اور جس کی پاداش میں وہ پس زنداں تقریبا 15سال سے زندگی گزاررہے ہیں ۔وہ اپنی کتاب یوم الغضبمیں حضرت دانیال علیہ السلام کے مکاشفے اور رویاءکی تفسیر کے حوالے سے اہل کتاب کے اقوال نقل کئے ہیں ۔اس حوالے سے مشہور مفسر بیٹس(Bates)کی کچھ تشریحات حضرت دانیال ﷣کے مکاشفوں کے حوالے سے نقل کئے ہیں جو ہمیں غور وفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔یاد رہے کہ بیٹس اسرائیل کے قیام سے بہت عرصے قبل ہی فو ت ہوگیا تھا ۔
بیٹس(Bates)ایک مکاشفے کی تشریح کرتے ہوئے کہتاہے :
رومی حکمران اور بے دین یہودیوں کے درمیان یہ اتحادشمال کے لشکر کو حملہ آور ہونے سے روک نہ سکے گا ،جو کہ اس مشرکانہ عبادت کے سبب جو اس وقت یروشلم(اسرائیل کا دارالحکومت)میں ہورہی ہوگی ،ان لوگوں کو ایک زور آور سیلاب کی طرح آلے گااور اس زمین پر تباہی لے آئے گا۔
[2]
مشرق کے حکمران اپنی فوجیں جمع کریں گے تاکہ درندے کی قلمرو کی سرحدوں پر حملہ آور ہوں ۔دوسری طرف درندہ مغرب کے بادشاہوں کے ساتھ مل کر اپنی فوجیں جمع کریگااورہرمجدونArmageddonکے منحوس معرکہ کی طرف بڑھے گا۔
[3]
بیٹس کی تشریح کے مطابق یہ درندہیروشلممیں ہوگا ۔اسی طرح عربی بائبل کے ناشریوایلکے صحیفے کے اندر اس لشکر کی کیفیت یو ں بیان کیا گیا:
اس سے (اسرائیل سے)جنگ کے لئے اپنے آپ کو مخصوص کرو،اٹھو دوپہر کو چڑھ چلیں ،ہم پر افسوس کیونکہ دن ڈھلتا جاتا ہے اور شام کا سایہ بڑھتا جاتاہے ،اٹھو رات ہی کو چڑھ چلیں اور اس کے محلات ڈھادیں کیونکہ رب الافواج یو ں فرماتا ہے کہ درخت کاٹ ڈالو(ہوسکتاہے یہ غرقد کے درخت کی طرف اشارہ ہو۔راقم)اور یروشلم کے مقابل دمدمہ باندھو،یہ شہر سزا کا سزاوار ہے ،اس میں ظلم ہی ظلم ہے۔ جس طرح پانی چشمے سے پھوٹ نکلتاہے اسی طرح شرارت اس سے جاری ہے ۔ظلم اور ستم کی صدا اس میں سنی جاتی ہے ۔ہردم میرے سامنے دکھ درد اور زخم ہیں ۔دیکھ!شمالی ملک سے ایک گروہ آتا ہے اور انتہائی زمین سے ایک عظیم قوم برانگیختہ کی جائے گی
[4]
اس لشکر کی مزید صفات یوں بیان کی گئی:
اور وہ(خدا)قوموں کے لئے دور سے ایک جھنڈا کھڑا کرے گا اور ان کو زمین کی انتہا سے سسکار کر بلائے گا اور دیکھ وہ دوڑ ے چلے آئیں گے ،نہ کوئی اُن میں تھکے گا نہ پھسلے گا ،نہ کوئی اونگھے گا نہ سوئے گا ،نہ اُن کا کمر بند کھلے گا اور انہ اُ ن کی جوتیوں کاتسمہ ٹوٹے گا ۔ان کے تیر تیز ہیں اور ان کی سب کمانیں کشیدہ ہوں گی۔ان کے گھوڑوں کے سم چقماق اور ان کی گاڑیاں گرد باد کی مانند ہوں گی۔وہ شیرنی کی مانند گرجیں گے ۔ہاں وہ جوان شیروں کی طرح دھاڑیں گے ،وہ غراکر شکار پکڑیں گے اور اسے بے روک ٹوک لے جائیں گے اور کوئی بچانے والا نہ ہوگا ۔اس روز وہ ان پر ایسا شور مچا ئیں گے جیسا سمندر کا شور ہوتا ہے (اس انجام کے بعد )اگر کوئی کوئی اس ملک (یعنی اسرائیل )پر نظر کرے تو بس اس میں اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی اس کے بادلوں سے تاریک ہوجاتی ہے۔
[5]
اُ ن کی مزید کیفیت یوں بیان کی گئی :
پس تمہارا ( یعنی اسرائیلیوں کا)پیچھا کرنے والے تیز رفتار ہوں گے ۔ایک کی جھڑ کی سے تمہارے ایک ہزار بھاگیں گے۔پانچ کی جھڑکی سے تم ایسے بھاگوں گے کہ تم اس علامت کی مانندجو پہاڑ کی چوٹی پر اور اس نشان کی مانند جو کوہ پر نصب کیا گیا ہو رہ جاؤگے۔
[6]
آخر میں Bates اس جنگ کا نتیجہ بھی بیان کرتاہے:
کم ہی کبھی درندے اور اس کے مدد گاروں کے خواب و خیال میں آیا ہوگا کہ میدان جنگ سے ان کو قیدی بناکر اس انجام کی طرف لے جایا جائے گا جس کی طرف وہ بھاگ بھاگ کر جارہے تھے اوریہ کہ ان دونوں کو ابدی آتش کی جھیل میں عذاب سہنے کو زندہ ڈال دیا جائے گا،(آگے کے الفاظ بھی قابل غورہیں)اور وہ قدوسی(یعنی پاکیزہ لشکر)جو پریشانیوں میں مبتلا پہاڑوں اور غاروں میں چھپتے رہے ،خود ان قدوسیوں نے بھی کم ہی کبھی سوچاہوگا کہ آخر کار وہ بھی کسی دن سر اٹھائیں گے!
غور کیجئے اور پھر غور کیجئے کہ آج کون ہے جو جدید تہذیب (ModernCivilization)کے علمبردار ہیں اور اُن کا دعویٰ ہے کہ "We are the Soul Supreme Power on the earth"اور جن کا یہ کہنا ہے کہ ہم ایک بد مست ہاتھی کی طرح ہیں کہ ہمارے سامنے جو بھی آئے گا وہ ہمارے پیروں تلے کچلا جائے گا۔اور دوسری طرف کو ن ہے جودنیاوی لذات کو قربان کرکے، تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرتے ہوئے پہاڑوں اور غاروں میں زندگی گزاررہے ہیں ؟فَاعْتَبِرُوْا یٰآُولِی الْاَبْصَارِپس اے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو۔
نوٹ: اس حوالے سے مزید مطالعہ کیجئے یوم الغضباز ڈاکٹر سفر الحوالی۔
غزوہ ٔ ہندوستان کی فضیلت
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
میری امت کے دولشکروں پر اللہ نے جہنم کی آگ حرام قرار دی ہے ۔ایک وہ لشکر جوہندوستان پر حملہ کرے گااوردوسرا جوعیسیٰ ابن مریم ﷦کا ساتھ دے گا
[7]
میری امت کے کچھ لوگ ہند وستان سے جنگ کریں گے،اللہ تعالیٰ ان کو فتح عطافرمائے گاحتیٰ کہ وہ ہندوستان کے باد شاہوں کو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پائیں گے ،اللہ ان مجاہدین کی مغفرت فرمائے گا (اور)جب وہ شام کی طرف پلٹیں گے تو عیسیٰ﷣کو وہاں موجود پائیں گے۔
[8]
مندرجہ بالاحدیث سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہوتاہے کہ جو لشکر حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ ابن مریم ﷦کی نصرت کے لئے نکلے گا وہ ہاتھ کے ہاتھ برصغیرپاک وہندمیں اللہ کے باغی اور ظالم وجابر حکمرانوں کابھی اقتدار ختم کرکے اور ان کو اپنی قید میں لے کر روانہ ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ جلیل القدر صحابی حضرت ابو ہریرہ ﷛نے اس لشکرمیں شرکت کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے نبی کریم ﷺکے ارشاد کو نقل فرمایا:
ضرور تمہارا ایک لشکرہند وستان سے جہاد کرے گا ،اللہ ان مجاہدین کو فتح عطافرمائے گا حتیٰ کہ وہ ان(ہندوستان )کے بادشاہوں کوبیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اوراللہ ان (مجاہدین)کی مغفرت فرمادے گا۔پھر جب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے تو حضرت عیسیٰ ﷣ کو شام میں پائیں گے۔
(اس پر )حضرت ابوہریرہ ﷛ فرماتے ہیں:
اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا ۔جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا کردی اور ہم واپس پلٹ آئے تو وہ میں ایک آزاد ابوہریرہ ﷛ہوں گا جو ملک شام میں (اس شان سے)آئے گا کہ وہاں عیسیٰ ابن مریم ﷣ کو پائیگا۔یارسول اللہ !اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ میں آپ ﷺکا صحابی ہوں۔(راوی کا بیان ہے )کہ رسول اللہﷺ(یہ بات سن کر )مسکرا پڑے اور ہنس کر فرمایا:بہت مشکل ،بہت مشکل۔
[9]
چنانچہ ایک اور جگہ حضرت ابوہریرہ ﷛سے مروی ہے کہ:میرے جگری دوست رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ:
((یَکُوْنُ فِیْ ھٰذِہٖ الْاُمَّةِ بَعْث ٌ اِلَی السَّنْدِ وَالْھِنْدِ))
اس امت میں سندھ اور ہند کی طرف لشکروں کی راونگی ہوگی۔
(اس پر حضرت ابوہریرہ ﷛فرماتے ہیں)اگر مجھے کسی ایسی مہم میں شرکت کا موقع لگا اور میں شہید ہوگیا تو ٹھیک ،اگر واپس لوٹا تو ایک آزاد ابوہریرہ ﷛ہوگا،جسے اللہ تعالیٰ نے جہنم سے آزاد کردیا ہوگا۔
[10]
ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ﷛سے مروی ہے کہ:
نبی کریم ﷺنے ہم سے غزوہ ٔ ہند کا و عدہ فرمایا ۔(آگے حضرت ابوہریرہ ﷛فرماتے ہیں)اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جا ن و مال اس میں خرچ کردوں گا ۔اگر قتل ہوگیا تو میں افضل شہدا ء میں شمار ہوں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ﷛ہوں گا۔
[11]
عراق پر اہل مغرب کے قبضے کی پیشن گوئی
حضرت عبداللہ بن عمرو ﷛سے روایت ہے کہ:
وہ وقت قریب ہے کہ جب بنو قنطورا ( یعنی اہل مغرب )تمہیں عراق سے نکال دیں ۔(راوی کہتے ہیں کہ )میں نے پوچھا کہ کیا پھرہم دوبارہ (عراق )واپس آسکیں گے ؟حضرت عبد اللہ نے فرمایا کہ آپ ایسا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ضرور۔انہوں نے فرمایا کہ ہاں (انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا)۔اور ان کے لئے (پھر)خوشحالی اور آسودگی کی زندگی ہوگی۔
[12]
عراق پر قابض اہل مغرب سے جنگ کرنے والوں کا اعلیٰ مقام
رسول اللہﷺنے فرمایا :
میری امت میں کچھ لوگ ایک ایسے علاقے میں اتریں گے جسے بصرہ کہاجائے گا اور یہ علاقہ ایک دریا کے قریب ہوگا جسے دجلہ کہا جائے گا اور اس دریا پر ایک پل ہوگا جس کے ساتھ مسلمان شہروں کے بہت سے لوگ ہوں گے ۔پھر جب آخری زمانہ آئے گا تو رومی (بنو قنطورا)پھیلے ہوئے چہروں اور چھوٹی آنکھوں والے آئیں گے تو وہ دریا کے کنارے اتریں گے تو اس علاقے کے لوگ تین (۳)گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے:
(۱) ایک گروہ بیلوں کی دُم پکڑے زمین سے چمٹ جائے گا (یعنی دنیا ہی کمانے میں لگے رہے) ،تو یہ لوگ ہلاکت میں پڑجائیں گے ۔
(۲) ایک گروہ اپنے مفادات کے چکر میں پڑجائے گا ( یعنی اُ ن کفار سے دوستی اختیار کرلے گاتو)یہ لوگ کفر کے مرتکب ہوں گے ۔
(۳) ایک گروہ اپنی اولاد کو پیچھے چھوڑ جائے گا اور ان دشمنوں سے قتال کرے گا ۔یہی لوگ شہدا ہوں گے (یعنی یہی لوگ صرف کامیا ب ٹہریں گے اللہ کی نظر میں )
[13]
جب کبھی بھی مسلمانوں پر کفار حملہ آور ہوئے اور انہوں مسلمانوں کی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے ان کے علاقوں پر قبضہ کرلیا تواُس معاشرے میں عموماً تین گروہ وجود میں آئے ۔ ہم اگرجائزہ لیں توآج بھی بالکل یہی صورت ہے ۔لیکن فیصلہ آج ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کس گروہ میں شامل ہو نے کی سعی اور کوشش کررہے ہیں ؟
دریائے فرات (Euphrates) پر خونریز جنگ
رسول اللہﷺنے فرمایا :
عنقریب دریائے فرات سے سونے کا خزانہ نکلے گا ۔لہٰذا جوبھی اس وقت موجود ہو ،اس میں سے کچھ نہ لے۔
[14]
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکلے ۔لوگ اس پر جنگ کریں گے اور ہر سو میں سے ننانوے مارے جائیں گے ۔ہر ایک بچنے والا یہی سمجھے گا کہ شاید میں ہی اکیلا بچا ہوں۔
[15]
رسول اللہﷺنے فرمایا :
تمہارے خزانے کے پاس تین شخص جنگ کریں گے ۔یہ تینوں خلیفہ کے لڑکے ہوں گے پھر بھی خزانہ ان میں سے کسی کی طرف منتقل نہ ہوگا ۔اس کے بعد مشرق سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے اور وہ تم سے اس شدت سے جنگ کریں گے کہ اس سے پہلے کسی قوم نے اس شدت سے جنگ نہ کی ہوگی ۔پھر اللہ کے خلیفہ مہدی کا خروج ہوگا ۔جب تم لوگ انہیں دیکھنا تو ان سے بیعت کرلینا اگرچہ اس بیعت کے لئے تمہیں برف پر گھسٹ کر آنا پڑے۔وہ اللہ کے خلیفہ مہدی ہوں گے۔
[16]
مذکورہ بالاحدیث میں جس خزانے کا ذکر ہے اس سے مراد یا تو وہی فرات والا خزانہ ہے یا وہی خزانہ ہے جو کعبہ میں دفن ہے اور جس کو حضرت مہدی نکالیں گے۔یہاں دو فریق پہلے سے اس خزانے کے لئے جنگ کررہے ہوں گے ۔پھر مشرق ے سیاہ جھنڈے والے آئیں گے ،جو صر ف اسلام کی طلب میں آئیں گے جس کا بیان اوپر گذر چکا ہے۔
