سنی تحریک والے ابھی اپنا کرتب ختم کر کے واپس پہنچے ہی ہیں کہ باقی مذہبی جماعتوں کو جوش آ گیا ہے۔ سنی تحریک والے بزرگوں کی دوڑ اور ترلے دیکھنے والے ہیں جو اب وہ دہشت گردی والی دفعات میں ماخوذ ہونے کے بعد کر رہے ہیں۔ کارکنان خیر سے کافی ابھی اندر ہی ہیں۔ کچھ رلتے ہوئے کراچی پہنچ گئے ہیں واپس۔ ایک آدھ پیر صاحب نے اپنے زور بازو سے کم اور زبان دانی کی مہارتوں سے اپنی ٹکور کا اہتمام بھی کر لیا۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود قائدین جوش میں آئے ہوئے ہیں۔ قوم کو نظام مصطفی کے نعرے کے پیچھے گھیرنے کی تیاریاں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن مذہبی گھرانے میں پیدا ہونے والے سراپا سیاستدان ہیں۔ وہ اچھی طرح سمجھ چکے ہوں گے کہ ان تلوں میں پھر تیل نہیں ہے۔ صاف بچا لے جائیں گے وہ اپنی جماعت کو۔ سرکار کو یرکا کر اپنی سیاسی پاور بیس کو بھی راضی کر لیںگے اور پارٹی کے لئے بھی کوئی دال دلیہ کر ہی لیں گے۔
ایمانداری تقوی دیانت کافی حد تک شرافت کے نشان ہوتے ہوئے بھی کسی نے سیاسی مفلسی دیکھنی ہو تو صالحین کے امیر سراج الحق کو دیکھ لے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ وہ پارلیمانی سیاست میں کامیاب ہوئے۔ اب اسی کامیابی کے زور پر اپنی جماعت کا زبردستی بیڑہ غرق کر رہے ہیں۔ یہ دن بھی ہمیں دیکھنا تھا کہ ایک امیر جماعت اپنی صدی پرانی تحریک اور نظرئیے کو ایک جنازے پر وارنے نکل پڑا تھا۔
ہم کپتان کو روتے ہیں کہ وہ اپنے شاندار سیاسی نعرے تبدیلی کی تشریح نہیں کرتا۔ لوگوں کو سمجھانے میں بری طرح ناکام ہوتا جا رہا کہ تبدیلی لائے گا کیا۔ بار بار اس کے امیدوار ووٹر مسترد کر رہے ہیں۔ اس سب کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ کر بھی مذہبی جماعتیں پاٹے پرانے نعروں کے ساتھ اٹھی ہیں۔
اندازہ کریں نظام مصطفی کا نعرہ لے کر میدان میں اترنے والی ساری مذہبی جماعتیں وہ ہیں جو پارلیمانی سیاست کرتی ہیں۔ ہمارے مذہبی راہنما سیاسی پلان دینے کو اپنا منہ کھولتے ہیں، ووٹر ڈھیروں ڈھیر ان سے بھاگ جاتا ہے۔ ہر بار سب سے پہلے اقلیتیں بھاگتی ہیں۔ اس بار حقوق نسواں بل کو مسئلہ بنایا ہے ۔ ہماری آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے اور آدھے ووٹ بھی ان کے ہیں۔ خواتین کو مخالف بنا کر گھر سے چلے ہیں ۔ اس کے نتائیج کیسے ہوں گے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ راہنماؤ آپ کے پاس نوجوانوں کے لئے کیا ہے۔ کوئی پیغام ہے جو آپ انہیں دینا چاہتے ہوں۔ ایسا پیغام جسے سن کر وہ آپ کے پیچھے چل پڑیں۔
مذہب کے نام سے جب بندوق اٹھائی گئی مسلح تحریک چلی سوال مذہب ہی پر کھڑے ہوئے۔ سیاسی تحریک چلاتے ہیں منہ کی کھاتے ہیں متنفر پھر مذہب سے کرتے ہیں۔ کرتوت اپنے ہیں نشانہ مذہب بن جاتا ہے۔
آپ جب بھی مذہب کا نام لیں گے ہر سوچنے والا ذہن آپ لوگوں کے کردار کا موازنہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وصلم اور ان کے اصحاب کے ساتھ کرے گا ۔ یہ کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ اس معیار کو پانا انسانی بس نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اہل مذہب کا کوئی کیس ہی باقی نہ رہتا۔ آپ نے اگر مذہبی تحریک اٹھانی ہے تو آپ کا کردار ہی اس تحریک کا فیصلہ کرے گا۔
مذہبی جماعتیں اگر اپنی سمجھ کا اسلام اور نظام بھی اگر نافذ کرنا چاہتی ہیں تو مثال اور معیار رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وصلم کی سنت ہی بنے گی۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وصلم نے دس سال صرف دس سال میں پر امن رہتے ہوئے بغیر کسی جانی نقصان کے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کر دکھائی تھی۔ دس سال بہت ہوتے ہیں کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے۔ طریقہ کار سامنے ہے اور کردار بھی۔ نہ کہیں موقف سے انحراف کیا گیا، نہ کہیں جذباتی اشتعال دلا کر وقتی فائدہ اٹھایا گیا۔ واضح مقاصد تھے جن کے لئے جدوجہد کی گئی دکھ جھیلے گئے۔ معاشرہ بدل دیا گیا۔
ہمیں مذہب کا نام لینے والی سو سو سال پرانی جماعتیں نصیب ہوئی ہیں۔ کوئی پر امن جدوجہد پر یقین رکھتا ہے۔ کسی نے خلافت لانی ہے پرامن طریقے سے۔ کوئی بندوق لے کر نکلا ہوا۔ تھک رہے ہیں، مر رہے ہیں مار رہے ہیں۔ منزل کا کوئی پتہ نشان نہیں۔ قدم ان کے آگے بڑھتے ہیں فتح ان کے دشمنوں کی ہوتی ہے۔ مسلمان عذاب میں ہیں، وجہ عذاب ہمارے مذہبی راہنما ہیں جو بے سمت ہیں۔
مذہبی جماعتوں پر، مذہب پر بات کرنے سے ہمیں گریز ہی رہتا ہے۔ کریں بھی تو کیا کریں۔ کب تک چپ رہیں؟ مذہبی راہنماؤں کو خود بھی اور مذہب کو بھی مذاق بناتے دیکھیں
SOURCE
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود قائدین جوش میں آئے ہوئے ہیں۔ قوم کو نظام مصطفی کے نعرے کے پیچھے گھیرنے کی تیاریاں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن مذہبی گھرانے میں پیدا ہونے والے سراپا سیاستدان ہیں۔ وہ اچھی طرح سمجھ چکے ہوں گے کہ ان تلوں میں پھر تیل نہیں ہے۔ صاف بچا لے جائیں گے وہ اپنی جماعت کو۔ سرکار کو یرکا کر اپنی سیاسی پاور بیس کو بھی راضی کر لیںگے اور پارٹی کے لئے بھی کوئی دال دلیہ کر ہی لیں گے۔
ایمانداری تقوی دیانت کافی حد تک شرافت کے نشان ہوتے ہوئے بھی کسی نے سیاسی مفلسی دیکھنی ہو تو صالحین کے امیر سراج الحق کو دیکھ لے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ وہ پارلیمانی سیاست میں کامیاب ہوئے۔ اب اسی کامیابی کے زور پر اپنی جماعت کا زبردستی بیڑہ غرق کر رہے ہیں۔ یہ دن بھی ہمیں دیکھنا تھا کہ ایک امیر جماعت اپنی صدی پرانی تحریک اور نظرئیے کو ایک جنازے پر وارنے نکل پڑا تھا۔
ہم کپتان کو روتے ہیں کہ وہ اپنے شاندار سیاسی نعرے تبدیلی کی تشریح نہیں کرتا۔ لوگوں کو سمجھانے میں بری طرح ناکام ہوتا جا رہا کہ تبدیلی لائے گا کیا۔ بار بار اس کے امیدوار ووٹر مسترد کر رہے ہیں۔ اس سب کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ کر بھی مذہبی جماعتیں پاٹے پرانے نعروں کے ساتھ اٹھی ہیں۔
اندازہ کریں نظام مصطفی کا نعرہ لے کر میدان میں اترنے والی ساری مذہبی جماعتیں وہ ہیں جو پارلیمانی سیاست کرتی ہیں۔ ہمارے مذہبی راہنما سیاسی پلان دینے کو اپنا منہ کھولتے ہیں، ووٹر ڈھیروں ڈھیر ان سے بھاگ جاتا ہے۔ ہر بار سب سے پہلے اقلیتیں بھاگتی ہیں۔ اس بار حقوق نسواں بل کو مسئلہ بنایا ہے ۔ ہماری آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے اور آدھے ووٹ بھی ان کے ہیں۔ خواتین کو مخالف بنا کر گھر سے چلے ہیں ۔ اس کے نتائیج کیسے ہوں گے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ راہنماؤ آپ کے پاس نوجوانوں کے لئے کیا ہے۔ کوئی پیغام ہے جو آپ انہیں دینا چاہتے ہوں۔ ایسا پیغام جسے سن کر وہ آپ کے پیچھے چل پڑیں۔
مذہب کے نام سے جب بندوق اٹھائی گئی مسلح تحریک چلی سوال مذہب ہی پر کھڑے ہوئے۔ سیاسی تحریک چلاتے ہیں منہ کی کھاتے ہیں متنفر پھر مذہب سے کرتے ہیں۔ کرتوت اپنے ہیں نشانہ مذہب بن جاتا ہے۔
آپ جب بھی مذہب کا نام لیں گے ہر سوچنے والا ذہن آپ لوگوں کے کردار کا موازنہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وصلم اور ان کے اصحاب کے ساتھ کرے گا ۔ یہ کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ اس معیار کو پانا انسانی بس نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اہل مذہب کا کوئی کیس ہی باقی نہ رہتا۔ آپ نے اگر مذہبی تحریک اٹھانی ہے تو آپ کا کردار ہی اس تحریک کا فیصلہ کرے گا۔
مذہبی جماعتیں اگر اپنی سمجھ کا اسلام اور نظام بھی اگر نافذ کرنا چاہتی ہیں تو مثال اور معیار رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وصلم کی سنت ہی بنے گی۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وصلم نے دس سال صرف دس سال میں پر امن رہتے ہوئے بغیر کسی جانی نقصان کے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کر دکھائی تھی۔ دس سال بہت ہوتے ہیں کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے۔ طریقہ کار سامنے ہے اور کردار بھی۔ نہ کہیں موقف سے انحراف کیا گیا، نہ کہیں جذباتی اشتعال دلا کر وقتی فائدہ اٹھایا گیا۔ واضح مقاصد تھے جن کے لئے جدوجہد کی گئی دکھ جھیلے گئے۔ معاشرہ بدل دیا گیا۔
ہمیں مذہب کا نام لینے والی سو سو سال پرانی جماعتیں نصیب ہوئی ہیں۔ کوئی پر امن جدوجہد پر یقین رکھتا ہے۔ کسی نے خلافت لانی ہے پرامن طریقے سے۔ کوئی بندوق لے کر نکلا ہوا۔ تھک رہے ہیں، مر رہے ہیں مار رہے ہیں۔ منزل کا کوئی پتہ نشان نہیں۔ قدم ان کے آگے بڑھتے ہیں فتح ان کے دشمنوں کی ہوتی ہے۔ مسلمان عذاب میں ہیں، وجہ عذاب ہمارے مذہبی راہنما ہیں جو بے سمت ہیں۔
مذہبی جماعتوں پر، مذہب پر بات کرنے سے ہمیں گریز ہی رہتا ہے۔ کریں بھی تو کیا کریں۔ کب تک چپ رہیں؟ مذہبی راہنماؤں کو خود بھی اور مذہب کو بھی مذاق بناتے دیکھیں
SOURCE