سٹیل مل مشرف صاحب کے 8 سال مسلسل منافع میں رہی۔ جبکہ اس نئی جمہوری حکومت کے ایک سال کے دوران یہی سٹیل مل منافع سے نکل کر 51 ارب روپے کے خسارے میں پہنچ گئی ہے۔
سٹیل مل کی آج ایک سال گذر جانے کے بعد کی حالت کے متعلق مکمل تفصیلی مضمون یہاں پر پڑھیں اور کف افسوس ملتے جائیں۔
اور آج کی خبر یہ ہے کہ سٹیل مل بند ہو رہی ہے۔
http://jang-group.com/jang/may2010-daily/07-05-2010/updates/5-7-2010_30405_1.gif
اپوزیشن اور میڈیا کا مشرف حکومت پر بدعنوانی کے تحت سٹیل مل بیچنے کا الزام
میڈیا مستقبل کا "بادشاہ گر" ہے۔ اور جس کے یہ خلاف ہو گیا اُس کے ہر ہر کام کو مٹی کرتا چلا جائے گا۔
سٹیل مل مشرف صاحب کے دور میں
کیا آپ کو پتا ہے کہ آپکی جمہوری حکومتوں کے تمام تر ادوار میں سٹیل مل زبردست خسارے میں تھی؟
اور یہ مشرف صاحب ہیں، کہ جن کے دور میں سٹیل مل کسی نہ کسی طرح اس خسارے سے باہر آئی۔ تو کم از کم سب سے پہلے آپ اسکا کریڈٹ تو مشرف صاحب کو دینے میں کنجوسی نہ دکھائیں۔
اور یہ کارنامہ تھا کرنل محمد افضال صاحب کا۔ یہ جنرل قیوم سے قبل چیئرمین بنے اور پھر انکا انتقال ہو گیا]۔
یاد رکھئیے، صدر مشرف سے پچھلی حکومت کے دور تک سٹیل مل 20 ارب روپے کی مقروض تھی اور ہر سال ایک ارب روپے سے زیادہ حکومت کو خرچ کرنے ہوتے تھے تاکہ سٹیل مل زندہ رہے۔
جنرل قیوم کی غلط بیانی اور عالمی حالات سے ناآگاہی
جنرل قیوم نے سب سے پہلے سٹیل مل کی زمین کے متعلق غلط بیانی سے کام لیا ہے اور مکمل سچ عوام تک نہیں پہنچایا۔ اور اسکے بعد میڈیا کو تو کبھی مکمل سچ عوام تک پہنچانے کی کبھی توفیق ہی نہیں ہوئی۔
سٹیل مل کا کل رقبہ 19,088 ایکڑ ہے [بمع پلانٹ اور رہائشی علاقے وغیرہ وغیرہ]۔
مگر حکومت نے سعودی توقیری گروپ سے جو ڈیل کی ہے، اس کے مطابق:
۱۔ توقیری گروپ کو صرف وہ رقبہ دیا گیا ہے جہاں پلانٹ واقع ہے۔ اور یہ رقبہ صرف 4,547 ایکڑ بنتا ہے۔
۲۔ مگر اس رقبے کے ساتھ بہت سی شرائط ساتھ لگی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے کبھی بھی زمین کی قیمت وہ نہیں ہو سکتی جو کہ جنرل قیوم بیان کر رہے ہیں۔
اسکی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اسلام کے وسط میں ایک بڑا کھیت ہے اور آس پاس اسلام آباد کے انتہائی مہنگے رہائشی پلاٹ وغیرہ۔ لیکن حکومت اگر اس بڑے کھیت کو اس شرط کے ساتھ بیچتی ہے کہ خریدنے والے پر لازم ہے کہ وہ اس کھیت کو کمرشل پلازہ یا رہائشی علاقے میں تبدیل نہیں کر سکتا، بلکہ یہاں صرف کھیتی باڑی ہی ہو گی، تو کبھی بھی اس کھیت کی زمین کی ویلیو آس پاس کے رہائشی پلاٹوں کی قیمت کے برابر نہیں ہو سکتی۔
اب جو شرائط اس ڈیل میں ملوث ہیں، وہ اس مثال سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں اور جب بھی بین الاقوامی لیول پر اس قسم کی ڈیل ہوتی ہے، وہاں اثاثوں کی کبھی وہ ویلیو نہیں ملتی، کیونکہ شرائط ایسی ہوتی ہیں کہ جتنا کام کرنے والا عملہ موجود ہے، وہ بھی خریدنے والے کی ذمہ داری ہے، اور وہ اس زمین اور اثاثوں کو بیچ نہیں سکتا بلکہ اسے ہر صورت میں اس پلانٹ پر کام کر کے ہی منافع بنانا ہے۔
اثاثوں کی جو ویلیو ایسی بین الاقوامی ڈیلوں میں ساتھ لگی شرائط کی وجہ سے صفر ہو جاتی ہے، اور صرف اور صرف اس چیز کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ خریدنے والا انویسٹمنٹ کر کے اُس پر کتنے فیصد منافع حاصل کر سکتا ہے۔
مثال کے طور پر:
Bear Sterns was bought for "Free" after US central bank (I can't recall what they call their state bank) financed (gave away) JP Morgan's purchase of Bear Sterns for pennies against its $80+/share in Feb 2008.