اہل یمن اور اہل شام کے لئے دعائیں
رسول اللہﷺنے فرمایا :
اے اللہ!ہمارے شام میں برکت عطافرما۔اے اللہ!ہمارے یمن میں برکت عطا فرما ۔لوگوں نے کہا یارسول اللہﷺ!ہمارے نجد میں بھی ۔آپﷺنے فرمایا ہمارے شام میں برکت عطافرمااورہمارے یمن میں بھی۔لوگوں نے پھر کہا ہمارے نجد میں بھی ۔راوی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ تیسری بار رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ وہا ں زلزلے آئیں گے اور فتنے ہوں گے اور وہا ں شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا۔
[17]
جب رومی جنگ عظیم (ملاحم)میں اہل شام سے جنگ کریں گے تو اللہ تعالیٰ دو لشکروں کے ذریعے ان (اہل شام )کی مدد فرما ئے گا ایک مرتبہ ستر ہزار سے اور دوسری مرتبہ اسی (۸۰)ہزار اہل یمن کے ذریعے،جو اپنی بند تلواریں(یعنی بالکل پیک اور نیا اسلحہ ہے)لٹکائے ہوئے آئیں گے۔وہ کہتے ہوں گے کہ ہم پکے سچے اللہ کے بندے ہیں ۔ہم اللہ کے دشمنوں سے قتال کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ(اس جہاد کی برکت سے )ان لوگوں سے طاعون ،ہر قسم کی تکلیف اور تھکاوٹ کو اٹھالیں گے۔
[18]
شام اور یمن کی برکت تو آج بھی صاف نظر آرہی ہے کہ اللہ نے اس آخری معرکہ میں فلسطین و شام اور یمن کے مجاہدین کو جو حصہ عطاکیا ہوا ہے وہ آپ ﷺ کی دعا ہی کا اثر ہے ۔اس وقت دنیائے کفر کو ہلانے والے شام اور یمن کے ہی جانباز زیادہ ہیں۔خود شیخ اسامہ بن لادن(﷫)کا تعلق بھی یمن سے ہی ہے ۔یہ بھی قابل غور بات ہے کہ نجد کا علاقہ جس کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺفرمایا کہ وہاں زلزلے اور فتنہ ہوں گے اور شیطان کا سینگ ظاہر ہوگادراصل سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض اور اس کے ارد گرد کا علاقہ ہے اور اسی علاقے میں نصاریٰ(یعنی یورپ اور امریکہ )کی فوج کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے۔
خروج مہدی کی نشانیاں
کالے جھنڈوں کے خلاف اہل مغرب کے لشکر کا سربراہ بنو کندہ کے ایک لنگڑاشخص ہوگاحضرت کعب ﷛نے فرمایا :ظہورِمہدی کی علامت یہ ہے کہ (دوسری روایات کے مطابق خراسان سے کالے جھنڈوں کے نکلنے کے بعداُن کے خلاف)مغرب سے آنے والے جھنڈے ہیں ،جن کی قیادت کندہکا ایک لنگڑا آدمی کرے گا۔
[19]
غور کرنے کا مقام ہے کہ کہیں دنیا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ تو نہیں چکی کہ اہل مغرب اپنی فوج کا سربراہ ایک لنگڑے شخص کو بنائیں گے؟شاید ایسا ہوچکاہے ۔واللہ اعلم
جامعہ الازہر یونیوسٹی کے استاد الاستاذمحمد جمال الدین اس روایت کے حوالے سے اپنی کتاب ھرمجدون(Armageddon)میں رقم طرازہیں:
مجھے گمان تک نہ تھا کہ امریکی ایک لنگڑے کا انتخاب کرکے اسے کمانڈر انچیف کے منصب پر فائز کریں گے ،بلکہ میں اپنے دل ہی دل میں سمجھتا تھا کہ اعرجکے لفظ سے مراد ایک کمزور شخص ہے جس کی رائے میں کوئی وزن نہ ہوگا۔میرے تو وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ دنیا کی فوج کا سپہ سالار ایک لنگڑ ے کو بنانا روا سمجھیں گے جب میں نے دیکھا کہ جنرل رچرڈ مائرز(General Rchard Myres)بیساکھیوں پر چل کر آرہا ہے تاکہ وہ امریکی عوام کے سامنے افغانستان کے خلاف بری ،بحری اور فضائی آپریشن کا اعلان کرے تو میرے منہ سے نکل گیا ، اللہ اکبر !اے اللہ کے رسول ﷺآپ نے سچ فرمایاہے ۔
خروج مہدی سے پہلے نفس زکیہ کی شہادت
امام مجاہد﷫فرماتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریمﷺ کے ایک صحابی نے یہ بیان کیا ہے کہ :مہدی اس وقت تک نہیں آئیں گے جب تک نفس زکیہ(یعنی بہت ہی پاکیزہ اورنیک ہستی )کو قتل نہ کردیا جائے ،چناچہ جب نفسی زکیہ قتل کردیئے جائیں گے تو آسمان والے اور زمین والے ان کے قاتلوں پر غضب ناک ہوجائیں گے،اس کے بعد لوگ حضرت مہدی کے پاس آئیں گے اور انہیں نئی دلہن کی طرح منائیں گے جیسے اس کو حجلہ عروسی میں لے جایا جاتاہے ۔وہ زمین کو عدل و انصاف بھردیں گے۔زمین اپنی پیداوار اُگادے گی اور آسمان خوب بَرسے گا اور ان کے خلافت میں امت ایسی خوشحال ہوگی کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوگی۔
[20]
گویا محسوس ایسا ہوتاہے کہ کوئی ایسی عظیم ہستی ہوگی جو نہ صرف اہل ایمان کے نزدیک محبوب اور پسنددیدہ ہوگی بلکہ اللہ رب العزت کے نزدیک بھی اُ س کا بہت بڑا مقام ہوگا اور فرشتے بھی اُ س کو بہت محبوب رکھتے ہوں گے۔چناچہ اُن کی شہادت پر زمین اور آسمان والے انتہائی غضبناک ہوکر انتقام کے لئے کھڑے ہوجائیں گے۔واللہ اعلم
حج کے موقع پر منیٰ میں قتل عام
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
ذی قعدہ کے مہینے میں قبائل کے درمیان کشمکش اور معاہدہ شکنی ہوگی چنانچہ حاجیوں کو لوٹا جائے گا اور منیٰمیں جنگ ہوگی ۔بہت زیادہ قتل عام اور خون خرابہ ہوگا یہاں تک کہ عقبہ جمرہ پر بھی خون بہہ رہا ہوگا ۔نوبت یہاں تک آئے گی کہ حرم والا(یعنی حضرت مہدی)بھی بھاگ جائیں گے اور(بھاگ کر )وہ رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان آئیں گے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی ،اگرچہ وہ اس کو پسند نہ کررہے ہوں گے ۔ان سے کہا جائے گا کہ اگر آپ نے بیعت لینے سے انکا ر کیا توہم آپ کی گردن اڑادیں گے ۔چنانچہ پھر بیعت کریں گے بیعت کرنے والوں کی تعداداہل بدر کے برابر ہوگی ۔ان(بیعت کرنے والوں )سے زمین وآسمان والے خوش ہوں گے۔
[21]
مستدرک کی ہی دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمرو ﷛فرماتے ہیں کہ :
جب لوگ بھاگے بھاگے حضرت مہدی کے پاس آئیں گے تو اس وقت حضرت مہدی کعبہ سے لپٹے رو رہے ہوں گے۔(حضرت عبداللہ ابن عمرو﷛فرماتے ہیں کہ)گویا میں اُن کے آنسوں دیکھ رہا ہوں۔
رمضان میں دھماکہ کی آوازاوراس کے بعد دو اعلان کرنے والوں کا اعلان کرنا:
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
رمضان میں ایک زبردست آواز آئے گی ۔صحابی نے پوچھا یارسول اللہ !یہ آواز رمضان کے شروع میں ہوگی ، یا درمیان میں یا آخر میں ؟آپ ا نے فرمایا نصف رمضان میں۔جب نصف رمضان میں جمعہ کی رات ہوگی تو آسمان سے ایک (زور دار )آواز آئے گی جس سے ستر ہزار(یعنی بے شمار)لوگ بے ہوش ہوجائیں گے اور ستر ہزار بہرے ہوجائیں گے(ایک اور روایت کے مطابق :ستر ہزار راستہ بھٹک جائیں گے ،ستر ہزار اندھے ہوجائیں گے ،ستر ہزار گونگے ہوجائیں گے اور ستر ہزار لڑکیوں کی بکارت زائل ہوجائی گی۔بحوالہ السنن الواردة الفتن) ۔صحابہ اکرام ﷡نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ ! تو آپ کی امت میں سے اس آواز سے محفوظ کون رہے گا؟آپ ﷺنے فرمایا جو (اس وقت)اپنے گھروں میں رہے اور سجدوں میں گر کر پناہ مانگے اور زور زورسے تکبیریں کہے ،پھر اس کے بعد ایک اور آواز آئے گی ۔پہلی آواز جبرائیل کی ہوگی اور دوسری آواز شیطان کی ہوگی ۔(پھر فرمایا کہ واقعات کی ترتیب یہ ہوگی کہ)آواز رمضا ن میں ہوگی اورمَعْمَعَةُ(دراصل جنگ کی گھن گرج یا شورابہ ہوگا جوکہ)شوال کے مہینے میں ہوگی اور ذی قعدہ میں قبائل عرب بغاوت کریں گے اور ذی الحجہ میں حاجیوں کو لوٹا جائے گا ۔رہا محرم کا مہینہ تو محرم کا ابتدائی حصہ میری امت کے لئے آزمائش ہے اور اس کا آخری حصہ میری امت کے لئے نجات ہے ۔اس دن وہ سواری مع کجاوے کے جس پر سوارہوکر مسلمان نجات پائے گا ،اس کے لئے ایک لاکھ سے زیادہ قیمت والے اس مکان سے بہتر ہوگی جہاں کھیل و تفریح کا سامان ہو۔
[22]
امام زہری ﷫فرماتے ہیں :
اس سال ( یعنی حضرت مہدی کے خروج کے سال)دو اعلان کرنے والے اعلان کریں گے ۔آسمان سے اعلان کرنے والا اعلان کرے گا ۔اے لوگو!تمہارا امیر فلاں شخص ہے اور (اس کے برعکس) زمین سے اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ اس(پہلے اعلان کرنے والے)نے جھوٹ کہاہے۔چنانچہ نیچے والے(یعنی)اعلان کرنے والے لڑائی کریں گے،یہاں تک کہ درختوں کے تنے خون سے سرخ ہوجائیں گے۔
[23]
مہدی کون ہوں گے؟
احادیث نبویہ ﷺسے ہمارے سامنے حضرت مہدی کی شخصیت اور ان کے ظہور کا جو نقشہ آتاہے کہ وہ عرب کے ایک قائد اور ایک رہنما کی حیثیت سے ابھریں گے۔ان کا نام محمد اور ان کے والد کاعبداللہ ہوگا۔رسولﷺنے ارشاد فرمایا :
زمین جب ظلم وجور سے بھر جائے گی ۔اللہ میر ی اولاد میں سے ایک آدمی بھیجے گا جس کا نام وہ ہی ہوگا جو میرا ہے۔اس کے باپ کا نام وہی ہوگا جو میرے باپ کاہے۔وہ زمین کو عدل وانصاف سے بالکل بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔نہ آسمان اپنی بوند ذرہ برابر بھی روکے گا اور نہ زمین اپنی نباتات روکے گی ۔وہ تمہارے درمیان سات یا آٹھ برس یا زیادہ سے زیادہ نو برس تک ٹھہرے گا ۔
[24]
مہدی مجھ میں سے ہوگا (یعنی میرے اولاد سے ہوگا)اس کی ناک درمیان سے بلند ہوگی ، پیشانی کشادہ ہوگی۔وہ زمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھردے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔وہ سات برس تک حکمرانی کرے گا۔
[25]
دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک عرب میں میری اولاد میں سے ایک شخص کی حکومت قائم ہوگی جس کانام میرے نام پر ہوگا۔
[26]
حضرت مہدی کی بیعت اور وقت کا حکمران سفیانی کا اُ ن کے خلاف لشکر بھیجنا
جب راستے بند ہوجائیں گے اور فتنوں کا دور دورہ ہوگا تو مختلف اطراف سے سات(۷)عالم نکلیں گے۔انہوں نے ملاقات کے لئے وقت کا تعین نہیں کیا ہوگا ۔ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ پر ۳۱۰سے کچھ زیادہ آدمی بیعت کریں گے ۔وہ مکہ میں جمع ہوں گے ۔ جہاں ساتوں کی ملاقات ہوگی اور ایک دوسرے سے پوچھیں گے کیسے آنا ہوا؟وہ جواب دیں گے کہ ہم اس آدمی کی تلاش میں آئے ہیں جس کے ہاتھوں فتنوں کا فرو ہونا چاہیے اور جس کے ہاتھ پر قسطنطنیہ فتح ہوگا ۔ہمیں اس کا حلیہ ،اس کا نام اور اس کے باپ کا نام معلوم ہے۔ساتوں اس بات پر اتفاق ہوگا اور وہ اسے تلاش کریں گے ۔وہ اسے مکہ میں رکن یمانی (حجرِاسود)کے قریب پالیں گے اورکہیں گے ہمارا گناہ تم پر ہوگا اور ہمارا خون تیری گردن پر ، اگر تم بیعت کے لئے ہاتھ نہ پھیلاؤ گے۔سفیانی کا لشکر ہماری تلاش میں نکل پڑاہے ۔تب وہ رکنِ یمانی اور مقامِ ابراہیم کے درمیان بیٹھ کر اپنا ہاتھ بڑھا ئے گا ۔اس کے ہاتھ پر بیعت ہوگی اور اللہ اس کی محبت لوگوں کے دلوںمیں ڈال دے گا ۔وہ ایسی قوم کو لے کر روانہ ہوگا جو دن کو شیر معلوم ہوتے ہیں اور رات کو گوشہ نشین زاہد ۔
[27]
ام المومنین حضرت عائشہ ﷝سے روایت ہے کہ خواب میں اللہ کے رسول ﷺکا جسم حرکت کرنے لگاتوہم نے کہا :اے اللہ کے رسولﷺآیا آپ نے خواب میں ایسی بات کی جوآپ نے پہلے کبھی نہیں کی ۔آپﷺنے فرمایا :عجیب بات ہے کہ میری امت کے کچھ لوگ قریش کے ایک آدمی کو پکڑنے کیلئے بیت اللہ کی طرف جارہے ہیں ۔اس آدمی نے بیت اللہ میں پناہ لی ہوئی ہے ۔جب وہ (پکڑنے والے)کھلے میدان میں ہوں گے تو وہ زمین میں دھنس جائیں گے۔
[28]
