مسلمانوں کے ایک عظیم راہنما

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

495x278x17752_60082255.jpg.pagespeed.ic.7xDQpiR_50.jpg



حسن ریاض
مولانا محمد علی جوہرمسلمان رہنماؤں میں بے نظیر شخصیت تھے۔ اعلیٰ درجے کے انگریزی داں، چابکدست انشا پرواز اور صحافی، اُردو کے ادیب اور شاعر، پر جوش خطیب اور سیاسی رہنما، بہادر اور صاف گو، خدا پرست مسلمان۔ 1878ء میں رام پور میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں والد کا انتقال ہو گیا۔ والدہ ( بی اماں) نے تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔ بریلی اسکول میں تعلیم پانے کے بعد علی گڑھ کالج میں داخل ہوئے۔ 1896ء میں بی اے کا امتحان دیا تو صوبے بھر میں اوّل آئے۔ بی اماں اور بڑے بھائی مولانا شوکت علی نے، جو سرکاری ملازم تھے، محمد علی کو سول سروس کے لیے انگلستان بھیجا۔ محمد علی سول سروس میں تو کامیاب نہ ہوئے لیکن آکسفورڈ سے بی اے کی ڈگری لے آئے۔ سب سے پہلے رام پور اور بڑودہ میں اونچی ملازمتوں پر فائز ہوئے۔ لیکن جنوری 1910ء میں ملازمت ترک کر دی۔ جاورہ اور بھوپال نے وزارت کے عہدے پیش کیے لیکن مولانا نے انکار کر دیا اور کلکتہ سے انگریزی کا ہفتہ وار اخبار کامریڈ نکالا جس کی زبان اور مدلل بیان کی دھوم مچ گئی۔ جب ہندوستان کا پائے تخت کلکتہ کے بجائے دہلی قرار پایا، تو مولانا کامریڈ کو بھی دہلی لے آئے اور ایک اُردو روزنامہ ہمدرد بھی جاری کر دیا۔ پہلی جنگ عظیم چھڑی تو مولانا نے کامریڈ میں کئی صفحوں کا ایک مضمون ترکوں کی پسند کے عنوان سے لکھا۔ اس سے حکومت سخت پریشان ہوئی۔ اس نے مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کو نظر بند کر دیا اور دونوں اخبار بند ہو گئے۔ 1919ء میں نظر بندی سے رہا ہوئے۔ تحریکِ خلافت میں حصہ لیا، کراچی میں مقدمہ چلا اور قید ہو گئے۔ اس کے بعد چونکہ ہندؤوں کا رویہ مسلمانوں کے حقوق کے متعلق مخالف ہو گیا تھا، مولانا کانگرس سے نکل آئے۔ صحت روز بروز خراب ہو رہی تھی۔ لندن میں گول میز کانفرنس منعقد ہوئی تو مولانا کو بھی دعوت دی گئی۔ وہ بیماری کی حالت میں وہاں پہنچنے اور دن رات ہندوستان کی آزادی اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرتے رہے۔ گول میز کانفرنس کے اجلاس میں ایک ہنگامہ خیز تقریر کی جس میں فرمایا کہ میں یا آزادی حاصل کرکے جاؤں گا یا یہیں مر جاؤں گا۔ غلام ملک میں واپس جانے سے آزاد ملک میں مر جانا بہتر ہے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہیں 1931ء میں جان جاں آفریں کو سپرد کر دی۔ فلسطین کے مسلمان ان کی میت کو بیت المقدس لے گئے۔ وہاں پر لاکھوں مسلمانوں نے آپ کی نماز جنازہ پڑھی اور وہیں سپردِ خاک کر دیا۔ صرف 52 سال کی عمر پائی۔

- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2017-02-10/17752#.WJ2Yx3-6Dmk


 

Back
Top