- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/qlNu5MD.jpg
Ye Jahil Calibri Dashkari to "PM of Azad Kashmir" bhi nahi ban sakti
مادر زلت:
ہماری روزمرہ زندگی میں بہت سارے افراد آس پاس موجود کسی اور شخص کی کاربن کاپی کا کردار بھی ادا کرتے ہوئے پائے جاتےہیں۔یہ مماثلت محض اتفاقیہ بھی ہوسکتی ہے یا کبھی کبھی انسانی جبلتوں میں پائی جانے والی مماثلت کا شاہکار بھی ہوسکتی ہے۔کبھی کبھی کئی لوگ اپنی حرکتوں سے نہ صرف یہ کہ خود لائم لائیٹ میں آجاتے ہیں بلکہ کبھی کبھی لوگ لائم لائیٹ میں آنے کےچکر میں ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ان حرکتوں کا نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو مگر اتنا ضرور ہوتا ہے کہ وہ شخص مرکز نگاہ ضرور بن جاتا ہے۔یہ الگ بات کہ یوں مرکز نگاہ بننا کوئی اچھی اور “شریفانہ” روش تو نہیں ہے مگر نواب مصطفیُٰ خان شیفتہ نے شاید ایسےہی لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے ایک ضرب المثل قسم کے شعر میں کہا تھا:
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
ہمارے محلے میں رہنے والی ایک آنٹی کے بھی کچھ اسی طرح کے خیالات ہیں۔ایک دفعہ انہیں مشورہ دیا کہ آپ سیاست میں حصہ کیوں نہیں لے لیتیں۔اس بات پہ انہوں نے عمل کچھ اس طرح سے شروع کردیا کہ خاندان میں ہی سیاست شروع کردی اور ایسےایسے جھنڈے گاڑے کہ الامان والحفیظ!
آنٹی جی کا نام ویسے تو جمیلہ ہے مگر سب لوگ انہیں مریم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔اس کی سب سے پہلی وجہ تو آج سے کوئی دس سال پہلے کا ایک واقعہ ہے کہ جب انہوں نے شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود پڑوس والے ایک نوجوان کے اوپر گندی نظر رکھنے اور چھیڑ چھاڑ کرنے کا الزام لگا دیا۔اب بات ایسی تھی کہ وہ نوجوان اور اس کے گھر والوں کا پریشان ہونا ایک فطری امر تھا۔جب نوجوان کے گھر والوں کو یقین ہوگیا کہ مریم آنٹی بڑے دھڑلے سے جھوٹ بول رہی ہیں تو انہوں نے آنٹی کے شوہر نامدارکو بتادیا کہ آپ کی زوجہ کے اپنے ارادے صاف نہیں ہیں تو ان کے شوہر ایک فرمانبردار میاں کی طرح غصے میں منہ سے جھاگ اڑاتےہوئے پولیس کے پاس شکایت کرنے پہنچ گئے۔پولیس کے سامنے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کےلیے آنٹی ایک تسبیح ہاتھ میں پکڑ کے اوربہت سارا گلیسرین آنکھوں میں ڈال کے تھانے پہنچ گئیں اور ایک مبینہ “محبت نامہ” پولیس کے حوالے کیا جو ان کے بقول اس نوجوان نے انہیں گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کی ترغیب دینے پہ لکھا تھا اور یہی نہیں وہ خط لکھا بھی خون سے ہوا تھا۔نوجوان کےخاندان نے بھی بھرپور مزاحمت کی اور مکمل تحقیقات ہوئیں۔تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے ہی ایک اور نوجوان جعل سازی کے الزام پہ اندر ہوا تو اس نے اپنے اگلے پچھلے سارے جرائم قبول کیے جن میں نہ صرف یہ کہ آنٹی کے “تشنہ” وعدوں کے دھوکے میں جعلی خط لکھنا شامل تھا بلکہ یہ بھی پتہ چلا کہ وہ خون کسی برائلر مرغی کا تھا۔خیر اس کیس کو تو جیسے تیسے منت سماجت کرکےبند کروا دیا گیا مگر آنٹی اب ایک معروف سماجی شخصیت بننے کی پہلی منزل طے کرچکی تھیں۔اور تو اور بہت ساری حقوق نسواں کی تنظیموں نے انہیں ممبرشپ دے دی اور ان کے حق میں بہت سے جلوس بھی نکلے۔
اس پہلے واقعے کے بعد آنٹی کی “شہرت” یا بدنامی چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور حوصلہ پا کر انہوں نے وہ وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے کہ انہیں خود بھی حیرت ہوتی ہوگی کہ وہ اتناڈرامہ کیسے کرلیتی ہیں۔اس واقعے کو ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہانہوں نے پڑوس کی ایک خاتون پہ اپنے اوپر حملہ کرنے کا الزام لگایا اور ایک بار پھر تھانے پہنچ گئیں۔لینے کے دینے تب پڑگئے جب ناصرف یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا بلکہ آنٹی کے ایک بھائی کے اسی خاتون کے ساتھ غیرازدواجی تعلقات سے پردہ ہٹ گیا۔اب آنٹی خود توناموری اور بدنامی کے فرق کو پھلانگ کر اس نہج پہ پہنچ چکی تھیں جسے عرف عام میں “ڈھیٹ پنا” کہا جاتا ہے،مگر اپنے آس پاس کےلوگوں کو بھی “شہرت” کے اس قافلۂ نزار میں شامل کرتی جارہی تھیں۔خیر کچھ عرصہ بعد انتخابات ہوئے اور آنٹی کو ایک پولنگ اسٹیشن پہ ذمہ داری دی گئی۔ان کے حمایت یافتہ امیدوار کو کل دو ووٹ پڑے مگر واقعہ کچھ اور تھا جو ان کے نام کو “رسوائی” کی بہتاونچی منازل تک لے گیا۔ہوا یوں کہ آنٹی نے مخالفین پہ دھاندلی کا الزام لگادیا اور بڑے دھڑلے سے میڈیا کو بلا کر کاغذات لہرالہرا کر دھاندلی کا شور مچا دیا۔مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی جب ثبوت پیش کرنے کی باری آئی تو پتہ چلا کہ نہ صرف یہ کہ وہ کاغذات آنٹی نے گھر کے کمپیوٹر میں موجود ایک نمونے سے نکالے تھے مگر زود بازی میں اپنے گھر کا پتہ مٹانا بھول گئیں جو نیچےدرج تھا۔
ان تمام واقعات کو لوگ شاید بھول بھی جاتے اور آنٹی منظر عام سے غائب ہوجاتی اگر ان واقعات کا پر تو آنے والے واقعات میں نظر نہ آتا۔کیونکہ اس کے بعد آنٹی کو جوان نظر آنے اور ماڈرن دکھنے کا ایک خبط سوار ہوگیا۔سوشل میڈیا پہ اپنی اور اپنے شوہر کی ان ان جگہوں پہ تصویریں اپ لوڈ کیں اور ایسے ایسے انداز سے تصویروں کو بدلا کہ ایک بار کچھ مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے اپنی“ترکی” والی تصاویر بڑے فخر سے دکھا دکھا کر جھوٹ موٹ کا سفرنامہ بیان کررہی تھیں کہ عین وقت پہ ان کے “پینڈو” شوہر نےلاعلمی میں یہ انکشاف کر ڈالا کہ ان کے پورے خاندان میں کسی کا بھی پاسپورٹ نہیں بنا ہوا!یہی نہیں بلکہ جوان کہلانے کے چکرمیں آنٹی نے اپنی تاریخ پیدائش تبدیل کروانے کی کاروائی شروع کی تو اس دوران ہی نادرا سے انہیں پتہ چلا کہ جو تاریخ پیدائش وہ چاہ رہی تھیں وہ ان کے بڑے بیٹے سے بھی چھ مہینے بعد کی تھی?۔
