مصطفیٰ قتل کیس:جج نے پولیس سے متعلق غیر مناسب ریمارکس کیوں دیے؟مرادعلی شاہ

mh11i11h.jpg

کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتا ہونے والے نوجوان مصطفیٰ کی جلی ہوئی لاش بلوچستان کے ضلع حب سے برآمد ہوئی ہے۔ پولیس کی تحقیقات میں مرکزی ملزم ارمغان کے دوست شیراز نے لرزہ خیز انکشافات کیے ہیں، جبکہ وزیراعلیٰ سندھ نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ سے انکار پر عدالت کے ریمارکس کو نامناسب قرار دیا ہے۔

پولیس کے مطابق، مصطفیٰ کو اس کے دوست ارمغان نے کراچی میں اپنے گھر پر قتل کیا۔ لاش کو گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان لے جایا گیا، جہاں حب کے قریب گاڑی سمیت جلا دیا گیا۔ بلوچستان پولیس کو مکمل طور پر جلی ہوئی لاش ملی، جسے فلاحی ادارے نے امانتاً دفنا دیا۔

مقامی تھانے کے ایس ایچ او کے مطابق، جلی ہوئی گاڑی 11 جنوری کو ملی، جس کی ڈگی میں موجود سوختہ لاش کو حب شہر کے سرد خانے منتقل کر دیا گیا۔

عدالت کی جانب سے مصطفیٰ قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے نہ کرنے پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے برہمی کا اظہار کیا اور جج کے ریمارکس کو غیر مناسب قرار دیا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ایک جانب وہ آئی جی سندھ اور دیگر افسران کو مبارکباد دے رہے ہیں، تو دوسری جانب عدلیہ کے کردار پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، "جج صاحب نے پولیس کے بارے میں غیر مناسب ریمارکس کیوں دیے؟ اگر کسی پولیس افسر نے کوتاہی کی ہے تو اسے سزا دی جائے، لیکن عدلیہ کو بھی اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔"

مراد علی شاہ نے امید ظاہر کی کہ عدلیہ اس معاملے پر اپنا مؤقف واضح کرے گی اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

دوسری جانب ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر کی 14 فروری کو پریس کانفرنس کے بعد کیس مزید الجھ گیا۔ دورانِ تفتیش ملزم شیراز نے بتایا کہ ارمغان نے مصطفیٰ کو بہانے سے گھر بلایا اور تین گھنٹے تک لوہے کی راڈ سے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ نیم بیہوش ہونے کے بعد اس کے منہ پر ٹیپ باندھی گئی اور کیماڑی کے راستے بلوچستان لے جایا گیا۔

حب کے قریب، دو کلومیٹر دور پہاڑی پر گاڑی روک کر جب ڈگی کھولی گئی تو مصطفیٰ زندہ تھا۔ اس کے بعد ارمغان نے گاڑی پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔

شیراز کے مطابق، واقعے کے بعد دونوں ملزمان تین گھنٹے تک پیدل چلتے رہے، کیونکہ کسی گاڑی والے نے لفٹ نہیں دی۔ بعد میں ایک سوزوکی ڈرائیور کو 2000 روپے دے کر وہ فور کے چورنگی پہنچے، جہاں سے رکشہ کے ذریعے ڈیفنس اور پھر آن لائن ٹیکسی سے گھر پہنچے۔

پولیس چھاپے کے بعد، ارمغان نے شیراز کو ویڈیو بنانے کے لیے گھر واپس بھیجا، تاہم پولیس کے خوف سے شیراز یہ کام نہ کر سکا اور فرار ہو گیا۔

قتل سے پہلے مصطفیٰ نے اپنے ایک دوست کو آڈیو میسج میں بتایا تھا کہ وہ ارمغان کے پاس جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ میسج مصطفیٰ کے دوست کے پاس موجود تھا، تو پولیس ایک ماہ تک خاموش کیوں رہی؟ مصطفیٰ کے دوست نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع کیوں نہیں دی؟
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

چہ جائیکہ صوبے کا وزیر اعلی ہوتے ہوۓ یہ مُردار مردود عدالت کے ساتھ کھڑا ہو الٹا ملزم کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے . کیسے لوگ ہیں یہ
 

Back
Top