http://finance.google.com/finance?q=NYSE:BSC
اور دوسری مثال ING Bank کی ہے جو کڑوڑوں اثاثوں کے باوجود صرف ایک گلڈر میں بیچا گیا۔ [اور وجہ یہی تھی کہ خریدنے والا ایک ایک بلین ڈالر کی انویسٹمنٹ کرنے کے باوجود اس سے ۱۰ فیصد سالانہ منافع ہی حاصل کر سکتا تھا۔
سٹیل مل کا مسئلہ آسان الفاظ میں
۱۔ اس سٹیل مل کے 75 فیصد شیئرز 375 ملین روپے میں بیچے گئے ہیں جبکہ 25 فیصد شیئرز حکومت کے پاس ہیں۔
۲۔ اس لحاظ سے سٹیل مل کے ۱۰۰ فیصد قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں ۵۰۰ ملین ڈالر بنتی ہے۔ [میں آگے تمام گفتگو اس ۱۰۰ فیصد اثاثوں کے حوالے سے کر رہی ہوں تاکہ چیزیں آسانی سے سمجھ میں آ سکیں]
۳۔ اب توقیری گروپ جو ۵۰۰ ملیں ڈالر [سو فیصدی شیئر کے حساب سے] انویسٹ کر رہا ہے، تو کیا وہ اس قابل ہے کہ ہر سال اس سٹیل مل سے ۱۰۰ ملین ڈالر کا منافع کما سکے؟ [ ہر انویسٹر ۱۵ تا ۲۰ فیصد کا مارجن رکھتا ہے، کیونکہ ۵۰۰ ملین کو اگر بینک میں ہی رکھ دیا جائے تو 40 تا 50 ملین ڈالر تو انویسٹر کو ایسے ہی حاصل ہو جاتے۔
لہذا اگر انویسٹر ۵۰۰ ملین ڈالر کا رسک لے رہا ہے تو تو وہ یقینا ۱۰۰ ملین ڈالر تک کا منافع چاہے گا۔
4۔ سٹیل مل کی مشینری بہت ہی پرانی روسی مشینری ہے، اور یہ تمام تر ٹیکنالوجی انتہائی بوسیدہ اور آوٹ دیٹڈ ہو چکی ہے اور اس ٹیکنالوجی اور مشینری کا کوئی مستقبل نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انیس سو ستر کی دھائی سے لیکر آج تک اس کی کیپسٹی کبھی ۱ ملین ٹن سے زیادہ نہ ہو سکی۔ اور اگر اسے بڑھانا مقصود ہو تو انتہائی ہیوی انوسٹمنٹ کر کے پوری مشینری ریپلیس کرنا پڑے گی۔
5۔ سٹیل مل کا اس سے بڑا مسئلہ اس کا بہت ہی بڑا عملہ ہے جو کہ ناکارہ کی حد تک کارآمد ہے۔ کئی ہزار کام کرنے والے سیاسی بنیادوں پر نوکری کا کارڈ رکھتے ہیں اور کام پر آئے بغیر تنخواہ پا رہے ہیں۔
توقیری گروپ کے ساتھ ڈیل میں اب یہ شامل ہے کہ وہ اسی پرانی بوسیدہ مشینری کو خریدیں [جسے جلد از جلد انہیں پھینک کر نئی مشینری لینا ہو گی] اور ان ہزاروں کے عملے میں سے ایک فرد کو بھی وہ نوکری سے نہیں نکال سکتے۔
انٹرنیشنل مارکیٹ میں سٹیل مل جیسے اداروں کی قیمت
جنرل قیوم نے زمین کے اثاثوں کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیا اور یہ نہیں بتایا کہ پوری زمین کا سودا نہیں ہوا ہے اور نہ ہی زمین کی یوں آزادانہ قیمت لگائی جا سکتی ہے جیسا کہ وہ لگا رہے ہیں۔ دوسری غلطی جنرل قیوم کی یہ ہے کہ انہیں ایسے اداروں کی پرائیوٹائزیشن عمل کا کچھ علم نہیں، مگر پھر بھی انہیں بولنے کا بہت شوق ہے۔
پہلی مثال:
Luxembourg-based ArcelorMittal claims that Esmark breached its August 2007 agreement to purchase the Sparrows Point plant for $1.35 billion. The proposed sale fell through in December because of financing problems
http://www.businessweek.com/ap/finan.../D90I7RV00.htm
یاد رکھئیے:
۱۔ یہ Sparrows point plane میں عملے کی تعداد صرف اور صرف 2500 ہے [پاکستان کی سٹیل مل سے کہیں کہیں زیادہ کم]
۲۔ اور اس پلانٹ کی پروڈکشن سٹیل مل کی املین ٹن کے مقابلے میں 3٫5 ٹن سٹیل ہے۔ یعنی ساڑھے تین گنا زیادہ۔
3۔ یاد رکھئیے اس پلانٹ کی زمین کی فی ایکڑ قیمت پاکستان کی سٹیل مل سے کہیں زیادہ ہے۔
اس لحاظ سے پاکستان سٹیل مل کی قیمت ۵۰۰ ملین بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے بالکل صحیح [بلکہ بہتر ہے]۔
دوسری مثال:
http://www.nytimes.com/2005/10/25/bu...rssnyt&emc=rss
یوکرائنا کی یہ سٹیل مل 4٫8 بلین کی بکی ہے۔
مگر اس کے متعلق یاد رکھئیے:
۱۔ اس کی پروڈکشن سٹیل مل کی ۱ ملین ٹن کے مقابلے میں 8 ملین ٹن سے بھی زیادہ ہے۔
۲۔ عملے کی تعداد نسبتا تعداد پاکستان سٹیل مل کے عملے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
۳۔ زمین کی فی ایکڑ قیمت بہت زیادہ ہے۔
۴۔ اس قیمت میں نہ صرف پلانٹ شامل ہے بلکہ ایک ہزار million tons of iron ore کی مائنز کی زمین بھی اس قیمت میں شامل ہیں۔
اور اس قیمت پر یہ پلانٹ حاصل کرنے کے بعد بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ اس گروپ نے اس پلانٹ کی بہت زیادہ قیمت ادا کر دی ہے جبکہ عالمی منڈی میں اسکی قیمت ہرگز اتنی نہیں ہے۔
پاکستان کی نسبت یوکرائنا یورپ ہے، امن امان کا ہرگز ہرگز کوئی مسئلہ نہیں، زمین کی قیمتیں انتہائی زیادہ ہیں، انویسٹر تو بمشکل ہی پاکستان کر رخ کرتا ہے، مگر یورپین یونین میں انویسٹرز کی کوئی کمی نہیں۔۔۔۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے سٹیل مل کی مجموعی قیمت اگر ۵۰۰ ملین ڈالر لگائی گی ہے تو یہ ہرگز بُری ڈیل نہیں۔
مگر کیا ہے کہ جنرل قیوم اور ہمارا میڈیا ان عالمی حالات اور ایسی ڈیلز میں شرائط کے باعث اثاثوں کی قیمت کے صحیح تعین کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیتے رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ کرنے کا بہت اچھا طریقہ ہے تاکہ چیزوں کو Sensational بنایا جائے۔
اب میرا چیلنج ہے کہ عالمی مارکیٹ میں بے تحاشہ ایسی ڈیلز ہوئی ہیں،۔۔۔ ثابت کریں کہ کسی ایسی ڈیل میں اثاثوں کی قیمت آزادانہ طور پر متعین کر کے دی گئی ہو۔
میں نے اوپر دو سٹیل ملز کا ذکر کیا ہے۔ انکے علاوہ بھی اور سٹیل ملز کا سودا ہوا ہے، اور چیلنج ہے کہ ثابت کیا جائے کہ اُنکی قیمت سٹیل مل سے زیادہ ادا کی گئی ہے۔ اس معاملے میں آپ لوگ خود ریسرچ کر سکتے ہیں۔
حکومتِ پاکستان نے اپنا موقف اس لنک میں مکمل طور پر پیش کیا ہے:
http://www.privatisation.gov.pk/indu...2027-09-05.pdf
میڈیا کا مشرف حکومت کے خلاف آواز اٹھانا بالمقابل آج سٹیل مل کے متعلق عوام کو آگاہ کرنا
آپ کو یاد ہو گا کہ مشرف دور میں میڈیا نے سٹیل مل کو کوریج دے دے کر انتہا کی ہوئی تھی اور یہ وہ ٹھوس ثبوت تھا جو مشرف صاحب اور شوکت عزیز صاحب کے خلاف مسلسل پیش ہوتا تھا۔
لیکن آج جب سٹیل مل 51 ارب روپے کے خسارے میں جا چکی ہے، تو بھی اس بات پر میڈیا حکومت کے پیچھے 1 فیصد بھی ایسے نہیں پڑا ہوا جیسا کہ مشرف حکومت کے پیچھے پڑا رہتا تھا۔
کیوں؟
یاد رکھئیے یہ ہلکی پھلکی کر کے خبر دے دینا کہ سٹیل مل 51 ارب روپے کے خسارے میں ہے، اور ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جانے میں بہت فرق ہے۔
اگر شوکت عزیز صاحب دور میں سٹیل مل کی نجکاری ہو چکی ہوتی تو آج قوم کو یہ 51 ارب روپے کا خسارہ نہ اٹھانا پڑتا، آج 22 ہزار افراد کو اپنی ملازمت جانے کا خوف نہ ہوتا، آج ملکی دفاع کے لیے سٹیل مل سے جو مال خریدا جاتا تھا، اُسے کے ختم ہونے کا خطرہ نہ رہتا۔
افسوس کہ ملکی حکومت کی باگ دوڑ ہی نہیں بلکہ میڈیا کی باگ دوڑ بھی ایسے بے وقوفوں کے ہاتھوں میں ہے جو اپنے نمبرز بنانے کے چکر میں پاکستان کا بیڑہ غرق کرنے سے بھی اجتناب کرنے والے نہیں۔
سٹیل مل کی آج ایک سال گذر جانے کے بعد کی حالت کے متعلق مکمل تفصیلی مضمون یہاں پر پڑھیں اور کف افسوس ملتے جائیں۔
اور آج کی خبر یہ ہے کہ سٹیل مل بند ہو رہی ہے۔
http://jang-group.com/jang/may2010-daily/07-05-2010/updates/5-7-2010_30405_1.gif
اپوزیشن اور میڈیا کا مشرف حکومت پر بدعنوانی کے تحت سٹیل مل بیچنے کا الزام
میڈیا مستقبل کا "بادشاہ گر" ہے۔ اور جس کے یہ خلاف ہو گیا اُس کے ہر ہر کام کو مٹی کرتا چلا جائے گا۔
سٹیل مل مشرف صاحب کے دور میں
کیا آپ کو پتا ہے کہ آپکی جمہوری حکومتوں کے تمام تر ادوار میں سٹیل مل زبردست خسارے میں تھی؟
اور یہ مشرف صاحب ہیں، کہ جن کے دور میں سٹیل مل کسی نہ کسی طرح اس خسارے سے باہر آئی۔ تو کم از کم سب سے پہلے آپ اسکا کریڈٹ تو مشرف صاحب کو دینے میں کنجوسی نہ دکھائیں۔
اور یہ کارنامہ تھا کرنل محمد افضال صاحب کا۔ یہ جنرل قیوم سے قبل چیئرمین بنے اور پھر انکا انتقال ہو گیا]۔
یاد رکھئیے، صدر مشرف سے پچھلی حکومت کے دور تک سٹیل مل 20 ارب روپے کی مقروض تھی اور ہر سال ایک ارب روپے سے زیادہ حکومت کو خرچ کرنے ہوتے تھے تاکہ سٹیل مل زندہ رہے۔
جنرل قیوم کی غلط بیانی اور عالمی حالات سے ناآگاہی
جنرل قیوم نے سب سے پہلے سٹیل مل کی زمین کے متعلق غلط بیانی سے کام لیا ہے اور مکمل سچ عوام تک نہیں پہنچایا۔ اور اسکے بعد میڈیا کو تو کبھی مکمل سچ عوام تک پہنچانے کی کبھی توفیق ہی نہیں ہوئی۔
سٹیل مل کا کل رقبہ 19,088 ایکڑ ہے [بمع پلانٹ اور رہائشی علاقے وغیرہ وغیرہ]۔
مگر حکومت نے سعودی توقیری گروپ سے جو ڈیل کی ہے، اس کے مطابق:
۱۔ توقیری گروپ کو صرف وہ رقبہ دیا گیا ہے جہاں پلانٹ واقع ہے۔ اور یہ رقبہ صرف 4,547 ایکڑ بنتا ہے۔
