مسلم تاریخ میں اقلیتوں کے حقوق

insaan

MPA (400+ posts)
پاکستان ہو یا دور حاضر کا کوئی بھی مسلمان اکثریتی ملک، کہیں بھی اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل نہیں. آئے روز شدّت

پسند اقلیتوں کو اپنی مذہبی جنونیت کا نشانہ بناتے ہیں. اس ضمن میں مسلم ریاستیں بھی ظلم کی مرتکب رہی ہیں. کہیں ریاستی


مشینری آگ میں زندہ جلا دیے جانے والے عیسائیوں کا تماشا دیکھتی رہی. شیعہ، احمدی، عیسائی یا کوئی بھی اقلیت نہ تو

محفوظ ہے اور نہ ہی برابر کے حقوق اسے میسر ہیں. مذہبی شدّت پسند اکثر مذہبی کتب سے حوالے نکال کر اپنی جنونیت کی

دلیل دیتے ہیں. اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے والی مسلم ریاستیں بھی مذہب ہی سے دلائل پیش کرتی ہیں.اس ضمن میں

کوشش کی کہ مذہبی کتب، روایت اور قرآن و سنّت سے اقلیتوں یا غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں تفصیلات تلاش کی

جایں. ذیل میں کچھ روایت پیش کی جا رہی ہیں. ان میں سے بیشتر روایت ایک سے زائد کتب میں پائی جاتی ہیں مگر یہاں

صرف ایک ایک حوالہ دیا جا رہا ہے.


religion-of-peace-e1347444870621.jpg
خبردار! جس کسی نے کسی معاہد

(اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے

کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔

محمّد بن عبد الله بن عبد المطلب ابوداؤد، السنن، کتاب الخراج، باب في تعشير، 3 : 170، رقم : ٣٠٥٢


دین میں کوئی زبردستی نہیں
القرآن، البقرة، 2 : ٢٥٦

سو تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے
القرآن، الکافرون، 109 : ٦


ایک مسلمان نے ایک اہل کتاب کو قتل کر دیا اور وہ مقدمہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فیصلہ کے لیے آیا

تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اہل ذمہ کا حق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں

شافعي، المسند، 1 : ٣٤٣




جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی

مسافت تک پھیلی ہوئی ہے

بخاري، الصحيح، کتاب الجزيه، باب إثم من قتل، 3 : 1154، رقم


غیر مسلموں کے جو بیرونی وفود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آتے ان کی حضور نبی اکرم صلی اللہ

علیہ وآلہ وسلم خود میزبانی فرماتے چنانچہ جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں

کا ایک وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور

فرمایا :یہ لوگ ہمارے ساتھیوں کے لیے ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے میں نے پسند کیا کہ میں بذات خود ان کی تعظیم

و تکریم اور مہمان نوازی کروں۔

ابن کثير، السيرة النبوية، 2 : ٣١



ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا۔ آپ نے اس وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور اس وفد میں شامل

مسیحیوں کو اجازت دی کہ وہ اپنی نماز اپنے طریقہ پر مسجد نبوی میں ادا کریں چنانچہ یہ مسیحی حضرات مسجد نبوی کی ایک

جانب مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے۔

ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : ٣٥٧



جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک انصاری کمانڈر سعد بن عبادۃ نے ابوسفیان سے کہا :آج لڑائی کا

دن ہے۔یعنی آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہو گئے اور ان سے جھنڈا لے کر

ان کے بیٹے قیس کے سپرد کر دیا اور ابوسفیان سے فرمایا :(آج لڑائی کا نہیں بلکہ) آج رحمت کے عام کرنے (اور معاف کر

دینے) کا دن ہے۔

ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 8 :



مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرنے میں سب سے زیادہ دو اشخاص کا دخل تھا وہ ابولہب

کے بیٹے تھے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذائیں دی تھیں۔ فتح مکہ کے روز یہ دونوں گستاخ کعبۃ اللہ

کے پردوں کے پیچھے جا چھپے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو خود کعبۃ اللہ کے پردوں کے پیچھے

سے نکالا اور معاف کر دیا۔

زيلعي، نصب الرايه، 3 : ٣٣٦


امام ابو یوسف اپنی شہرۂ آفاق تصنیف کتاب الخراج میں لکھتے ہیں کہ عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں تعزیرات اور دیوانی

قانون دونوں میں مسلمان اور غیر مسلم اقلیت کا درجہ مساوی تھا۔
ابو يوسف، کتاب الخراج : ١٨٧



غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے
شافعي، المسند، 1 : ٣٤٣


حضرت علی فرماتے ہیں جو ہماری غیر مسلم رعایا میں سے ہے اس کا خون اور ہمارا خون برابر ہے اور اس کی دیت ہماری

دیت ہی کی طرح ہے

بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : ٣٤



امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :یہودی، عیسائی اور مجوسی کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔
شيباني، الحجة، 4 : ٣٢٢


ایک دفعہ حضرت عمرو بن عاص والی مصر کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفۂ وقت امیر المؤمنین حضرت

عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت ہوئی تو اُنہوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے

سزا دلوائی اور ساتھ ہی فرمایا :تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔
حسام الدين، کنز العمال، ٢


ذمیوں کے حقوق کا اتنا لحاظ رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا ان کے خنزیر کو بھی تلف کر دے تو اس پر ضمان لازم آئے گا۔ در المختار میں ہے:مسلمان اس کی شراب اور اس کے سور کی قیمت ادا کرے گا اگر وہ اسے تلف کر دے۔
ابن قدامه، المغني، 9 : ٢٨٩


غیر مسلم سے اذیت کو روکنا اسی طرح واجب ہے جس طرح مسلمان سے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے
حصکفي، الدرالمختار، 2 : ٢٢٣


اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی نجی زندگی اور شخصی رازداری کا حق اسی طرح حاصل ہے جس طرح مسلمانوں کو؛ اس

لیے کہ اسلامی قانون نے ان کے لیے یہ اُصول طے کیا ہے کہ جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ ان کو بھی حاصل ہوں گے

اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر ڈالی گئی ہیں وہ ان پر بھی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بقول ان سے جزیہ اس لیے لیا

جاتا ہے تاکہ ان کے جان و مال کی اسی طرح حفاظت کی جاسکے جس طرح ہمارے جان و مال کی حفاظت ہوتی ہے۔

ابن قدامه، المغنی، 9 : ٢٨٩



اہلِ نجران کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خط لکھا تھا اس میں یہ جملہ بھی درج تھا :نجران اور ان کے

حلیفوں کو اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پناہ حاصل ہے۔ ان کی جانیں، ان کی شریعت، زمین، اموال،

حاضر و غائب اشخاص، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے گرجا گھروں کی حفاظت کی جائے گی۔ کسی پادری کو اس کے مذہبی

مرتبے، کسی راہب کو اس کی رہبانیت اور کسی صاحب منصب کو اس کے منصب سے ہٹایا نہیں جائے گا اور ان کی زیر ملکیت ہر چیز کی حفاظت کی جائے گی۔

ابويوسف، کتاب الخراج : ٧٨


اہلِ نجران کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خط لکھا تھا اس میں یہ جملہ بھی درج تھا :نجران اور ان کے حلیفوں کو اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پناہ حاصل ہے۔ ان کی جانیں، ان کی شریعت، زمین، اموال،

حاضر و غائب اشخاص، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے گرجا گھروں کی حفاظت کی جائے گی۔ کسی پادری کو اس کے مذہبی

مرتبے، کسی راہب کو اس کی رہبانیت اور کسی صاحب منصب کو اس کے منصب سے ہٹایا نہیں جائے گا اور ان کی زیر ملکیت

ہر چیز کی حفاظت کی جائے گی۔

ابويوسف، کتاب الخراج : ٧٨


حیرہ کے باشندوں کو جو پروانہ امان دیا گیا اس کا ایک حصہ یہ ہے :

جو غیر مسلم بوڑھا ہو جائے اور کام نہ کر سکے یا کوئی ناگہانی آفت اسے ناکارہ بنا دے یا پہلے دولتمند ہو، بعد میں کسی حادثہ

کی وجہ سے غریب ہو جائے تو ایسے آفت رسیدہ لوگوں سے نہ صرف یہ کہ حکومت کوئی ٹیکس وصول نہیں کرے گی بلکہ ان

کو اور ان کی اہل و عیال کو سرکاری خزانہ سے گزارہ الاؤنس بھی مہیا کیا جائے گا

ابويوسف، کتاب الخراج : ١٥٥


ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بوڑھے یہودی کو بڑی خستہ حالت میں دیکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : خدا

کی قسم! یہ انصاف کا تقاضا نہیں کہ ہم اس کی جوانی میں تو اس سے فائدہ اُٹھائیں اور اُسے بڑھاپے میں اس طرح رسوا ہونے

دیں چنانچہ آپ نے حکم صادر فرمایا کہ اس بوڑھے کو زندگی بھر اس کی ضرورت کے مطابق بیت المال سے وظیفہ دیا جائے۔