آپ سب لوگوں کے ذہہن میں یہ سوال یقینی طور پہ ہوگا کہ آج کل آنٹی مریم کیا کررہی ہیں اور “کس” کے ساتھ کررہی ہیں؟آنٹی مریم بہت ہی مستقل مزاج خاتون ہیں اور انہوں نے اسی روش کو برقرار رکھا ہوا ہے جو ان کا خاصہ رہا ہے۔آج کل وہ باقاعدہ سیاستدان بن چکی ہیں اور صورتحال نیم چڑھے کریلے والی ہوچکی ہے۔ابھی کل پرسوں ہی آٹھ دس بندوں کے “ٹھاٹھیں” مارتے ہوئے سمندر سےخطاب کے بعد اپنی تصویر انہوں نے سوشل میڈیا پہ پوسٹ کی جس میں وہ بظاہر “لاکھوں” لوگوں کے جم غفیر سے خطاب کرتی نظرآرہی ہیں۔مگر جیسے ہی ان کے “بے جا مخالف “ لوگوں کے تبصرے آئے تو پتہ چلا کہ وہ مجمع کسی انگریزی فلم کا سین تھا اورآنٹی نے چہرے تک نہیں بدلے تھے۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ مگر آنٹی کے شوہر نامدار نا صرف یہ کہ اپنے تمام تر چغد پنے کے باوجود ان کو اپنا رہنما مانتے ہیں بلکہ حال ہی میں آنٹی نے انہیں حکم دیا کہ ان کے لیے “مادر ملت” کے نعرے لگائے جائیں۔بے چارے شوہر نے کل والے جلسے میں ایسی تعمیل کیکہ بقول شخصے “گھنگرو” توڑ کے نعرے لگائے اور اسی جذباتیت کے عالم میں ان کے منہ سے وہ نعرہ ادا ہوا جو بات تو شایدسچی تھی مگر تھی رسوائی کی۔شوہر صاحب فرط جذبات میں “مادر ملت” کے بجائے “مادر زلت” کا نعرہ لگا بیٹھے۔شوہر نے تو اپنی غلطی سے رجوع کرلیا مگر آس پڑوس والے کم بخت اس لقب کو بھلانے کے لیے تیار نہیں نظر آتے۔شوہر صاحب جلسے کے بعد سےلاپتہ ہیں!
یہ تو عظمی بخاری اور نانی چار سو بیس کی ملی جلی کہانی ہےمادر زلت:
ہماری روزمرہ زندگی میں بہت سارے افراد آس پاس موجود کسی اور شخص کی کاربن کاپی کا کردار بھی ادا کرتے ہوئے پائے جاتےہیں۔یہ مماثلت محض اتفاقیہ بھی ہوسکتی ہے یا کبھی کبھی انسانی جبلتوں میں پائی جانے والی مماثلت کا شاہکار بھی ہوسکتی ہے۔کبھی کبھی کئی لوگ اپنی حرکتوں سے نہ صرف یہ کہ خود لائم لائیٹ میں آجاتے ہیں بلکہ کبھی کبھی لوگ لائم لائیٹ میں آنے کےچکر میں ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ان حرکتوں کا نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو مگر اتنا ضرور ہوتا ہے کہ وہ شخص مرکز نگاہ ضرور بن جاتا ہے۔یہ الگ بات کہ یوں مرکز نگاہ بننا کوئی اچھی اور “شریفانہ” روش تو نہیں ہے مگر نواب مصطفیُٰ خان شیفتہ نے شاید ایسےہی لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے ایک ضرب المثل قسم کے شعر میں کہا تھا:
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
ہمارے محلے میں رہنے والی ایک آنٹی کے بھی کچھ اسی طرح کے خیالات ہیں۔ایک دفعہ انہیں مشورہ دیا کہ آپ سیاست میں حصہ کیوں نہیں لے لیتیں۔اس بات پہ انہوں نے عمل کچھ اس طرح سے شروع کردیا کہ خاندان میں ہی سیاست شروع کردی اور ایسےایسے جھنڈے گاڑے کہ الامان والحفیظ!
