CanPak2
Minister (2k+ posts)
’مصدق حکومت کے خاتمے میں سی آئی اے کا کلیدی کردار تھا‘
آخری وقت اشاعت: منگل 20 اگست 2013 ,* 02:43 GMT 07:43 PST

امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے شاہ کے حق میں اور مصدق کے خلاف مختلف جلسوں کا انتظام کیا
سی آئی اے کے حال ہی میں جاری کی گئی دستاویزات میں پہلی بار اس بات کا باضابطہ اعتراف کیا گیا ہے کہ 1953 میں سی آئی اے نے مصدق حکومت کا تختہ الٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ان دستاویزات کے ایک اقتباس میں لکھا ہے کہ ’ایران میں فوجی بغاوت سی آئی اے کی ہدایت پر کی گئی تھی امریکی خارجہ پالیسی کے ایک عمل کے طور پر‘۔
ان دستاویزات میں جو اس بغاوت کے ساٹھ سال ہورے ہونے پر شائع کی گئی ہیں جن میں ایران کے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم محمد مصدق کا تختہ الٹنے میں سی آئی کے کلیدی کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔یہ دستاویزات سی آئی اے کی داخلی تاریخ سے متعلق ہیں جو 1970 کے وسط کے دور کی ہیں۔اس بغاوت کے بارے میں سابق امریکی وزیر خارجہ میڈیلین البرائٹ نے کھلے عام 2000 میں اور صدربراک اوباما نے 2009 کی اپنی قاہرہ کی تقریر میں بات کی۔ان دستاویزات کے مدیر مالکم بائرن کا کہنا ہے کہ ’اب تک خفیہ ادارے اس بغاوت میں خفیہ ایجنسیوں کے کردار کے حوالے سے مکمل طور پر نفی کا اظہار کرتے رہے ہیں‘۔یہ پہلی بار ہے کہ امریکی سی آئی اے نے اس بغاوت میں اپنے کردار کے حوالے سے برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس MI6 کے ساتھ اشتراک پر واضع اعتراف کیا ہے۔
وزیراعظم مصدق
[*=right]محمد مصدق 16 جون 1882 میں تہران میں پیدا ہوئے۔
[*=right]مصدق کے والد کا تعلق بختیاری قبیلے سے جبکہ والدہ کا تعلق خراسان کے قجر شاہی خاندان سے تھا۔
[*=right]مصدق ایک مصنف، وکیل اور ملک کے نمایاں خاندانوں میں سے ایک کے رکن تھے۔
[*=right]21 جولائی 1952 کو جمہوری طور پر وزیر اعظم منتخب ہوئے جبکہ 19 اگست 1953 کو سی آئی اے اور ایم آئی سکس نے فوج کی مدد سے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
[*=right]اقتدار کے خاتمے کے بعد مصدق کو تین سال کے لیے قید میں رکھا گیا اور بعد میں وہ تا دمِ مرگ اپنے گھر میں نظر بند رہے۔
[*=right]ان کا انتقال پانچ مارچ 1967 کو ہوا۔
مالکم بائرن کا کہنا ہے کہ یہ دستاویزات نہ صرف ’نئی معلومات بلکہ سی آئی اے کے اس آپریشن سے پہلے اور بعد میں کارروائیوں کے بارے میں ایک گہرا مشاہدہ فراہم کرتی ہیں‘ مگر ’جانبین میں بے جا طرفداری بشمول ایرانی حکومت نے اس بغاوت کے آثار پیدا کیے‘۔ان دستاویزات کو این ایس اے یعنی امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے آزادی اظہار کے ایکٹ کے تحت حاصل کیا ہے۔ایرانیوں نے 1951 میں مصدق کو وزیراعظم منتخب کیا اور وہ جلد ہی ملک کی تیل کی آمد کو قومیانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہو گئے جو کہ اب تک برطانوی اختیار میں برٹش ایرانین آئل کے زیر اثر تھی جو بعد میں برٹش پٹرولیم بن گئی۔وزیر اعظم مصدق کی یہ قومیانے کی پالیسی امریکہ اور خصوصاً برطانیہ کے لیے تشویش کا باعث تھی جن کے نزدیک ایران کا تیل جنگ عظیم دوم کے بعد تعمیرنو کے کام میں ایک اہم کردار رکھتا تھا۔سرد جنگ بھی اس تمام عمل میں ایک اہم عنصر تھی۔بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والے ڈونلڈ ولبر کا کہنا ہے کہ ’ایران کے موجودہ حالات کو بہتر کرنے کا اس خفیہ منصوبے کے علاوہ کوئی علاج نہں ہے‘۔سی آئی اے کی دستاویزات بتاتی ہیں کہ کس طرح سی آئی اے نے اس بغاوت کی تیاری کی اور کس
طرح وزیراعظم مصدق کی مخالفت میں مختلف خبریں ایرانی اور امریکی میڈیا میں شائع کروائیں۔
طرح وزیراعظم مصدق کی مخالفت میں مختلف خبریں ایرانی اور امریکی میڈیا میں شائع کروائیں۔
مصدق کے مبینہ عزائم
1952 کے آخر تک یہ واضح ہو چکا تھا ایران میں مصدق حکومت تیل کے معاملے پر مغربی ممالک کے مفادات کے مطابق کسی قسم کے نتیجے پر پہنچنے کے قابل نہیں تھی۔اس کے پیچھے وزیر اعظم مصدق کی طاقت کے حصول کی ذاتی خواہشات تھیں۔ ان کی پالیسیاں جزبات کی بنیاد پر طے کی گئی تھیں جن سے شاہ اور ایرانی فوج ایک خطرنات حد تک کمزور ہو رہی تھی۔ اسی طرح مصدق حکومت نے بہت قریبی حد تک ایرانی کمیونسٹ پارٹی تودیح سے تعاون کیا تھا۔ان تمام عناصر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ ایران سوویت یونین کے آہنی پردے کے پیچھے نہ چلا جائے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ سرد جنگ میں سوویت یونین کے لیے ایک فتح ہو گی اور مغرب اور مشرق وسطیٰ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو گا۔بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والے ڈونلڈ ولبر
اس بغاوت سے ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کو تقویت ملی جو وزیر اعظم مصدق کے ساتھ اقتدار کی کھینچا تانی کے نتیجے میں ملک سے فرار ہو گئے تھے اور بغاوت کے بعد ایران واپس آئے اور خطے میں امریکہ کے سب سے اہم اور قریبی حلیف بن کر ابھرے۔امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے شاہ کے حق میں اور مصدق کے خلاف مختلف جلسوں اور اجتماعات کا انتظام کیا۔ولبر نے لکھا ’اس کے فوری بعد فوج بھی شاہ کے حق میں چلی اس تحریک کا حصہ بن گئی اور دن کے نصف حصے تک تہران میں یہ واضح ہو چکا تھا اور ملک کے کئی صوبائی علاقوں میں کہ ان کا کنٹرول شاہ کے حامی احتجاجی گروہوں اور فوج کے ہاتھ میں ہے‘۔’انیس اگست کے آخر تک یا تو مصدق حکومت کے اراکین روپوش تھے یا انہیں قید کر لیا گیا تھا‘۔اس بغاوت کے بعد شاہ ایران واپس آئے اور پھر 1979 میں ہی ملک چھوڑ کر گئے جب ان کے اقتدار کا خاتمہ اسلامی انقلاب کے نتیجے میں ہوا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2013/08/130820_cia_mossadeq_iran_tim.shtml
Last edited by a moderator: