QaiserMirza
Chief Minister (5k+ posts)

مسجد النبوی میں جسمانی حاضری کی سعادت حاصل کرنے والوں کے ساتھہ ، صرف تصویر میں گنبد خضرا کو دیکھنے والوں نے بھی اس مینار کو ضرور دیکھا ہوگا جس کو لال تیر سے ظاہر کیا ہے مسجد النبوی کے اس مینار کو یہ سعادت حاصل ہے کہ یہ مسجد النبوی کے دیگر میناروں کے مقابلے میں روضۂ اقدس صلی الله علیہ و الیہ وسلم سے سب سے زیادہ نزدیک ہے یہ مینار دو نہایت اہم وجوہات کی بنا پر مسجد النبوی کے دیگر میناروں پر فضلیت رکھتا ہے - اس مینار پر موجود ایک مقام کو نیلے تیر سے بھی ظاہر کیا ہے جہاں آپکو مینار پر کئی گول لہردار بارڈر بننے نظر آرہا ہے - یہ لہردار نقوش یا بارڈر اس مینار پر بلا وجہ نہیں بنایے گیے ہیں بلکہ انکی ایک خاص تاریخی اہمیت ہے سن 707 عیسوی میں پہلی مرتبہ مسجد النبوی کے چاروں کونوں پر مینار بنواے گیے ان میں سب سے پہلا مینار یہی تھا جو آپکو آج کی تصویر میں لال نشان کے تیر سے دکھایا گیا ہے - گویا یہ مسجد النبوی پر کھڑا ہونے والا پہلا مینار تھا اور اس کا نام ''مینارہ الریسیہ '' رکھا گیا تھا اور آج بھی اس کا یہی نام ہے مگر ہم میں سے بہت ہی کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں
اس مینار سمیت مسجد النبوی پر بنایے گیے چاروں ابتدائی میناروں کو بنانے کا اعزاز اموی خلیفہ '' ولید بن عبد الما لک '' کو حاصل ہے جو سن 705 عیسوی سے 715 عیسوی تک
حکمران رہے
اس مینار کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس مینار پر لہردار جو نقوش پڑے ہیں جسکو میں نے نیلے تیر سے ظاہر کیا ہے وہ اصل میں وہ مقام ہے جہاں مینار کی تعمیر کے بعد موذن کھڑے ہو کر اذان دیا کرتے تھے - اس مینار کی تعمیر سے قبل موذن مسجد کی چھت یا کسی اونچی جگہ کھڑے ہو کر اذان دیتے تھے
اس مینار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسلامی تاریخ میں میناروں پر چڑھ کر اذانیں دینے کی ابتدا یہیں سے ہوئی جو آج سے ستر پچھتر سال قبل اس وقت ختم ہوگی جب لاوڈ اسپیکروں پر ازنیں دی جانے لگیں - لیکی اسلامی تاریخ کا1400 سالہ دور ایسا گزرا ہے جب میناروں سے ہی اذانوں کی آوازیں گونجا کرتی تھیں اور ماحول میں روحانیت پیدا کر دیتی تھیں
تو علم ہوا کہ مسجد النبوی کے اس مینار جسکا نام ''مینارہ الریسیہ '' ہے مسجدوں کی تاریخ میں بنے والا پہلا مینار ہے اور اسی مینار کو اسلامی تاریخ کا وہ اولین مینار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے جس پر چڑھ کر مناروں سے دیجانے والی پہلی اذان دی گی اور اس مینار پر نظر آنے والی لہردار نقوش والی جگہ وہ اصل جگہ ہے جہاں موذن کھڑے ہو کر اذان دیا کرتے تھے
اب آپ جب بھی مسجد النبوی میں بلاے جائیں تو آپ [FONT=&]گنبد [/FONT]خضرہ کے ساتھہ موجود اس اہم مینار کو نظر انداز نہ کریں اور اسکی روحانی تاریخ کے پس منظر میں اسکی زیارت کریں تو یقینا'' آپکی یہان کی حاضری کا مزہ دوچند ہو جایے گا
اس مینار سمیت مسجد النبوی پر بنایے گیے چاروں ابتدائی میناروں کو بنانے کا اعزاز اموی خلیفہ '' ولید بن عبد الما لک '' کو حاصل ہے جو سن 705 عیسوی سے 715 عیسوی تک
حکمران رہے
اس مینار کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس مینار پر لہردار جو نقوش پڑے ہیں جسکو میں نے نیلے تیر سے ظاہر کیا ہے وہ اصل میں وہ مقام ہے جہاں مینار کی تعمیر کے بعد موذن کھڑے ہو کر اذان دیا کرتے تھے - اس مینار کی تعمیر سے قبل موذن مسجد کی چھت یا کسی اونچی جگہ کھڑے ہو کر اذان دیتے تھے
اس مینار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسلامی تاریخ میں میناروں پر چڑھ کر اذانیں دینے کی ابتدا یہیں سے ہوئی جو آج سے ستر پچھتر سال قبل اس وقت ختم ہوگی جب لاوڈ اسپیکروں پر ازنیں دی جانے لگیں - لیکی اسلامی تاریخ کا1400 سالہ دور ایسا گزرا ہے جب میناروں سے ہی اذانوں کی آوازیں گونجا کرتی تھیں اور ماحول میں روحانیت پیدا کر دیتی تھیں
تو علم ہوا کہ مسجد النبوی کے اس مینار جسکا نام ''مینارہ الریسیہ '' ہے مسجدوں کی تاریخ میں بنے والا پہلا مینار ہے اور اسی مینار کو اسلامی تاریخ کا وہ اولین مینار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے جس پر چڑھ کر مناروں سے دیجانے والی پہلی اذان دی گی اور اس مینار پر نظر آنے والی لہردار نقوش والی جگہ وہ اصل جگہ ہے جہاں موذن کھڑے ہو کر اذان دیا کرتے تھے
اب آپ جب بھی مسجد النبوی میں بلاے جائیں تو آپ [FONT=&]گنبد [/FONT]خضرہ کے ساتھہ موجود اس اہم مینار کو نظر انداز نہ کریں اور اسکی روحانی تاریخ کے پس منظر میں اسکی زیارت کریں تو یقینا'' آپکی یہان کی حاضری کا مزہ دوچند ہو جایے گا