
مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کا ساتھ دینا
آیت نمبر 1:
یاأَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا اليَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي القَوْمَ الظَّالِمِينَ] {المائدة:51** " اے ایمان والو ! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناو ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا "
رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے:
ھو مشرک مثلھم وہ انہیں کی طرح کامشرک ہے۔
امام جصاص(رحمہ اللہ) اس کی ذیل میں لکھتے ہیں کہ :
کافر مثلہم-)و ہ ( اُنہی کی طرح کافر ہے۔
امام مظہری(رحمہ اللہ) لکھتے ہیں کہ:
أي: کافر منافق - وہ کافر اور منافق ہے۔
سورۂ مائدہ کی آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیرؒ کہتے ہیں:
یہاں اﷲ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ان یہود ونصاری کے ساتھ موالات رکھنے سے جو کہ اسلام اور اہل اسلام کے دشمن ہیں، ممانعت فرمائی ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ (یعنی یہودی اور عیسائی) آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے ایسا کرنے والوں کو تنبیہ اور وعید فرمائی ہے۔ چنانچہ فرمایا ومن یتولھم منکم فانہ منھم یعنی جو تم میں سے ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں سے ہوگا۔
یہاں تک کہ امام ابن کثیرؒ اس آیت کے ذیل میں حضرت عمرؓ کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ آپؓ نے ابوموسی الاشعریؓ (والیٔ بصرہ) کو اس بات پر سرزنش فرمائی کہ انہوں نے ایک عیسائی انشا پرداز کو محض اس کی صلاحیتوں کو دیکھ کر اپنا مکتوب نگار کیوں رکھ لیا اور اپنی اس بات کی تائید میں یہی سورۂ مائدہ کی آیت پڑھی جو کہ اس مسئلہ کے ثبوت میں شروع کے اندر یہاں بیان ہوئی: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء.... یعنی: اے اہل ایمان تم یہود اور نصاریٰ کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی میں ہے یہ حوالہ دینے کے بعد فرمایا: اس کو نکال دو
ابن حزم رحمة اللہ علیہ نے المحلی میں فرمایا: صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فرمان {وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ** (ترجمہ: اور تم میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے، وہ انہی میں سے ہے) سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کفار کے جیسا کافر ہے۔ یہ ایسی حق بات ہے کہ جس کے بارے میں کسی دو مسلمانوں کا اختلاف نہیں ہے
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کفار کا ساتھ دینے والے حکام کے متعلق فرمایا: "کیا ان حکام نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لاتتخذواالیھودوالنصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم
ترجمہ: تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو بھی انہیں دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوا
ان دو آیات میں اللہ نے بتایا ہے کہ ان سے دوستی کرنے والا مومن نہیں اور یہ بھی بتایا کہ ان سے دوستی کرنےوالا انہی میں سے ہے"۔ (مجموع الفتاوی 18/7)
ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا: "ومن یتولھم منکم فانہ منھم
ترجمہ: تم میں سے جو بھی انہیں دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا
اللہ سبحانہ نے فیصلہ فرمادیا اور اس سے بڑھ کر اچھا فیصلہ کسی کا نہیں ہوسکتا کہ جو بھی یہودونصاری کو دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا جب قرآن کی صراحت کے مطابق ان سے دوستی کرنے والے انہی میں سے ہیں تو ان (یعنی دوستی کرنے والوں) کا حکم بھی وہی ہوگا جو ان (یہودونصاری) کا ہے اور یہ عام ہے جو بھی ان سے دوستی کرے اور اسلام کی پابندی کرنے کے بعد ان کے دین میں داخل ہوجائے تو وہ نص اور اجماع کی رو سے مرتد ہوگیا اور اس سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ یاتو اسلام لائے یا پھر تلوار (احکام اھل الذ مة195/1)"
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جو تاتار کے لشکر میں کود پڑے اور ان سے مل جائے وہ مرتد ہوگیا اور اس کی جان اور اس کا مال حلال ہوگیا (الاختیارات الفقھیة از شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ)
آیت نمبر 2:
لا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُاللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ﴾ )آلِ عمران:۸۲(
یعنی مومن مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہیں بناتا یا مومن مومنوں کے مقابلے میں کافروںکو اپنا دوست نہیں بناتا
وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ
اور جو کوئی بھی ایسا کرے
فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ
تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں
اس آیتِ مبارکہ کی تشریح میں امام طبری(رحمہ اللہ) لکھتے ہیں:
یعني بذلک۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مراد ہے..