آنٹی جی کا نام ویسے تو جمیلہ ہے مگر سب لوگ انہیں مریم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔اس کی سب سے پہلی وجہ تو آج سے کوئی دس سال پہلے کا ایک واقعہ ہے کہ جب انہوں نے شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود پڑوس والے ایک نوجوان کے اوپر گندی نظر رکھنے اور چھیڑ چھاڑ کرنے کا الزام لگا دیا۔اب بات ایسی تھی کہ وہ نوجوان اور اس کے گھر والوں کا پریشان ہونا ایک فطری امر تھا۔جب نوجوان کے گھر والوں کو یقین ہوگیا کہ مریم آنٹی بڑے دھڑلے سے جھوٹ بول رہی ہیں تو انہوں نے آنٹی کے شوہر نامدارکو بتادیا کہ آپ کی زوجہ کے اپنے ارادے صاف نہیں ہیں تو ان کے شوہر ایک فرمانبردار میاں کی طرح غصے میں منہ سے جھاگ اڑاتےہوئے پولیس کے پاس شکایت کرنے پہنچ گئے۔پولیس کے سامنے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کےلیے آنٹی ایک تسبیح ہاتھ میں پکڑ کے اوربہت سارا گلیسرین آنکھوں میں ڈال کے تھانے پہنچ گئیں اور ایک مبینہ “محبت نامہ” پولیس کے حوالے کیا جو ان کے بقول اس نوجوان نے انہیں گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کی ترغیب دینے پہ لکھا تھا اور یہی نہیں وہ خط لکھا بھی خون سے ہوا تھا۔نوجوان کےخاندان نے بھی بھرپور مزاحمت کی اور مکمل تحقیقات ہوئیں۔تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے ہی ایک اور نوجوان جعل سازی کے الزام پہ اندر ہوا تو اس نے اپنے اگلے پچھلے سارے جرائم قبول کیے جن میں نہ صرف یہ کہ آنٹی کے “تشنہ” وعدوں کے دھوکے میں جعلی خط لکھنا شامل تھا بلکہ یہ بھی پتہ چلا کہ وہ خون کسی برائلر مرغی کا تھا۔خیر اس کیس کو تو جیسے تیسے منت سماجت کرکےبند کروا دیا گیا مگر آنٹی اب ایک معروف سماجی شخصیت بننے کی پہلی منزل طے کرچکی تھیں۔اور تو اور بہت ساری حقوق نسواں کی تنظیموں نے انہیں ممبرشپ دے دی اور ان کے حق میں بہت سے جلوس بھی نکلے۔
اس پہلے واقعے کے بعد آنٹی کی “شہرت” یا بدنامی چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور حوصلہ پا کر انہوں نے وہ وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے کہ انہیں خود بھی حیرت ہوتی ہوگی کہ وہ اتناڈرامہ کیسے کرلیتی ہیں۔اس واقعے کو ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہانہوں نے پڑوس کی ایک خاتون پہ اپنے اوپر حملہ کرنے کا الزام لگایا اور ایک بار پھر تھانے پہنچ گئیں۔لینے کے دینے تب پڑگئے جب ناصرف یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا بلکہ آنٹی کے ایک بھائی کے اسی خاتون کے ساتھ غیرازدواجی تعلقات سے پردہ ہٹ گیا۔اب آنٹی خود توناموری اور بدنامی کے فرق کو پھلانگ کر اس نہج پہ پہنچ چکی تھیں جسے عرف عام میں “ڈھیٹ پنا” کہا جاتا ہے،مگر اپنے آس پاس کےلوگوں کو بھی “شہرت” کے اس قافلۂ نزار میں شامل کرتی جارہی تھیں۔خیر کچھ عرصہ بعد انتخابات ہوئے اور آنٹی کو ایک پولنگ اسٹیشن پہ ذمہ داری دی گئی۔ان کے حمایت یافتہ امیدوار کو کل دو ووٹ پڑے مگر واقعہ کچھ اور تھا جو ان کے نام کو “رسوائی” کی بہتاونچی منازل تک لے گیا۔ہوا یوں کہ آنٹی نے مخالفین پہ دھاندلی کا الزام لگادیا اور بڑے دھڑلے سے میڈیا کو بلا کر کاغذات لہرالہرا کر دھاندلی کا شور مچا دیا۔مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی جب ثبوت پیش کرنے کی باری آئی تو پتہ چلا کہ نہ صرف یہ کہ وہ کاغذات آنٹی نے گھر کے کمپیوٹر میں موجود ایک نمونے سے نکالے تھے مگر زود بازی میں اپنے گھر کا پتہ مٹانا بھول گئیں جو نیچےدرج تھا۔