ایک پناہ لینے والا بیت اللہ کی پناہ لے گا۔اس کی طرف ایک لشکر بھیجاجائے گا ۔ابھی وہ وہیں (میدان )میں ہوں گے کہ زمین میں دھنس جائیں گے۔
[29]
اس گھر (بیت اللہ )کی پناہ میں کچھ لوگ میں آئیں گے ، وہ محفوظ نہیں ہوں گے ،نہ ان کے پاس لڑنے کے لئے فوج ہوگی نہ سامان جنگ ، ان کی طرف ایک فوج بھیجی جائے گی ، جب وہ فوج کھلی جگہ پر ہوگی تو زمین میں دھنس جائے گی۔
[30]
پانچ جنگ عظیم
حضرت عبد اللہ ابن عمرو﷛نے فرمایا کہ (دنیا کی بتداء سے آخر دنیا تک )کل پانچ جنگِ عظیم ہیں۔
جن میں سے دو تو ( اس امت سے پہلے )گذر چکیں ہیں اور تین اس امت میں ہوں گی ۔
(۱) ترک جنگ عظیم
(۲)رومیوں سے جنگ عظیم اور
(۳)دجال سے جنگ عظیم اور دجال والی
جنگ عظیم کے بعد کوئی جنگِ عظیم نہ ہوگی۔
[31]
افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمان اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے ایک ہونے والی حقیقت کے لئے خود کو تیار نہیں کررہے لیکن کفر اس کا اعلان واضح اور دوٹوک الفاظ میں کررہا ہے ۔یورپ اور امریکہ کے دانشور چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ Third World War کسی بھی وقت شروع ہونے والی ہے ۔اس کے برعکس آج ہمارے پڑھے لکھے اور خاص کر دیندارحضرات کہتے ہی کہ کفارکے ساتھ آج جہاد کا یعنی قتال کا زمانہ نہیں رہا ۔اس کے علاوہ اگر کوئی شخص اس انتظار میں ہے کہ حضرت مہدی کے آنے کے بعد جب وہ جنگ عظیم کا اعلان کریں گے توتب اُ س کی تیاری کریں گے تو اُس کو جان لینا چاہیے کہ ایسا شخص انتظار ہی کرتارہے گا کیونکہ حضرت مہدی کا خروج ایک ایسے وقت ہوگا جب جنگ چھڑ چکی ہوگی ۔
جنگ عظیم میں مسلمانوں کا ہیڈ کوارٹر
جنگِ عظیم جس کو رسول اللہﷺنے الملحمة العظمةاورالملحمة الکبریٰ بھی کہا ہے ، اس وقت مسلمانوں کا مرکز کے حوالے سے فرمایا :
جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ (فیلڈہیڈ کواٹر)شام کے شہروں میں سب سے اچھے شہر دمشق کے قریب الغوطہ کے مقام پر ہوگا ۔
[32]
الغوطہ (Al Ghutah)شام کے دارالحکومت دمشق سے مشرق میں تقریباً ساڑھے آٹھ کلومیٹر ہے۔گو کہ اس وقت شام میں بھی کوئی اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہ حکومت نہیں ہے مگر انشاء اللہ جلد ہی وہاں اسلام کے شیدائیوں کا غلبہ ہوگا۔
جنگ عظیم کا احوال
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
قیامت سے پہلے یہ واقعہ ضرور ہوکر رہے گا کہ اہل روم اعماق یا دابق (جو کہ شام کے شہر حلب کے قریب واقع ہے )پہنچ جائیں گے ،ان کی طرف ایک لشکر مدینہ سے پیش قدمی کرے گا جو اس زمانہ کے بہترین لوگوں میں سے ہوگا ۔جب دونوں لشکر آمنے سامنے صف بستہ ہوجائیں گے تو رومی (مسلمانوں سے)سے کہیں گے تم ہمارے اور اُن لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤجو ہمارے لوگوں کو قید کرکے لائے ہیں،ہم انہی سے جنگ کریں گے۔مسلمان کہیں گے کہ نہیں اللہ کی قسم!ہم ہر گز تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے ،اس پر تم ان سے جنگ کرو گے ۔اب ایک تہائی (1/3)مسلمان تو بھاگ کھڑے ہوں گے جن کی اللہ کبھی توبہ قبول نہ کرے گا اور ایک تہائی مسلمان شہید ہوجائیں گے جو اللہ کے نزدیک افضل الشہداء ہوں گے ۔باقی ایک تہائی فتح حاصل کرلیں گے (لہٰذا اس معرکہ میں ثابت قدمی کے اجر میں)یہ آئندہ ہر قسم کے فتنے سے محفوظ ہوجائیں گے ۔اس کے بعد قسطنطنیہ کو فتح کریں گے اور اپنی تلواریں زیتون کے درخت پر لٹکا کر ابھی مال غنیمت تقسیم کررہے ہوں گے کہ شیطان ان میں چیخ کر یہ آواز لگائے گا کہ مسیح دجال تمہارے پیچھے تمہارے گھروں میں گھس گیا ہے ۔یہ سنتے ہیں یہ لشکر روانہ ہوجائے گا اوریہ خبر اگرچہ غلط ہوگی لیکن جب یہ لوگ شام پہنچیں گے تو واقعی دجال نکل آئے گا ۔ابھی مسلمان جنگ کی تیاری اور صفیں سیدھی کررہے ہوں گے کہ نماز فجر کی اقامت ہوجائے گی اور فوراً بعد ہی حضرت عیسیٰ ابن مریم ﷦نازل ہوجائیں گے اور مسلمانوں کے امیر (دیگر احادیث کے مطابق حضرت مہدی )کو ان کی(یعنی مسلمانوں کی )امامت کا حکم فرمائیں گے ۔اللہ کا دشمن (دجال )حضرت عیسیٰ ﷣ کوکو دیکھ کر گھلنے لگے گاجیسے نمک گھلتا ہے ،چنانچہ وہ اگر اس کو چھوڑ بھی دیتے تو وہ اسی طرح گھل کر ہلاک ہوجاتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کو انہی کے ہاتھوں قتل کرائے گا اور وہ لوگوں کو اس کا خون دکھلائیں گے جو ان کے نیزے میں لگ گیا ہوگا ۔
[33]
حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل شہداء بحری جہاد کے شہداء اور اعماقِ انطاکیہ کے شہداء اور دجال کے خلاف لڑتے ہوئے مارے جانے والے شہداء ہیں۔
[34]
ان جنگوں کے شہداء کے بارے میں ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے :
چنانچہ وہ ایک تہائی جو اِس جنگ میں شہید ہوں گے ان کا ایک شہید ،شہدا ء بدر کے دس شہیدوں کے برابر ہوگا ،شہداء بدر کا ایک شہید ستّر کی سفارش کرے گا جبکہ ملاحم (ان خطرناک جنگوں)کا شہید سات سو کی شفاعت کرے گا۔
[35]
جو دجال کے یا اس کے لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوں گے ا ن کی قبریں تاریک اور گھٹا ٹوپ راتوں میں چمک رہی ہوں گی۔
[36]
وضاحت:مندرجہ بالا حدیث مذکور فضیلت جزوی ہے ورنہ شہداء بدر کا مقام تمام شہداء سے بڑھ کرہے۔
جنگ عظیم میں روم کے خلاف فدائی معرکے
حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷛نے فرمایا :
قیامت سے پہلے پہلے ایسا ضرور ہوگا کہ نہ میراث تقسیم ہوگی نہ مالِ غنیمت کی خوشی ہوگی ۔(پھراس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے )فرمایا کہ شام کے مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے ایک زبردست دشمن جمع ہوکر آئے گا ۔ان سے جنگ کرنے کے لئے مسلمان بھی جمع ہوجائیں گے ۔راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ دشمن سے آپ کی مراد روموالے ہیں تو عبد اللہ بن مسعود ﷛نے فرمایا ہاں ۔چنانچہ وہا ں زبردست جنگ ہوگی ۔مسلمان اپنی فوج سے ایسی جماعت کا انتخاب کرکے دشمن کے مقابلے میں بھیجیں گے جس سے یہ طے کریں گے کہ یا مر جائیں گے یا فتح یاب ہوں گے۔ چناچہ دونوں میں لڑائی ہوگی ۔حتیٰ کہ رات دونوں میں حائل ہوجائے گی اور دونوں فریق اپنی اپنی پناہ گاہوں میں چلے جائیں گے ۔ نہ ان کو غلبہ ہوگا نہ وہ غالب آئیں گے اور وہ فدائی دستہ (جو آج لڑا تھا )شہید ہوجائے گا ۔پھر مسلمان (دوبارہ)اپنی فوج میں سے ایسی جماعت کا انتخاب کرکے دشمن کےمقابلے میں بھیجیں گے جس سے یہ طے کریں گے کہ مرجائیں گے یا فتح یا ب ہوں گے۔چنانچہ جنگ ہوگی حتیٰ کہ رات دونوں کے درمیان حائل ہوجائے گی اور یہ دونوں اپنی اپنی پناہ گاہوں کی طرف چلے آئیں گے نہ یہ غالب ہوں گے اور نہ وہ،اور اس دن بھی لڑنے والے شہید ہوجائیں گے ۔پھر مسلمان (تیسری بار )اپنی فوج سے ایسی جماعت کا انتخاب کرکے دشمن کے مقابلے کے لئے بھیجیں گے جس سے یہ طے کریں گے کہ یا مرجائیں گے یا فتح یاب ہوں گے چنانچہ شام تک جنگ ہوتی رہے گی اور یہ دونوں پھر اپنی اپنی پناہ گاہ کی طرف چلے جائیں گے ،نہ یہ غالب ہوں گے نہ وہ ،اور اس دن بھی لڑنے والے شہیدہوجائیں گے۔چوتھے روز بچے کچھے مسلمان بھی جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔اللہ تعالیٰ کافروں کو شکست دے گا ۔اس روز ایسی زبردست جنگ ہوگی کہ اس سے پہلے ایسی جنگ نہ دیکھی گئی ہوگی ۔اس جنگ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میدان جنگ میں مرنے والے کی لاشوں کے اوپر سے پرندہ گزرنا چاہے گا (مگر لاشوں کی اتنی کثرت ہوگی وہ تھک ہار کراترنے کی جگہ نہ ملنے کے باعث)مر کر گر پڑے گا ۔جنگ میں شریک ہونے والے لو گ اپنے کنبے کے آدمیوں کو شمار کریں گے تو سو میں سے ایک آدمی جنگ سے بچا ہوگا۔پھر فرمایا اس حال میں کیامالِ غنیمت لے کر دل خوش ہوگا اور کیا ترکہ (مرنے والا جو چھوڑ کر جائے)بانٹنے کا دل چاہے گا ؟پھر فرمایا اسی دوران ایک ایسی جنگ کی خبر سنیں گے جو پہلی جنگ سے زیادہ سخت ہوگی ۔دوسری خبر یہ سنیں گے کہ دجال نکل آیا ہے جو (ان کے پیچھے )ان کے بچوں کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہتا ہے ۔یہ سن کر مسلمان مال ودولت پھینک دیں گے اور اپنے گھروں کی خبر گیری (اور دجال کے بارے میں پتہ کرنے)کے لئے اپنے آگے دس سوار بھیجیں گے تا کہ دجال کی صحیح خبر لائیں۔آپﷺنے فرمایا کہ میں اُن سواروں کو اور اُن کے والدین کے نام اور گھوڑوں کے رنگ پہچانتا ہوں۔
[37]
نوٹ:حضرت حذیفہ ﷛سے روایت کردہ ایک مفصل حدیث میں یہ ذکر ہے کہ جنگ اعماق میں اللہ تعالیٰ کافروں پر فرات کے ساحل سے خراسانی کمانوں کے ذریعے تیر برسائے گا ۔
[38]
امریکہ اور یورپ میں رہنے والے مسلمانوں سے اپیل
یہ وہ حالات ہیں جن سے اس دنیاکا اور خاص کر مسلمانوں کا سابقہ پیش آنے ولاہے ۔ اس آنے والے طوفان کی وسعت اور ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ مغرب اور امریکہ میں آسودہ حال مسلمان بھی اس کے فتنہ انگیزیوں سے بچ نہ سکیں گے بلکہ حالات کی سنگینی بتلارہی ہے کہ مسلمانوں کواپنے مال اور جان کی حفاظت کرنا اور زند گی گزارنا مشکل ہوجائے گا۔اس حوالے سے جامعۃ الازہر کے پروفیسرامین محمد جما ل الدین9/11کے بعد اپنی کتاب میں امریکہ اور یورپ میں رہنے والے مسلمانو ں سے اپیل کے عنوان سے ایک فصل باندھتے ہوئے کہتے ہیں :
اپنے ملک اور وطن کی طرف چلے آؤ۔اپنا بستر بوریا باندھ لو ، ارادوں کو پختہ کرلو۔لوٹتے ہوئے ،توبہ کرتے ہوئے اور اپنے رب کی حمد و ثناء کرتے ہوئے کوچ کرجاؤ ۔تم وہاں (امریکہ اور یورپ) پُر امن اور خوشحال زندگی گزاررہے تھے ،آج وہاں خوف و ایذا کی فضاہے ،اور کل جو رہ جائے گا قتل و غارت گری کا شکار ہوجائے گا ۔ہاں!قتل وفنا۔اسی با ت سے تمہارے محبوب و معصوم نبی ﷺنے آگاہ کیا ہے اور ہم اس خطرناک اور اہم بیان میں تبلیغ کا فرض اداکررہے ہیں ۔امام بخاری ﷫کے شیخ نعیم بن حماد نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷛سے اور انہو ں نے نبی کریمﷺسے روایت کی ہے کہ آپﷺنے فرمایا :جو عرب باقی رہ جائیں گے رومی اُن پر لپک پڑیں گے اور اُن کو قتل کردیں گے ،یہاں تک کہرومکی سرزمین میں کوئی عرب مَرد ،عورت یا بچہ قتل ہوئے بغیر باقی نہ بچے گا۔
[39]
محبوب نبی ﷺکے اس قول کی طرف دھیان دو :نہ عربی مَرد ، نہ عربی عورت اور نہ عربی بچہ۔
آپ ﷺنے مسلم اور مسلمہ نہیں کہا۔ آپﷺنے صرف عربی اور عربیہ کہا ہے ،کیونکہ رومی ان پر لپکیں گے جس کا عربی نا ک نقشہ ہوگا ،خواہ وہ عیسائی کیوں نہ ہواور نماز بھی نہ پڑھتا ہو ،وہ بغیر تمیز کے ہر ایک کو قتل کردیں گے۔سلسلہ کلام نفی میں ہے اور اسم نکرہ استعمال ہوا ہے جو عمومیت کا فائدہ دیتا ہے ، یعنی ان ممالک میں جو بھی رہ گیا اور اپنے وطن نہ لوٹا توبالکل نہ بچ پائے گا ۔
اس بات کا ہم نے عملی مظاہرہ برطانیہ میں ایک ائیر پورٹ پر مبینہ حملے کے بعد دیکھنے میں آیا کی لندن کی دیواروں پر یہ نعرے لکھے گئے کہ سب پاکستانیوں کو ماردوسو اے عقل والوں !عبرت حاصل کرو۔
مجاہدین کے نعروں سے روم(ویٹی کن Vatican City)کا فتح ہونا
