
وہ ورکرز جو مشرف دور حکومت میں مراعات کو ٹھکرا کراور ایک آمر کے ساتھ کھڑے ہونے والے مفاداتی سیاست دانوں کے ناجائز مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے میاں برادران کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑے رہے آ ج وہی سیاست دان ایک بار پھر اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے نواز شریف کے ساتھی بن رہے ہیں تو ثابت قدم کھڑے ہونے والے نظریاتی ورکرز ایک بار پھر امتحان کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ دوسرا پنجاب جہاں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے وہاں خادم اعلٰی نے بیوروکریسی کو اتنا طاقت ور بنا رکھا ہے کہ وہ کسی نظریاتی ورکر کو خاطر میں نہیں لاتی۔ آئندہ عام انتخابات میں بھی نظریاتی ورکروں پر اُن لوٹوں کو ترجیح دی جا رہی ہے جنہوں نے مشرف دورمیں اقتدار کے مزے لوٹے اور اب میاں برادران انہیں ٹکٹیں الاٹ کرکے اقتدار کے مزے لوٹنے کی دعوت دینے میں پیش پیش ہیں۔ مقامی اخبارات نے اپنی اشاعتوں میں اپنے اداریوں میں بطور خاص مسلم لیگ ن کے نظریاتی ورکروں کے ساتھ برتی جانے والی بے اعتنائی کا ذکر کیا ہے۔
روزنامہ سنگِ سفر ملتان نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ مسلم لیگ ن کے نظریاتی کارکنوں کی صلاحتیوں کا تذکرہ کیا جائے تو مسلم لیگ ن کے جوشیلے کارکن پاکستان کی محبت سے سرشار نظر آتے ہیں اور ترقیءِ پاکستان میں اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے جنوبی پنجاب کے ایسے ورکروں کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا جن کی قربانیوں کی تاریخ طویل ہے۔ ان میں بشارت علی رندھاوا ،عابد انوار علوی ،ملک عبدالشکور سواگ ،ساجد علوی ،یاسین آزاد ،افضل گھمن مسلم لیگ ن کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ بشارت علی رندھاوا کو مشرف دور حکومت میں ایم پی اے کا ٹکٹ دینے کی پیشکش ہوئی اور اقتدار کی بہت سی مراعات دینے کا وعدہ بھی کیا گیا مگر بشارت رندھاوا کے پایۂ استقلال میں جنبش نہ آئی اور 2008ء کے عام انتخابات میں جب ٹکٹ دینے کا موقع آیا تو مسلم لیگ ن کی قیادت کی نظر التفات ایک ایسے سردار پر جاٹھہری جو مشرف کے نئے ضلعی نظام میں اقتدار کے مزے لوٹ رہا تھا۔ اِسی طرح عابد انوار علوی نے بھی پارٹی قیادت سے وفاداری نبھاتے ہوئے ضلعی اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر مشرف حکومت پر کھل کر تنقید کی اور چوہدری پرویز الٰہی کی طرف سے ہونے والی اقتدار کی ہر پیشکش کو ٹھوکر ماردی۔ یہی نہیں جب میاں برادران کو ایک آمر نے جلاوطن کیا تو عابد انوار علوی ،بشارت رندھاوا ،ملک عبدالشکور سواگ ،ابوسعید خان مشرف کے خلاف جلوس نکال کر ایک آمر کے عتاب کا نشانہ بن رہے تھے اخبار لکھتا ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں عابد انوار علوی اور بشارت رندھاوا جیسے نظریاتی ورکر پارٹی ٹکٹ کے مستحق ہیں جن کے پیچھے جنوبی پنجاب کے نظریاتی ورکروں کی لامحدود قطار نظر آتی ہے مگر عابد انوار علوی جب ایک آمر کے خلاف جلوس نکال کر اپنی قیادت کے ساتھ وفا کی تاریخ رقم کر رہا تھا تو مشرف کے نئے ضلعی نظام میں بطور ضلع ناظم اقتدار کے مزے لوٹنے والا ایک سیاست دان دفعہ 144نافذ کرکے نہ صرف ان جلسوں کے انعقاد کو روک رہا تھا بلکہ اس جلسہ میں شامل ن لیگ کے نظریاتی ورکروں کی گرفتاری عمل میں آرہی تھی اور اب عابد انوار علوی کی جگہ میاں برادران کی پہلی ترجیح پارٹی ٹکٹ کے معاملہ میں وہی ضلع ناظم ہے ۔