ان تمام واقعات کو لوگ شاید بھول بھی جاتے اور آنٹی منظر عام سے غائب ہوجاتی اگر ان واقعات کا پر تو آنے والے واقعات میں نظر نہ آتا۔کیونکہ اس کے بعد آنٹی کو جوان نظر آنے اور ماڈرن دکھنے کا ایک خبط سوار ہوگیا۔سوشل میڈیا پہ اپنی اور اپنے شوہر کی ان ان جگہوں پہ تصویریں اپ لوڈ کیں اور ایسے ایسے انداز سے تصویروں کو بدلا کہ ایک بار کچھ مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے اپنی“ترکی” والی تصاویر بڑے فخر سے دکھا دکھا کر جھوٹ موٹ کا سفرنامہ بیان کررہی تھیں کہ عین وقت پہ ان کے “پینڈو” شوہر نےلاعلمی میں یہ انکشاف کر ڈالا کہ ان کے پورے خاندان میں کسی کا بھی پاسپورٹ نہیں بنا ہوا!یہی نہیں بلکہ جوان کہلانے کے چکرمیں آنٹی نے اپنی تاریخ پیدائش تبدیل کروانے کی کاروائی شروع کی تو اس دوران ہی نادرا سے انہیں پتہ چلا کہ جو تاریخ پیدائش وہ چاہ رہی تھیں وہ ان کے بڑے بیٹے سے بھی چھ مہینے بعد کی تھی?۔
آپ سب لوگوں کے ذہہن میں یہ سوال یقینی طور پہ ہوگا کہ آج کل آنٹی مریم کیا کررہی ہیں اور “کس” کے ساتھ کررہی ہیں؟آنٹی مریم بہت ہی مستقل مزاج خاتون ہیں اور انہوں نے اسی روش کو برقرار رکھا ہوا ہے جو ان کا خاصہ رہا ہے۔آج کل وہ باقاعدہ سیاستدان بن چکی ہیں اور صورتحال نیم چڑھے کریلے والی ہوچکی ہے۔ابھی کل پرسوں ہی آٹھ دس بندوں کے “ٹھاٹھیں” مارتے ہوئے سمندر سےخطاب کے بعد اپنی تصویر انہوں نے سوشل میڈیا پہ پوسٹ کی جس میں وہ بظاہر “لاکھوں” لوگوں کے جم غفیر سے خطاب کرتی نظرآرہی ہیں۔مگر جیسے ہی ان کے “بے جا مخالف “ لوگوں کے تبصرے آئے تو پتہ چلا کہ وہ مجمع کسی انگریزی فلم کا سین تھا اورآنٹی نے چہرے تک نہیں بدلے تھے۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ مگر آنٹی کے شوہر نامدار نا صرف یہ کہ اپنے تمام تر چغد پنے کے باوجود ان کو اپنا رہنما مانتے ہیں بلکہ حال ہی میں آنٹی نے انہیں حکم دیا کہ ان کے لیے “مادر ملت” کے نعرے لگائے جائیں۔بے چارے شوہر نے کل والے جلسے میں ایسی تعمیل کیکہ بقول شخصے “گھنگرو” توڑ کے نعرے لگائے اور اسی جذباتیت کے عالم میں ان کے منہ سے وہ نعرہ ادا ہوا جو بات تو شایدسچی تھی مگر تھی رسوائی کی۔شوہر صاحب فرط جذبات میں “مادر ملت” کے بجائے “مادر زلت” کا نعرہ لگا بیٹھے۔شوہر نے تو اپنی غلطی سے رجوع کرلیا مگر آس پڑوس والے کم بخت اس لقب کو بھلانے کے لیے تیار نہیں نظر آتے۔شوہر صاحب جلسے کے بعد سےلاپتہ ہیں!
جو اپنی لاشیں بچ سکتے ہیں انھیں تمھارے کشمیر کی کیا پرواہ
A vicious mix of both but more similar in Disgrace to Nani-420یہ تو عظمی بخاری اور نانی چار سو بیس کی ملی جلی کہانی ہے
کھسرے حنا پرویز بٹ کا نام نہ شامل کرکے آپ نے حنا پرویز بٹ جیسے کھسرے کے ساتھ زیادتی کی ہےیہ تو عظمی بخاری اور نانی چار سو بیس کی ملی جلی کہانی ہے