۲۔ مگر اس رقبے کے ساتھ بہت سی شرائط ساتھ لگی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے کبھی بھی زمین کی قیمت وہ نہیں ہو سکتی جو کہ جنرل قیوم بیان کر رہے ہیں۔
اسکی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اسلام کے وسط میں ایک بڑا کھیت ہے اور آس پاس اسلام آباد کے انتہائی مہنگے رہائشی پلاٹ وغیرہ۔ لیکن حکومت اگر اس بڑے کھیت کو اس شرط کے ساتھ بیچتی ہے کہ خریدنے والے پر لازم ہے کہ وہ اس کھیت کو کمرشل پلازہ یا رہائشی علاقے میں تبدیل نہیں کر سکتا، بلکہ یہاں صرف کھیتی باڑی ہی ہو گی، تو کبھی بھی اس کھیت کی زمین کی ویلیو آس پاس کے رہائشی پلاٹوں کی قیمت کے برابر نہیں ہو سکتی۔
اب جو شرائط اس ڈیل میں ملوث ہیں، وہ اس مثال سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں اور جب بھی بین الاقوامی لیول پر اس قسم کی ڈیل ہوتی ہے، وہاں اثاثوں کی کبھی وہ ویلیو نہیں ملتی، کیونکہ شرائط ایسی ہوتی ہیں کہ جتنا کام کرنے والا عملہ موجود ہے، وہ بھی خریدنے والے کی ذمہ داری ہے، اور وہ اس زمین اور اثاثوں کو بیچ نہیں سکتا بلکہ اسے ہر صورت میں اس پلانٹ پر کام کر کے ہی منافع بنانا ہے۔
اثاثوں کی جو ویلیو ایسی بین الاقوامی ڈیلوں میں ساتھ لگی شرائط کی وجہ سے صفر ہو جاتی ہے، اور صرف اور صرف اس چیز کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ خریدنے والا انویسٹمنٹ کر کے اُس پر کتنے فیصد منافع حاصل کر سکتا ہے۔
مثال کے طور پر:
Bear Sterns was bought for "Free" after US central bank (I can't recall what they call their state bank) financed (gave away) JP Morgan's purchase of Bear Sterns for pennies against its $80+/share in Feb 2008.
http://finance.google.com/finance?q=NYSE:BSC
اور دوسری مثال ING Bank کی ہے جو کڑوڑوں اثاثوں کے باوجود صرف ایک گلڈر میں بیچا گیا۔ [اور وجہ یہی تھی کہ خریدنے والا ایک ایک بلین ڈالر کی انویسٹمنٹ کرنے کے باوجود اس سے ۱۰ فیصد سالانہ منافع ہی حاصل کر سکتا تھا۔
سٹیل مل کا مسئلہ آسان الفاظ میں
۱۔ اس سٹیل مل کے 75 فیصد شیئرز 375 ملین روپے میں بیچے گئے ہیں جبکہ 25 فیصد شیئرز حکومت کے پاس ہیں۔
۲۔ اس لحاظ سے سٹیل مل کے ۱۰۰ فیصد قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں ۵۰۰ ملین ڈالر بنتی ہے۔ [میں آگے تمام گفتگو اس ۱۰۰ فیصد اثاثوں کے حوالے سے کر رہی ہوں تاکہ چیزیں آسانی سے سمجھ میں آ سکیں]
۳۔ اب توقیری گروپ جو ۵۰۰ ملیں ڈالر [سو فیصدی شیئر کے حساب سے] انویسٹ کر رہا ہے، تو کیا وہ اس قابل ہے کہ ہر سال اس سٹیل مل سے ۱۰۰ ملین ڈالر کا منافع کما سکے؟ [ ہر انویسٹر ۱۵ تا ۲۰ فیصد کا مارجن رکھتا ہے، کیونکہ ۵۰۰ ملین کو اگر بینک میں ہی رکھ دیا جائے تو 40 تا 50 ملین ڈالر تو انویسٹر کو ایسے ہی حاصل ہو جاتے۔