فقد بريئ مِنَ اللَّهِ
..کہ جس شخص نے مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کا ساتھ دیا،
وہ اللہ سے بری ہو گیا
وبرئ اللہ منہ
ا ور اللہ اس سے بری ہوگیا
بارتدادہ عن دینہ
کیوں
کیونکہ یہ اس فعل کی وجہ سے دین سے مرتد ہو گیا
ودخولہ في الکفر
اور کفر میں داخل ہو گیا
دیگر مفسرین کے اقوال بھی دیکھیں تواسی طرح بالکل واضح تصریح کی گئی ہے۔ شاید کم ہی مقامات ہیں کہ جہاں کسی قول یا کسی فعل پرمفسرین نے اتنی صراحت سے کفر کی بات یا تصریح کی ہے
دین اور امت کا غدار بے شک نماز روزہ کرتا ہو، کافر ہو جاتا ہے۔
اﷲ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کا وفادار بن کر رہنا اور اﷲ و رسول اور اس اُمت کے دشمن سے دشمنی رکھنا ایمان کا بنیادی فرض ہے۔ یہ نہیں تو قرآنِ مجید کا وہ ایک خاصا بڑا حصہ کچھ معنیٰ ہی نہیں رکھتاجو کہ آج تک برابر تلاوت ہوتا ہے اور جو کہ ان منافقین کا بار بار کفر بیان کرتا ہے جو نبی ﷺ کے دشمنوں کے ساتھ دوستیاں گانٹھتے تھے۔
اسلام محض عقائد یا نماز روزہ ایسی عبادات کا مجموعہ نہیں۔ حتی کہ یہ محض کوئی سیاسی اور معاشی ہدایات پر مشتمل سماجی نظام بھی نہیں، جیسا کہ ہمارے بہت سے نکتہ داں طویل لیکچر دیا کرتے ہیں۔ اسلام دراصل انسان کی وفاداریوں کا تعین بھی ہے اور اس کے تعلقات کی حدود کا دائرہ بھی اور اللہ ورسول و امت کیلئے غیرت کا امتحان بھی۔
تعلق اور وفاداری اور مدد ونصرت کے معاملہ میں بھی دراصل آدمی کے ایمان کو امتحان سے گزارا جاتا ہے۔ کفار جو اسلام اور اہل اسلام سے برسر جنگ ہوں یا دین اسلام کے خلاف یا اس کی کامیابی کے خلاف بغض رکھتے ہوں ایک مسلمان کیلئے دشمن ہی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو آدمی کو اپنے ایمان کی فکر ہو جانی چاہیے۔
اسلام اور توحید کے دشمنوں سے دلی ہمدردی رکھنا، یا مسلمانوں کے خلاف ان کی فتح مندی چاہنا، یا مسلمانوں کے خلاف ان کی نصرت اور اعانت کرنا، یا حتی کہ مسلمانوں کے خلاف محض ان کا حلیف بن کر رہنا صریحاً کفر ہے۔ ایسا کرنے کے بعد آدمی دائرۂ اسلام میں نہیں رہتا۔
بنا بریں ہر وہ اتحاد alliance (تحالف) جو کسی مسلم ملک یا مسلم قوت یا مسلم جماعت یا مجاہدین کے خلاف آمادۂ جنگ ہو اس کا حصہ بننا، اس کی معاونت کرنا، اس کا پرچم اٹھانا، اس کیلئے جاسوسی کرنا یا مسلمانوں کے خلاف کسی بھی طرح اس کی مہم آسان کرنا محض کوئی گناہ نہیں، یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے۔ ایسے آدمی کو متنبہ ہو جانا چاہیے وہ اگر اپنے اس عمل سے تائب ہوئے بغیر مر جاتا ہے تو وہ کفر کی حالت پر مرتا ہے، جس پر ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم یقینی ہے۔
نوٹ:-
کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف برسرپیکار ہوجائے یہ عمل کفریہ نہیں ہے اسی وجہ سے اللہ تعالى نے آپس میں قتال کرنے والے مسلمانوں کے دونوں گروہوں کو مؤمن قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے "وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا" ۔ اور یہ غلط فہمی , یا کسی بھی دیگر وجوہات کی بناء پر ہونے والی لڑائیوں میں ہے ۔
ہاں جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے خلاف برسرپیکار ہو کفار کی معاونت میں تو یہ عمل کفریہ عمل ہے ۔
لیکن اس کفریہ عمل کے مرتکب پر ہم فتوى کفر اس وقت تک نہیں لگا سکتے جب تک تکفیر کی شروط اس میں پوری نہ ہو جائیں اور موانع ختم نہ ہو جائیں ۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کلمہ گو لوگ جب کفار کی صفوں میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہیں تو انکا قتل پھر کیونکر جائز ہوگا ؟
اسکا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگ جو میدانوں میں اہل اسلام کے خلاف لڑنے کے لیے کفار کے ساتھ مل کر آتے ہیں ہم انکا قتل اس لیے درست قرار دیتے ہیں کیونکہ انکا یہ عمل کفر والا ہے اور تکفیر معین کی چھان بین کا موقع میدانوں میں نہیں ہوتا کہ جس کے ذریعہ حقیت حال کو معلوم کیا جائے لہذا مجاہدین ان کے ظاہر پر حکم لگاتے ہوئے انکے ساتھ کفار والا سلوک روا رکھتے ہیں ۔
واللہ اعلم