ایک سفیر کا کام کسی ملک کے اندر اپنی دفتری ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے وطن کی خوبصورت تصویر اجاگر کرنا اور اس ملک سے پاکستان کے تعلقات کو مضبوط بنانا ھوتا ھے، سفیر کا عہدہ کافی پُرکشش ھوتا ھے، اس لیے وزارتِ خارجہ، بیوروکریسی، سیاستدان اور ریٹاؑیرڈ جرنیل اپنی سی کوشش کرتے ھیں کہ تعیناتی ھو جاےؑ، سفارت کی پیشکش سیاسی رشوت بھی ھو سکتی ھے، کسی خاص ملک سے تعلقات کی نزاکت کے پیشِ نظر کسی قابل بندے کا انتخاب بھی ھو سکتا ھے، جن ممالک کے ساتھ ھمارے دفاعی امور مثبت یا منفی اھمیت کے حامل ھوتے ھیں، وہاں ملٹری ایسٹیبلشمنٹ لازما" اپنا بندہ مقرر کرواتی ھے، بعض دفعہ کسی صورتحال کی وجہ سے کسی بندے کا تقرر ضروری ھو جاتا ھے جیسے افغان جنگ کے دوران یہ اھم تھا کہ امریکہ، بھارت، افغانستان، روس اور سعودی عرب میں کوں ڈیوٹی پر ھے
اس خبر کا بظاھر مقصد تو فوج کے خارجہ تعلقات کے شعبے پرغیر معمولی غلبے کا احساس دلانا ھے اور یہ بات کسی راز کے انکشاف کے ذیل میں نھیں آتی، خارجہ امور میں فوج کو سول حکومت پر نظر رکھنا ھوتی ھے، جب ایسا نھیں ھوتا تو رحمان ملک سینکڑوں امریکی جاسوس ملک کے اندر لے آتا ھے، نواز شریف مودی سے انڈین دہشت گردی کا معامہ اٹھانا بھول جاتا ھے،
اس خبر میں بے شمار نام ھیں اور مجھے کسی کے بارے ذاتی معلومات نھیں، لیکن ایک مثال سے اندازہ ھو سکتا ھے کہ یہ تقرریاں کن مقاصد کے تحت کی ھوں گی، اگر،
میجر جنرل اطہر عباس کو یوکرایؑن میں سفیر لگایا جا رھا ھے تو ھمیں یاد آتا ھے کہ یوکرایؑن اور روس کی جنگ چل رھی ھے، ھم روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کر رھے ھیں، یوکرایؑنی دارالحکومت کے اندر ھمارے سفیر کی مصروفیات اس لیے اھم ھو جاتی ھیں کہ یوکرایؑن کو تھپکی امریکی دے رھے ھیں اور دوسری طرف امریکیوں کو ھماری روس سے تازہ قربت بھی پسند نھیں آ رھی، پھر پاکستان یوکرایؑن کے ساتھ دوستانہ دفاعی تعلقات بھی استوار کر رھا ھے، یہ سارا منظر نامہ فوجی پسِ منظر رکھنے والے اطہر عباس کو اس عہدے کے لیے موزوں اور اھم بناتا ھے
جب تک اس لسٹ میں موجود ھر تعیناتی کا پسِ منظر معلوم نہ ھو، یہ وحشیانہ نتیجہ نکال لینا مناسب نھیں کہ لازمی طور سے فوجی تعیناتیاں نواز شریف صاحب کی طرف سے فوج کو خیر سگالی کا تحفہ ھیں