ایک دن نبی کریم ﷺنے (صحابہ کرام ﷡سے )پوچھا کہ کیا تم نے کسی ایسے شہر کے بارے میں سنا ہے جس کے ایک طرف سمندر اور دوسری طرف جنگل ہے ؟صحابہ ﷡نے عرض کیا ہاں یارسول اللہﷺ!آپ ﷺنے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں آئے گی جب تک کہ حضرت اسحاق ﷣کی اولاد میں سے ستر ہزار آدمی اس شہر کے لوگوں سے جنگ نہیں کرلیں گے ۔چنانچہ حضرت اسحاق کی اولاد میں سے وہ لوگ (جنگ ارادے سے )اس شہر میں آئیں گے ،تو اس شہر کے (نواحی علاقے میں )پڑاؤ ڈالیں گے ۔(اور شہر کا محاصرہ کرلیں گے )لیکن وہ لوگ شہروالوں سے ہتھیاروں کے ذریعے جنگ نہیں کریں گے اور نہ ان کی طرف تیر پھینکیں گے بلکہ لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبرکا نعرہ بلند کریں گے اور شہر کی دو طرف کی دیواروں میں سے ایک دیوار گر پڑے گی۔(راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ﷛نے یہاں سمندر کی جانب والی دیوار کہا تھا)۔اس کے بعد رسول ﷺنے یہ ارشاد فرمایا کہ پھر وہ لوگ دوسری مرتبہ لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر لگائیں گے تو شہر کی دوسری جانب والی دیوار بھی گر جائے گی ۔اس کے بعد وہ لوگ تیسری مرتبہ لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر کا نعرہ بلند کریں گے تو ان کے لئے شہر میں داخل ہانے کا راستہ کشادہ ہوجائے گا اور وہ شہر میں داخل ہوجائیں گے ۔پھر وہ مال غنیمت جمع کریں گے اور اس مالِ غنیمت کو آپس میں تقسیم کررہے ہوں گے کہ اچانک یہ آواز آئے گی کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ دجال نکل آیا ہے ،چنانچہ وہ سب کچھ چھوڑ کر (دجال سے لڑنے کے لئے )واپس لوٹ آئیں گے۔
[40]
یہاں حدیث میں جس شہر کا تذکرہ ہے اس سے مراد روم میں واقع ویٹی کن شہر ہے اور حضرت اسحاق علیہ السلا م کی جس اولاد کا تذکرہ اوپر حدیث میں آیا ہے جو کہ اللہ کے حکم سے حلقہ بگوش اسلام ہوجائی گی۔حدیث میں شہر کے دروازوں اور دیواروں کا ذکر ہے تو دیواروں سے مراد حقیقی دیوار بھی ہوسکتی ہے اور اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ دیوار سے مراد اس شہر کا دفاعی نظام ہو۔اس طرح دروازوں سے مراد اس شہر میں داخل ہونے والے راستے بھی ہوسکتے ہیں ۔
حضرت مہدی کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگیں
حضرت مہدی کے دو رمیں لڑی جانے والی جنگوں میں ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حضر ت مہدی کے وقت جنگ عظیم ہوگی ،یعنی حق اور باطل کا آخری معرکہ ہوگا جس میں دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹے گا جب تک کہ اس کی قوت ختم نہ ہوجائے ۔لہٰذا یہ جنگ عظیم کئی بڑی جنگوں پر مشتمل ہوگی ۔نیز صر ف حضرت مہدی کے علاقے تک محدود نہیں ہوگی بلکہ یہ جنگ بیک وقت کئی محاذوں پر چل رہی ہوگی ۔جن میں ایک محاذ تو وہ ہوگا جس پر خود حضرت مہدی کمانڈ کررہے ہوں گے ۔دوسرا محاذ فلسطین ہوگا اور تیسرا عراق کا ہوگا ،جس کو دریائے فرات والا محاذ کہا گیا ہے ۔اس کے علاوہ ایک اور بڑا محاذ ہندوستا ن کا ہوگا ۔اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹے محاذ ہوسکتے ہیں۔البتہ ان تمام محاذوں مرکزی کمانڈ دمشق کے قریب الغوطہ کا مقام پر حضرت مہدی کے ہاتھ میں ہوگی اور ہر محاذ کے کمانڈر سے حضرت مہدی کا رابطہ ہوگا۔
عسکری امور پر نظر رکھنے والے اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ آج بھی مجاہدین اسی طرح دشمن کے ساتھ جنگ کررہے ہیں ۔مرکزی کمانڈ کہیں ایک جگہ ہے اور ان کے تحت جگہ جگہ مجاہدین دشمن پر یلغار کررہے ہیں ۔لہٰذا ن باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے آنے والے احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔نیز یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان جنگوں کو بیان کرتے وقت نبی کریم ﷺنے کبھی تو پوری کی پوری تاریخ الفاظ میں بیان کردی اور کہیں تھوڑی تفصیل اور کبھی بہت تفصیل بیان کی ہے ۔اس لئے بعض دفعہ واقعات کی ترتیب میں تضاد (Contradiction) محسوس ہوتاہے حالانکہ حقیقت میں تضاد نہیں۔
کیا ان جنگوں میں اسرائیل برباد ہوجائے گا؟
یہا ں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دجال کی آمد سے قبل ہونے والی جنگوں میں اس خطہ میں متحدہ دشمنوں کو مکمل طور پر شکست ہوجائے گی ؟اگر مکمل شکست ہوگی تو اسرائیل قائم رہے گا یا ختم ہوجائے گا ؟جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو احادیث ِ مبارکہ میں غور کرنے کے بعدیہ بات زیادہ مناسب لگتی ہے کہ اس خطہ میں موجود دشمن مکمل طور پر شکست کھاجائے گا ،کیو نکہ صحیح احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت مہدی کے دور میں مکمل امن و امان اور خوشحالی ہوگی اور یہ اس صورت میں ہی ممکن ہے کہ جب دشمن ان علاقو ں سے بھاگ جائے ۔نیز فتح قسطنطنیہ اور فتح روم کے بعد والی حدیثیں بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ عرب کے خطے میں موجود دشمن شکست کھاجائے گا۔اب رہا اسرائیل کا مسئلہ تو یہ واضح ہے کہ جب کافروں کی متحدہ فوجوں کا خوفناک جنگوں کے بعد مار پڑے گی تو اس میں اسرائیل کی قوت بھی ختم ہوجائے گی ۔دجال کے بارے میں آتاہے کہ وہ کسی بات پر غصہ میں آکرنکلے گا ۔حضرت حفصہ﷝نبی کریمﷺسے رویت کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :
دجال کسی بات پر غصہ ہوکر نکلے گا
[41]
ممکن ہے جب کافروں واضح شکست ہوجائے تب دجال غصہ کی حالت میں نکلے اور شکست خوردہ کفریہ طاقتیں دوبارہ اس کے ساتھ اکٹھا ہوجائیں گی۔یہاں ہم خود یہود کی کتابوں سے مختصر حوالے پیش کررہے ہیں جس سے صاف پتہ چلتاہے یہودیوں کی ناپاکی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسرائیل کو تباہ برباد کردے گا۔اگرچہ یہود ان واضح آیا ت میں تاویلیں کرتے ہیں ۔اسرائیل میں واپسی کے جس دن کا یہود ی انتظار کررہے ہیں ۔اس دن کے بارے میں خود ان کی کتابوں میں عجیب و غریب نقشہ کھینچا ہے ۔لیکن یہودی اپنی فطری چالبازی کامظاہرہ کرتے ہوئے ان کو غلط معنی پہناکر لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں،لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ توراتی صحیفوں میں ان کی بدکرداریوں اور ظلم و ستم کا تذکرہ یوں آتاہے:
اے یعقوب کے سردارواور بنی اسرائیل کے حاکموں سنو!کیا مناسب نہیں کہ تم عدالت سے واقف ہو؟تم نیکی سے عداوت اور بدی سے محبت رکھتے ہواور لوگوں کی کھال اتارتے اور ان کی ہڈیوں پر سے گوشت نوچتے ہواور میرے لوگوں کا گوشت کھاتے ہواور ان کی کھال اتارتے اور ان کی ہڈیوں کو توڑتے اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہو گویا وہ ہانڈی اور دیگ کے لئے گوشت ہیں۔
[42]
تم اے جادوگرنی کے بیٹو!اے زانی اور فاحشہ کے بچو!ادھر آگے آؤ۔تم کن(نیک )لوگوں پر ٹھٹھا مارتے ہو؟تم کس پر منہ پھاڑتے اور زبان نکالتے ہو؟کیا تم باغی اولاد اور دغا باز نسل نہیں ہو،جو بتوں کے ساتھ ہر ایک درخت کے نیچے اپنے آپ کو برانگیختہ کرتے اور وادیوں میں چٹانوں کے شگافوں کے نیچے بچوں کو ذبح کرتے ہو؟
[43]
ان کی کتاب میں ہی ان کے انجام کے بارے میں ایزا خیل میں آتاہے:
پھر اللہ کہتا ہے کہ کیونکہ تم لوگ میرے نزدیک کھوٹے سکے ثابت ہوئے ہو ، اس لئے تمہیں یروشلم میں جمع کروں گا جیسے لوگ سونا ،چاندی ،لوہا اور کانسی کو آگ میں ڈالنے کے لئے جمع کرتے ہیں ،اسی طرح میں تمہیں غصہ اور غضب کے درمیان جمع کروں گا ،اور پھر تمہیں پگھلادوں گا،میں تم پر اپنے غضب کی آگ بھڑکا دوں گا او ر تم اس میں پگھل جاؤگے پھر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ تمہارے رب نے تمہارے اوپر غضب نازل کیا ہے ۔
[44]
ان کی تباہی اور سزا کے اعلان کے بعد ،جس کے بعد ان کی لاشیں کھلے آسمان تلے ڈالدی جائیں گی ،جہاں گدھ اور کیڑے مکوڑے ان کو کھالیں گے حتیٰ کہ ان کے بادشاہوں اور لیڈروں کی ہڈیا ں بھی گل جائیں گی اور زمین پر کوڑے کرکٹ کی طرح پھیل جائے گی۔
[45]
یہودی اپنے یروشلم میں جمع ہونے کو اپنی آزادی اور فتح کا دن کہتے ہیں ۔حالانکہ ان کی کتابوں کے مطابق یہ دن ان کی تباہی اور بربادی کا دن ہوگا۔ان کی کتاب زیفے نیاہ (Zephaniah) میں ہے:
تم لوگ خود کو اکٹھا کرو ۔ہاں ، اکٹھا کرو خود کو تم لوگ اے اللہ کے ناپسنددیدہ انسانوں! قبل اس کے کہ اللہ کا فیصلہ آجائے یا دن بھوسے کی طرح گزرجائے یا اللہ کا غضب تم پر نازل ہوجائے یا قبل اس کے کہ اللہ کے غضب کا دن تمہارے سامنے آجائے۔
اس ناپاک قوم کے بارے میں آخری اقتباس ایزاخیل سے پیش کیاجارہا ہے تاکہ یہودیوں کی غلامی کرنے والوں کو پتہ چلے کہ ان کے آقا کے آقا کتنی معزز اور مہذب قوم ہیں۔ایزا خیل میں ہیں:
تم نے میری مقدس چیزوں کو خراب اور میرے بہت سے احکامات کو روندا ہے ۔تیرے اندر ہی وہ لوگ ہیں جو خون بہانے کے لئے بہانہ ڈھونڈتے ہیں ۔تیرے اندر ہی رہ کر وہ قحبہ خانے (Pub)چلاتے ہیں ۔تیرے اندر ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے باپوں کی شرم وحیاء والی جگہوں کو کھولتے ہیں۔تیرے اندر ہیں کے لوگ حائضہ عورتوں سے لطف اٹھاتے ہیں ۔کوئی پڑوسی کی بیوی سے زنا کرتاہے ،کوئی اس کی بہن سے بدکاری کرتاہے ،کوئی دوسرا اس کی سالی سے ملوث ہوتاہے اور کوئی اپنے باپ کی بیٹی (یعنی)اپنی بہن کے ساتھ زنا کرتاہے ۔وہ سود لیتے ہیں اور پھلتے پھولتے ہیں ۔ان کے مذہبی رہنماؤں نے میری ہدایات پر ملمع کاری کی ہے۔وہ اس عمل کے ساتھ لوگوں کو غلط ہدایا ت جاری کرتے ہیں اور ان کے لئے میرے نام پر جھوٹ گھڑ تے ہیں ۔وہ کہتے ہیں یہی خدا کا فرمان ہیں حالانکہ اللہ نے کبھی ایسا فرمان جاری نہیں کیا۔
[46]
نوٹ:اس موضوع کو مزید سمجھنے کیلئے کتاب یوم الغضباز شیخ سفر الحوالی کا مطالعہ مفید رہے گا۔
رسول اللہ کی پیشن گوئیاں اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں
شاہِ مصر کے خواب کی تعبیر جب حضرت یوسف علیہ السلام نے بیان فرمائی کہ تم پر سات سالہ قحط آئے گا تو اس قحط سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کے لئے بھی فرمادیا ۔چنانچہ شاہِ مصر نے اس پر عمل کرکے اپنی رعایا کو تباہی سے بچالیا۔اس امت کے امام محمد عربیﷺچودہ سو سال پہلے خبر دے رہے ہیں کہ دیکھو فلاں فلاں مسلم علاقوں پر ایسے حالات آئیں گے لہٰذاپہلے ہی سے اس کے بارے میں منصوبہ بندی کرکرکے رکھنا لیکن مسلمان اپنے پیارے نبی کی باتوں کو نہیں مانتے ۔ بلکہ غفلت کی دنیا کے باسی تو اس کو تقدیر کا لکھا کہہ کراپنی نااہلی کا کھلا مظاہرہ کرتے ہیں ۔حلانکہ اگر آج مغربی میڈیا یہ اعلان کردے کہ فلاں شہر میں سمندری طوفان آنے والا ہے یا فلاں علاقہ تباہ ہانے والا ہے لہٰذا چوبیس گھنٹے کے اندر شہر خالی کردیا جائے تو آپ دیکھیں گے کی شہر میں ان کا ایک کتا بھی نظر نہیں آئے گااور ا س وقت اس طرح موت کے خوف سے بھاگیں گے جیسے لکھی ہوئی موت کو بھی ٹال سکتے ہوں لیکن کیا وجہ ہے کہ اللہ کے رسول کی احادیث سننے کے بعد بھی مسلمانوں میں کوئی بیداری نہیں ہورہی ؟



