مفتی منیب الرحمن کے انکار کو اعلاۓ کلمتہ الحق بلند کرنے کی جرات رندانہ قرار دی جاۓ یا پھر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بسانے کی ایک کوشش- عوام کی
اکثریت اس مخمصے کی شکار ہے کہ وہ حکومتی ہدایات پر عمل کرے یا پھر اپنے مسالک کے جید علما کی تلقین وتاکید کو مقدم رکھے- بقول غالب،
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
جانے میڈیا (بمعہ سوشل میڈیا) پر کیوں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ علماء حکومت کے ناقد ہیں، عوام کے خیرخواہ نہیں- دانستہ انہیں ریاست کے بالمقابل لاکھڑا کیا جا رہا ہے- حالانکہ وہ اپنا دینی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں جو ان کی ذمہ داری ہے- پوری پریس کانفرنس میں سے اپنی مرضی کے ٹوٹے اچک لینا بدیانتی ہے- بات کو اس کے پورے سیاق وسباق میں دیکھا جانا چاہیے
بہرحال اس مسئلہ کی نوعیت نازک یے اور وقت بھی- رمضان کے مقدس مہینے کا آغاز ہوا چاہتا ہے- تطہیر قلوب وازہان کا نادر موقع میرے جیسا کوئی بےعمل مسلمان بھی نہیں گنوانا چاہتا- ہمارے ہاں ویسے بھی ماہِ رمضان دینی شعائر کو تابندہ کرنے اور روایتی اقدار جو جودسخا، غریب پروری، اورباہمی اخوت پرمبنی ہیں، کو جلا بخشتا ہے- اور یہی اس ماہ مبارکہ کی اصل روح ہے
رمضان کا اصل لطف وسواد تو مساجدکی اجتماعی عبادات میں ہوتا ہے- عشروں سے قائم اس روایت سے کیسے اچانک روگردانی کرپائیں گے؟ ناممکن اگرچہ نہیں مگر مشکل ضرور ہے
مگر دوسری جانب ہمیں بحثیت قوم ایک ایسی عفریت کا سامنا ہے جس کی ہماری مختصر زندگی میں نظیرنہیں ملتی- طاقتور ممالک جس کے سامنے بےبس ہیں- ہماری ریاستی وحکومتی استعداد کار تو ابھی تک اس قابل بھی نہیں ہوئی کہ پولیو کے مرض سے چھٹکارا دلا سکے- یہ تو غفورالرحیم کا کرم ہے کہ وباء کے مہلک اثرات سے قوم قدرے محفوظ ہے
تو کیا کیا جانا چاہیے کہ انسانی جان کے نقصانات کا اندیشہ بھی کم ترین ہو اور ماہ رمضان میں مساجد بھی آباد رہیں
میری حقیر راۓ میں ان علماء کو حکام کے ساتھ بیٹھ کر کوئی حل تلاش کرنا چاہیے- ریاستی ادارے مثلاً نظریاتی کونسل کے عہدے داران سے بھی تبادلہِ خیال کریں- اپنے حلقہ مشاورت میں شعبہ طب کو بھی شامل کریں- حکومتی مجبوری اور سماجی ڈھانچے کو مدنظر رکھ کر اپنی راۓ تشکیل دیں
حتمی بات یہ کہ انسانی جان کی قدر ومنزلت اور درجہ عبادات سے افضل ہے- اگر اجتماعی عبادات کے سبب وباء پھیلنے کا اندیشہ ہو تو علماء کو اپنی راۓ پر نظرثانی کرنی چاہیے- نرگسیت اور سطحیت پر عقلیت وعملیت پسندی کو ترجیح دینی ہوگی
رب کریم خیروعافیت کا معاملہ فرماۓ اور عالمِ انسانیت کو وباء سے چھٹکارا دلاۓ
اکثریت اس مخمصے کی شکار ہے کہ وہ حکومتی ہدایات پر عمل کرے یا پھر اپنے مسالک کے جید علما کی تلقین وتاکید کو مقدم رکھے- بقول غالب،
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
جانے میڈیا (بمعہ سوشل میڈیا) پر کیوں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ علماء حکومت کے ناقد ہیں، عوام کے خیرخواہ نہیں- دانستہ انہیں ریاست کے بالمقابل لاکھڑا کیا جا رہا ہے- حالانکہ وہ اپنا دینی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں جو ان کی ذمہ داری ہے- پوری پریس کانفرنس میں سے اپنی مرضی کے ٹوٹے اچک لینا بدیانتی ہے- بات کو اس کے پورے سیاق وسباق میں دیکھا جانا چاہیے
بہرحال اس مسئلہ کی نوعیت نازک یے اور وقت بھی- رمضان کے مقدس مہینے کا آغاز ہوا چاہتا ہے- تطہیر قلوب وازہان کا نادر موقع میرے جیسا کوئی بےعمل مسلمان بھی نہیں گنوانا چاہتا- ہمارے ہاں ویسے بھی ماہِ رمضان دینی شعائر کو تابندہ کرنے اور روایتی اقدار جو جودسخا، غریب پروری، اورباہمی اخوت پرمبنی ہیں، کو جلا بخشتا ہے- اور یہی اس ماہ مبارکہ کی اصل روح ہے
رمضان کا اصل لطف وسواد تو مساجدکی اجتماعی عبادات میں ہوتا ہے- عشروں سے قائم اس روایت سے کیسے اچانک روگردانی کرپائیں گے؟ ناممکن اگرچہ نہیں مگر مشکل ضرور ہے
مگر دوسری جانب ہمیں بحثیت قوم ایک ایسی عفریت کا سامنا ہے جس کی ہماری مختصر زندگی میں نظیرنہیں ملتی- طاقتور ممالک جس کے سامنے بےبس ہیں- ہماری ریاستی وحکومتی استعداد کار تو ابھی تک اس قابل بھی نہیں ہوئی کہ پولیو کے مرض سے چھٹکارا دلا سکے- یہ تو غفورالرحیم کا کرم ہے کہ وباء کے مہلک اثرات سے قوم قدرے محفوظ ہے
تو کیا کیا جانا چاہیے کہ انسانی جان کے نقصانات کا اندیشہ بھی کم ترین ہو اور ماہ رمضان میں مساجد بھی آباد رہیں
میری حقیر راۓ میں ان علماء کو حکام کے ساتھ بیٹھ کر کوئی حل تلاش کرنا چاہیے- ریاستی ادارے مثلاً نظریاتی کونسل کے عہدے داران سے بھی تبادلہِ خیال کریں- اپنے حلقہ مشاورت میں شعبہ طب کو بھی شامل کریں- حکومتی مجبوری اور سماجی ڈھانچے کو مدنظر رکھ کر اپنی راۓ تشکیل دیں
حتمی بات یہ کہ انسانی جان کی قدر ومنزلت اور درجہ عبادات سے افضل ہے- اگر اجتماعی عبادات کے سبب وباء پھیلنے کا اندیشہ ہو تو علماء کو اپنی راۓ پر نظرثانی کرنی چاہیے- نرگسیت اور سطحیت پر عقلیت وعملیت پسندی کو ترجیح دینی ہوگی
رب کریم خیروعافیت کا معاملہ فرماۓ اور عالمِ انسانیت کو وباء سے چھٹکارا دلاۓ