اس کے ساتھ ہی آپ نے ملک کے گورنروں کو لکھا کہ وہ غیر مسلم کے رعایا کے مستحق اور غریب افراد کو بیت المال سے

پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ تنخواہیں دیں۔
ابويوسف، کتاب الخراج : ١٥٠


جب حضرت عمر بن عبدالعزیز تختِ خلافت پر متمکن ہوئے اور عیسائیوں نے ان سے ولید کے کنیسہ پر کیے گئے ظلم کی

شکایت کی تو انہوں نے اپنے عامل کو حکم دیا کہ مسجد کا جتنا حصہ گرجا کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اسے منہدم کرکے

عیسائیوں کے حوالہ کر دو

بلاذري، فتوح البلدان : ١٥٠



حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مقام سے گزر ہوا تو آپ نے ایک بوڑھے نابینا یہودی بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے اس

سے پوچھا :تمہیں اس پر کس بات نے مجبور کیا؟اس نے کہا کہ بوڑھا ضرورت مند ہوں اور جزیہ بھی دینا ہے۔ حضرت عمر

رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور گھر لائے اور اسے اپنے گھر سے کچھ دیا، پھر اسے بیت المال کے خازن کے پاس بھیجا

اور حکم دیا کہ اس کا اور اس جیسے اور لوگوں کا خیال رکھو اور ان سے جزیہ لینا موقوف کردو۔ کیونکہ یہ کوئی انصاف کی

بات نہیں ہے کہ ہم نے ان کی جوانی میں ان سے جزیہ وصول کیا اور اب بڑھاپے میں ان کو اس طرح رسوا کریں۔
ابن قدامه، المغني، 8 : ٥٠٩



حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے گورنر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ اور احکام

کے ایک یہ بھی تھا کہ :

مسلمانوں کو ان (اقلیتوں) پر ظلم کرنے اور انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کے مال کھانے سے منع کرنا
ابويوسف، کتاب الخراج : ١٥٢



اہل نجران سے کئے گئے معاہدے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھتے ہیں : اہلِ نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے اللہ

اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جانوں ان کے مذہب ان کی زمینوں ان کے اموال۔ ان کے موجود اور غیر

موجود، ان کے مواشی اور قافلے اور اُن کے استہان وغیرہ کے ذمہ دار ہیں اور جس دین پر وہ ہیں اس سے ان کو نہ پھیرا جائے

گا۔ ان کے حقوق اور اُن کی عبادت گاہوں کے حقوق میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی۔ کسی پادری، راہب یا سردار کو اس کے

عہدے سے نہ ہٹایا جائے اور ان کو کوئی خوف نہ ہو گا۔
بلاذري، فتوح البلدان : ٩٠



حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب حسبِ فرمان خلیفۂ اوّل اہل عانات سے جو معاہدہ کیا اسمیں لکھا : گرجے اور خانقاہیں

منہدم نہیں کی جائیں گی اور وہ ہماری نماز پنجگانہ کے سوا ہر وقت اپنا ناقوس بجاسکتے ہیں ان پر کوئی پابندی نہیں۔
محمد حميد اﷲ، الوثائق السياسة، ٣٢٣



ہل ماہ بہر اذان سے کئے گئے معاہدے میں حضرت عمر فاروق لکھتے ہیں: انہیں نہ تو ان کے دین سے ہٹایا جائے گا اور نہ ان

کی شریعت سے تعرض کیا جائے گا اور ان کے اموال، نفوس اور اراضی ہر ایک پر ان کا قبضہ بدستور تسلیم کیا جاتا ہے
محمد حميد اﷲ، الوثائق السياسة : ٣٥٨
 

Khalid

Minister (2k+ posts)
پاکستان ہو یا دور حاضر کا کوئی بھی مسلمان اکثریتی ملک، کہیں بھی اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل نہیں

jhoot
jhoot
jhoot

sazish
sazish
sazish
 

jahanzaibi

Senator (1k+ posts)
Bahi yahan to islam kay naam per jo states hain wahan aam muslim ko koi haq hasil nahi app non muslim ki baat karteen hain..
 

ts_rana

Minister (2k+ posts)
Apperciatable, really good job. If pakistan can get some lesson or Pakistanis learn something from these references , it would be great. May ALLAH Almighty enable us to study, understand and practice real ISLAM presented by all time great PROPHET , the RAHMATUL-LIL-AALMEEN Hadhrat MUHAMMAD pbuh and then followed by his great companions mentioned above.
 

Back
Top