[1] سنن ابی داؤد۳۷۳۹۔

[2] دیکھئے بیٹس کی کتاب ص:214 بحوالہ یوم الغضب از شیخ سفر الحوالیفصل ھشتم۔

[3] دیکھئے بیٹس کی کتاب ص:240 بحوالہ یوم الغضب از شیخ سفر الحوالیفصل ھشتم۔

[4] یرمیاہ 7-6:4۔


[5] یسعیاہ ۵:۲۶ تا ۳۰۔

[6] یسعیاہ17-16,14-12,8:30۔

[7] مسند احمد بن حنبل کتاب الجھاد ،نسائی۔

[8] الفتن از نعیم بن حمادرحمہ اللّٰہ،باب غزوة الھند:۱/۴۱۰،حدیث:۱۲۰۱،۱۲۳۹۔

[9] الفتن از نعیم بن حماد رحمہ اللّٰہ،باب غزوة الھند:۱/۴۰۹۔۴۱۰،حدیث:۱۲۳۶،۱۲۳۸واسنادہ ضعیف ومسند اسحق بن راھویہ،قسم اول۔سوم:۱/۴۶۲حدیث:۵۳۷۔

[10] مسندا حمد :۲/۳۶۹،مسندابوہریرہ ؓ:۸۴۶۷۔البدایة والنھایةالابن کثیر ،الاخبار عن غزوہ الھند:۶/۲۲۳۔

[11] السنن المجتبیٰ و السنن الکبریٰاز امام بھیقی و امام نسائی۔

[12] الفتن نعیم بن حماد ج:۲ص:۶۷۹۔

[13] سنن ابی داؤد۔

[14] صحیح بخاری ج:۶ص:۲۶۰۵۔سنن ترمذی ج:۴ص:۶۹۸۔عن ابی ھریرة ؓ۔

[15] صحیح مسلم ج:۴ص:۲۲۱۹۔عن ابی ھریرةؓ۔

[16] ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین وو افقہ الذھبی (مستدر ک حاکم ج:۴ص: ۵۱۰۔سنن ابن ماجہ ج:۲ص:۱۳۶۷۔

[17] بخاری شریف ۶۶۸۱،مسند احمد۵۹۸۷،عن عبد اللّٰہ بن عمرؓ۔

[18] الفتن نعیم بن حماد ج:۲ص:۴۶۹، واسنادہ فیہ کلام۔

[19] الفتن نعیم بن حماد:۲۰۵۔

[20] مصنف ابن ابی شیبہ ج:۷ص:۵۱۴ واسنادہ فیہ کلام۔

[21] المستدر ک علی الصحیحین ج:۴ص:۵۴۹ واسنادہ فیہ کلام۔

[22] المعجم الکبیر ج:۱۸ص:۳۳۲ واسنادہ فیہ کلام۔

[23] الفتن نعیم بن حماد کی یہ روایت ضعیف ہے مگرالفتن ہی میں دوسری سند سے روایت بھی آئی ہے جس میں کوئی نقص نہیں۔

[24] حدیث ِصحیح ۔طبرانی ،بزار ،ابو نعیم۔

[25] حدیثِ حسن ابوداؤد ،مستدرکِ حاکم۔

[26] جامع ترمذی۔

[27] عن عبد اﷲبن مسعودؓ۔کتاب الفتن ،باب اجتماع الناس بمکة و بیتھم للمھدی،ص۲۱۴از امام ابو عبد اللّٰہ نعیم بن حماد ۔