روز نامہ ملتان ویلی اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن کے کار کنوں کا دیگر جماعتوں خصوصاًپاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے موازنہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن اقتدار میں ہی نہیں جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ میں وہ اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ کارکنوں کو نوازنے اور انہیں اُن کا مقام دلوانے میں مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ بیورو کریسی کو اتنا مضبوط کیا ہے کہ اِن نظریاتی ورکروں کے جائز کاموں میں بھی یہ بااختیار بیورو کریسی روڑے اٹکا رہی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکن بھر پور انداز سے اقتدار کے جھولے جھول رہے ہیں حتٰی کہ سوئی گیس کے کنکشن کا بھی معاملہ ہو تو جس گلی میں پیپلز پارٹی کا کارکن رہتا ہے اُس گلی میں اُس کی مرضی کے بغیر کنکشن نصب ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ گو کہ یہ بات بھی مکمل درست نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کا نظریاتی کارکن کسی دفتر خصوصاً تھانے میں کسی جائز کام کیلئے جاتا ہے تو اُس کی جو عزت کی جاتی ہے ناقابل بیان ہے۔ کیا یہ دو عملی نہیں ہے کہ ایک پارٹی کے کارکنوں کے جائز کام بلا روک ٹوک ہوں اور دوسری طرف مسلم لیگ ن کی طرف سے غیر منتخب افراد کو ترقیاتی فنڈز تھمائے جا رہے ہیں۔ قابل ذکر معاملہ یہ ہے کہ یہ فنڈز ایسے افراد کو جاری کیے جا رہے ہیں جو مشرف دور میں بھی اقتدار کی پینگیں جھولتے رہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے کارکن فنڈز اور ترقیاتی کاموں کیلئے ان لوگوں کی منت زاری پر مجبور ہیں۔ مسلم لیگ ن محض آئندہ عام انتخابات میں ان فصلی بٹیروں کو مضبوط کرنے کیلئے سرکاری محکموں کو ان افراد کے کہنے پر ترقیاتی فنڈز خرچ کرنے کے احکامات شاہی جاری کر رہی ہے۔ مشرف کے ان ساتھیوں میں سے بیشتر عوامی خدمت گار وہ ہیں جنہیں متعلقہ علاقوں کے مسائل سے واقفیت تو کجا اُن علاقوں کے بارے میں بنیادی معلومات بھی نہیں۔ قانونی اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کو ایسے افراد جو غیر متعلقہ افراد کی تعریف میں آتے ہیں کو اِس طرح کے اختیارات دینا کہ وہ عوام کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھیں کوئی اختیار نہیں۔ قائدین مسلم لیگ کو چاہیے تھا کہ وہ اختیارات کار کنوں کو دیتے۔ اِس کا فائدہ مسلم لیگ ن کو یہ پہنچتا کہ اُن کے کارکن مضبوط ہوتے تو مسلم لیگ ن مضبوط ہوتی جبکہ عوام الناس کو یہ فائدہ پہنچتا کہ وہ کارکن جو علاقہ کے مسائل سے آگاہی رکھتے بہتر انداز سے ترقیاتی کام مکمل کرا سکتے۔ اب جب مسلم لیگ کے ووٹر یا کارکن مشرف کے ساتھیوں کے پاس جاتے ہیں تو اُن کو کھری کھری سننا پڑتی ہیں کہ جن کو ووٹ دیئے تھے اُن سے کام لیں۔
اخبار آگے چل کر لکھتا ہے کہ میاں صاحب ! وقت اب بھی نہیں گزرا، پہلے تو آپ حقیقی میرٹ پر آجائیں کم از کم اپنے کارکنوں کا شملہ ہی اوپر کرنے کیلئے اُن کی منشا پر ہی ترقیاتی کام کرائیں تاکہ اگلے عام انتخابات میں آپ کو یہ بھولے بھالے کارکن شیر آیا شیر آیا کہتے نظر آئیں کیونکہ جماعت وہی اچھی ہوتی ہے جس کے کارکن متحرک ہوں۔ میرٹ کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہی کے دائرۂ اختیار میں آنے والے دفاتر میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی تذلیل ہو، اُن پر ہنسا جائے، اگر مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی اسی طرح بے توقیری ہوتی رہی تو مسلم لیگ ن اپنی طاقت سے محروم ہو جائے گی اور آئندہ انتخابات میں ان نظریاتی ورکروں کی عدم دلچسپی مسلم لیگ ن کی شکست پر منتج ہو سکتی ہے۔