لہذا اگر انویسٹر ۵۰۰ ملین ڈالر کا رسک لے رہا ہے تو تو وہ یقینا ۱۰۰ ملین ڈالر تک کا منافع چاہے گا۔
4۔ سٹیل مل کی مشینری بہت ہی پرانی روسی مشینری ہے، اور یہ تمام تر ٹیکنالوجی انتہائی بوسیدہ اور آوٹ دیٹڈ ہو چکی ہے اور اس ٹیکنالوجی اور مشینری کا کوئی مستقبل نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انیس سو ستر کی دھائی سے لیکر آج تک اس کی کیپسٹی کبھی ۱ ملین ٹن سے زیادہ نہ ہو سکی۔ اور اگر اسے بڑھانا مقصود ہو تو انتہائی ہیوی انوسٹمنٹ کر کے پوری مشینری ریپلیس کرنا پڑے گی۔
5۔ سٹیل مل کا اس سے بڑا مسئلہ اس کا بہت ہی بڑا عملہ ہے جو کہ ناکارہ کی حد تک کارآمد ہے۔ کئی ہزار کام کرنے والے سیاسی بنیادوں پر نوکری کا کارڈ رکھتے ہیں اور کام پر آئے بغیر تنخواہ پا رہے ہیں۔
توقیری گروپ کے ساتھ ڈیل میں اب یہ شامل ہے کہ وہ اسی پرانی بوسیدہ مشینری کو خریدیں [جسے جلد از جلد انہیں پھینک کر نئی مشینری لینا ہو گی] اور ان ہزاروں کے عملے میں سے ایک فرد کو بھی وہ نوکری سے نہیں نکال سکتے۔
انٹرنیشنل مارکیٹ میں سٹیل مل جیسے اداروں کی قیمت
جنرل قیوم نے زمین کے اثاثوں کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیا اور یہ نہیں بتایا کہ پوری زمین کا سودا نہیں ہوا ہے اور نہ ہی زمین کی یوں آزادانہ قیمت لگائی جا سکتی ہے جیسا کہ وہ لگا رہے ہیں۔ دوسری غلطی جنرل قیوم کی یہ ہے کہ انہیں ایسے اداروں کی پرائیوٹائزیشن عمل کا کچھ علم نہیں، مگر پھر بھی انہیں بولنے کا بہت شوق ہے۔
پہلی مثال:
Luxembourg-based ArcelorMittal claims that Esmark breached its August 2007 agreement to purchase the Sparrows Point plant for $1.35 billion. The proposed sale fell through in December because of financing problems
http://www.businessweek.com/ap/finan.../D90I7RV00.htm
یاد رکھئیے:
۱۔ یہ Sparrows point plane میں عملے کی تعداد صرف اور صرف 2500 ہے [پاکستان کی سٹیل مل سے کہیں کہیں زیادہ کم]
۲۔ اور اس پلانٹ کی پروڈکشن سٹیل مل کی املین ٹن کے مقابلے میں 3٫5 ٹن سٹیل ہے۔ یعنی ساڑھے تین گنا زیادہ۔
3۔ یاد رکھئیے اس پلانٹ کی زمین کی فی ایکڑ قیمت پاکستان کی سٹیل مل سے کہیں زیادہ ہے۔
اس لحاظ سے پاکستان سٹیل مل کی قیمت ۵۰۰ ملین بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے بالکل صحیح [بلکہ بہتر ہے]۔
دوسری مثال:
http://www.nytimes.com/2005/10/25/bu...rssnyt&emc=rss
یوکرائنا کی یہ سٹیل مل 4٫8 بلین کی بکی ہے۔
مگر اس کے متعلق یاد رکھئیے:
۱۔ اس کی پروڈکشن سٹیل مل کی ۱ ملین ٹن کے مقابلے میں 8 ملین ٹن سے بھی زیادہ ہے۔
۲۔ عملے کی تعداد نسبتا تعداد پاکستان سٹیل مل کے عملے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
۳۔ زمین کی فی ایکڑ قیمت بہت زیادہ ہے۔