[28] بخاری و مسلم۔

[29] مسلم ،کتاب الفتن۔

[30] صحیح مسلم۔

[31] الفتن نعیم بن حماد ،ج:۲ص:۵۴۸۔السنن الواردة فی الفتن واسنادہ صحیح۔

[32] سنن ابو داؤد ج :۴ص:۱۱۱،مستدرک حاکم ج:۴ص:۵۳۲ ،عن ابی دردا ؓواسنادہ صحیح۔

[33] صحیح مسلم ج:۴ص:۲۲۲۱/ابن حبان ج:۱۵ص:۲۲۴۔عن ابی ھریرةؓ۔

[34] الفتن نعیم بن حماد ج:۲ص:۴۹۳ واسنادہ فیہ کلام۔

[35] الفتن نعیم بن حماد ج:۱ص۴۱۹۔

[36] الفتن نعیم بن حماد۔

[37] صحیح مسلم ج:۴ص:۲۲۲۳۔مستدر ک ج:۴ص۵۲۳۔مسند ابی یعلی ج:۹ص:۲۵۹۔

[38] السنن الواردةفی الفتن ج:۵ص:۱۱۱۰۔

[39] کتاب الفتن ،باب الاعماق وفتح القسطنطنیة،ص۲۶۰۔

[40] مسلم ج:۴ص:۲۲۳۸۔ عن ابی ھریرةؓ۔

[41] مسند احمد ج:۶ص:۲۸۳۔

[42] میکاہ کا صحیفہ،باب ۲آیت ۱تا۵ اور ۹تا ۱۰۔

[43] یسعیاہ:۵۷:۳۔۶۔

[44] 22:19-22

[45] 8:3


[46] ایزاخیل 22:1-9بحوالہ کتاب یوم الغضباز ڈاکٹر سفر الحوالی۔​
 

ibneislam

Banned
فتنہ ٔ دجال احادیث مبارکہ کی روشنی میں
فتنۂ دجال کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود نبی کریم ﷺنے اس فتنے سے بچنے کی پناہ مانگا کرتے تھے اور اپنے صحابہ کرام﷡کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’حضرت آدم ﷣کی پیدائش اور روزِقیامت کے درمیان اللہ کے نزدیک فتنہ ٔ دجال سے بڑا کوئی فتنہ نہ ہوگا۔‘‘
[1]
’’جب تم سے کوئی (اپنی نماز میں )تشہد پڑھ کر فارغ ہوجائے تو اللہ سے چار چیزوں کی پناہ مانگے اور کہے اے اللہ!میں جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور قبر کے عذاب سے اورموت وحیات کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے کے شر سے۔‘‘
[2]
یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریمﷺکے صحابہ﷡کے سامنے اس فتنے کا تذکرہ فرماتے تو صحابہ کرام ﷡کے چہروں پرخوف کے اثرات نمودار ہوجایا کرتے تھے۔ایک صحابی حضرت نواس ﷛ابن سمعان صحابہ کرام ﷡کی اس کیفیت کااحوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’گویا ہم کو ایسا گمان ہوتا کہ دجال (یہیں قریبی کسی)کھجوروں کے باغ میں موجود ہو۔‘‘
[3]
فتنۂ دجال میں وہ کون سی چیز تھی جس نے صحابہ کرام﷡کو ڈرا دیا ؟آیا خوف ناک جنگ یا موت کے خوف نے ؟ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کرام﷡ان چیزوں سے ڈرنے والے نہیں تھے۔صحابہ کرام ﷡جس چیز سے ڈرے وہ دجال کا فریب اور دھوکہ تھا ،کہ وہ وقت اتنا خطرناک ہوگاکہ صورتحال سمجھ نہیں آئے گی،گمراہ کرنے والے قائدین کی بہتات ہوگی۔ پھر پروپیگنڈے کا یہ عالم ہوگاکہ لمحوں میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بناکر دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا جائے گا ۔انسانیت کے دشمنوں کو نجات دہندہ اور نجات دہندہ کو دہشت گرد ثابت کیا جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺنے فتنہ دجال کو کھول کھول کر بیان فرمایا ۔اس کا حلیہ ،ناک نقشہ اور ظاہر ہونے کامقام تک بیان فرمادیا ،لیکن کیاجائے امت کی اس غفلت کوکہ عوام تو عوام خواص(یعنی اہل علم )نے بھی اس فتنے کا تذکرہ بالکل ہی چھوڑ دیا ہے۔جب اس کا تذکرہ منبر و محراب سے نکل جائے توسمجھ لیجئے اس کے خروج کا وقت قریب ہے۔
حضرت صعب بن جثامہ ﷛کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’دجال اس وقت تک نہیں نکلے گا جب تک لوگ اس کا تذکرہ نہ بھول جائیں اور ائمہ مساجد منبروں پر اس کا ذکر کرنا نہ چھوڑ دیں۔‘‘
[4]
ٰیہی وجہ ہے کہ آپ ﷺاپنے ارشادات میں یہ بات واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ تم اس دجال کو بھول نہ جاؤبلکہ اس کو سمجھو،اس میں غوروفکر کرو اور اس کو دوسروں تک پہنچاؤ۔رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’میں اس کو (یعنی دجال کے فتنے کو)اس لئے باربار بیان کرتاہوں کہ تم اس میں غور کرو ،سمجھو اور باخبر رہو اور اس پر عمل کرو اور اس کو ان لوگوں سے بیان کرو جو تمہارے بعد ہیں لہٰذا ہر ایک دوسرے سے بیان کرے اس لئے کہ اس کا فتنہ سخت ترین ہے ۔‘‘
[5]
دجال کی آمد کا انکار
’’حضرت عبداللہ ابن عباس﷛نے فرمایا کہ حضرت عمر ﷛بن خطاب نے خطبہ دیا اور یہ بیان فرمایا کہ اس امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو رجم (سنگسارکی سزا) کا انکار کریں گے ،عذاب قبر کا انکار کریں گے اور دجال کی آمد کا انکار کریں گے اور شفاعت کا انکار کریں گے اور ان لوگوں(یعنی گنہگار مسلمانوں )کے جہنم سے نکالے جانے کا انکار کریں گے‘‘۔
[6]
یہود ونصاری کی امداد پر چلنے والی این جی اوز اپنے آقا ؤں کے اشاروں پر آئے دن اسلامی قوانین کا مذاق اڑاتی رہتی ہیں اور ان کو ختم کرنے کی باتیں کرتی ہیں ۔نیز ہمارے معاشرے میں چند نام نہاد روشن خیال اور اعتدال پسند دانشور مذکورہ بالا تما م چیزوں کو خاص کر رجم کی سزا کو غیر اسلامی اور دجا ل کی شخصی حیثیت کا انکار کرتے نظر آتے ہیں اور ٹی وی اسکرینز پر آن عوام میں شکوک و شبہات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بچنا نہایت ضروری ہے ۔
دجال سے پہلے دنیا کی حالت
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’دجال کے خروج سے پہلے کے چند سال دھوکہ وفریب ہوں گے۔سچے کو جھوٹا بنایا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنایا جائے گا ۔خیانت کرنے والے کو امانتدار بنادیا جائے گا اور امانت دار کو خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گااور ان میں ’’روبیضہ ‘‘گفتگو کریں گے ۔پوچھا گیا روبیضہ کون ہیں؟گھٹیا (یعنی فاسق وفاجر)لوگ ۔یہ لوگوں کے (اہم )معاملات میں رائے زنی کریں گے۔‘‘
[7]
موجودہ دور پر یہ حدیث کتنی صادق آتی ہے ۔نام نہاد ’’مہذب دنیا‘‘ کا بیان کردہ جھوٹ جس کو پڑھے لکھے لوگ بھی سچ مان جاتے ہیں، اگر اس جھوٹ پر کتابیں لکھی جائیں تو شاید لکھنے والا لکھتے لکھتے اپنی قضاء کو پہنچ جائے ،لیکن ان کے بیان کردہ جھوٹ کی فہرست ختم نہ ہو (سب سے بڑی مثال عراق پر یہ کہہ کر حملہ کرنا کہ یہاں تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں لیکن ان کا کوئی وجود نہ تھا)اور کتنے ہی سچ ایسے ہیں جن کے اوپر مغرب کے’’انصاف پسند ‘‘ میڈیا نے اپنی لفاظی اور فریب کی اتنی تہیں جمادی ہیں کہ عام انداز میں ساری عمر بھی اس کو صاف کرنا چاہے توصاف نہیں کرسکتا ۔
ہم کس طرف ہیں؟
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’جب لوگ دو خیموں ( یعنی دو جماعتوں)میں تقسیم ہوجائیں گے ،ایک اہل ایمان کا خیمہ جس میں ’’نفاق ‘‘بالکل نہ ہوگا ،دوسرا منافقین کا خیمہ جس میں بالکل ’’ایمان‘‘نہ ہوگاتو جب وہ دونوں گروہ اکٹھے ہوجائیں ( یعنی اہل ایمان ایک طرف اورمنافقین ایک طرف)تو تم دجال کا انتظار کرو کہ آج آئے یا کل آئے۔‘‘
[8]
اللہ رب العزت کی حکمتیں بہت نرالی ہیں،وہ جس سے چاہتا کام لے لیتاہے ۔مسلمان خود تو یہ دونوں خیمے (یعنی مومنین اور منافقین کا خیمہ )نہ بناسکے البتہ اللہ نے کفر کے سردار کے ذریعے یہ کام کروادیا ۔یہودیت کے خادم ’’صدر بش‘‘نے خود اعلان کردیا کہ کو ن ہمارے خیمہ میں ہے اور کون ہمارے دشمن (یعنی اہل ایمان)کے خیمہ میں رہنا چاہتا ہے ۔9/11 کے بعد صدر بش کے الفاظ یوں تھے :
"Every nation ,in every region,now has a decision to make.
Either you are with us ,or you are with the terrorists."
’’ہر قوم جو کہیں بھی رہتی ہو،اس کو ابھی یہ فیصلہ کرنا ہوگا آیا وہ ہمارے ساتھ ہے یا وہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہے۔‘‘
چنانچہ اس کے بعد لوگوں کی کثیر تعداد اِن دونوں خیموںمیں سے ایک کا انتخاب کرچکی ہے،مگر ابھی کچھ لوگ باقی ہیں ،لیکن محمدعربی ﷺکے رب یہ کام مکمل فرماکررہے گا اور اب بالکل واضح ہوجائے گا کہ کون ایمان والا ہے اور کس کے دل میں ایمان والوں سے زیادہ اللہ کے دشمنوں کی محبت چھپی ہوئی ہے۔ہر ایک کو اپنے بارے میں سوچنا چاہیے کہ وہ کس خیمہ میں ہے یا کس خیمہ کی اس کا سفر جاری ہے ۔خاموش تماشائیوںکی نہ تو ’’ابلیس ‘‘اور اس کے اتحادیوں کو ضرورت ہے اور نہ ہی محمد عربی ﷺکے رب کو ان سے کوئی سروکار ہے۔یہ معرکہ فیصلہ کن معرکہ ہے لہٰذا کسی ایک طرف تو ہر ایک کو ہونا پڑے گا۔یہ وہ وقت ہے جس میں ہر فرد ،ہرتنظیم اور ہر جماعت اسی جانب جھکتی جائے گی جس کے ساتھ اس کو عقیدت محبت ہوگی ۔
﴿اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ یُّخْرِجَ اللّٰہُ اَضْغَانَھُمْ﴾
[9]
’’کیا سمجھا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں بیماری ہے کہااللہ تعالیٰ ان کے سینے کے کینے کو ظاہر نہ کرے گا‘‘
دجال سے پہلے کے تین سال
حضرت اسماء بنت یزید انصاریہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تشریف فرما تھے ،آپ ﷺنے دجال کا بیان فرمایا ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’اس پہلے کے تین سال ہوں گے ۔(جن کی تفصیل یہ ہے کہ)پہلے سال آسمان اپنی ایک تہائی بارش روک لے گا اور زمین اپنی ایک تہائی پیدا وار روک لے گی ۔دوسرے سال آسمان اپنی دو تہائی بارش روک لے گا اور زمین اپنی دو تہائی پیداوار روک لے گی اور تیسرے سال آسمان اپنی مکمل بارش روک لے گا اور زمین اپنی پوری پیداور روک لے گی۔لہٰذا کُھر والے اور داڑھ والے مویشی سب مرجائیں گے(یعنی قحط سالی سے ہر قسم کے مویشی ہلاک ہوجائیں گے)
[10]
مذکورہ بالا حدیث میں ہے کہ آسمان بارش روک لے گا اور زمین اپنی پیدوار روک لے گی جبکہ مسند اسحٰق ابن راہویہ کی ایک روایت میں ہے کہ :
((تَرَی السَّمَاءَ تُمْطِرُ وَھِیَ لَا تُمْطِرُ وَتَرَی الْاَرْضُ تُنْبِتُ وَھِیَ لَا تُنْبِتُ))
[11]
’’تم آسمان کو بارش برساتا دیکھو کہ حالانکہ وہ بارش نہیں برسارہا ہوگا اور تم زمین کو پیداوار اُگاتا دیکھو گے حالانکہ وہ پیداوار نہیں اگا رہی ہوگی۔‘‘
اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بارش بھی برسے اور زمین پیداوار بھی اُگائے لیکن اس کے باوجود لوگوں کو کوئی فائدہ نہ ہواور لوگوں کی وہ پہنچ سے دور ہواور لوگ قحط سالی کا شکار ہوجائیں ۔جدید دور میں اس کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں ۔عالمی زراعت کو اپنے قبضے میں کرنے کے لئے جو پالیساں یہودی دماغوں نے بنائی ہیں اور جو عالمی معاہدات زراعت کے حوالے سے کئے جارہے ہیں ،اس کے اثرات اب ہمارے ملک میں تک بھی پہنچنا شروع ہوگئے ہیں جس کا مشاہدہ ہم اپنی چشمِ صدر سے کرسکتے ہیں۔
دجال کا حلیہ ………
رسول اللہﷺنے فرمایا :
’’دجا ل بائیں آنکھ سے کا نا ہوگا اور گھنے اور بکھرے بال والا ہوگا ،اس کے ساتھ جنت بھی ہوگی اور جہنم بھی ۔بس اس کی آگ(درحقیقت )جنت ہوگی اور اس کی جنت آگ ہوگی۔‘‘
[12]
’’دجال کی ایک آنکھ بیٹھی ہوئی ہوگی (جیسے کسی چیز پر ہاتھ پھیر کر اس کو پچکادیاجاتا ہے)اور دوسری آنکھ پر موٹا دانا ہوگا (یعنی پھولی ہوئی ہوگی)‘‘
[13]
فتح الباری میں دجال کے بالوں کے بارے میں آتاہے کہ:
((کان راسہ اغصان شجر))
’’(یعنی بالوں کی زیادتی اور الجھے ہوئے ہونے کی وجہ سے )اس کا سر اس طرح نظر آتاہوگاکہ گویا کسی درخت کی شاخیں ہوں۔‘‘
دجال کو ہر مومن شخص پہچان لے گا
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’دیکھو وہ کانا ہوگا اور تمہارا رب تو یک چشم نہیں ہے ۔اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان’’ کافر‘‘ لکھا ہوگا جسے ہر مومن پڑھ سکے گا ۔‘‘
[14]
ایک اور روایت کے مطابق :’’ک۔ف۔ر اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا (اللہ کے رسول نے ہجے کرکے بتلایا )‘‘
[15]
دجال کے وقت بھی بہت سے لوگ جو اپناایمان ڈالر اور دنیا وی زیب وزینت کے بدلے بیچ چکے ہوں گے، جنہوں نے ایمان کو چھوڑ کر دنیا کو اختیار کرلیا ہوگا ،جنہوں نے اللہ کے نام پر کٹنے کے بجائے دجالی قوتوں کی طاقت کے سامنے سرجھکا دیا ہوگا تو وہ اس کی پیشانی پر لکھا کفر نہیں پڑھ پائیں گے،بلکہ اس کو وقت کا ’’مسیحا‘‘اور انسانیت کا ’’نجات دہندہ‘‘ثابت کررہے ہوں گے اور اس کے لئے دلائل ڈھونڈ رہے ہوں گے ۔دجال کے خلاف لڑنے والوں کو ’’گمراہ ‘‘ کہا جارہا ہوگاپھر بھی ان کا اپنے بارے میں یہی دعویٰ ہوگا کہ وہ ’’مسلمان ‘‘ہیں،حالانکہ ان کااسلام سے کوئی تعلق نہ ہوگا ۔یہ سب اس لیے ہوگاکہ ان کی بد اعمالیوں اور شقاوتِ قلبی کے باعث ان کی ایمانی بصیرت ختم ہوچکی ہوگی۔
جو دجال کو دیکھے وہ اس سے بغاوت کرے ورنہ اس سے دور بھاگےرسول اللہﷺ نے یہ بھی واضح فرمادیا کہ ہر بندہ مومن کوشش کرے کہ اُ س کا دجال سے واسطہ نہ پڑے اور اگر اس سے سامنا ہوبھی جائے تو اُ س کے سامنے سورۃ الکہف کی آیات کی تلاوت اور دجال سے بغاوت کا حکم دیا ۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا :’’تم میں سے جس کسی کے سامنے دجال آجائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کے منہ پر تھوک دے اور سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے ۔‘‘
[16]
دوسری روایت میں بھاگ جانے کا حکم ہے ۔آپ ﷺنے فرمایا:
’’تم میں سے جو کوئی دجال کی آنے کی خبر سنے تو اس سے دور بھا گ جائے ۔اللہ کی قسم!ایک شخص اس کے پاس آئے گا ،وہ خود کو مومن سمجھے گا مگر (اس کے فتنہ کی وجہ سے)اس کی پیروی کربیٹھے گا۔‘‘
[17]
دجال سے کتنا دور بھاگنا چاہیے ؟رسول اللہ ﷺنے فرمایا :’’لوگ دجال سے اتنا بھاگیں گے کہ پہاڑوں میں چلیں جائیں گے۔‘‘
[18]
دجال کو غلط سمجھنے کے باوجود اس سے فائدہ اٹھانے اور اس کے خلاف نہ اُٹھنے والوں پر اللہ کا غضب نازل ہوگا
دجال کو غلط سمجھنے کے باوجود اس سے فائدہ اٹھانے اور اس کے خلاف نہ اُٹھنے والوں پر اللہ کا غضب نازل ہوگا،چاہے انسان بظاہر کتنا ہی نیک ہو اور عبادات کا اہتمام کرنے والاہو۔ حضرت عمران ﷫،ابن حدیر ابی مجلز﷫ سے روایت کرتے ہیں،فرماتے ہیں :
’’جب دجال آئے گا تو لوگ تین جماعتوں میں تقسیم ہوجائیں گے ۔ایک جماعت اس دجال سے قتال کرے گی ،ایک جماعت (میدانِ جہاد سے )بھاگ جائے گی اور ایک جماعت اس کے ساتھ شامل ہوجائے گی ۔چنانچہ جو شخص اس دجال کے خلاف چالیس راتیں پہاڑ کی چوٹی پر ڈٹا رہا ، اس کو(اللہ کی جانب سے)رز ق ملتا رہے گا ،اور جو نماز پڑھنے والے اس کی حمایت کریں گے۔یہ اکثر وہ لوگ ہوں گے جو بال بچوں والے ہوں گے،وہ کہیں گے کہ ہم اچھی طرح اس (دجال )کی گمراہی کے بارے میں جانتے ہیں لیکن ہم ( اس سے بچنے کے لئے یا لڑنے کے لئے )اپنے گھر بار کو نہیں چھوڑ سکتے ۔سو جس نے ایسا کیا وہ بھی اس کے ساتھ شامل ہوگا۔‘‘
[19]
حضرت عبید ابن عمیر الیثی﷫فرماتے ہیں:
’’ دجال نکلے گا تو کچھ ایسے لوگ ا س کے ساتھ شامل ہوجائیں گے جو یہ کہتے ہوں گے کہ ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ یہ(دجال)کافر ہے ۔بس ہم تو ا س کے اتحادی اس لئے بنے ہیں کہ اس کے کھانے میں سے کھائیں اور اس کے درختوں(یعنی باغات)میں اپنے مویشی چرائیں ،چنانچہ جب اللہ کا غضب نازل ہوگا تو ان سب پر نازل ہوگا۔‘‘
[20]
واقعہ یہ ہے کہ آج مسلمان ان احادیث پر غور نہیں کرتے ،اگر غور کریں تو ساری صوتحال واضح ہوجائے گی ۔کیا آج بھی ایسا نہیں ہورہا کہ باوجود باطل کو پہچاننے کے اور تمام عبادات کی بجاآوری کے ،مسلمان مالی فائدہ حاصل کرنے کے لئے باطل کا ساتھ دے رہے ہیں ،اس کی حمایت کررہے ہیں یا پھر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔
دجال کا دجل وفریب
دجال کا دجل وفریب ہمہ جہت(Multi dimention)ہوگا۔جھوٹ ،فریب، افواہیں اور پروپگینڈہ اتنا زیادہ ہوگا کہ بڑے بڑے لوگ اس کے بارے میں شک وشبہ میں پڑجائیں گے کہ یہ ہمارا مسیحا ہے یا دجال؟عام طور پر عوام کے ذہن میں یہ ہے کہ دجال صرف اپنے مکروہ چہرے کے ساتھ دنیاکے سامنے آجائے گا۔اگر معاملہ اتنا سادہ ہوتا تو پھر کسی کو ڈرنے کی کیا ضرورت تھی ،لیکن اس کے مکروہ چہرے کے باوجود اس کے کارنامے دنیا کے سامنے اس طرح پیش کئے جائیں گے کہ لوگ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اگر یہ وہی دجال ہوتاتو ایسے اچھے کام نہ کرتا ۔
دجال کی بیخ کنی کے لئے حضرت عیسیٰ ﷣کا نزول
صحاحِ ستہ جیسی بلند پایہ کتب احادیث کے علاوہ دوسرے بہت سے مجموعوں کے ذریعے بھی جو روایات ملتی ہیں ،ان میں قطعیت اور صراحت کے ساتھ دجال اکبر کے ظہور اور حضرت مسیح کے نزو ل کی خبریں سال وسن اورصدی کے تعین کے بغیر دی گئی ہیں۔ان احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں ہمارا اس بات پر کامل ایمان ہے کہ حضرت عیسیٰ﷣بنفسِ نفیس آسمان سے نزول فرمائیں گے۔رسول اللہﷺنے فرمایا :
’’جبکہ وہ (دجال )یہ کام کررہاہوگا کہ اللہ مسیح عیسیٰ ابن مریم کو نازل فرمائے گا ، وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارے سے گیرو سے رنگے ہوئے دو زرد کپڑے پہنے ہوئے نازل ہوں گے۔انہوں نے ہتھیلیاں دو فرشتوں کے پرو ں پر رکھے ہوں گی ، جب سر نیچے کریں گے تو قطرے ٹپکیں گے اور جب سر اٹھا ئیں گے تو اس سے موتیوں کی مانند دانے گریں گے۔‘‘
[21]
’’میری امت کا ایک گروہ حق کی خا طر لڑتا رہے گا اور غالب ہوگا۔پھر عیسیٰ﷣نازل ہوں گے ۔مسلمانوں کا امیر (مہدی )ان سے کہے گا آئیے ہمیں نماز پڑھائیے۔وہ کہیں گے کہ نہیں ،امیر تم میں سے ہوگا ۔یہ وہ اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بخشا ہے۔‘‘
[22]
’’اس وقت تمہاری کیفیت کیا ہوگی جب مریم کے بیٹے تم میں اتریں گے اور تمہارا امام تمہاری قوم میں سے ہوگا۔‘‘
[23]
’’وہ اچانک عیسیٰ ابن مریم کو دیکھ لیں گے ،پھر نماز کے لئے اقامت کہی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا :
آگے بڑھیے اے روح اللہ !آپ ں فرمائیں گے :تمہاراامام آگے بڑھ کر تمہیں نماز پڑھائے ‘‘
دجال کا قتل اور انسانیت کے دشمنوں یہودیوں کا خاتمہ
رسول اللہﷺ نے فرمایا :
’’(جب وہ(مسلمان قسطنطنیہ فتح کرنے کے بعد) شام پہنچیں گے تو دجال کا خروج ہوگا۔ابھی وہ لڑنے کے لئے اپنی صفیں درست کررہے ہوں گے کہ نماز کھڑی ہوجائے گی اور عیسیٰ بن مریم کا نزول ہوگا ۔وہ دجال کی طرف جائیں گے۔جب اللہ کا دشمن انہیں دیکھے گا تو نمک کی مانند پگھل جائے گا ۔اگر عیسیٰ ﷣اس کو چھوڑدیتے تو وہ پگھل پگھل کر مرجاتا مگر وہ اسے اپنے ہاتھ سے قتل کریں گے اور اپنے چھوٹے نیزے پر اس کاخون لوگوں کو دکھائیں گے۔‘‘
[24]
’’عیسیٰ ابن مریم ﷣دجال کو ’’لُد‘‘ (Lydda/Lod) کے دروازے پر قتل کریں گے۔‘‘
[25]
’’لُد ‘‘دراصل تل ابیب سے جنوب مشرق میں 18کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک چھوٹا سا شہر ہے ۔اس شہر کی آبادی 1999کی سروے رپورٹ کی مطابق 61100ہے۔یہاں اسرائیل نے دنیا کا جدید ترین سیکورٹی سے لیس ائیر پورٹ بنایا ہے۔ہوسکتا ہے کہ وہاں سے وہ دجال بذریعہ طیارہ فرارہونا چاہے اور اسی ائیر پورٹ پر قتل کردیا جائے ۔اللہ تعالیٰ اپنے دشمن کو اور یہودیوں کے مسیحا اور خدا ’’کانے دجال ‘‘ کو حضرت عیسی ﷣کے ہاتھوں قتل کرائے گا ۔تاکہ ساری دنیا کو پتہ چل جائے کہ انسانیت کے ناسوروں کو ختم کرنے کے لئے ان کو جسم سے کاٹ کر الگ کرنا ضروری ہوتا ہے ،اور یہ عمل جہاد ہی کے ذریعے ہوتاہے ۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا :
’’قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کرلیں ،چنا نچہ ( اس لڑائی میں )مسلمان (تمام )یہودیوں کو قتل کردیں گے ،یہاں تک کہ یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپ جائیں گے تو پتھر اور درخت یوں کہے گا’’اے مسلمان !اے اللہ کے بندے !ادھر آ جا،میرے پیچھے یہودی چھپابیٹھا ہے اس کو مار ڈال ،مگر ’’غرقد‘‘نہیں کہے گا کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔‘‘
[26]
قربان ہو ہمارے ماں باپ ہمارے محمد عربی ﷺپر کہ ہماری بد قسمتی کہیں یا ایمان کی کمی کہ ہم آنے والے حالات کے حوالے سے جو اللہ کے رسول ﷺنے رہنمائی فرمائی ہے اور جو نشانیاں بتلائی ہیں ،اُن پر ہمیں اتنا یقین نہیں آتا لیکن ہمارا دشمن اس پر نہ صرف یقین رکھتا ہے بلکہ اپنالائحہ عمل بنانے کے لئے اس سے پورا فائدہ اٹھا تا ہے۔اس کی سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ اسرائیل نے جب سے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کیاہے ،اسی وقت سے وہاں غرقد کے درخت لگانے شروع کئے ہیں اور اس کے علاوہ بھی یہودی اس درخت کو جگہ جگہ لگارہے ہیں۔
نازک حالات اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں
یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
تاریک راتوں کی مانند فتنوں کے مہیب سائے دن دبدن انسانیت کو اپنی گرفت میں لئے جارہے ہیں ،ایمان والوں کے لئے یہ انتہائی آزمائش کی گھڑی ہے ۔کفر کی جانب سے اِدھر یا اُدھر کا اعلان کردیا گیا ہے ۔یہ ہر مسلمان کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس امتحان گاہ میں گذرے بغیر ’’جنت و جہنم‘‘ کا فیصلہ نہیں ہوسکتا ۔قرآن کریم میں اللہ رب العزت کاارشاد ہے :
﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّة وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاھدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ﴾
[27]
’’(اے مسلمانو!)کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں داخل کردیئے جاؤں گے حالانکہ ابھی تو اللہ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں جہاد کرنے والا کون ہے اور ثابت قدم رہنے والا کون ہے؟‘‘
یہ اللہ کا قانون ہے اوراللہ کے قانون کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔لہٰذا موجودہ حالات اور مستقبل کے حوالے سے اللہ کے رسول ﷺ کی رہنمائی کو سمجھنے کے بعد اب یہ بات آسانی سے سمجھ آجاتی ہے کہ اس وقت دنیا کے اسٹیج پر جو کچھ ہورہا ہے یہ حق وباطل کے درمیان جنگ کاآخری معرکہ ہے ۔اب ابلیس کی ساری محنت و توانائیاں اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ ساری دنیا میں اس کی حکومت قائم ہوجائے تاکہ (اپنے گمان کے مطابق)ابن آدم کو تباہ کن انجام سے ہمکنار کردے اور انسان کو اللہ کی نظر سے گرادے کہ یہ انسان تیری دی ہوئی ذمہ داری کو نہ نبھا سکا ۔
ابلیس کے اس مشن میں ابلیس کے دیرینہ حلیف ،اللہ کے دشمن اورانسانیت کے مجرم ’’یہود‘‘سب سے بڑھ چڑھ کر لگے ہوئے ہیں ۔ان کے ساتھ ابلیس کی تمام ذریت چاہے وہ جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے،بھر پور طریقے سے ان کا ساتھ دے رہے ہیں ۔اب انہوں نے صاف صاف کہنا شروع کردیاہے کہ ان کی جنگ مشن کے مکمل ہونے تک جاری رہے گی اور مقاصد کے حصول تک وہ لڑتے رہیں گے۔یہ وہ جملے ہیں جو ہم امریکی صدر بش اور دیگر کفر کے سرداروں کی زبان سے بار بار سن رہے ہیں۔ہم سوئے ہوئے مسلمانوں سے پوچھتے ہیں کہ’’اے غفلت کے صحراؤں میں بھٹکنے والو !خطرات کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے والو!‘‘وہ کونسا مشن ہے جو ابھی تک مکمل نہیں ہوا ؟مشن اگر طالبان تھے وہ ان کے مطابق جاچکے ،مشن اگر القاعدہ تھی تو وہ ان کے بقول اُس کی کمر ٹوٹ چکی ،مشن اگر عراق کی عسکری قوت تھی تو وہ بھی ختم ہوچکی ،لیکن بش ابھی بھی کہتاہے کہ مشن پوراہونے تک جنگ جاری رہے گی ۔اس کا مطلب ہے کہ مشن آگے کوئی اور ہے.کفر کے سردار اس مشن کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔
ہم وہ تمام احادیث مبارکہ دیکھ چکے ہیں کہ جن میں حضرت مہدی اور سیدنا حضرت عیسیٰ ﷣ کی آمد کا مقصد واضح الفاظ میں ’’قتال فی سبیل اللہ ‘‘بتایا گیا ہے کہ وہ کفار کے خلاف مجاہدین کی قیادت کریں گے اس لئے ہر مسلمان کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے اور ایمان بچانے کے لئے اپنے دل میں جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت پیدا کرکے اس کی عملی تیاری کرنی چاہیے ۔لیکن اگر کوئی یہ کہتاہے کہ ابھی تو وہ وقت نہیں آیا یعنی ابھی تو حضرت مہدی کا دور بہت دور ہے لہذا بعد اس کے بارے میں سوچیں گے تو قرآن کا یہ ارشاد بھی سن لیجئے :
﴿وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّةً ﴾
’’اور اگر وہ ارادہ کرتے (جہاد میں )نکلنے کاتو انہوں نے اس کی تیاری کی ہوتی۔‘‘
چند باتیں اور ہیں جن کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ مسلمانوں کو بہکانے اور حق سے دور کرنے اور اُس سے بدظن کرنے کے لئے ابلیسی قوتوں کی جانب سے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں ،اس میں سرفہرست حضرت عیسیٰ کا نزول ،حضرت مہدی اور دجال کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات ڈالنا یا اس کے برعکس اپنے ایجنڈوں سے میں سے بہت سو کو مہدی کا دعوے دار بناکر کھڑا کردینا۔ لہٰذا آقائے مدنی ﷺنے جو نشانیا ں ان حوالوں سے بیان کی ہیں ان کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔اس کے علاوہ چند چیزیں اور ہیں جن کو اختیار کرکے فتنوں سے بچنے میں انشاء اللہ مدد مل سکتی ہے:
(۱) چونکہ دجال کے دور میں حقیقت اتنی نہیں ہوگی جتنی کہ افواہیں اور پروپیگنڈہ ہوگااوراس پروپیگنڈہ کوپھیلانے کا سب سے مئوثر ذریعہ جدید ذرائع ابلاغ(اخبار ،ریڈیو ٹی وی وغیرہ )ہیں لہٰذا جدید کمیونیکیشن (ٹیلی فون ،موبائل ،انٹر نیت وغیرہ )اور دیگر جدیدی سہولیات کو خود کو محتاج نہ بنائیں بلکہ ابھی سے ایسی عادت بنالیں کہ اگر کل یہ سارا نظام آپ کو چھوڑنا پڑے تو اس صور ت میں آپ کیا کریں گے ؟ لہٰذا اس پر کم سے کم ہی اعتماد دنیا اور آخرت کے لئے فائدہ مند ہوگا۔
(۲) اگر دجالی مغربی میڈیا کو سنیں تو اس وقت ذکر واذکار کرتے رہنا چاہیے۔
(۳) زبان کا فتنہ :اس دور میں دجالی قوتوں کی کوشش ہوگی کہ وہ حق اور اہل حق کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کریں کہ اس کے زور میں حق دب کر رہ جائے۔اس لئے اگر آپ کوئی مغربی بات میڈیا کی جانب سے سنتے ہیں تو اپنے موبائل یا زبانی اس وقت تک کسی اور کو نہ بتائیں جب تک کہ صورتحال واضح نہ ہوجائے ۔اس طرح آپ دجالی قوتوں کے پروپیگنڈے کے اثر کو اگر بالکل ختم نہیں ،تو اس کا زور ضرور توڑدینگے ۔
(۴) جب کسی کو دجالی قوتوں کی جانب سے مشتبہ بنادیا جائے اور صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے ،تو اس وقت ایمان والوں کے لئے جدید مادی وسائل کے ذریعے معلومات کے بجائے اللہ ہی کی طرف رجوع کرنے میں خیر ہوگی۔کیونکہ حالات کو دجال کی آنکھ سے دیکھنے والے اور اللہ کے نور سے دیکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔جیساکی ارشاد ربانی ہے:
﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّھْدِیَہ، یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلاَم﴾
’’تو کیا وہ شخص جس کے سینے کو اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا تو وہ اپنے رب کے نور پر ہے (تو کیا وہ اُ س کے برابر ہوسکتاہے جو اندھیرے میں ہو)‘‘
(۵) دل کی اسکرین کو صاف کریں :عقل و خرد رکھنے والے مسلمان بھائی جب مغربی میڈیا کی حقیقت کو سمجھ جائیں اور ان کے ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کی اسکرین پر حالات کی تصویر دھندلانے لگے ،تو اس وقت ان کے لئے ،کہیں دائیں بائیں دیکھنے کے بجائے ،اپنے سینے میں موجود چھوٹی سی اسکرین کو صاف کرنا ہی زیادہ بہتر ہوگا اور پھر بھی وہ دیکھیں گے کہ صاف ہونے کے بعد یہ ننھی سی اسکرین وہ مناظر دکھائے گی جو آپ ساری عمر جدید سے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرکے بھی نہیں دیکھ سکتے تھے ۔ارشاد ربانی ہے:
﴿یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانا﴾
[28]
’’اے ایمان والو!اگر تم اللہ سے ڈروگے تو اللہ تمہیں ’’فرقان‘‘(حق وباطل میں تمیز)عطاکردیگا۔‘‘
یہ فرقان ہی وہ اسکرین ہے جس کے ذریعے عام آنکھ سے نہ نظر آنے والی چیزیں بھی نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں ۔بندے کا تعلق ملاء اعلیٰ(رحمانی قوتوں )سے جڑ جاتاہے جہاں دنیا کے انتظامی معاملات طے پاتے ہیں،یوں اللہ اپنے بندے کو بصیرت عطاکردیتاہے ،پھر حدیث کے مطابق وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
((اتقوا فراسة المومن فانہ ینظر بنور اللّٰہ عزوجل))
[29]
’’مومن کی فراست سے ڈرو ،کیونکہ وہ اللہ عزوجل کے نور سے دیکھتاہے۔‘‘
(۶) سورہ الکہف کی ابتدائی آیات کی تلاوت اور اُن کے مضامین کو سمجھ کر عمل کرنا:فتنہ ٔ دجال سے بچنے کے لئے نبی کریم ﷺنے سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات کی تلاوت کا حکم فرمایا ہے لہٰذا ان آیات کو روز تلاوت کرکے ان پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
(۷) تقویٰ:موجودہ وقت میں تقویٰ اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ان اعمال کا خود کو پابند بنایا جائے جن کے کرنے سے رحمت ِالٰہی بندے کو ہر وقت ڈھانپے رکھتی ہے ۔مثلاًہر وقت باوضوء رہنا ،نمازوں میں نوافل وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر تک اسی جگہ بیٹھے رہنا ،تہجد کی پابندی ۔خصوصاً وہ لوگ جو دین کے کسی شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں اُ ن کے لئے تو تہجد بہت ضروری ہے ۔
(۸) اللہ تعالیٰ سے مضبوط رابطے کے لئے قرآن کریم کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پابندی سے پڑھنا اور اپنے قلوب کو منور رکھنے اور حق کے قافلوںمیں شامل رہنے والے اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنا اور ہرحال میں حق والوں کے ساتھ ڈٹے رہنا۔
(۹) ہر اُس چیز کی عملی تیاری کرنا جوحضرت مہدی کے دور میں ایمان کی علامت ہوگی ۔مثلاًخود کو گرمی سردی کا عادی بنانا ،کئی کئی دن بھوک پیاس برداشت کرنا ،راتوں کو پہاڑوں پر چلنے اور گھمسان کی جنگوں کی تیاری کرنا ،پہاڑوں کی زندگی سے طبیعت کو مانوس کرنا ،اپنے اندر بھی اور اہل خانہ کو بھی اللہ کے راستے میں ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے ابھی سے تیار کرتے رہنا ۔علامہ اقبال نے فرمایا:
چوں می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لاالٰہ را
’’جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں ۔کیونکہ میں جانتا ہوں لاالٰہ کے تقاضے پورے کرنے میں بے شمار مشکلات ہیں۔‘‘