۴۔ اس قیمت میں نہ صرف پلانٹ شامل ہے بلکہ ایک ہزار million tons of iron ore کی مائنز کی زمین بھی اس قیمت میں شامل ہیں۔
اور اس قیمت پر یہ پلانٹ حاصل کرنے کے بعد بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ اس گروپ نے اس پلانٹ کی بہت زیادہ قیمت ادا کر دی ہے جبکہ عالمی منڈی میں اسکی قیمت ہرگز اتنی نہیں ہے۔
پاکستان کی نسبت یوکرائنا یورپ ہے، امن امان کا ہرگز ہرگز کوئی مسئلہ نہیں، زمین کی قیمتیں انتہائی زیادہ ہیں، انویسٹر تو بمشکل ہی پاکستان کر رخ کرتا ہے، مگر یورپین یونین میں انویسٹرز کی کوئی کمی نہیں۔۔۔۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے سٹیل مل کی مجموعی قیمت اگر ۵۰۰ ملین ڈالر لگائی گی ہے تو یہ ہرگز بُری ڈیل نہیں۔
مگر کیا ہے کہ جنرل قیوم اور ہمارا میڈیا ان عالمی حالات اور ایسی ڈیلز میں شرائط کے باعث اثاثوں کی قیمت کے صحیح تعین کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیتے رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ کرنے کا بہت اچھا طریقہ ہے تاکہ چیزوں کو Sensational بنایا جائے۔
اب میرا چیلنج ہے کہ عالمی مارکیٹ میں بے تحاشہ ایسی ڈیلز ہوئی ہیں،۔۔۔ ثابت کریں کہ کسی ایسی ڈیل میں اثاثوں کی قیمت آزادانہ طور پر متعین کر کے دی گئی ہو۔
میں نے اوپر دو سٹیل ملز کا ذکر کیا ہے۔ انکے علاوہ بھی اور سٹیل ملز کا سودا ہوا ہے، اور چیلنج ہے کہ ثابت کیا جائے کہ اُنکی قیمت سٹیل مل سے زیادہ ادا کی گئی ہے۔ اس معاملے میں آپ لوگ خود ریسرچ کر سکتے ہیں۔
حکومتِ پاکستان نے اپنا موقف اس لنک میں مکمل طور پر پیش کیا ہے:
http://www.privatisation.gov.pk/indu...2027-09-05.pdf
میڈیا کا مشرف حکومت کے خلاف آواز اٹھانا بالمقابل آج سٹیل مل کے متعلق عوام کو آگاہ کرنا
آپ کو یاد ہو گا کہ مشرف دور میں میڈیا نے سٹیل مل کو کوریج دے دے کر انتہا کی ہوئی تھی اور یہ وہ ٹھوس ثبوت تھا جو مشرف صاحب اور شوکت عزیز صاحب کے خلاف مسلسل پیش ہوتا تھا۔
لیکن آج جب سٹیل مل 51 ارب روپے کے خسارے میں جا چکی ہے، تو بھی اس بات پر میڈیا حکومت کے پیچھے 1 فیصد بھی ایسے نہیں پڑا ہوا جیسا کہ مشرف حکومت کے پیچھے پڑا رہتا تھا۔
کیوں؟
یاد رکھئیے یہ ہلکی پھلکی کر کے خبر دے دینا کہ سٹیل مل 51 ارب روپے کے خسارے میں ہے، اور ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جانے میں بہت فرق ہے۔
اگر شوکت عزیز صاحب دور میں سٹیل مل کی نجکاری ہو چکی ہوتی تو آج قوم کو یہ 51 ارب روپے کا خسارہ نہ اٹھانا پڑتا، آج 22 ہزار افراد کو اپنی ملازمت جانے کا خوف نہ ہوتا، آج ملکی دفاع کے لیے سٹیل مل سے جو مال خریدا جاتا تھا، اُسے کے ختم ہونے کا خطرہ نہ رہتا۔
افسوس کہ ملکی حکومت کی باگ دوڑ ہی نہیں بلکہ میڈیا کی باگ دوڑ بھی ایسے بے وقوفوں کے ہاتھوں میں ہے جو اپنے نمبرز بنانے کے چکر میں پاکستان کا بیڑہ غرق کرنے سے بھی اجتناب کرنے والے نہیں۔