[1] ھذا حدیث صحیح علی شرط البخاری ولم یخرجھا ۔مستدرک حاکم ج:۴ص:۵۷۳۔عن عمران بن حصین ؓ۔

[2] صحیح مسلم ج:۱ص:۴۱۲۔

[3] صحیح مسلم ج:۴ص:۲۲۵۰۔

[4] مسند احمدج:۴ص:۷۱،کذا فی المسیح الدجال و نزول عیسی ابن مریم ص:۱۰۔

[5] الفتن نعیم بن حماد۔

[6] فتح الباری ،ج :۱۱،ص۴۲۶۔

[7] مسند احمد ۱۲۲۳۔مسند ابی یعلی ۳۷۱۵۔السنن الوردة فی الفتن واسنادہ حسن۔

[8] ابو داؤد ج:۴ص:۹۴۔مستدر ک حاکم ج:۴ص:۵۱۳۔الفتن نعیم بن حماد واسنادہ صحیح ۔

[9] سورة محمد /سورة القتال:۲۹۔

[10] المعجم الکبیر ۴۰۶۔مسند احمد۔

[11] مسند اسحاق ابن راھویہ ج:۱ص:۱۶۹۔

[12] مسلم ج:۴ص:۲۲۴۸۔

[13] مشکوٰۃ جلد سوم حدیث۵۲۳۷۔

[14] بخاری،مسلم۔

[15] جامع ترمذی۔

[16] طبرانی ،مستدر ک حاکم۔

[17] ابوداؤد،طبرانی۔

[18] صحیح مسلم ج:۴ص:۲۲۶۶ وھذا حدیث حسن صحیح غریب۔

[19] السنن الواردة فی الفتن ج:۶ص:۱۱۷۸واسنادہ صحیح۔

[20] الفتن نعیم بن حمادج:۲ص:۵۴۶۔

[21] مسلم کتاب الفتن۔

[22] مسلم،مسند احمد۔

[23] بخاری،مسلم ،مسند احمد۔

[24] مسلم عن ابی ھریرہ ۔

[25] مسند احمد بن حنبل ج:۳ص:۳۲۰۔جامع ترمذی۲۲۴۴۔

[26] صحیح مسلم ج:۴ص:۲۲۳۹۔

[27] سورة ال عمران:۱۴۲۔

[28] سورةالانفال:۲۹۔

[29] جامع ترمذی۔
 

ibneislam

Banned
چنانچہ جس طرح دجال کے آلہ کار مشن کے مکمل ہونے تک پیچھے ہٹنے کا ارادہ نہیں رکھتے اسی طرح اللہ کے فضل سے اللہ کے چنے ہوئے کچھ مجاہد بندے بھی اپنے مشن کی تکمیل تک میدان میں ڈٹے رہنے کا عزم رکھتے ہیں اور عراق سے لیکر افغانستان تک اپنی جانوں کا نذارانہ پیش کرتے ہوئے اللہ کے دشمن ابلیس اور دجال کے مقصد کے پورے ہونے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
یہ اللہ کے سپاہی زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ آقائے مدنی ﷺکی بشارتوں کا وقت آگیاہے اور ہر ایمان والے کو اپنے عمل سے دعوت دے رہے ہیں کہ اے مقصدِ ربانی کو بھول کر دنیا کے ہنگاموں میں گم ہوجانے والو!خود کو تاویلوں ،علتوں اور مصلحتوں میں الجھانے والو!اے دنیائے فانی کے حسن کے پیچھے بھاگنے والے نوجوانو!آؤ ہم تمہیں اُس’’حسن‘‘کے بارے میں بتاتے ہیں جس کو سن کر دلہا نئی نویلی دلہن کو حجلہ عروسی میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔اے دنیا کے نشے میں خود کو ڈبونے والو!اِدھر آؤہم تمہیں ایسا نشہ پلاتے ہیں کہ جنت میں جاکر بھی جس کا نشہ نہیں اترا کرتا (یعنی شہادت)۔اے محمد عربی ﷺکے غلامو!ایمان بچانے کے لئے جان گنوادینا ،جان بچانے کی خاطر ایما ن نہ گوادینا اور اس لشکر کی مدد کرنا جس کی بشارت اللہ کے رسول ﷺنے دی ہے۔اس کے لئے خود کو بھی تیار کرو کہ اس لشکر میں اور حضرت مہدی کے ساتھ وہی ہوں گے جن کو جنگ لڑنی آتی ہوگی یا اس کی کچھ تیاری کررکھی ہوگی………اور جنگ بھی کیسی الملحمةالکبری ٰ(خطرناک عظیم جنگ)………اپنے کانوں کو ڈیزی کٹر او ر کروز مزائلوں کی چنگھاڑ کا عادی بنانے کی تیاری کرلوکیونکہ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ ان سے ایک نہ ایک دن سب کو واسطہ پڑنا ہے(اللّٰھم احفظنا)تاکہ کل جہنم کی چنگھاڑ سے بچ سکو﴿لھم فیھا زفیر وشھیق﴾۔
یہ لشکرجس کی بشارت اللہ کے رسول نے دی تھی یہ کسی ایک جماعت کالشکر نہیں یہ سب مسلمانوں کا لشکر ہے اور ہر کلمہ پڑھنے والے پر اس کی مددکرنا فرض ہے۔چنانچہ تما م آپس کے اختلافات کو بھلاکر ،ذاتی اناؤ ں کی دیوراوں کو مسمار کرکے ،سب کے متحد ہونے کا وقت آگیا ہے ۔اگر ایسا ہوجائے تو فرشتے تمہاری نصرت کو کھڑے ہیں ،تمہاری حوریں بن سنور کر تمہاری راہیں تک رہی ہیں ،تم سے پہلے شہادت پانے والے تمہیں خوشخبری دے رہے ہیں :
﴿فَرِحِیْنَ بِمَآاٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَیَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْن لَمْ یَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ اَلاَّ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَیَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ وَّاَنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾
’’وہ (شہداء)خوش ہیں اس سے جو عطا کیا انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور وہ بشارتیں لیتے ہیں ان لوگوں کے بارے میں جوابھی ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے سے کہ ان پر بھی نہ کوئی خوف ہو گا نہ وہ غم سے دوچار ہوں گے اور وہ خوش ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت اور فضل سے اوریہ کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کا اجر ضائع کرنے والا نہیں ہے۔‘‘
(( اَللّٰھُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ ﷺوَاجْعَلْنَامِنْھُمْ
وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ ﷺوَلَا تَجْعَلْنَا مَعَھُمْ))
’’اے اللہ !ہر اس شخص کی مدد فرما جو تیرے نبی محمد ا کے دین کی مدد ونصرت میں لگا ہے اور اُن میں ہمیں شامل فرما اور ہر اُس شخص کو ذلیل و رسوا فرما جو تیرے بنی محمدﷺ کے دین کو نیچا دکھانے میں لگا ہے اور ہمیں اِن لوگوں میں شامل نہ فرما۔آمین یا رب العالمین !
 

AbuOkasha

MPA (400+ posts)
Mulana Asim Umer is very prominent scholar on this subject, i got many answers after reading his books.
 

BuTurabi

Chief Minister (5k+ posts)
[MENTION=16839]EniGma90[/MENTION]​


شیخ آئے ہیں باوضو ہو کر
خون پینے کا انتظام کرو

۔موت کا ایک دِن مُعین ہے۔
یوں نہ رو رو کہ صبح شام کرو
مُلا بولا یتیم بچے سے
جاؤ حلوے کا اہتمام کرو
 

Back
Top